1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


صحيح ابن خزيمه
جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْفَرِيضَةِ فِي السَّفَرِ
سفر میں فرض نماز کی ادائیگی کے ابواب کا مجموعہ
حدیث نمبر: 958
كَذَلِكَ حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى ، نَا إِسْحَاقُ الأَزْرَقُ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، قُلْتُ: أَخْبِرْنِي بِشَيْءٍ، عَقَلْتَهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيْنَ صَلَّى الظُّهْرَ يَوْمَ التَّرْوِيَةِ؟ قَالَ: بِمِنًى" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قُلْتُ: فَأَقَامَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَقِيَّةَ يَوْمِ التَّرْوِيَةِ بِمِنًى، وَلَيْلَةَ عَرَفَةَ، ثُمَّ غَدَاةَ عَرَفَةَ، فَسَارَ إِلَى الْمَوْقِفِ بِعَرَفَاتٍ، يَجْمَعُ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِهِ، ثُمَّ سَارَ إِلَى الْمَوْقِفِ، فَوَقَفَ عَلَى الْمَوْقِفِ حَتَّى غَابَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ دَفَعَ حَتَّى رَجَعَ إِلَى الْمُزْدَلِفَةِ، فَجَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمُزْدَلِفَةِ وَبَاتَ فِيهَا حَتَّى أَصْبَحَ، ثُمَّ صَلَّى الصُّبْحَ بِالْمُزْدَلِفَةِ، وَسَارَ وَرَجَعَ إِلَى مِنًى، فَأَقَامَ بَقِيَّةَ يَوْمِ النَّحْرِ، وَيَوْمَيْنِ مِنْ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ، وَبَعْضَ الثَّالِثِ مِنْ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ بِمِنًى، فَلَمَّا زَالَتِ الشَّمْسُ مِنْ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ رَمَى الْجِمَارَ الثَّلاثَ، وَرَجَعَ إِلَى مَكَّةَ، فَصَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ مِنْ آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ، ثُمَّ الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ، ثُمَّ رَقَدَ رَقْدَةً بِالْمُحَصَّبِ، فَهَذِهِ تَمَامُ عَشَرَةِ أَيَّامٍ جَمِيعُ مَا أَقَامَ بِمَكَّةَ وَمِنًى فِي الْمَرَّتَيْنِ وَبِعَرَفَاتٍ، فَجَعَلَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ كُلَّ هَذَا إِقَامَةً بِمَكَّةَ، وَلَيْسَ مِنًى وَلا عَرَفَاتٌ مِنْ مَكَّةَ، بَلْ هُمَا خَارِجَانِ مِنْ مَكَّةَ وَعَرَفَاتٌ خَارِجٌ مِنَ الْحَرَمِ أَيْضًا، فَكَيْفَ يَكُونُ مَا هُوَ خَارِجٌ مِنَ الْحَرَمِ مِنْ مَكَّةَ؟. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ ذَكَرَ مَكَّةَ وَتَحْرِيمَهَا:" إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ مَكَّةَ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ، فَهِيَ حَرَامٌ بِحَرَامِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، لا يُنْفَرُ صَيْدُهَا، وَلا يُعْضَدُ شَجَرُهَا، وَلا يُخْتَلَى خَلاهَا". فَلَوْ كَانَتْ عَرَفَاتٌ مِنْ مَكَّةَ لَمْ يَحِلَّ أَنْ يُصَادَ بِعَرَفَاتٍ صَيْدٌ، وَلا يُعْضَدُ بِهَا شَجَرٌ وَلا يُخْتَلَى بِهَا خَلاءٌ، وَفِي إِجْمَاعِ أَهْلِ الصَّلاةِ عَلَى أَنَّ عَرَفَاتٍ خَارِجَةٌ مِنَ الْحَرَمِ مَا بَانَ وَثَبَتَ أَنَّهَا لَيْسَتْ مِنْ مَكَّةَ، وَإِنَّ مَا كَانَ اسْمُ مَكَّةَ يَقَعُ عَلَى جَمِيعِ الْحَرَمِ فَعَرَفَاتٌ خَارِجَةٌ مِنْ مَكَّةَ لأَنَّهَا خَارِجَةٌ مِنَ الْحَرَمِ وَمِنًى بَايِنٌ مِنْ بِنَاءِ مَكَّةَ وَعُمْرَانِهَا، وَقَدْ يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ اسْمُ مَكَّةَ يَقَعُ عَلَى جَمِيعِ الْحَرَمِ فَمِنًى دَاخِلٌ فِي الْحَرَمِ، وَأَحْسَبُ خَبَرَ عَائِشَةَ دَالا عَلَى أَنَّ مَا كَانَ مِنْ وَرَاءِ الْبِنَاءِ الْمُتَّصِلِ بَعْضُهُ بِبَعْضٍ لَيْسَ مِنْ مَكَّةَ، وَكَذَلِكَ خَبَرُ ابْنُ عُمَرَ أَمَّا خَبَرُ عَائِشَةَ
جناب عبدالعزیز رفیع سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سوال کیا، مجھے ایسی چیز بیان کریں جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سمجھی ہو، آپ نے یوم الترویہ کو ظہر کی نماز کہاں پڑھی تھی؟ تو اُنہوں نے فرمایا کہ منیٰ میں۔ امام ابوبکر رحمه اللہ فرماتے ہیں، میں کہتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوم الترویہ کا باقی دن اور عرفہ کی رات منیٰ ہی میں قیام پذیر رہے، پھر عرفہ کی صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات کے موقف (ٹھہرنے کی جگہ) کی طرف چل پڑے اور (وہاں جاکر) ظہر اور عصر کی نمازیں اکھٹی پڑھیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم موقف کی طرف گئے اور سورج غروب ہونے تک موقف میں کھڑے (دعائیں مانگتے اور ذکر کرتے) رہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے روانہ ہوکر واپس مزدلفہ پہنچے تو مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کر کے ادا کیں اور رات مزدلفہ ہی میں آرام کیا یہاں تک کہ صبح ہوگئی، پھر صبح کی نماز مزدلفہ میں پڑھی اور پھر وہاں سے کوچ کیا اور واپس منیٰ پہنچ گئے، لہٰذا وہاں یوم النحر (قربانی کے دن) کا باقی حصّہ ایام تشریق کے مکمّل دو دن اور ایام تشریق کے تیسرے دن کا بعض حصّہ منیٰ میں قیام کیا، پھر جب ایام تشریق میں سورج ڈھل گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرات کو کنکریاں ماریں، اور مکّہ مکرّمہ تشریف لے آئے، چنانچہ ایام تشریق کے آخری دن ظہر اور عصر کی نمازیں مکّہ مکرّمہ میں ادا کیں، پھر مغرب اور عشاء کی نمازیں وہیں ادا کیں پھر وادی محصب میں کچھ دیر آرام فرمایا۔ اس طرح یہ کل دس دن ہوئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّہ مکرّمہ، منیٰ میں دو بار اور عرفات میں قیام کیا۔ جبکہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ان سب دنوں کو مکّہ مکرّمہ میں حالانکہ منیٰ اور عرفات مکّہ مکرّمہ میں داخل نہیں ہیں بلکہ وہ دونوں مکّہ مکرّمہ سے باہر اور الگ ہیں اور عرفات تو حدود حرم سے بھی باہر ہے تو جو علاقہ حدود حرم سے باہر ہو وہ مکّہ مکرّمہ میں کیسے شمار ہو سکتا ہے۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّہ مکرّمہ اور اس کی حرمت کا تذکرہ کر تے ہوئے فرمایا تھا۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی پیدائش کے دن ہی سے مکّہ مکرّمہ کو حرم قرار دے دیا تھا۔ لہٰذا وہ اللہ تعالیٰ کے حرام قرار دیے جانے کی وجہ سے قیامت کے دن تک حرام ہے، اس کے شکار کو نہ ڈرایا جائے، اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اور اس کی گھاس اور جڑی بوٹیاں نہ کاٹی جائیں۔ چناچہ اگر عرفات مکّہ مکرّمہ میں شامل ہوتا تو عرفات میں شکاری کے لئے شکار کر نا حلال نہ ہوتا اور اس کے درخت نہ کاٹے جاتے اور اس کی گھاس نہ کاٹی جاسکتی۔ اور اہل اسلام کا اجماع ہے کہ عرفات حدود حرم سے باہر ہے۔ اس میں اس بات کی دلیل اور وضاحت ہے کہ عرفات مکّہ مکرّمہ میں شامل نہیں ہے اگر چہ مکّہ مکرّمہ کا اطلاق تمام حدود حرم پر ہوتا ہے مگر عرفات اس میں داخل نہیں کیونکہ وہ حدود حرم سے باہر ہے اور منیٰ مکّہ مکرّمہ کہ آبادی اور عمارات سے الگ تھلگ ہے۔ یہ ممکن ہے کہ مکّہ مکرّمہ کا اطلاق سارے حرم پر ہوتا ہو اس لئے منیٰ بھی حرم میں داخل ہے ـ میرا خیال ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جو علاقہ مکّہ مکرّمہ کی متصل عمارات کے پیچھے ہے وہ مکّہ مکرّمہ میں داخل نہیں ہے، اسی طرح سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث بھی اس بات کی دلیل ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْفَرِيضَةِ فِي السَّفَرِ/حدیث: 958]
تخریج الحدیث: صحيح بخاري

حدیث نمبر: 959
فَإِنَّ أَبَا مُوسَى ، وَعَبْدَ الْجَبَّارِ ، قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " إِذَا دَخَلَ مَكَّةَ دَخَلَهَا مِنْ أَعْلاهَا، وَخَرَجَ مِنْ أَسْفَلِهَا" . هَذَا لَفْظُ حَدِيثِ أَبِي مُوسَى
سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکّہ مکرّمہ میں داخل ہوتے تو اسکے بالائی حصّے سے داخل ہوتے اور (جب نکلتے) تو زیریں حصّے سے نکلتے۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْفَرِيضَةِ فِي السَّفَرِ/حدیث: 959]
تخریج الحدیث: صحيح بخاري

حدیث نمبر: 960
نَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " دَخَلَ عَامَ الْفَتْحِ مِنْ كَدَاءٍ مِنْ أَعْلَى مَكَّةَ" قَالَ هِشَامٌ: فَكَانَ أَبِي يَدْخُلُ مِنْهُمَا كِلَيْهِمَا، وَكَانَ أَبِي أَكْثَرَ مَا يَدْخُلُ مِنْ كَدَا
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکّہ والے سال مکّہ مکرّمہ کے بالائی حصّے کدا کی طرف سے داخل ہوئے۔ حضرت ہشام بیان کرتے ہیں کہ میرے والد محترم سیدنا عروہ رضی اللہ عنہ دونوں حصّوں (بالائی اور زیریں) سے داخل ہو جاتے تھے، اور میرے والد بزرگوار اکثر و بیشتر کدا کی جانب سے داخل ہوتے تھے۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْفَرِيضَةِ فِي السَّفَرِ/حدیث: 960]
تخریج الحدیث: صحيح مسلم

حدیث نمبر: 961
فأما حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ، فَإِنَّ بُنْدَارًا حَدَّثَنَا، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى ، نَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " دَخَلَ مَكَّةَ مِنَ الثَّنِيَّةِ الْعُلْيَا الَّتِي عِنْدَ الْبَطْحَاءِ، وَخَرَجَ مِنَ الثَّنِيَّةِ السُّفْلَى" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَقَوْلُ ابْنِ عُمَرَ: دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ مِنَ الثَّنِيَّةِ الْعُلْيَا دَالٌ عَلَى أَنَّ الثَّنِيَّةَ لَيْسَتْ مِنْ مَكَّةَ وَالثَّنِيَّةُ مِنَ الْحَرَمِ، وَوَرَاءَهَا أَيْضًا مِنَ الْحَرَمِ، وَكَذَا مِنَ الْحَرَمِ، وَمَا وَرَاءَهَا أَيْضًا مِنَ الْحَرَمِ إِلَى الْعَلامَاتِ الَّتِي أَعْلَمْتُ بَيْنَ الْحَرَمِ وَبَيْنَ الْحِلِّ، فَكَيْفَ يَجُوزُ، أَنْ يُقَالَ: دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ مِنْ مَكَّةَ، فَلَوْ كَانَتِ الثَّنِيَّةُ مِنْ مَكَّةَ وَكَدَا مِنْ مَكَّةَ لَمَا جَازَ، أَنْ يُقَالَ: دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ مِنَ الثَّنِيَّةِ وَمِنْ كَدَا. وَقَدْ يَجُوزُ أَنْ يُحْتَجَّ بِأَنَّ جَمِيعَ الْحَرَمِ مِنْ مَكَّةَ، لِقَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ"، فَجَمِيعُ الْحَرَمِ قَدْ يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ قَدْ يَقَعُ عَلَيْهِ اسْمُ مَكَّةَ إِلا أَنَّ الْمُتَعَارَفَ عِنْدَ النَّاسِ أَنَّ مَكَّةَ مَوْضِعُ الْبِنَاءِ الْمُتَّصِلِ بَعْضُهُ بِبَعْضٍ، يَقُولُ الْقَائِلُ: خَرَجَ فُلانٌ مِنْ مَكَّةَ إِلَى مِنًى، وَرَجَعَ مِنْ مِنًى إِلَى مَكَّةَ، وَإِذَا تَدَبَّرْتَ أَخْبَارَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنَاسِكِ وَجَدْتَ مَا يُشْبِهُ هَذِهِ اللَّفْظَةِ كَثِيرًا فِي الأَخْبَارِ، فَأَمَّا عَرَفَةُ وَمَا وَرَاءَ الْحَرَمِ فَلا شَكَّ وَلا مِرْيَةَ أَنَّهُ لَيْسَ مِنْ مَكَّةَ، وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفَرَ مِنْ مِنًى يَوْمَ الثَّالِثِ مِنْ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بطحاء کے پاس واقع ثنیہ علیا سے مکّہ مکرّمہ میں داخل ہوئے اور ثنیہ سفلیٰ سے باہر نکلے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ فرمانا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ثنیہ علیا سے مکّہ مکرّمہ میں داخل ہوئے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ثنیہ مکّہ مکرّمہ میں داخل نہیں ہے۔ حالانکہ ثنیہ اور اس کے بعد والا علاقہ مکّہ مکرّمہ میں داخل ہے۔ اور کداء اور اس کے بعد والا علاقہ بھی ان علامات تک حرم میں داخل ہے جو علامات حرم اور حل کے حدود ظاہر کرنے کے لئے لگائی گئی ہیں۔ یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ میں مکّہ سے داخل ہوئے؟ چنانچہ اگر ثنیہ اور کدا مکّہ کا حصّہ ہوتے تو ہرگز نہیں کہا جا سکتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ میں ثنیہ اور کدا سے داخل ہوئے - یہ ممکن ہے کہ دلیل دی جائے کہ سارا حرم مکّہ مکرّمہ میں داخل ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بیشک مکہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے دن ہی حرام قرار دے دیا تھا - لہٰذا سارے حرم پر اسم مکّہ کا لفظ بولا جاسکتا ہے - البتہ لوگوں کے ہاں معروف یہ ہے کہ مکّہ مکرّمہ وہ آبادی ہے جس کی عمارات ایک دوسری سے متصل ہیں - کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ فلاں شخص مکّہ سے منیٰ گیا اور منیٰ سے مکّہ مکرّمہ واپس آگیا اور جب تم حج کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پر غوروفکر کرو گے تو تمہیں اس معنی میں بہت ساری احادیث مل جائیں گی - لیکن عرفات اور حرم کے بعد والے علاقے تو بغیر کسی شک و شبہ کے مکّہ مکرّمہ میں داخل نہیں ہیں ـ اور اس بات کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایام تشریق کے تیسرے روز منیٰ سے روانہ ہو گئے تھے ـ (تو درج ذیل حدیث نمبر 962 ہے۔) [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْفَرِيضَةِ فِي السَّفَرِ/حدیث: 961]
تخریج الحدیث: صحيح بخاري

حدیث نمبر: 962
أَنَّ يُونُسَ بْنَ عَبْدِ الأَعْلَى ثنا، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، أَنَّ قَتَادَةَ بْنَ دِعَامَةَ ، أَخْبَرَهُ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " صَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ، وَرَقَدَ رَقْدَةً بِالْمُحَصَّبِ، ثُمَّ رَكِبَ إِلَى الْبَيْتِ، فَطَافَ بِهِ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: ثُمَّ خَرَجَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ لَيْلَتِهِ تِلْكَ مُتَوَجِّهًا نَحْوَ الْمَدِينَةِ
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں (مکّہ مکرّمہ میں) پڑھیں، پھر وادی محصب میں کچھ دیر سوئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو کربیت اللہ آئے اور اسکا طواف کیا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی رات مدینہ منوّرہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْفَرِيضَةِ فِي السَّفَرِ/حدیث: 962]
تخریج الحدیث: صحيح مسلم

حدیث نمبر: 963
قَالَ: كَذَلِكَ حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ يَعْنِي الْحَنَفِيَّ ، نَا أَفْلَحُ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، فَذَكَرَتْ بَعْضَ صِفَةِ حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَتْ: " فَأَذِنَ بِالرَّحِيلِ فِي أَصْحَابَهُ، فَارْتَحَلَ النَّاسُ، فَمَرَّ بِالْبَيْتِ قَبْلَ صَلاةِ الصُّبْحِ، فَطَافَ بِهِ، ثُمَّ خَرَجَ، فَرَكِبَ، ثُمَّ انْصَرَفَ مُتَوَجِّهًا إِلَى الْمَدِينَةِ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَلَمْ نَسْمَعْ أَحَدًا مِنَ الْعُلَمَاءِ مِنْ أَهْلِ الْفِقْهِ يَجْعَلُ مَا وَرَاءَ الْبِنَاءِ الْمُتَّصِلُ بَعْضُهُ بِبَعْضٍ فِي الْمُدُنِ مِنَ الْمُدُنِ، وَإِنْ كَانَ مَا وَرَاءَ الْبِنَاءِ مِنْ حَدِّ تِلْكَ الْمَدِينَةِ، وَمِنْ أَرَاضِيهَا الْمَنْسُوبَةِ إِلَى تِلْكَ الْمَدِينَةِ، لا نَعْلَمُهُمُ اخْتَلَفُوا أَنَّ مَنْ خَرَجَ مِنْ مَدِينَةٍ يُرِيدُ سَفَرًا، فَخَرَجَ مِنَ الْبُنْيَانِ الْمُتَّصِلُ بَعْضُهُ بِبَعْضٍ أَنَّ لَهُ قَصْرَ الصَّلاةِ، وَإِنْ كَانَتِ الأَرْضُونَ الَّتِي وَرَاءَ الْبِنَاءِ مِنْ حَدِّ تِلْكَ الْمَدِينَةِ وَكَذَلِكَ لا أَعْلَمُهُمُ اخْتَلَفُوا أَنَّهُ إِذَا رَجَعَ يُرِيدُ بَلْدَةً فَدَخَلَ بَعْضَ أَرَاضِي بَلْدَةٍ، وَلَمْ يَدْخُلِ الْبِنَاءَ، وَكَانَ خَارِجًا مِنْ حَدِّ الْبِنَاءِ الْمُتَّصِلِ بَعْضُهُ بِبَعْضٍ أَنَّ لَهُ قَصْرَ الصَّلاةِ مَا لَمْ يَدْخُلْ مَوْضِعَ الْبِنَاءِ الْمُتَّصِلِ بَعْضُهُ بِبَعْضٍ وَلا أَعْلَمَهُمُ اخْتَلَفُوا أَنَّ مَنَ خَرَجَ مِنْ مَكَّةَ مِنْ أَهْلِهَا، أَوْ مَنْ قَدْ أَقَامَ بِهَا قَاصِدًا سَفَرًا يَقْصُرُ فِيهِ الصَّلاةَ، فَفَارَقَ مَنَازِلَ مَكَّةَ، وَجَعَلَ جَمِيعَ بِنَائِهَا وَرَاءَ ظَهْرِهِ وَإِنْ كَانَ بَعْدُ فِي الْحَرَمِ أَنَّ لَهَ قَصْرَ الصَّلاةِ، فَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ مَكَّةَ فِي حَجَّتِهِ، فَخَرَجَ يَوْمَ التَّرْوِيَةِ قَدْ فَارَقَ جَمِيعَ بِنَاءِ مَكَّةَ، وَسَارَ إِلَى مِنًى، وَلَيْسَ مِنًى مِنَ الْمَدِينَةِ الَّتِي هِيَ مَدِينَةُ مَكَّةَ، فَغَيْرُ جَائِزٍ مِنْ جِهَةِ الْفِقْهِ إِذَا خَرَجَ الْمَرْءُ مِنْ مَدِينَةٍ لَوْ أَرَادَ سَفَرًا بِخُرُوجِهِ مِنْهَا جَازَ لَهُ قَصْرُ الصَّلاةِ أَنْ يُقَالَ إِذَا خَرَجَ مِنْ بِنَائِهَا هُوَ فِي الْبَلْدَةِ، إِذْ لَوْ كَانَ فِي الْبَلْدَةِ لَمْ يَجُزْ لَهُ قَصْرُ الصَّلاةِ حَتَّى يَخْرُجَ مِنْهَا، فَالصَّحِيحُ عَلَى مَعْنَى الْفِقْهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يُقِمْ بِمَكَّةَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ إِلا ثَلاثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيَهُنَّ كَوَامِلَ، يَوْمَ الْخَامِسِ وَالسَّادِسِ وَالسَّابِعِ، وَبَعْضَ يَوْمِ الرَّابِعِ، دُونَ لَيْلِهِ، وَلَيْلَةِ الثَّامِنِ وَبَعْضِ يَوْمِ الثَّامِنِ، فَلَمْ يَكُنْ هُنَاكَ إِزْمَاعٌ عَلَى مُقَامِ أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ بِلَيَالِيهَا فِي بَلْدَةٍ وَاحِدَةٍ، فَلَيْسَ هَذَا الْخَبَرُ إِذَا تَدَبَّرْتَهُ بِخِلافِ قَوْلِ الْحِجَازِيِّينَ فِيمَنْ أَزْمَعَ مُقَامَ أَرْبَعٍ، أَنَّهُ يُتِمُّ الصَّلاةَ ؛ لأَنَّ مُخَالِفِيهِمْ يَقُولُونَ: إِنَّ مَنْ أَزْمَعَ مُقَامَ عَشَرَةِ أَيَّامٍ فِي مَدِينَةٍ، وَأَرْبَعَةِ أَيَّامٍ خَارِجًا مِنْ تِلْكَ الْمَدِينَةِ فِي بَعْضِ أَرَاضِيهَا الَّتِي هِيَ خَارِجَةٌ مِنَ الْمَدِينَةِ عَلَى قَدْرِ مَا بَيْنَ مَكَّةَ وَمِنًى فِي مَرَّتَيْنِ لا فِي مَرَّةٍ وَاحِدَةٍ، وَيَوْمًا وَلَيْلَةً فِي مَوْضِعٍ ثَالِثٍ مَا بَيْنَ مِنًى إِلَى عَرَفَاتٍ كَانَ لَهُ قَصْرُ الصَّلاةِ، وَلَمْ يَكُنْ هَذَا عِنْدَهُمْ إِزْمَاعًا عَلَى مُقَامِ خَمْسَ عَشْرَةَ عَلَى مَا زَعَمُوا أَنَّ مَنْ أَزْمَعَ مُقَامَ خَمْسَ عَشْرَةَ وَجَبَ عَلَيْهِ إِتْمَامُ الصَّلاةِ
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کی کچھ کیفیت بیان کی اور فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو روانگی کا حُکم دیا تو لوگ روانہ ہونے شروع ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم (روانگی کے وقت) صبح کی نماز کے وقت بیت اللہ کے پاس سے گزرے تو اس کا طواف کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (بیت اللہ سے) باہر تشریف لائے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوکر مدینہ منوّرہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ ہم نے کسی فقیہ عالم دین کے بارے میں نہیں سنا کہ اس نے کسی شہر کی ہاہم متصل آبادی اور عمارات کے بعد والے علاقے کو اسی شہر کا حصّہ قرار دیا ہو، اگرچہ آبادی کے بعد والا علاقہ اسی شہر کی حدود سے اور اس شہر کی طرف منسوب زمینوں میں سے ہو۔ ہمارے علم میں نہیں کہ علمائے کرام کا اس بارے میں کوئی اختلاف ہو کہ جو شخص سفر کے ارادے سے شہر سے نکل جائے، اور وہ باہم متصل آبادی اور عمارات سے باہر چلا جائے تو وہ نماز قصر کر سکتا ہے اگرچہ آبادی کے بعد والی زمینیں اسی شہر کی حدود میں ہوں۔ اسی طرح ہمارے علم میں علمائے کرام کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ جب وہ شخص واپس کسی شہر میں آنا چاہے اور وہ اس شہر کی بعض زمینوں میں داخل ہو جائے اور آبادی میں داخل نہ ہوا اور وہ ابھی باہم متصل آبادی کی حدود سے باہر ہو تو وہ قصر کر سکتا ہے جب تک کہ آپس میں ملی ہوئی آبادی میں داخل نہ ہو جائے اور مجھے اس بارے میں علمائے کرام کا اختلاف معلوم نہیں ہے کہ جو شخص مکّہ مکرّمہ سے سفر کی نیت سے نکل گیا، وہ مکّہ کا رہائشی ہو یا جو وہاں عارضی مقیم تھا وہ مکّہ (کی حدود میں) نماز قصر کر سکتا ہے - جب اس نے مکّہ مکرّمہ کی منازل کو چھوڑ دیا، اور ساری آبادی اپنے پیچھے چھوڑ دی، اگرچہ وہ حدود حرم میں دور نکل جائے تو وہ نماز قصر کر سکتا ہے - نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے حج کے لئے مکّہ مکرّمہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوم الترویہ کو مکّہ مکرّمہ سے نکل گئے ـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّہ مکرّمہ کی تمام آبادی کو چھوڑ دیا اور منیٰ روانہ ہو گئے، جبکہ منیٰ مکّہ مکرّمہ شہر میں داخل نہیں ہے - لہٰذا فقہی نقطہ نظر سے یہ درست نہیں ہے کہ جو شخص سفر کی نیت و ارادے سے شہر سے نکل گیا اور اس کے لئے نماز قصر کرنا جائز تھا، اسے کہا جائے کہ جب وہ شہر کی آبادی سے نکل گیا کہ وہ ابھی شہر ہی میں ہے۔ کیونکہ اگر وہ ابھی تک شہر ہی میں ہے تو اس کے لئے نماز قصر کرنا درست نہیں ہے حتیٰ کہ وہ شہر سے نکل جائے ـ لہٰذا فقہی رو سے یہی بات صحیح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجتہ الوداع کے موقع پر مکّہ مکرّمہ میں صرف تین دن رات مکمّل قیام پذیر رہے، پانچ، چھ اور سات تاریخ کو۔ چار تاریخ کا کچھ حصّہ سوائے اس کی رات کے اور آٹھویں تاریخ کی رات اور اس کے دن کا کچھ حصّہ، لہٰذا وہاں کسی ایک شہر میں چار دن رات کے قیام کا پختہ ارادہ نہیں تھا۔ اس لئے یہ روایت، جب تم غور و فکر کرو، تو اہل حجاز کے اس قول کے مخالف نہیں ہے کہ جو شخص کسی ایک مقام پر چاردن رہنے کا پختہ ارادہ کر لے وہ نماز مکمّل پڑھے۔ کیونکہ ان کے مخالفین کہتے ہیں کہ جس شخص نے کسی شہر میں دس دن کے قیام کا پختہ ارادہ کر لیا، اور چار دن اس شہر سے باہر اس شہر کی ایسی زمینوں میں رہنے کا ارادہ کیا جو شہر سے مکّہ مکرّمہ اور منیٰ جیسی دوہری مسافت کے برابر ہو، اکہری نہ ہو۔ اور ایک رات اور دن کسی تیسری جگہ پر گزارے جو منیٰ سے عرفات جتنی مسافت پر ہو تو وہ نماز قصر کر سکتا ہے اور یہ ان کے نزدیک ایک مقام پر پندرہ دن کے قیام کا پختہ ارادہ نہیں ہے کیونکہ ان کے نزدیک جس شخص نے پندرہ دن ٹھہرنے کا ارادہ کر لیا اس پر مکمّل نماز ادا کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْفَرِيضَةِ فِي السَّفَرِ/حدیث: 963]
تخریج الحدیث: اسناده صحيح

617. (384) بَابُ الرُّخْصَةِ فِي الْجَمْعِ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ فِي السَّفَرِ
617. سفرمیں مغرب اور عشاء کی نماز جمع کرنے کی رخصت کا بیان،
حدیث نمبر: Q964
بِذِكْرِ خَبَرٍ غَلِطَ فِي مَعْنَاهُ بَعْضُ مَنْ لَمْ يُحْسِنْ صِنَاعَةَ الْفِقْهِ، فَتَأَوَّلَ هَذَا الْخَبَرَ عَلَى ظَاهِرِهِ وَزَعَمَ أَنَّ الْجَمْعَ غَيْرُ جَائِزٍ إِلَى أَنْ يَجِدَّ بِالْمُسَافِرِ السَّفَرُ
اس سلسلے میں ایک روایت کا بیان جس کے معنی سمجھنے میں بعض غیر فقیہ اشخاص سے غلطی ہو گئی ہے، لہٰذا اس نے اس کے ظاہری معنی کے اعتبار سے اس حدیث کی یہ تاویل کی ہے مغرب وعشاء کی نمازوں کو صرف اس وقت جمع کرنا جائز ہے جب مسافر کو سفر میں جلدی ہو [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْفَرِيضَةِ فِي السَّفَرِ/حدیث: Q964]
تخریج الحدیث:

حدیث نمبر: 964
نَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلاءِ ، نَا سُفْيَانُ ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ ، عَوْدًا وَبَدْءًا لَوْ حَلَفْتُ عَلَيْهِ مِائَةَ مَرَّةٍ سَمِعْتُهُ مِنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ : أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" إِذَا جَدَّ بِهِ السَّيْرُ جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ"
امام سفیان بیان کرتے ہیں کہ میں امام زہری کو دہرائی اور درس حدیث کی ابتدا کرتے وقت یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر میں سو بار بھی قسم اٹھانا چاہوں تو اٹھا سکتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث حضرت سالم سے سنی ہے اور وہ اپنے والد گرامی سیدنا عبد ﷲ رضی ﷲ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب سفر میں جلدی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب اور عشا کی نماز جمع کر لیتے۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْفَرِيضَةِ فِي السَّفَرِ/حدیث: 964]
تخریج الحدیث:

حدیث نمبر: 965
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ الدَّوْرَقِيُّ ، وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، وَيَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِذَا جَدَّ بِهِ السَّيْرُ جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ" وَقَالَ يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کر تے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر کر نے میں جلدی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر کے ادا کر لیتے۔ جناب یحییٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ روایت کیے ہیں۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْفَرِيضَةِ فِي السَّفَرِ/حدیث: 965]
تخریج الحدیث: انظر الحديث السابق

618. (385) بَابُ الرُّخْصَةِ فِي الْجَمْعِ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَبَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ وَإِنْ لَمْ يَجِدَّ بِالْمُسَافِرِ السَّيْرُ
618. ظہر اور عصر، مغرب اور عشاء کی نمازوں کی جمع کرکے ادا کرنے کی رخصت کا بیان، اگرچہ مسافر کو سفر کی جلدی نہ ہو
حدیث نمبر: 966
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے سفر میں نمازیں جمع کرکے ادا کیں، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ظہر اور عصر، نماز مغرب اور عشاء کو جمع کر کے پڑھا ـ (جناب ابوالطفیل) کہتے ہیں کہ میں نے دریافت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کیوں کیا؟ تو سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمّت کو تنگی اور مشقّت میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے ـ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْفَرِيضَةِ فِي السَّفَرِ/حدیث: 966]
تخریج الحدیث:


Previous    1    2    3    4    5    Next