عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: محرم کون سے کپڑے پہنے؟ آپ نے فرمایا: ”نہ کرتا پہنے، نہ ٹوپی، نہ پائجامہ، نہ عمامہ (پگڑی)، نہ کوئی ایسا کپڑا جس میں ورس ۱؎ یا زعفران لگا ہو، اور نہ ہی موزے، سوائے اس شخص کے جسے جوتے میسر نہ ہوں، تو جسے جوتے میسر نہ ہوں وہ موزے ہی پہن لے، انہیں کاٹ ڈالے تاکہ وہ ٹخنوں سے نیچے ہو جائیں ۲؎“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1823]
وضاحت: ۱؎: ایک قسم کی خوشبو دار گھاس ہے جس سے کپڑے وغیرہ رنگے جاتے ہیں۔ ۲؎: امام احمد کے نزدیک خف (چمڑے کا موزہ) کاٹنا ضروری نہیں، دیگر ائمہ کے نزدیک کاٹنا ضروری ہے، دلیل ان کی یہی حدیث ہے، اور امام احمد کی دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہما کی وہ حدیث ہے جس میں کاٹنے کا ذکر نہیں ہے، جب کہ وہ میدان عرفات کے موقع کی حدیث ہے، یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اس حدیث کی ناسخ ہے، اور ورس اور زعفران سے منع اس لئے کیا گیا کہ اس میں خوشبو ہوتی ہے، یہی حکم ہر اس رنگ کا ہے جس میں خوشبو ہو۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (5806) صحيح مسلم (1177)
اس سند سے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اسی مفہوم کی حدیث مرفوعاً مروی ہے، راوی نے البتہ اتنا اضافہ کیا ہے کہ محرم عورت منہ پر نہ نقاب ڈالے اور نہ دستانے پہنے ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حاتم بن اسماعیل اور یحییٰ بن ایوب نے اس حدیث کو موسی بن عقبہ سے، اور موسیٰ نے نافع سے اسی طرح روایت کیا ہے جیسے لیث نے کہا ہے، اور اسے موسیٰ بن طارق نے موسیٰ بن عقبہ سے ابن عمر پر موقوفاً روایت کیا ہے، اور اسی طرح اسے عبیداللہ بن عمر اور مالک اور ایوب نے بھی موقوفاً روایت کیا ہے، اور ابراہیم بن سعید المدینی نے نافع سے نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اور ابن عمر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ ”محرم عورت نہ تو منہ پر نقاب ڈالے اور نہ دستانے پہنے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابراہیم بن سعید المدینی ایک شیخ ہیں جن کا تعلق اہل مدینہ سے ہے ان سے زیادہ احادیث مروی نہیں، یعنی وہ قلیل الحدیث ہیں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1825]
وضاحت: ۱؎: احرام کی حالت میں عورتوں کو اپنے چہرے پر’ ’ نقاب “ لگانا منع ہے، مگر حدیث میں جس نقاب کا ذکر ہے وہ چہرے پر باندھا جاتا تھا، برصغیر ہند و پاک کے موجودہ برقعوں کا ” نقاب“ چادر کے پلو کی طرح ہے جس کو ازواج مطہرات مردوں کے گزرنے کے وقت چہرے پر لٹکا لیا کرتی تھیں (دیکھئے حدیث نمبر: ۱۸۳۳)، اس لئے اس نقاب کو بوقت ضرورت عورتیں چہرے پر لٹکا سکتی ہیں، اور چوں کہ اس وقت حج میں ہر وقت اجنبی (غیر محرم) مردوں کا سامنا پڑتا ہے، اس لئے ہر وقت اس نقاب کو چہرے پر لٹکائے رکھ سکتی ہیں۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ”محرم عورت نہ تو منہ پر نقاب ڈالے اور نہ دستانے پہنے“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1826]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 7470)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/41) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن الحديث السابق (1825) شاھد له
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا کہ آپ نے عورتوں کو حالت احرام میں دستانے پہننے، نقاب اوڑھنے، اور ایسے کپڑے پہننے سے جن میں ورس یا زعفران لگا ہو منع فرمایا، البتہ ان کے علاوہ جو رنگین کپڑے چاہے پہنے جیسے زرد رنگ والے کپڑے، یا ریشمی کپڑے، یا زیور، یا پائجامہ، یا قمیص، یا کرتا، یا موزہ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث کو عبدہ بن سلیمان اور محمد بن سلمہ نے ابن اسحاق سے ابن اسحاق نے نافع سے حدیث «وما مس الورس والزعفران من الثياب» تک روایت کیا ہے اور اس کے بعد کا ذکر ان دونوں نے نہیں کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1827]
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے سردی محسوس کی تو انہوں نے کہا: نافع! میرے اوپر کپڑا ڈال دو، میں نے ان پر برنس ڈال دی، تو انہوں نے کہا: تم میرے اوپر یہ ڈال رہے ہو حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم کو اس کے پہننے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1828]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 7585)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/141، 148) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (2692) أخرجه الحميدي (696 وسنده صحيح)
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”پاجامہ وہ پہنے جسے ازار نہ ملے اور موزے وہ پہنے جسے جوتے نہ مل سکیں“۔ (ابوداؤد کہتے ہیں یہ اہل مکہ کی حدیث ہے ۱؎ اس کا مرجع بصرہ میں جابر بن زید ہیں ۲؎ اور جس چیز کے ساتھ وہ منفرد ہیں وہ سراویل کا ذکر ہے اور اس میں موزے کے سلسلہ میں کاٹنے کا ذکر نہیں)۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1829]
وضاحت: ۱؎: کیونکہ سلیمان بن حرب مکی ہیں اور مصنف نے انہیں سے روایت کی ہے۔ ۲؎: کیونکہ اس سند کا محور جن پر یہ سند گھومتی ہے جابر بن زید ہیں اور وہ بصری ہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1841) صحيح مسلم (1178)
عائشہ بنت طلحہ کا بیان ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے بیان کیا ہے کہ وہ کہتی ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کی طرف نکلتے تو ہم اپنی پیشانی پر خوشبو کا لیپ لگاتے تھے جب پسینہ آتا تو وہ خوشبو ہم میں سے کسی کے منہ پر بہہ کر آ جاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو دیکھتے لیکن منع نہ کرتے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1830]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 17878)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/79) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ خوشبو احرام سے پہلے کی ہوتی تھی اس لئے منع کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔
محمد بن اسحاق کہتے ہیں میں نے ابن شہاب سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا: مجھ سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایسا ہی کرتے تھے یعنی محرم عورت کے موزوں کو کاٹ دیتے ۱؎، پھر ان سے صفیہ بنت ابی عبید نے بیان کیا کہ ان سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں کے سلسلے میں عورتوں کو رخصت دی ہے تو انہوں نے اسے چھوڑ دیا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1831]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 17867)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/29، 35، 6/35) (حسن)» (محمد بن اسحاق کی یہ روایت معنعن نہیں ہے بلکہ اسے انہوں نے زہری سے بالمشافہہ اخذ کیا ہے، اس لئے حسن ہے)
وضاحت: ۱؎: اس باب کی پہلی روایت کے عموم سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ سمجھا تھا کہ یہ حکم مرد اورعورت دونوں کو شامل ہے اسی لئے وہ محرم عورت کے موزوں کو کاٹ دیتے تھے، بعد میں جب انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا والی روایت سنی تو اپنے اس فتویٰ سے رجوع کر لیا۔