اللؤلؤ والمرجان
كتاب النكاح
کتاب: نکاح کے مسائل
452. باب فضيلة إِعتاقه أمته ثم يتزوجها
452. باب: اپنی لونڈی کوآزاد کر کے نکاح کرنے کی فضیلت
حدیث نمبر: 900
900 صحيح حديث أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، غَزَا خَيْبَرَ، فَصَلَّيْنَا عِنْدَهَا صَلاَةَ الْغَدَاةِ بِغَلَسٍ، فَرَكِبَ نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَكِبَ أَبُو طَلْحَةَ، وَأَنَا رَدِيفُ أَبِي طَلْحَةَ، فَأَجْرَى نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي زُقَاقٍ خَيْبَرَ، وَأَنَّ رُكْبَتِي لَتَمَسُّ فَخِذَ نَبِيِّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ حَسَرَ الإِزَارَ عَنْ فَخِذِهِ حَتَّى إِنِّي أَنْظُرُ إِلَى بَيَاضِ فَخِذِ نَبِيِّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا دَخَلَ الْقَرْيَةَ قَالَ: اللهُ أَكْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ قَالَهَا ثَلاَثًا قَالَ: وَخَرَجَ الْقَوْمُ إِلَى أَعْمَالِهِمْ، فَقَالُوا: مُحَمَّدٌ وَالْخَمِيسُ (يَعْنِي الْجَيْش) قَالَ: فَأَصَبْنَاهَا عَنْوَةً، فَجُمِعَ السَّبْىُ، فَجَاءَ دِحْيَةُ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللهِ أَعْطِنِي جَارِيَةً مِنَ السَّبْىِ، قَالَ: اذْهَبْ فَخُذْ جَارِيَةً فَأَخَذَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللهِ أَعْطَيْتَ دِحْيَةَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ، سَيِّدَةَ قُرَيْظَةَ وَالنَّضِيرِ لاَ تَصْلُحُ إِلاَّ لَكَ قَالَ: ادْعُوهُ بِهَا فَجَاءَ بِهَا؛ فَلَمَّا نَظَرَ إِلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: خُذْ جَارِيَةً مِنَ السَّبْىِ غَيْرَهَا قَالَ: فَأَعْتَقَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَزَوَّجَهَا
سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خیبر میں تشریف لے گئے ہم نے وہاں فجر کی نماز اندھیرے ہی میں پڑھی پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور ابو طلحہ بھی سوار ہوئے میں ابو طلحہ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری کا رخ خیبر کی گلیوں کی طرف کر دیا میرا گھٹنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے چھو جاتا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ران سے تہبند ہٹایا یہاں تک کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاف اور سفید رانوں کی سفیدی اور چمک دیکھنے لگا جب آپ خیبر کی بستی میں داخل ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ اللہ اکبرخیبر برباد ہو گیا جب ہم کسی قوم کے آنگن میں اتر جائیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح منحوس ہو جاتی ہے آپ نے یہ تین مرتبہ فرمایا سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ خیبر کے یہودی اپنے کاموں کے لئے باہر نکلے ہی تھے کہ وہ چلا اٹھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم لشکر لے کر پہنچ گئے پس ہم نے خیبر لڑ کر فتح کر لیا اور قیدی جمع کئے گئے پھر دحیہ آئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ قیدیوں میں سے کوئی باندی مجھے عنایت کیجئے۔ آپ نے فرمایا کہ جاؤ کوئی باندی لے لو انہوں نے صفیہ بنت حیی کو لے لیا پھر ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفیہ جو قریظہ اور نضیر کے سردار کی بیٹی ہیں انہیں آپ نے دحیہ کو دے دیا وہ تو صرف آپ ہی کے لئے مناسب تھیں اس پر آپ نے فرمایا کہ دحیہ کو صفیہ کے ساتھ بلاؤ وہ لائے گئے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو فرمایا کہ قیدیوں میں سے کوئی اور باندی لے لو راوی نے کہا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ کو آزاد کر دیا اور انہیں اپنے نکاح میں لے لیا ثابت بنانی نے سیّدنا انس سے پوچھا کہ ابو حمزہ ان کا مہر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا رکھا تھا؟ سیّدنا انس نے فرمایا کہ خود ان کی آزادی ہی ان کا مہر تھا اور اسی پر آپ نے نکاح کیا پھر راستے ہی میں ام سلیم (رضی اللہ عنہ سیّدنا انس کی والدہ) نے انہیں دلہن بنایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رات کے وقت بھیجا اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دولہا تھے اس لئے آپ نے فرمایا کہ جس کے پاس بھی کچھ کھانے کی چیز ہو تو یہاں لائے آپ نے ایک چمڑے کا دستر خوان بچھایا بعض صحابہ کھجور لائے بعض گھی (راوی کہا کہ میرا خیال ہے سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے ستو کا بھی ذکر کیا) پھر لوگوں نے ان کا حلوا بنا لیا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ولیمہ تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب النكاح/حدیث: 900]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 8 كتاب الصلاة: 12 باب ما يذكر في الفخذ»

وضاحت: امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک ران شرم گاہ میں داخل ہے۔ اس لیے اس کا چھپانا واجب ہے۔ اور ابن ابی ذئب رحمہ اللہ اور امام داؤد ظاہری رحمہ اللہ، امام احمد رحمہ اللہ، امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک ران شرم گاہ میں داخل نہیں ہے۔ المحلیٰ میں امام ابن حزم رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اگر ران شرم گاہ میں داخل ہوتی تو اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جو معصوم اور پاک تھے ران نہ کھولتا، نہ کوئی اس کو دیکھتا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے۔ اورآپ کا فیصلہ احتیاطاً ران ڈھانکنے کا ہے وجوباً نہیں۔(راز) جو کھجور، پنیر اور گھی یا پنیر کی بجائے آٹا ملا کر پکایا جاتا ہے۔(مرتبؒ)

حدیث نمبر: 901
901 صحيح حديث أَبِي مُوسى رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ كَانَتْ لَهُ جَارِيَةٌ فَعَالَهَا فَأَحْسَنَ إِلَيْهَا، ثَمَّ أَعْتَقَهَا، وَتَزَوَّجَهَا، كَانَ لَهُ أَجْرَانِ
سیّدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کے پاس کوئی لونڈی ہو اور وہ اس کی اچھی پرورش کرے اور اس کے ساتھ اچھا معاملہ کرے پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کر لے تو اس کو دوہرا ثواب ملے گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب النكاح/حدیث: 901]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 49 كتاب العتق: 14 باب فضل من أدب جاريته وعلمها»