لیث نے یحییٰ بن سعید سے، انہوں نے بشیر بن یسار سے اور انہوں نے حضرت سہل بن ابی حثمہ اور حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت کی، ان دونوں نے کہا: عبداللہ بن سہل بن زید اور محیصہ بن مسعود بن زید (مدینہ سے) نکلے یہاں تک کہ جب خیبر میں پہنچے تو وہاں کسی جگہ الگ الگ ہو گئے، پھر (یہ ہوتا ہے کہ) اچانک محیصہ، عبداللہ بن سہل کو مقتول پاتے ہیں۔ انہوں نے اسے دفن کیا، پھر وہ خود، حویصہ بن مسعود اور (مقتول کا حقیقی بھائی) عبدالرحمان بن سہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، وہ (عبدالرحمان) سب سے کم عمر تھا، چنانچہ عبدالرحمان اپنے دونوں ساتھیوں سے پہلے بات کرنے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "بڑے کو اس کا مقام دو، " یعنی عمر میں بڑے کو، تو وہ خاموش ہو گیا، اس کے دونوں ساتھیوں نے بات کی اور ان کے ساتھ اس نے بھی بات کی، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عبداللہ بن سہل کے قتل کی بات بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: "کیا تم پچاس قسمیں کھاؤ گے، پھر اپنے ساتھی (کے بدلے خون بہا)۔۔ یا (فرمایا:) بدلے میں اپنے قاتل (سے دیت یا قصاص لینے)۔۔ کے حقدار بنو گے؟" انہوں نے جواب دیا: ہم قسمیں کیسے کھائیں جبکہ ہم نے دیکھا نہیں؟ آپ نے فرمایا: "تو یہود پچاس قسمیں کھا کر تمہیں (ان کے خلاف تمہارے مطالبے کے حق سے) الگ کر دیں گے انہوں نے کہا: ہم کافر لوگوں کی قسمیں کیونکر قبول کریں؟ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ صورت حال دیکھی آپ نے (اپنی طرف سے) اس کی دیت ادا کی
حضرت سہل بن ابی حثمہ اور حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن سھل ابن زید اور محیصہ بن مسعود بن زید مدینہ سے نکلے اور خیبر پر پہنچ کر الگ الگ ہو گئے، پھر بعد میں محیصہ نے عبداللہ بن سہل کو مقتول حالت میں پایا، اور اسے دفن کر دیا، پھر وہ، حویصہ بن مسعود اور عبدالرحمٰن بن سہل رضی اللہ تعالی عنہما کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور (مقتول کا بھائی عبدالرحمٰن) تینوں میں سے چھوٹا تھا۔ تو عبدالرحمٰن نے اپنے دونوں ساتھیوں سے پہلے کلام کرنے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ”بڑے کو موقعہ دو۔“ یعنی عمر میں جو بڑا ہے، تو وہ خاموش ہو گیا، اور اس کے ساتھیوں نے گفتگو کی اور اس نے بھی گفتگو میں حصہ لیا، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عبداللہ بن سہل کے مقتل (قتل گاہ) کا ذکر کیا، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: ”کیا تم پچاس قسمیں اٹھاتے ہوئے اپنے ساتھی کے قتل کو ثابت کرتے ہوئے قصاص یا دیت کے حقدار بنتے ہو؟“ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے قاتل کا تعین کرتے ہوئے۔“ انہوں نے کہا، ہم کیسے قسمیں اٹھا سکتے ہیں، جبکہ ہم وہاں موجود نہ تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو یہود پچاس قسمیں اٹھا کر تمہارے سامنے اپنی براءت کر سکتے ہیں؟“ انہوں نے کہا، ہم کافر لوگوں کی قسمیں کیسے تسلیم کر سکتے ہیں؟ تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ صورت حال دیکھی، تو آپ نے اس کی دیت ادا کر دی۔
حماد بن زید نے کہا: ہمیں یحییٰ بن سعید نے بشیر بن یسار سے، انہوں نے سہل بن ابی حثمہ اور رافع بن خدیج سے روایت کی کہ محیصہ بن مسعود اور عبداللہ بن سہل خیبر کی طرف گئے اور (وہاں) کسی نخلستان میں الگ الگ ہو گئے، عبداللہ بن سہل کو قتل کر دیا گیا تو ان لوگوں نے یہود پر الزام عائد کیا، چنانچہ ان کے بھائی عبدالرحمان اور دو حویصہ اور محیصہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عبدالرحمان نے اپنے بھائی کے معاملے میں بات کی، وہ ان سب میں کم عمر تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بڑے کو بڑا بناؤ" یا فرمایا: "سب سے بڑا (بات کا) آغاز کرے۔" ان دونوں نے اپنے ساتھی کے معاملے میں گفتگو کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے پچاس آدمی ان میں سے ایک آدمی پر قسمیں کھائیں گے تو وہ اپنی رسی سمیت (جس میں وہ بندھا ہو گا) تمہارے حوالے کر دیا جائے گا؟" انہوں نے کہا: یہ ایسا معاملہ ہے جو ہم نے دیکھا نہیں، ہم کیسے حلف اٹھائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو یہود اپنے پچاس آدمیوں کی قسموں سے تم کو (تمہارے دعوے کے استحقاق سے) الگ کر دیں گے۔" انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! (وہ تو) کافر لوگ ہیں۔ کہا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دیت اپنی طرف سے ادا کر دی۔ سہل نے کہا: ایک دن میں ان کے باڑے میں گیا تو ان اونٹوں میں سے ایک اونٹنی نے مجھے لات ماری۔ حماد نے کہا: یہ یا اس کی طرح (بات کہی
حضرت سہل ابن ابی حثمہ اور حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ محیصہ بن مسعود اور عبداللہ بن سہل خیبر کی طرف گئے، اور کھجوروں میں بکھر گئے، عبداللہ بن سہل کو قتل کر دیا گیا، اور الزام یہود پر لگایا گیا، تو اس کا بھائی عبدالرحمٰن اور اس کے دو چچا زاد حویصہ اور محیصہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، عبدالرحمٰن نے جو تینوں میں سے چھوٹے تھے، اپنے بھائی کے واقعہ کے بارے میں گفتگو کرنا چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بڑے کو عزت بخشو۔“ یا فرمایا: ”بڑا آغاز کرے۔“ تو ان دونوں نے اپنے ساتھی کے بارے میں گفتگو کی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے پچاس آدمی ان میں سے کسی آدمی کے بارے میں قسم اٹھا دیں، تو اس کو رسی سمیت تمہارے حوالہ کر دیا جائے گا۔“ انہوں نے کہا، یہ ایسا معاملہ ہے جو ہم نے دیکھا نہیں ہے تو قسمیں کیسے اٹھائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہود اپنی طرف سے پچاس قسمیں کھا کر تمہیں ان سے خلاصی دلوا دیتے ہیں۔“ یعنی ان کی قسموں کے بعد تمہاری قسموں کی ضرورت نہیں رہے گی، انہوں نے کہا، اللہ کے رسول! کافر لوگ ہیں، (ہم قسمیں کیسے مان لیں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے دیت ادا کر دی، حضرت سہل رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، میں ان کے باڑے میں گیا، تو ان اونٹنیوں میں سے ایک اونٹنی نے مجھے لات ماری، حماد کہتے ہیں، یوں کہا یا اس کے ہم معنی۔
بشر بن مفضل نے کہا: ہمیں یحییٰ بن سعید نے بشیر بن یسار سے، انہوں نے سہل بن ابی حثمہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی، اور انہوں نے اپنی حدیث میں کہا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے اس کی دیت دے دی اور انہوں نے اپنی حدیث میں یہ نہیں کہا: مجھے ایک اونٹنی نے لات مار دی
امام صاحب یہی روایت اپنے ایک اور استاد سے سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کرتے ہیں اور اس حدیث میں یہ ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیت اپنی طرف سے دی، اور اس حدیث میں یہ نہیں ہے کہ ”مجھے ایک اونٹنی نے لات ماری تھی۔“
سلیمان بن بلال نے یحییٰ بن سعید سے، انہوں نے بشیر بن یسار سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں عبداللہ بن سہل بن زید انصاری اور محیصہ بن مسعود بن زید انصاری، جن کا تعلق قبیلہ بنو حارثہ سے تھا، خیبر کی طرف نکلے، ان دنوں وہاں صلح تھی، اور وہاں کے باشندے یہودی تھے، تو وہ دونوں اپنی ضروریات کے پیش نظر الگ الگ ہو گئے، بعد ازاں عبداللہ بن سہل قتل ہو گئے اور کھجور کے تنے کے ارد گرد بنائے گئے پانی کے ایک گڑھے میں مقتول حالت میں ملے، ان کے ساتھی نے انہیں دفن کیا، پھر مدینہ آئے اور مقتول کے بھائی عبدالرحمان بن سہل اور (چچا زاد) محیصہ اور حویصہ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عبداللہ اور ان کو قتل کیے جانے کی صورت حال اور جگہ بتائی۔ بشیر کا خیال ہے اور وہ ان لوگوں سے حدیث بیان کرتے ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو پایا کہ آپ نے ان سے فرمایا: "کیا تم پچاس قسمیں کھا کر اپنے اتل۔۔ یا اپنے ساتھی۔۔ (سے بدلہ/دیت) کے حق دار بنو گے؟" انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! نہ ہم نے دیکھا، نہ وہاں موجود تھے۔ ان (بشیر) کا خیال ہے کہ آپ نے فرمایا: "تو یہود پچاس قسمیں کھا کر تمہیں (اپنے دعوے کے استحقاق سے) الگ کر دیں گے۔" انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم کافر لوگوں کی قسمیں کیسے قبول کریں؟ بشیر کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے اس کی دیت ادا فرما دی
حضرت بشیر بن یسار سے روایت ہے کہ عبداللہ بن سہل بن زید اور محیصہ بن مسعود بن زید ا نصاری رضی اللہ تعالی عنہم، جو بنو حارثہ سے تعلق رکھتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں خیبر کی طرف گئے، اور وہاں کے باشندوں سے صلح تھی، اور وہاں کے باشندے یہودی تھے، تو وہ دونوں ضرورت کے تحت الگ الگ ہو گئے، اس کے بعد عبداللہ بن سہل رضی اللہ تعالی عنہ قتل کر دئیے گئے اور ایک پانی کے حوض سے لاش ملی، ان کے ساتھی نے اسے دفن کر دیا، پھر مدینہ کی طرف بڑھا، تو مقتول کا بھائی عبدالرحمٰن بن سہل، محیصہ اور حویصہ رضی اللہ تعالی عنہم آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کا معاملہ پیش کیا، اور قتل گاہ کا تذکرہ بھی کیا، بشیر کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے مجھے ملنے والوں نے بتایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”کیا تم پچاس قسمیں اٹھا کر، اپنے قاتل کے حقدار بننا چاہتے ہو؟“ یا قاتل کی جگہ صاحب کا لفظ کہا، انہوں نے کہا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! نہ ہم نے دیکھا اور نہ وہاں موجود تھے، تو بشیر کے خیال میں آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو یہود پچاس قسمیں اٹھا کر تمہیں اس سے (قسمیں اٹھانے سے) بری کر دیتے ہیں؟“ انہوں نے کہا اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! ہم کافر لوگوں کی قسمیں کیسے قبول کریں؟ بشیر کا خیال ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دیت اپنی طرف سے ادا کر دی۔
ہشیم نے یحییٰ بن سعید سے، انہوں نے بشیر بن یسار سے روایت کی کہ انصار میں سے بنو حارثہ کا ایک آدمی جسے عبداللہ بن سہل بن زید کہا جاتا تھا اور اس کا چچا زاد بھائی جسے محیصہ بن مسعود بن زید کہا جاتا تھا، سفر پر روانہ ہوئے، اور انہوں نے اس قول تک، لیث کی (حدیث: 4342) کی طرح حدیث بیان کی: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے اس کی دیت ادا فرما دی۔" یحییٰ نے کہا: مجھے بشیر بن یسار نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: مجھے سہل بن ابی حثمہ نے خبر دی، انہوں نے کہا: دیت کی ان اونٹنیوں میں سے ایک اونٹنی نے مجھے باڑے میں لات ماری تھی
حضرت بشیر بن یسار سے روایت ہے کہ انصار کے قبیلہ بنو حارثہ کا ایک فرد عبداللہ بن سہل بن زید نامی اپنے چچیرے بھائی جسے محیصہ بن مسعود بن زید کہا جاتا تھا، کے ساتھ گیا، آگے لیث کی پہلی حدیث کی طرح، ”یہاں تک ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیت اپنے پاس سے دی“ یحییٰ راوی بیان کرتے ہیں، مجھے بشیر بن یسار نے حضرت سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے بتایا کہ دیت میں مقرر کردہ اونٹنیوں میں سے ایک اونٹنی نے مجھے باڑے میں لات ماری۔
سعید بن عبید نے ہمیں حدیث بیان کی، (کہا:) ہمیں بشیر بن یسار انصاری نے سہل بن ابی حثمہ انصاری سے حدیث بیان کی، انہوں نے ان کو بتایا کہ ان (کے خاندان) میں سے چند لوگ خیبر کی طرف نکلے اور وہاں الگ الگ ہو گئے، بعد ازاں انہوں نے اپنے ایک آدمی کو قتل کیا ہوا پایا۔۔ اور انہوں نے (پوری) حدیث بیان کی اور اس میں کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند کیا کہ اس کے خوب کو رائیگاں قرار دیں، چنانچہ آپ نے صدقے کے اونٹوں سے سو اونٹ اس کی دیت ادا فرما دی۔
حضرت سہل بن ابی حثمہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان میں سے چند افراد خیبر کی طرف گئے اور وہاں بٹ گئے، تو انہوں نے اپنے میں سے ایک کو مقتول پایا، آگے مذکورہ بالا حدیث ہے، اور اس میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خون کو رائیگاں قرار دینا پسند نہ فرمایا، تو اس کی دیت میں صدقہ کے سو اونٹ دئیے۔
ابولیلیٰ بن عبداللہ بن عبدالرحمان بن سہل (بن زید انصاری) نے سہل بن ابی حثمہ (انصاری) سے حدیث بیان کی، انہوں نے انہیں ان کی قوم کے بڑی عمر کے لوگوں سے خبر دی کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ اپنی تنگدستی کی بنا پر جو انہیں لاحق ہو گئی تھی، (تجارت وغیرہ کے لیے) خیبر کی طرف نکلے، بعد ازاں محیصہ آئے اور بتایا کہ عبداللہ بن سہل قتل کر دیے گئے ہیں اور انہیں کسی چشمے یا پانی کے کچے کنویں (فقیر) میں پھینک دیا گیا، چنانچہ وہ یہود کے پاس آئے اور کہا: اللہ کی قسم! تم لوگوں نے ہی انہیں قتل کیا ہے۔ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم نے انہیں قتل نہیں کیا، پھر وہ آئے حتی کہ اپنی قوم کے پاس پہنچے اور ان کو یہ بات بتائی، پھر وہ خود، ان کے بھائی حویصہ، اور وہ ان سے بڑے تھے، اور عبدالرحمان بن سہل (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس) آئے، محیصہ نے گفتگو شروع کی اور وہی خیبر میں موجود تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محیصہ سے فرمایا: "بڑے کو بات کرنے دو، بڑے کو موقع دو" آپ کی مراد عمر (میں بڑے) سے تھی، تو حویصہ نے بات کی، اس کے بعد محیصہ نے بات کی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یا وہ تمہارے ساتھی کی دیت دیں یا پھر جنگ کا اعلان کریں۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں ان کی طرف خط لکھا، تو انہوں نے (جوابا) لکھا: اللہ کی قسم! ہم نے انہیں قتل نہیں کیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حویصہ، محیصہ اور عبدالرحمان سے فرمایا: "کیا تم قسم کھا کر اپنے ساتھی کے خون (کا بدلہ لینے) کے حقدار بنو گے؟" انہوں نے کہا: نہیں۔ آپ نے پوچھا: "تو تمہارے سامنے یہود قسمیں کھائیں؟" انہوں نے جواب دیا: وہ مسلمان نہیں ہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے اس کی دیت ادا کر دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سو اونٹنیاں ان کی طرف روانہ کیں حتی کہ ان کے گھر (باڑے) پہنچا دی گئیں۔ سہل نے کہا: ان میں سے ایک سرخ اونٹنی نے مجھے لات ماری تھی
حضرت سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ تعالی عنہ اپنی قوم کے بزرگوں سے نقل کرتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ رضی اللہ تعالی عنہما دونوں خیبر گئے، کیونکہ وہ مشقت و تنگی معاش میں گرفتار تھے، محیصہ رضی اللہ تعالی عنہ نے آ کر بتایا، کہ عبداللہ بن سہل رضی اللہ تعالی عنہ قتل کر کے ایک چشمہ یا گڑھا میں پھینک دئیے گئے ہیں، (اس سے پہلے) وہ یہود کے پاس آ کر یہ کہہ چکے تھے کہ تم نے اللہ کی قسم! اسے قتل کیا ہے، (کیونکہ ان کے علاقہ میں قتل ہوئے تھے) انہوں نے کہا، اللہ کی قسم! ہم نے اسے قتل نہیں کیا ہے، پھر محیصہ رضی اللہ تعالی عنہ اپنی قوم کے پاس آئے اور انہیں واقعہ بتایا، پھر وہ اور اس کا بھائی حویصہ جو اس سے بڑا تھا، اور عبدالرحمٰن بن سہل، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، محیصہ رضی اللہ تعالی عنہ بات کرنے لگا، کیونکہ وہی خیبر میں تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا تو وہ تمہارے ساتھی کی دیت ادا کریں اور یا وہ جنگ کے لیے اعلان سن لیں۔“ اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خط لکھا تو انہوں نے جواب لکھا، ہم نے، اللہ کی قسم! اسے قتل نہیں کیا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حویصہ، محیصہ اور عبدالرحمٰن سے کہا، ”کیا تم قسمیں اٹھا کر، اپنے فرد کے خون کے حقدار بننا چاہتے ہو؟“ انہوں نے کہا، ہم قسموں کے لیے تیار نہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو تمہارے سامنے یہود قسمیں اٹھائیں۔“ انہوں نے کہا، وہ تو مسلمان نہیں ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دیت اپنے پاس سے ادا کر دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس سو (100) اونٹنیاں بھیجیں، جو ان کے احاطہ میں داخل کر دی گئیں، حضرت سہل رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، ان میں سے ایک سرخ اونٹنی نے مجھے لات ماری تھی۔
یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، کہا: مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمان اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام سلیمان بن یسار نے انصار میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی سے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسامہ کو اسی صورت پر برقرار رکھا جس پر وہ جاہلیت میں تھی
حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن اور حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہما کے آزاد کردہ غلام سلیمان بن یسار، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک انصاری صحابی سے بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دور جاہلیت کے مطابق قسامہ کو برقرار رکھا۔
ابن جریج نے ابن شہاب سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی اور یہ اضافہ کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (قسامہ) کے ذریعے انصار کے لوگوں کے مابین ایک مقتول کا فیصلہ کیا جس کا دعویٰ انہوں نے یہود پر کیا تھا
امام صاحب ایک اور استاد سے مذکورہ بالا روایت نقل کرتے ہیں، جس میں یہ اضافہ ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے قسامہ کا فیصلہ انصار کے ایک مقتول کے بارے میں کیا، جس کا انہوں نے یہود کے خلاف دعویٰ کیا تھا۔