ابو کامل جحدری نے کہا: ہمیں عبد الواحد نے اعمش سے حدیث بیان کی، نیز ابو بکر بن ابی شیبہ اور ابو کریب نے کہا: ہمیں ابو معاویہ نے اعمش سے حدیث سنائی، انہوں نے حضرت ابراہیم تیمی سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کون سی مسجد جو زمین میں بنائی گئی پہلی ہے؟ آپ نے فرمایا: ” مسجد حرام۔“ میں نے پوچھا: پھر کون سی؟ فرمایا: ”مسجد اقصیٰ۔“ میں نے (پھر) پوچھا: دونوں (کی تعمیر) کے مابین کتنا زمانہ تھا؟ آپ نے فرمایا: ”چالیس برس۔ اور جہاں بھی تمہارے لیے نماز کا وقت ہو جائے، نماز پڑھ لو، وہی (جگہ) مسجد ہے۔“ ابو کامل کی حدیث میں ہے: ” پھر جہاں بھی تمہاری نماز کا وقت ہو جائے، اسے پڑھ لو، بلاشبہ وہی جگہ مسجد ہے
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! سب سے پہلے روئے زمین پر کونسی مسجد بنائی گئی؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسجد حرام“ میں نے پوچھا، پھر کونسی؟ فرمایا: ”مسجد اقصیٰ“۔ میں نے پوچھا، دونوں کی تعمیر میں کتنا فاصلہ ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چالیس سال“۔ پھر فرمایا: ”اب جہاں بھی تجھے نماز کا وقت آئے، نماز پڑھ لے وہی جگہ مسجد ہے۔“ ابو کامل کی روایت میں ہے: ”پھر جہاں تمہیں نماز آ لے، اس کو پڑھ لو کیونکہ وہی جگہ مسجد ہے۔“
علی بن مسہر نے کہا: ہمیں اعمش نے ابراہیم بن یزید تیمی سے حدیث سنائی، کہا: میں مسجد کے باہر کھلی جگہ (صحن) میں اپنے والد کو قرآن مجید سنایا کرتا تھا، جب میں (آیت) سجدہ کی تلاوت کرتا تو وہ سجدہ کر لیتے۔ میں نے ان سے پوچھا: ابا جان! کیا آپ راستے ہی میں سجدہ کر لیتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: میں نے ابو ذر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا وہ بیان کر رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روئے زمین پر سب سے پہلی بنائی جانے والی مسجد کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” مسجد حرام۔“ میں نے عرض کی: پھر کون سی؟ آپ نے فرمایا، ” مسجد اقصیٰ۔“ میں نے پوچھا: دونوں (کی تعمیر) کے درمیان کتنا عرصہ تھا؟ آپ نے فرمایا: ” چالیس سال، پھر ساری زمین (ہی) تمہارے لیے مسجد ہے، جہاں بھی تمہاری نماز کا وقت آ جائے وہیں نماز پڑھ لو۔“
حضرت ابراھیم بن یزید تیمی رحمۃ اللّہ علیہ سے روایت ہے کہ میں سدہ میں (مسجد کے باہر سائبان) اپنے باپ کو قرآن مجید سنایا کرتا تھا۔ تو جب میں سجدہ والی آیت سناتا تو وہ سجدہ کر لیتے تو میں نے ان سے پوچھا: اے ابا جان! کیا آپ راستے میں ہی سجدہ کر لیتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: میں نے ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، روئے زمین پر سب سے پہلے کونسی مسجد بنائی گئی؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسجد حرام“ میں نے عرض کیا پھر کونسی؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسجد اقصیٰ“۔ میں نے پوچھا، دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنا عرصہ ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چالیس سال“۔ پھر فرمایا: ”ساری زمین تمہارے لیے مسجد ہے، جہاں نماز کا وقت ہو جائے وہیں پڑھ لو۔“
یحییٰ بن یحییٰ نے بیان کیا کہ ہمیں ہشیم نے سیا ر سے خبر دی، انہوں نے یزید الفقیر سے اور انہوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” مجھے پانچ چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں: ہر نبی خاص اپنی قوم ہی کی طرف بھیجا جاتا تھا اور مجھے ہر سرخ وسیاہ کی طرف بھیجا گیا، میرے لیے اموال غنیمت حلال قرار دیے گئے، مجھ سے پہلے وہ کسی کے لیے حلال نہیں کیے گئے۔ میرے لیے زمین کو پاک کرنے والی اور سجدہ گاہ بنایا گیا، لہٰذا جس شخص کے لیے نماز کا وقت ہو جائے وہ جہاں بھی ہو، وہیں نماز پڑھ لے، اور مہینہ بھر کی مسافت سے دشمنوں پر طاری ہو جانے والے رعب سے میری نصرت کی گئی اور مجھے شفاعت (کا منصب) عطا کیا گیا۔“
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں، ہر نبی خاص طور پر اپنی قوم ہی کی طرف بھیجا جاتا تھا، اور مجھے ہر سرخ و سیاہ کی طرف بھیجا گیا ہے، میرے لیے مال غنیمت حلال قرار دیا گیا ہے مجھ سے پہلے کسی کے لیے وہ حلال نہیں قرار دیا گیا، میرے لیے روئے زمین کو پاک کرنے والی اور مسجد بنایا گیا ہے، لہٰذا جس شخص کو جہاں نماز کا وقت پالے وہیں نماز پڑھ لے، اور مجھے ایسے رعب کے ذریعے مدد دی گئی، جو ایک ماہ کی مسافت سے ہی لوگوں (دشمنوں) پر طاری ہو جاتا ہے (یعنی میری دھاک و دبدبہ ایک ماہ کی مسافت پر پڑ جاتا ہے) اور مجھے شفاعت دی گئی ہے۔“
1165. محمد بن فضیل نے ابو مالک اشجعی (سعد بن طارق) سے، انہوں نے ربعی (بن حراش) سے اور انہوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمیں لوگوں پر تین (باتوں) کے ذریعے سے فضیلت دی گئی ہے: ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں کی طرح بنائی گئی ہیں، ہمارے لیے ساری زمین کو سجدہ گاہ بنا دیا گیا ہے اور جب ہمیں پانی نہ ملے تو اس (زمین) کی مٹی ہمارے لیے پاک کرنے والی بنا دی گئی ہے (اس کے ساتھ تیمم کر کے پاکیزگی حاصل کی جا سکتی ہے۔)“ ایک خصوصیت اور بھی بیان کی۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمیں لوگوں پر تین وجہ سے فضیلت دی گئی ہے ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں کی طرح قرار دی گئی ہیں، ہمارے لیے تمام روئے زمین میں سجدہ گاہ بنا دی گئی ہے۔ اور اس کی مٹی جب تم میں سے کوئی ہمیں پانی نہ ملے ہمارے لیے پاکیزگی کا ذریعہ (پاک کرنے والی) بنا دی گئی ہے اور ایک خصوصیت بھی بیان کی۔ (سورة بقرہ کی آخری آیات کا نزول مراد ہے)۔
۔ ابن ابی زائد نے (ابو مالک) سعد بن طارق (اشجعی) سے روایت کی، کہا: مجھے ربعی بن حراش نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے حدیث سنائی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ......... آگے سابقہ حدیث کے مانند ہے۔
امام صاحب ایک اور استاد سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
عبد الرحمان بن یعقوب نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” مجھے دوسرے انبیاء پر چھ چیزوں کے ذریعے سے فضیلت دی گئی ہے: مجھے جامع کلمات عطا کیے گئے ہیں، (دشمنوں پر) رعب ودبدے کے ذریعے سے میری مدد کی گئی ہے، میرے لیے اموال غنیمت حلال کر دیے گئے ہیں، زمین میرے لیے پاک کرنے اور مسجد قرار دی گئی ہے، مجھے تمام مخلوق کی طرف (رسول بنا کر) بھیجا گیا ہے اور میرے ذریعے سے (نبوت کو مکمل کر کے) انبیاء ختم کر دیے گئے ہیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے دوسرے انبیاء علیہم السلام پر چھہ چیزوں پر فضیلت دی گئی ہے، مجھے جامع کلمات عطا کیے گئے ہیں، میری رعب و دبدبہ کے ذریعے مدد دی گئی ہے اور میرے لیے غنیمتیں حلال کر دی گئی ہیں، اور میرے لیے زمین پاکیزگی کا باعث بنائی گئی ہے اور مسجد قرار دی گئی ہے اور مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا ہےاور مجھ پر نبیوں کو ختم کر دیا گیا ہے، مجھے آخری نبی بنایا گیا ہے۔“
۔ یونس نے ابن شہاب سے، انہوں نے سعید بن مسیب سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” مجھے جامع کلمات دے کر بھیجا گیا ہے اور رعب کے ذریعے میری نصرت کی گئی ہے، میں نیند کے عالم میں تھا کہ زمین کے خزانوں کی کنجیاں میرے پاس لا کر میرے ہاتھوں میں رکھ دی گئیں۔“ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو (اپنے رب کے پاس) جا چکے ہیں اور تم ان (خزانوں) کو کھود کر نکال رہے ہو
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھےجامع کلام دے کر بھیجا گیا ہے اور رعب کے ذریعے میری نصرت (مدد) کی گئی ہے میں سویا ہوا تھا کہ اس اثنا میں زمین کے خزانوں کی کنجیاں میرے حوالہ کی گئیں اور میرے ہاتھوں میں رکھ دی گئیں۔“ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے رب کے پاس جا چکے ہیں اور (ان خزانوں کو) اب تم نکال رہے ہو۔
۔ زبیدی نے (ابن شہاب) زہری سے روایت کی، انہوں نے کہا: مجھے سعید بن مسیب اور ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن نے خبر دی کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہا تھے .... (بقیہ) یونس کی حدیث کے مانند ہے۔
امام صاحب ایک اور استاد سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
معمر نے زہری سے، انہوں نے ابن مسیب اور ابو سلمہ (بن عبد الرحمن) سے، انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح بیان کیا۔
امام صاحب دو اور اساتذہ سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔