حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ خانہ کعبہ کے پاس دو قریشی اور ایک ثقفی یا ایک قریشی اور دو ثقفی مرد بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے پیٹ بہت موٹے تھے لیکن عقل سے کورے۔ ایک نے ان میں سے کہا ٗ تمہار کیا خیال ہے کیا اللہ ہماری باتوں کو سن رہا ہے؟ دوسرے نے کہا اگر ہم زور سے بولیں تو سنتا ہے لیکن آہستہ بولیں تو نہیں سنتا۔ تیسرے نے کہا اگر اللہ زور سے بولنے پر سن سکتا ہے تو آہستہ بولنے پہ بھی ضرور سنتا ہوگا۔ اس پر یہ آیت اتری کہ ”اور تم اس بات سے اپنے کو چھپا ہی نہیں سکتے کہ تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہارے چمڑے گواہی دیں گے ہاں تم یہ سمجھتے رہے کہ تم جو کچھ بھی کر رہے ہو اس میں سے بہت سے اعمال سے اللہ بے خبر ہے۔ (حمد السجدۃ: ۲۲)[اللؤلؤ والمرجان/كتاب صفات المنافقين وأحكامهم/حدیث: 1768]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 41 سورة فصلت: 2 باب قوله وذلكم ظنكم الآية»