سیّدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا تو آپ کعبہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے فرما رہے تھے کعبہ کے رب کی قسم وہی سب سے زیادہ خسارے والے ہیں کعبہ کے رب کی قسم وہی سب سے زیادہ خسارے والے ہیں میں نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ! میری حالت کیسی ہے کیا مجھ میں (بھی) کوئی ایسی بات نظر آئی ہے؟ میری حالت کیسی ہے؟ پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے جا رہے تھے میں آپ کو خاموش نہیں کرا سکتا تھا اور اللہ کی مشیت کے مطابق مجھ پر عجیب بے قراری طاری ہو گئی میں نے پھر عرض کی میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں یا رسول اللہ وہ کون لوگ ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس مال زیادہ ہے لیکن اس سے وہ مستثنی ہیں جنہوں نے اس میں سے اس اس طرح (یعنی دائیں اور بائیں بے دریغ مستحقین پر) راہ خدا میں خرچ کیا ہو گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزكاة/حدیث: 575]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 83 كتاب الأيمان والنذور: 8 باب كيف كانت يمين النبي صلي الله عليه وسلم»
سیّدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گیا تھا اور آپ فرما رہے تھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یا (آپ نے قسم اس طرح کھائی) اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں یا جن الفاظ کے ساتھ بھی آپ نے قسم کھائی ہو (اس تاکید کے بعد فرمایا) کوئی بھی ایسا شخص جس کے پاس اونٹ گائے یا بکری ہو اور وہ اس کا حق نہ ادا کرتا ہو تو قیامت کے دن اس (جانور) کو لایا جائے گا دنیا سے زیادہ بڑی اور موٹی تازی کر کے پھر وہ اپنے مالک کو اپنے کھروں سے روندے گی اور سینگ سے مارے گی جب آخری جانور اس پر سے گذر جائے گا تو پہلا جانور پھر لوٹ کر آئے گا (اور اسے اپنے سینگ سے مارے گا اور کھروں سے روندے گا) اس وقت تک (یہ سلسلہ برابر قائم رہے گا) جب تک لوگوں کا فیصلہ نہیں ہو جاتا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزكاة/حدیث: 576]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 24 كتاب الزكاة: 43 باب زكاة البقر»