حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر (غزوۂ تبوک یا بنی المصطلق) میں تھے جس میں لوگوں پر بڑے تنگ اوقات آئے تھے۔ عبد اللہ بن ابی نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ”جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہیں ان پر کچھ خرچ مت کرو تاکہ وہ ان کے پاس سے منتشر ہو جائیں“ اس نے یہ بھی کہا کہ ”اگر ہم اب مدینہ لوٹ کر جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلیلوں کو نکال کر باہر کرے گا۔“ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس گفتگو کی اطلاع دی تو آپ نے عبداللہ بن ابی ابن سلول کو بلا کر پوچھا۔ اس نے بڑی قسمیں کھا کر کہا کہ میں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ لوگوں نے کہا کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جھوٹ بولا ہے۔ لوگوں کی اس طرح کی باتوں سے میں بڑا رنجیدہ ہوا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے سوۂ منافقون نازل فرما کر میری تصدیق فرمائی اور یہ آیت نازل ہوئی اذا جاء ک المنافقون الخ(۶) یعنی جب آپ کے پاس منافق آئے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا تاکہ ان کیلئے مغفرت کی دعا کریں لیکن انہوں نے اپنے سر پھیر لئے۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد خشب مسندۃ گویا وہ بہت بڑے لکڑی کے کھمبے ہیں (ان کے متعلق اس لئے کہا گیا کہ) وہ بظاہر بڑے خوبصورت اور معقول مگر دل میں منافق تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صفات المنافقين وأحكامهم/حدیث: 1765]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 63 سورة إذا جاءك المنافقون: 3 باب قوله ذلك بأنهم آمنوا ثم كفروا»
حدیث نمبر: 1766
1766 صحيح حديث جَابِرٍ رضي الله عنه قَالَ: أَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَبْدَ اللهِ بْنَ أُبَيٍّ، بَعْدَ مَا دُفِنَ فَأَخْرَجَهُ، فَنَفَثَ فِيهِ مِنْ رِيقِهِ، وَأَلْبَسَهُ قَمِيصَهُ
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو عبداللہ بن ابی کو دفن کیا جا رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبر سے نکلوایا اور اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں ڈالا اور اسے اپنی قمیض پہنائی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صفات المنافقين وأحكامهم/حدیث: 1766]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 23 كتاب الجنائز: 23 باب الكفن في القميص الذي يكف أو لا يكفّ»
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن ابی (منافق) کی موت ہوئی تو اس کا بیٹا (عبداللہ صحابی) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! والد کے کفن کے لیے آپ اپنی قمیض عنایت فرمائیے اور ان پر نماز پڑھئے اور مغفرت کی دعا کیجیے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص (غایت مروت کی وجہ سے) عنایت کی اور فرمایا: مجھے بتانا میں نماز جنازہ پڑھوں گا۔ عبداللہ نے اطلاع بھجوائی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھے تو عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیچھے سے پکڑ لیا اور عرض کی کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع نہیں کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اختیا ر دیا گیا ہے جیسا ارشاد باری ہے ”تو ان کے لیے استغفار کر یانہ کر اور اگر تو ستر مرتبہ بھی استغفار کرے تو بھی اللہ انھیں ہرگز معاف نہیں کرے گا۔“ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نما زپڑھائی اس کے بعد یہ آیت اتری ”کسی بھی منافق کی موت پر اس کی نماز جنازہ کبھی نہ پڑھانا“۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صفات المنافقين وأحكامهم/حدیث: 1767]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 23 كتاب الجنائز: 23 باب الكفن في القميص الذي يكفّ أو لا يكفّ»
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ خانہ کعبہ کے پاس دو قریشی اور ایک ثقفی یا ایک قریشی اور دو ثقفی مرد بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے پیٹ بہت موٹے تھے لیکن عقل سے کورے۔ ایک نے ان میں سے کہا ٗ تمہار کیا خیال ہے کیا اللہ ہماری باتوں کو سن رہا ہے؟ دوسرے نے کہا اگر ہم زور سے بولیں تو سنتا ہے لیکن آہستہ بولیں تو نہیں سنتا۔ تیسرے نے کہا اگر اللہ زور سے بولنے پر سن سکتا ہے تو آہستہ بولنے پہ بھی ضرور سنتا ہوگا۔ اس پر یہ آیت اتری کہ ”اور تم اس بات سے اپنے کو چھپا ہی نہیں سکتے کہ تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہارے چمڑے گواہی دیں گے ہاں تم یہ سمجھتے رہے کہ تم جو کچھ بھی کر رہے ہو اس میں سے بہت سے اعمال سے اللہ بے خبر ہے۔ (حمد السجدۃ: ۲۲)[اللؤلؤ والمرجان/كتاب صفات المنافقين وأحكامهم/حدیث: 1768]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 41 سورة فصلت: 2 باب قوله وذلكم ظنكم الآية»
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ احد کے لیے نکلے تو جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ان میں سے کچھ لوگ واپس آ گئے(یہ منافقین تھے) پھر بعض نے تو یہ کہا کہ ہم چل کر انھیں قتل کر دیں گے اور ایک جماعت نے کہا کہ قتل نہ کرنا چاہیے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ”تمہیں کیا ہو گیا کہ منافقوں کے بارے میں دو گروہ ہو رہے ہو۔ انہیں تو ان کے اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اوندھا کر دیا ہے۔ اب کیا تم یہ منصوبے باندھ رہے ہو کہ اللہ کے گمراہ کیے ہوؤں کو تم راہ راست پر لا کھڑا کرو۔ جسے اللہ راہ بھلا دے تو ہرگز اس کے لیے کوئی راہ نہ پائے گا۔“(النساء: ۸۸)[اللؤلؤ والمرجان/كتاب صفات المنافقين وأحكامهم/حدیث: 1769]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 29 كتاب فضائل المدينة: 10 باب المدينة تنفي الخبث»
سیّدناابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چند منافقین ایسے تھے کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جہاد کے لیے تشریف لے جاتے تو یہ مدینہ میں پیچھے رہ جاتے اور پیچھے رہ جانے پر بہت خوش ہوا کرتے تھے لیکن جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم واپس آتے تو عذر بیان کرتے اور قسمیں کھا لیتے بلکہ ان کو ایسے کام پر تعریف کروانا پسند ہونا جس کو انہوں نے نہ کیا ہوتا اور بعد میں چکنی چپڑی باتوں سے اپنی بات بنانا چاہتے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی پر یہ آیت نازل فرمائی۔ ”وہ لوگ جو اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو انہوں نے نہیں کیا اس پر بھی ان کی تعریفیں کی جائیں تو انہیں عذاب سے چھٹکارہ میں نہ سمجھو ان کے لیے تو درد ناک عذاب ہے۔ (آل عمران: ۱۸۸)[اللؤلؤ والمرجان/كتاب صفات المنافقين وأحكامهم/حدیث: 1770]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 3 سورة آل عمران: 16 باب لا يحسبن الذين يفرحون بما أتوا»
علقمہ بن وقاص نے بیان کیا کہ مروان بن حکم نے (جب وہ مدینہ کے امیر تھے) اپنے دربان سے کہا کہ رافع! ابن عباس رضی اللہ عنہماکے یہاں جاؤ اور ان سے پوچھو کہ آیت ولا تحسبن الذین کی رو سے تو ہم سب کو عذاب ہونا چاہیے، کیونکہ ہر ایک آدمی ان نعمتوں پر جو اس کو ملی ہیں، خوش ہے اور یہ چاہتا ہے کہ جو کام اس نے کیا نہیں اس پر بھی اس کی تعریف ہو۔ ابو رافع نے ابن عباس رضی اللہ عنہماسے جا کر پوچھا، تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانے کہا، تم مسلمانوں سے اس روایت کا کیا تعلق! یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو بلایا تھا اور ان سے ایک دین کی بات پوچھی تھی۔ (جو ان کی آسمانی کتاب میں موجود تھی) انہوں نے اصل بات کو تو چھپایا اور دوسری غلط بات بیان کر دی، پھر بھی اس بات کے خواہشمند رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کے جواب میں جو کچھ انہوں نے بتایا ہے، اس پر ان کی تعریف کی جائے اور ادھر اصل حقیقت کو چھپا کر بھی بڑے خوش تھے۔ پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانے اس آیت کی تلاوت کی ”اللہ تعالیٰ نے جب اہل کتاب سے عہد لیا کہ تم اسے سب لوگوں سے بیان کرتے رہا کرو اور اسے چھپاؤ نہیں پھر بھی ان لوگوں نے اس عہد کو اپنی پیٹھ پیچھے ڈال دیا اور اسے بہت کم قیمت پر بیچ ڈالا، ان کا یہ بیوپار بہت برا ہے۔ وہ لوگ جو اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو انہوں نے نہیں کیا اس پر بھی ان کی تعریفیں کی جائیں تو انہیں عذاب سے چھٹکارہ میں نہ سمجھ، ان کے لیے تو درد ناک عذاب ہے۔“(آل عمران: ۱۸۷، ۱۸۸)[اللؤلؤ والمرجان/كتاب صفات المنافقين وأحكامهم/حدیث: 1771]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 3 سورة آل عمران: 16 باب لا يحسبن الذين يفرحون بما أتوا»
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک شخص پہلے عیسائی تھا ٗ پھر وہ اسلام میں داخل ہو گیا تھا۔ اس نے سورۂ بقرہ اور آل عمران پڑھ لی تھی اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منشی بن گیا لیکن پھر وہ شخص مرتد ہو کر عیسائی ہو گیا اور کہنے لگا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے جو کچھ میں نے لکھ دیا ہے اس کے سوا اسے اور کچھ بھی معلوم نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی موت واقع ہو گئی اور اس کے آدمیوں نے اسے دفن کر دیا جب صبح ہوئی تو انہوں نے دیکھا کہ اس کی لاش قبر سے نکل کر زمین کے اوپر پڑی ہے۔ عیسائی لوگوں نے کہا کہ یہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اس کے ساتھیوں کا کام ہے۔ چونکہ ان کا دین اس نے چھوڑ دیا تھا، اس لئے انہوں نے اس کی قبر کھودی ہے اور لاش کو باہر نکال کر پھینک دیا ہے۔ چنانچہ دوسری قبر انہوں نے کھودی جو بہت زیادہ گہری تھی لیکن جب صبح ہوئی تو پھر لاش باہر تھی۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے یہی کہا کہ یہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے ساتھیوں کا کام ہے چونکہ ان کا دین اس نے چھوڑ دیا تھا، اس لئے اس کی قبر کھود کر انہوں نے لاش باہر پھینک دی ہے۔ پھر انہوں نے قبر کھودی اور جتنی گہری ان کے بس میں تھی کرکے اسے اس کے اندر ڈال دیا لیکن صبح ہوئی تو پھر لاش باہر تھی۔ اب انہیں یقین آیا کہ یہ کسی انسان کا کام نہیں ہے۔ (بلکہ یہ میت عذاب خداوندی میں گرفتار ہے) چنانچہ انہوں نے اسے یونہی (زمین) پر ڈال دیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صفات المنافقين وأحكامهم/حدیث: 1772]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 61 كتاب المناقب: 25 باب علامات النبوة في الإسلام»