علقمہ بن وقاص نے بیان کیا کہ مروان بن حکم نے (جب وہ مدینہ کے امیر تھے) اپنے دربان سے کہا کہ رافع! ابن عباس رضی اللہ عنہماکے یہاں جاؤ اور ان سے پوچھو کہ آیت ولا تحسبن الذین کی رو سے تو ہم سب کو عذاب ہونا چاہیے، کیونکہ ہر ایک آدمی ان نعمتوں پر جو اس کو ملی ہیں، خوش ہے اور یہ چاہتا ہے کہ جو کام اس نے کیا نہیں اس پر بھی اس کی تعریف ہو۔ ابو رافع نے ابن عباس رضی اللہ عنہماسے جا کر پوچھا، تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانے کہا، تم مسلمانوں سے اس روایت کا کیا تعلق! یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو بلایا تھا اور ان سے ایک دین کی بات پوچھی تھی۔ (جو ان کی آسمانی کتاب میں موجود تھی) انہوں نے اصل بات کو تو چھپایا اور دوسری غلط بات بیان کر دی، پھر بھی اس بات کے خواہشمند رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کے جواب میں جو کچھ انہوں نے بتایا ہے، اس پر ان کی تعریف کی جائے اور ادھر اصل حقیقت کو چھپا کر بھی بڑے خوش تھے۔ پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانے اس آیت کی تلاوت کی ”اللہ تعالیٰ نے جب اہل کتاب سے عہد لیا کہ تم اسے سب لوگوں سے بیان کرتے رہا کرو اور اسے چھپاؤ نہیں پھر بھی ان لوگوں نے اس عہد کو اپنی پیٹھ پیچھے ڈال دیا اور اسے بہت کم قیمت پر بیچ ڈالا، ان کا یہ بیوپار بہت برا ہے۔ وہ لوگ جو اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو انہوں نے نہیں کیا اس پر بھی ان کی تعریفیں کی جائیں تو انہیں عذاب سے چھٹکارہ میں نہ سمجھ، ان کے لیے تو درد ناک عذاب ہے۔“(آل عمران: ۱۸۷، ۱۸۸)[اللؤلؤ والمرجان/كتاب صفات المنافقين وأحكامهم/حدیث: 1771]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 3 سورة آل عمران: 16 باب لا يحسبن الذين يفرحون بما أتوا»