ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم (حالت احرام میں) اپنے چہرے اجنبی مردوں سے ڈھانپ لیتی تھیں اور اس سے پہلے کنگھی کر لیا کرتی تھیں۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: 2690]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احرام کی حالت میں ہوتے تو جب ہمارے پاس سے کوئی قافلہ گزرتا تو ہم اپنی چادریں اپنے چہروں پر لٹکا لیتیں۔ جناب جریر رحمه الله کی روایت میں ہے کہ پھر جب وہ گزر جاتے، اور ہشیم کی روایت میں ہے کہ پھر جب وہ ہمارے پاس سے گزر جاتے تو ہم اپنے چہرے ننگے کرلیتے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: 2691]
1892. جب آدمی رات کے وقت ذی طوی مقام پر پہنچے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرتے ہوئے مکّہ مکرّمہ کے قریب رات گزارنا اور دن کے وقت صبح مکّہ مکرّمہ میں داخل ہونا مستحب ہے
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (حج کے موقع پر) ذی طوی مقام پررات گزاری حتّیٰ کہ صبح ہوئی اور تو آپ مکّہ مکرّمہ میں داخل ہوئے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: 2692]
کیونکہ آپ کی اقتداء میں جو خیر و بھلائی ہے، آپ کی اقتداء ترک کرکے کوئی شخص وہ حاصل نہیں کرسکتا [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: Q2693]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (مکّہ مکرّمہ میں) بالائی گھاٹی کی جانب سے داخل ہوتے تھے اور نشیبی گھاٹی کی طرف سے باہر نکلتے تھے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: 2693]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آپ نے ذوالحلیفہ میں درخت کے پاس سے تلبیہ کہنا شروع کیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ذی طویٰ مقام پر پہنچے تو وقت وہیں گزارا حتّیٰ کہ آپ نے صبح کی نماز ادا کی، پھرغسل کیا، پھر آپ مکّہ مکرّمہ کی بالائی جانب کداء سے مکّہ مکرّمہ میں داخل ہوئے۔ اور جب مکّہ مکرّمہ سے نکلے تو مکّہ مکرّمہ کے زیریں حصّے کداء کی جانب سے نکلے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: 2694]
جناب نافع سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما جب ذوالحلیفہ پہنچ جاتے تو اپنی سواری پر کجاوه رکھنے کا حُکم دیتے، تو کجاوہ رکھ دیا گیا، پھر انہوں نے صبح کی نماز ادا کی، پھر وہ سوار ہوئے، جب سواری انہیں لیکر سیدھی ہوگئی تو انہوں نے قبلہ رُخ ہوکر نیت کی اور تلبیہ پکارنا شروع کیا کہ جب حرم کی حدود میں گئے تو تلبیہ پڑھنا بند کردیا۔ جب ذی طویٰ مقام پر پہنچے تو رات وہیں بسر کی۔ پھر صبح کی نماز ادا کی پھر غسل کیا۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ اعتقاد تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح کیا تھا۔“[صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: 2695]
جناب عبید بن حنین بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کے ساتھ تقریباً بارہ حج اور عمرے کیے ہیں۔ میں نے اُن سے عرض کیا کہ اے ابو عبدالرحمان، میں نے آپ سے چار خصوصی باتیں نوٹ کی ہیں۔ پھرمکمّل حدیث بیان کی اور بیان کیا کہ میں نے آپ کو دیکھا ہے کہ جب آپ احرام باندھ کر تلبیہ پکارتے تو مکّہ مکرّمہ کی آبادی میں پہنچ کر تلبیہ کہنا بند کر دیتے، اُنہوں نے فرمایا کہ اے ابن حنین، تم نے سچ بات بیان کی ہے۔ میں رسول اللہ کے ساتھ (حج کے لئے نکلا) تو جب آپ مکّہ مکرّمہ کی آبادی میں داخل ہوئے تو آپ نے تلبیہ کہنا بند کردیا۔ لہٰذا میں تا حیات اسی طریقہ پر تلبیہ کہتا رہوںگا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میرا موقف یہ تھا کہ عمرہ کرنے والا شخص طواف شروع کرتے وقت حجراسود کو چُھونے یا بوسہ دینے تک تلبیہ کہتا رہیگا، کیونکہ ابن ابی لیلی کی عطاء کے واسطے سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمرے میں حجراسود کو چُھونے کے بعد تلبیہ کہنا بند کر دیتے تھے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: 2696]
امام صاحب نے مذکورہ بالا روایت کی سند بیان کی ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ پھر جب میں نے عبید بن حنین کی روایت میں غور و فکر کیا تو اس میں یہ دلیل موجو تھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ مکرّمہ کی آبادی میں پہنچتے ہی تلبیہ کہنا بند کردیتے تھے۔ جناب عبید بن حنین کی روایت سند کے لحاظ سے امام عطاء کی روایت سے زیادہ مضبوط ہے کیونکہ ابن ابی لیلی حافظ حدیث نہیں ہیں اگرچہ وہ ایک جید فقیہ اورعالم دین ہیں۔ لہٰذا اب میرا موقف یہ ہے کہ محرم حج کے لئے آئے یا عمرے کے لئے، وہ مکّہ مکرّمہ کی آبادی میں داخل ہوتے ہی تلبیہ کہنا بند کر دیگا۔ اور اگر وہ صرف عمرہ کرنے آیا ہو تو دوبارہ تلبیہ نہیں پڑھیگا۔ اور اگر وہ حج مفرد یا حج قران کر رہا ہو تو وہ صفا اور مروہ کی سعی کرنے کے بعد دوبارہ تلبیہ کہنا شروع کر دیگا۔ کیونکہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا فعل اس بات کی دلیل ہے کہ اُنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا کہ آپ نے اپنے حج میں صفا اور مروہ کی سعی تک تلبیہ کہنا بند کر دیا تھا۔ امام عطاء بن ابی رباح رحمه الله بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما حدود حرم میں داخل ہونے کے بعد تلبیہ کہنا بند کر دیتے تھے اور صفاء و مروہ کی سعی کرنے کے بعد دوبارہ تلبیہ کہنا شروع کر دیتے تھے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: 2697]