اللؤلؤ والمرجان
كتاب الزكاة
کتاب: زکوٰۃ کا بیان
287. باب الترغيب في الصدقة
287. باب: صدقہ دینے کی رغبت دلانے کا بیان
حدیث نمبر: 577
577 صحيح حديث أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرَّةِ الْمَدِينَةِ عِشَاءً، اسْتَقْبَلَنَا أُحُدٌ؛ فَقَالَ: يَا أَبَا ذَرٍّ مَا أُحِبُّ أَنَّ أُحُدًا لِي ذَهَبًا، يَأْتِي عَلَيَّ لَيْلَةٌ أَوْ ثَلاَثٌ عِنْدِي مِنْهُ دِينَارٌ إِلاَّ أَرْصُدُهُ لِدَيْنٍ، إِلاَّ أَنْ أَقُولَ بِهِ فِي عِبَادِ اللهِ هكَذَا وَهكَذَا وَهكَذَا وَأَرَانَا بِيَدِهِ ثُمَّ قَالَ: يَا أَبَا ذَرٍّ قُلْتُ: لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: الأَكْثَرُونَ هُمُ الأَقَلُّونَ إِلاَّ مَنْ قَالَ هكَذَا وَهكَذَا، ثُمَّ قَالَ لِي: مَكَانَكَ، لاَ تَبْرَحْ يَا أَبَا ذَرٍّ حَتَّى أَرْجِعَ فَانْطَلَقَ حَتَّى غَابَ عَنِّي، فَسَمِعْتُ صَوْتًا، فَخَشِيتُ أَنْ يَكُونَ عُرِضَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَذْهَبَ، ثُمَّ ذَكَرْتُ قَوْلَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَ تَبْرَحْ، فَمَكُثْتُ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ سَمِعْتُ صَوْتًا خَشِيتُ أَنْ يَكُونَ عُرِضَ لَكَ، ثُمَّ ذَكَرْتُ قَوْلَكَ، فَقُمْتُ؛ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ذَاكَ جِبْرِيلُ، أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِي لاَ يُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قَالَ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ
سیّدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات کے وقت مدینہ منورہ کی کالی پتھروں والی زمین پر چل رہا تھا کہ احد پہاڑ دکھائی دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر مجھے پسند نہیں کہ اگر احد پہاڑ کے برابر بھی میرے پاس سونا ہو اور مجھ پر ایک رات بھی اس طرح گذر جائے یا تین رات کہ اس میں سے ایک دینار بھی میرے پاس باقی بچے سوائے اس کے جو میں قرض کی ادائیگی کے لئے محفوظ رکھ لوں میں اس سارے سونے کو اللہ کی مخلوق میں اس اس طرح تقسیم کر دوں گا سیّدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے اس کی کیفیت ہمیں اپنے ہاتھ سے لپ بھر کر دکھائی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر میں نے عرض کیا لبیک و سعدیک یا رسول اللہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زیادہ جمع کرنے والے ہی (ثواب کی حیثیت سے) کم حاصل کرنے والے ہوں گے سوائے اس کے جو اللہ کے بندوں پر مال اس اس طرح یعنی کثرت کے ساتھ خرچ کرے پھر فرمایا یہیں ٹھہرے رہو ابوذر یہاں سے اس وقت تک نہ ہٹنا جب تک میں واپس نہ آ جاؤں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے اس کے بعد میں نے آواز سنی اور مجھے خطرہ ہوا کہ کہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی پریشانی نہ پیش گئی ہو اس لئے میں نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کے لئے) جانا چاہا لیکن فورا ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد یاد آیا کہ یہاں سے نہ ہٹنا چنانچہ میں وہیں رک گیا (جب آپ تشریف لائے تو) میں نے عرض کی میں نے آواز سنی تھی اور مجھے خطرہ ہو گیا تھا کہ کہیں آپ کو کوئی پریشانی نہ پیش آ جائے پھر مجھے آپ کا ارشاد یاد آیا اس لئے میں یہیں ٹھہر گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ جبریل علیہ السلام تھے میرے پاس آئے تھے اور مجھے خبر دی ہے کہ میری امت کا جو شخص بھی اس حال میں مرے گا کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو وہ جنت میں جائے گا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ اگرچہ اس نے زنا اور چوری کی ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اگر اس نے زنا اور چوری بھی کی ہو) [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزكاة/حدیث: 577]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 79 كتاب الاستئذان: 3 باب من أجاب بلبيك وسعديك»

حدیث نمبر: 578
578 صحيح حديث أَبِي ذَرٍّ رضي الله عنه، قَالَ: خَرَجْتُ لَيْلَةً مِنَ اللَّيَالِي، فَإِذَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي وَحْدَهُ، وَلَيْسَ مَعَهُ إِنْسَانٌ؛ قَالَ فَظَنَنْتُ أَنَّهُ يَكْرَهُ أَنْ يَمْشِيَ مَعَهُ أَحَدٌ، قَالَ: فَجَعَلْتُ أَمْشِي فِي ظِلِّ الْقَمَرِ، فَالْتَفَتَ فَرَآنِي، فَقَالَ: مَنْ هذَا قُلْتُ: أَبُو ذَرٍّ، جَعَلَنِي اللهُ فِدَاءَكَ، قَالَ: يَا أَبَا ذَرٍّ تَعَالَه قَالَ: فَمَشَيْتُ مَعَهُ سَاعَةً، فَقَالَ: إِنَّ الْمُكْثِرِينَ هُمُ الْمُقِلُّونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِلاَّ مَنْ أَعْطَاهُ اللهُ خَيْرًا فَنَفَحَ فِيهِ يَمِينهُ وَشِمَالَهُ وَبَيْنَ يَدَيْهِ وَوَرَاءَهُ وَعَمِلَ فِيهِ خَيْرًا قَالَ: فَمَشَيْتُ مَعَهُ سَاعَةً؛ فَقَالَ لِي: اجْلِسْ ههُنَا قَالَ: فَأَجْلَسَنِي فِي قَاعٍ حَوْلَهُ حِجَارَةٌ، فَقَالَ لِي: اجْلِسْ ههُنَا حَتَّى أَرْجِعَ إِلَيْكَ قَالَ: فَانْطَلَقَ فِي الْحَرَّةِ حَتَّى لاَ أَرَاهُ، فَلَبِثَ عَنِّي فَأَطَالَ اللُّبْثَ، ثُمَّ إِنِّي سَمِعْتُهُ وَهُوَ مُقْبِلٌ، وَهُوَ يَقُولُ: وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى قَالَ: فَلَمَّا جَاءَ لَمْ أَصْبِرْ حَتَّى قُلْتُ يَا نَبِيَّ اللهِ جَعَلَنِي اللهُ فِدَاءَكَ، مَنْ تُكَلِّمُ فِي جَانِبِ الْحَرَّةِ، مَا سَمِعْتُ أَحَدًا يَرْجِعُ إِلَيْكَ شَيْئًا قَالَ: ذَاكَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ، عَرَضَ لِي فِي جَانِبِ الْحَرَّةِ، قَالَ: بَشِّرْ أُمَّتَكَ أَنَّهُ مَنْ مَاتَ لاَ يُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ، قُلْتُ: يَا جِبْرِيلُ وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى قَالَ: نَعَمْ قَالَ، قُلْتُ: وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى قَالَ: نَعَمْ وَإِنْ شَرِبَ الْخَمْرَ
سیّدنا ابو ذرغفاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک روز میں رات کے وقت باہر نکلا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تنہا چل رہے تھے اور آپ کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا سیّدنا ابوذر کہتے ہیں کہ اس سے میں سمجھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پسند نہیں فرمائیں گے کہ آپ کے ساتھ اس وقت کوئی رہے اس لئے میں چاند کے سائے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چلنے لگا اس کے بعد آپ مڑے تو مجھے دیکھا اور دریافت فرمایا کون ہے؟ میں نے عرض کیا: ابوذر! اللہ مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپ نے فرمایا ابوذر یہاں آؤ۔ بیان کیا کہ پھر میں تھوڑی دیر تک آپ کے ساتھ چلتا رہا اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ جو لوگ (دنیا میں) زیادہ مال و دولت جمع کئے ہوئے ہیں قیامت کے دن وہی خسارے میں ہوں گے سوائے ان کے جنہیں اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور انہوں نے اسے دائیں بائیں آگے پیچھے خرچ کیا ہو اور اسے بھلے کاموں میں لگایا ہو (سیّدنا ابوذر نے) بیان کیا کہ پھر میں تھوڑی دیر تک میں آپ کے ساتھ چلتا رہا آپ نے فرمایا کہ یہاں بیٹھ جاؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک ہموار زمین پر بٹھا دیا جس کے چاروں طرف پتھر تھے اور فرمایا کہ یہاں اس وقت تک بیٹھے رہو جب تک میں تمہارے پاس لوٹ کے آؤں پھر آپ پتھریلی زمین کی طرف چلے گئے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے آپ وہاں رہے اور دیر تک وہیں رہے پھر میں نے آپ سے سنا آپ یہ کہتے ہوئے تشریف لا رہے تھے چاہے چوری کی ہو چاہے زنا کیا ہو۔ سیّدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو مجھ سے صبر نہیں ہو سکا اور میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی اللہ آپ پر مجھے قربان کرے اس پتھریلی زمین کے کنارے آپ کس سے باتیں کر رہے تھے میں نے تو کسی دوسرے کو آپ سے بات کرتے نہیں دیکھا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جبریل علیہ السلام تھے پتھریلی زمین (حرہ) کے کنارے وہ مجھ سے ملے اور کہا کہ اپنی امت کو خوش خبری سنا دو کہ جو بھی اس حال میں مرے گا کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو وہ جنت میں جائے گا میں نے عرض کیا اے جبریل خواہ اس نے چوری کی ہو اور زنا کیا ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں میں نے پھر عرض کیا خواہ اس نے چوری کی ہو زنا کیا ہو؟ جبریل نے کہا ہاں خواہ اس نے شراب ہی پی ہو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزكاة/حدیث: 578]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 81 كتاب الرقاق: 13 باب المكثرون هم المقلون»