اللؤلؤ والمرجان
كتاب النكاح
کتاب: نکاح کے مسائل
453. باب زواج زينب بنت جحش ونزول الحجاب وإِثبات وليمة العرس
453. باب: ام المومنین حضرت زینب بنت جحش کا نکاح اور نزول حجاب اور ولیمہ کا بیان
حدیث نمبر: 902
902 صحيح حديث أَنَسٍ، قَالَ: ما أَوْلَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَلَى شَيْءٍ مِنْ نِسَائِهِ مَا أَوْلَمَ عَلَى زَيْنَبَ، أَوْلَمَ بِشَاةٍ
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا جیسا ولیمہ اپنی بیویوں میں سے کسی کا نہیں کیا ان کا ولیمہ آپ نے ایک بکری کا کیا تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب النكاح/حدیث: 902]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 67 كتاب النكاح: 68 باب الوليمة ولو بشاة»

حدیث نمبر: 903
903 صحيح حديث أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه، قَالَ: لَمَّا تَزَوَّجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْنَبَ ابْنَةَ جَحْشٍ، دَعَا الْقَوْمَ فَطَعِمُوا، ثُمَّ جَلَسُوا يَتَحَدَّثُونَ، وَإِذَا هُوَ كَأَنَّهُ يَتَهَيَّأُ لِلْقِيَامِ، فَلَمْ يَقُومُوا، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ قَامَ؛ فَلَمَّا قَامَ، قَامَ مَنْ قَامَ، وَقَعَدَ ثَلاَثَةُ نَفَرٍ، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لِيَدْخُلَ، فَإِذَا الْقَوْمُ جُلُوسٌ؛ ثُمَّ إِنَّهُمْ قَامُوا، فَانْطَلَقْتُ فَجِئْتُ فَأَخْبَرْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ قَدِ انْطَلَقُوا؛ فَجَاءَ حَتَّى دَخَلَ، فَذَهَبْتُ أَدْخُلُ، فَأَلْقَى الْحِجَابَ بَيْنِى وَبَيْنَهُ؛ فَأَنْزَلَ اللهُ (يأَيُّهَا الَّذِينَءَامَنُوا لاَ تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ) الآية
سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو قوم کو آپ نے دعوت ولیمہ دی کھانا کھانے کے بعد لوگ (گھر کے اندر ہی) بیٹھے (دیر تک) باتیں کرتے رہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا گویا آپ اٹھنا چاہتے ہیں (تا کہ لوگ سمجھ جائیں اور اٹھ جائیں) لیکن کوئی بھی نہیں اٹھا جب آپ نے دیکھا کہ کوئی نہیں اٹھا تو آپ کھڑے ہو گئے جب آپ کھڑے ہوئے تو دوسرے لوگ بھی کھڑے ہو گئے لیکن تین آدمی اب بھی بیٹھے رہ گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب باہر سے اندر جانے کے لئے آئے تو دیکھا کہ کچھ لوگ اب بھی بیٹھے ہوئے ہیں اس کے بعد وہ لوگ بھی اٹھ گئے تو میں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر خبر دی کہ وہ لوگ بھی چلے گئے ہیں تو آپ اندر تشریف لائے میں نے بھی چاہا کہ اندر جاؤں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور میرے بیچ میں دروازے کا پردہ گرا لیا اس کے بعد آیت مبارکہ نازل ہوئی کہ اے ایمان والو نبی کے گھروں میں (بغیر اجازت) مت جایا کرو آخر آیت تک۔ (الاحزاب۵۳) [اللؤلؤ والمرجان/كتاب النكاح/حدیث: 903]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 33 سورة الأحزاب: 8 باب قوله (لا تدخلوا بيوت النبي) الآية»

حدیث نمبر: 904
904 صحيح حديث أَنَسٍ قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ النَّاسِ بِالْحِجَابِ؛ كَانَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ يَسْأَلُنِي عَنْهُ؛ أَصْبَحَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرُوسًا بِزَيْنَبَ ابْنَةِ جَحْشٍ، وَكَانَ تَزَوَّجَهَا بِالمَدِينَةِ، فَدَعَا النَّاسَ لِلطَّعَامِ بَعْدَ ارْتِفَاعِ النَّهَارِ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَجَلَسَ مَعَهُ رِجَالٌ، بَعْدَ مَا قَامَ الْقَوْمُ، حَتَّى قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَشى وَمَشَيْتُ مَعَهُ، حَتَّى بَلَغَ بَابَ حُجْرَةِ عَائِشَةَ، ثُمَّ ظَنَّ أَنَّهُمْ خَرَجُوا، فَرَجَعْتُ مَعَهُ فَإِذَا هُمْ جُلُوسٌ مَكَانَهُمْ؛ فَرَجَعَ وَرَجَعْتُ مَعَهُ الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ بَابَ حُجْرَةِ عَائِشَةَ؛ فَرَجَعَ وَرَجَعْتُ مَعَهُ، فَإِذَا هُمْ قَدْ قَامُوا؛ فَضَرَبَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ سِتْرًا، وَأُنْزِلَ الْحِجَابُ
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں پردہ کے حکم کے بارے میں زیادہ جانتا ہوں سیّدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بھی مجھ سے اس کے بارے میں پوچھا کرتے تھے سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہاسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی کا موقعہ تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح مدینہ منورہ میں کیا تھا دن چڑھنے کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی کھانے کی دعوت کی تھی آپ بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے ساتھ بعض اور صحابہ بھی بیٹھے ہوئے تھے اس وقت تک دوسرے لوگ (کھانے سے فارغ ہو کر) جا چکے تھے آخر آپ بھی کھڑے ہو گئے اور چلتے رہے میں بھی آپ کے ساتھ چلتا رہا آپ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکے حجرے پر پہنچے پھر آپ نے خیال کیا کہ وہ لوگ (بھی جو کھانے کے بعد گھر میں بیٹھے رہ گئے تھے) جا چکے ہوں گے (اس لئے آپ واپس تشریف لائے) میں بھی آپ کے ساتھ واپس آیا لیکن وہ لوگ اب بھی اسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے آپ پھر واپس آ گئے میں بھی آپ کے ساتھ دوبارہ واپس آیا آپ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکے حجرہ پر پہنچے پھر آپ وہاں سے واپس ہوئے میں بھی آپ کے ساتھ تھا اب وہ لوگ جا چکے تھے اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور میرے درمیان پردہ لٹکا لیا اور پردہ کی آیت نازل ہوئی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب النكاح/حدیث: 904]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 70 كتاب الأطعمة: 59 باب قول الله تعالى (فإذا طعمتم فانتشروا»

حدیث نمبر: 905
905 صحيح حديث أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا مَرَّ بِجَنَبَاتِ أُمِّ سُلَيْمٍ، دَخَلَ عَلَيْهَا فَسَلَّمَ عَلَيْهَا ثُمَّ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَرُوسًا بِزَيْنَبَ، فَقَالَتْ لِي أُمُّ سُلَيْمٍ: لَوْ أَهْدَيْنَا لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، هَدِيَّةً فَقُلْتُ لَهَا: افْعَلِي فَعَمَدَتْ إِلَى تَمْرٍ وَسَمْنٍ وَأَقِطٍ، [ص:98] فَاتَّخَذَتْ حَيْسَةً فِي بُرْمَةٍ، فَأَرْسَلَتْ بِهَا مَعِي إِلَيْهِ؛ فَانْطَلَقْتُ بِهَا إِلَيْهِ فَقَالَ لِي: ضَعْهَا ثُمَّ أَمَرَنِي، فَقَالَ: ادْعُ لِي رِجَالاً سَمَّاهُمْ وَادْعُ لِي مَنْ لَقِيتَ قَالَ: فَفَعَلْتُ الَّذِي أَمَرَنِي، فَرَجَعْتُ فَإِذَا الْبَيْتُ غَاصٌّ بِأَهْلِهِ فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى تِلْكَ الْحَيْسَةِ، وَتَكَلَّمَ بِهَا مَا شَاءَ اللهُ، ثُمَّ جَعَلَ يَدْعُو عَشَرَةً عَشَرَةً يَأْكُلُونَ مِنْهُ، وَيَقُولُ لَهُمُ: اذْكُرُوا اسْمَ اللهِ، وَلْيَأْكُلْ كُلُّ رَجُلٍ مِمَّا يَلِيهِ قَالَ: حَتَّى تَصَدَّعُوا كُلُّهُمْ عَنْهَا فَخَرَجَ مِنْهُمْ مَنْ خَرَجَ، وَبَقِيَ نَفَرٌ يَتَحَدَّثُونَ قَالَ: وَجَعَلْتُ أَغْتَمُّ ثُمَّ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ الْحُجُرَاتِ، وَخَرَجْتُ فِي إِثْرِهِ، فَقُلْت: إِنَّهُمْ قَدْ ذَهَبُوا؛ فَرَجَعَ فَدَخَلَ الْبَيْتَ، وَأَرْخَى السِّتْرَ، وَإِنِّي لَفِي الْحُجْرَةِ وَهُوَ يَقُولُ: (يأَيُّهَا الَّذِينَءَامَنُوا لاَ تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلاَّ أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلكِنْ إِذَا دُعِيتمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلاَ مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِ مِنْكُمْ وَاللهُ لاَ يَسْتَحْيِ مِنَ الْحَقِّ)قَالَ أَنَسٌ: إِنَّهُ خَدَمَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ سِنِينَ
سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاعدہ تھا آپ جب ام سلیم کے گھر کی طرف سے گذرتے تو ان کے پاس جاتے ان کو سلام کرتے (وہ آپ کی رضاعی خالہ ہوتی تھیں) پھر سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک بار ایسا ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دولہا تھے آپ نے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تھا تو ام سلیم (میری ماں) مجھ سے کہنے لگی اس وقت ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ تحفہ بھیجیں تو اچھا ہے میں نے کہا مناسب ہے انہوں نے کھجور اور گھی اور پنیر ملا کر ایک ہانڈی میں حلوہ بنایا اور میرے ہاتھ میں دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھجوایا میں لے کر آپ کے پاس چلا جب پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ رکھ دے اور جا کر فلاں فلاں لوگوں کو بلا لا آپ نے ان کا نام لیا اور جو کوئی بھی تجھ کو راستے میں ملے اس کو بلا لے سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں آپ کے حکم کے موافق لوگوں کو دعوت دینے گیا لوٹ کر جو آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ سارا گھر لوگوں سے بھرا ہوا ہے میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اس حلوے پر رکھے اور جو اللہ کو منظور تھا وہ زبان سے کہا (برکت کی دعا فرمائی) پھر دس دس آدمیوں کو کھانے کے لئے بلانا شروع کیا آپ ان سے فرماتے جاتے تھے اللہ کا نام لو اور ہر ایک آدمی اپنے آگے سے کھائے (رکابی کے بیچ میں ہاتھ نہ ڈالے) یہاں تک کہ سب لوگ کھا کر گھر کے باہر چل دئیے تین آدمی گھر میں بیٹھے باتیں کرتے رہے اور مجھ کو ان کے نہ جانے سے رنج پیدا ہوا (اس خیال سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہو گی) آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دوسری بیویوں کے حجروں پر گئے میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے گیا پھر راستے میں میں نے آپ سے کہا کہ وہ تین آدمی بھی چلے گئے ہیں اس وقت آپ لوٹے اور (سیدہ زینب کے حجرے میں) آئے میں بھی حجرے ہی میں تھا لیکن آپ نے میرے اور اپنے بیچ میں پردہ ڈال لیا آپ سورہ احزاب کی یہ آیت پڑھ رہے تھے:مسلمانو! نبی کے گھروں میں نہ جایا کرو مگر جب کھانے کے لیے تم کو اندر آنے کی اجازت دی جائے، اس وقت جاؤ۔ وہ بھی ایسا ٹھیک وقت دیکھ کر کہ کھانا پکنے کا انتظار نہ کرنا پڑے۔ البتہ جب بلائے جاؤ تو اندر جاؤ اور کھانے سے فارغ ہوتے ہی چل دو۔ باتوں میں لگ کر وہاں بیٹھے نہ رہا کرو۔ ایسا کرنے سے پیغمبر کو تکلیف ہوتی تھی اس کو تم سے شرم آتی تھی (کہ تم سے کہے کہ چلے جاؤ) اور اللہ تعالیٰ حق بات میں نہیں شرماتا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے دس برس تک متواتر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب النكاح/حدیث: 905]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 67 كتاب النكاح: 64 باب الهدية للعروس»