اللؤلؤ والمرجان
كتاب المساجد ومواضع الصلاة
کتاب: مسجدوں اور نمازوں کی جگہوں کا بیان
198. باب استحباب القنوت في جميع الصلاة إِذا نزلت بالمسلمين نازلة
198. باب: جب مسلمانوں پر کوئی بلا نازل ہو تو بلند آواز سے قنوت پڑھنا مستحب ہے
حدیث نمبر: 392
392 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ يَقُولُ: سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ يَدْعُو لِرِجَالٍ فَيُسَمِّيهِمْ بِأَسْمَائهِمْ؛ فَيَقُولُ: اللهُمَّ أَنْجِ الْوَلِيد بْنَ الْوَلِيدِ وَسَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ وَعَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ؛ اللهُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ، وَاجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ سِنِينَ كَسِنِى يُوسُفَ وَأَهْلُ الْمَشْرِقِ يَوْمَئِذٍ مِنْ مُضَرَ مُخَالِفُونَ لَهُ
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سر مبارک (رکوع سے) اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد کہہ کر چند لوگوں کے لئے دعائیں کرتے اور نام لے لے کر فرماتے یا اللہ ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور تمام کمزور مسلمانوں کو (کفار سے) نجات دے اے اللہ قبیلہ مضر کے لوگوں کو سختی کے ساتھ کچل دے اور ان پر ایسا قحط مسلط کر جیسا یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں آیا تھا ان دنوں مشرق والے قبیلہ مضر کے لوگ مخالفین میں تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 392]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 10 كتاب الأذان: 128 باب يهوى بالتكبير حين يسجد»

وضاحت: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نما زمیں دعا یا بددعا کسی مستحق حقیقی کا نام لے کر بھی کی جا سکتی ہے۔ (راز)

حدیث نمبر: 393
393 صحيح حديث أَنَسٍ، قَالَ: قَنَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهْرًا يَدْعُو عَلَى رِعْلٍ وَذَكْوَانَ
سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ تک دعائے قنوت پڑھی اور اس میں قبائل رعل و ذکوان پر بد دعا کی تھی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 393]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 14 كتاب الوتر: 7 باب القنوت قبل الركوع وبعده»

حدیث نمبر: 394
394 صحيح حديث أَنَسٍ عَنْ عَاصِمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسًا رضي الله عنه، عَنِ الْقُنُوتِ، قَالَ: قَبْلَ الرُّكُوعِ فَقُلْتُ: إِنَّ فُلاَنًا يَزْعُمُ أَنَّكَ قُلْتَ بَعْدَ الرُّكُوعِ فقال: كَذَبَ؛ ثُمَّ حَدَّثَنَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَنَتَ شَهْرًا بَعْدَ الرُّكُوعِ يَدْعُو عَلَى أَحْيَاءٍ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ قَالَ: بَعَثَ أَرْبَعِينَ أَوْ سَبْعِينَ (يَشُكُّ فِيهِ) مِنَ الْقُرَّاءِ إِلى أَنَاسٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَعَرَضَ لَهُمْ هؤُلاَءِ، فَقَتَلُوهُمْ؛ وَكَانَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهْدٌ، فَمَا رَأَيْتُهُ وَجَدَ عَلَى أَحَدٍ مَا وَجَدَ عَلَيْهِمْ
حضرت عاصم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیّدنا انس رضی اللہ عنہ سے دعائے قنوت کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ رکوع سے پہلے ہونی چاہیے میں نے عرض کیا کہ فلاں صاحب (محمد بن سیرین) تو کہتے ہیں کہ آپ نے کہا تھا کہ رکوع کے بعد ہوتی ہے سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ انہوں نے غلط کہا ہے پھر سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے ہم سے یہ حدیث بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینے تک رکوع کے بعد دعائے قنوت کی تھی اور آپ نے اس میں قبیلہ بنو سلیم کے قبیلوں کے حق میں بد دعا کی تھی انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس یا ستر قرآن کے عالم صحابہ کی ایک جماعت (راوی کو شک تھا) مشرکین کے پاس بھیجی تھی لیکن یہ بنی سلیم کے لوگ (جن کا سردار عامر بن طفیل تھا) ان کے آڑے آئے اور ان کو مار ڈالا حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا معاہدہ تھا (لیکن انہوں نے دغا دی) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی معاملہ پر اتنا رنجیدہ اور غمگین نہیں دیکھا جتنا ان صحابہ کی شہادت پر آپ رنجیدہ تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 394]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 58 كتاب الجزية: 8 باب دعاء الإمام على من نكث عهدا»

وضاحت: یعنی اتنا پریشان کسی پر نہیں ہوئے جتنا قراء پر پریشان اور غمگین ہوئے کیونکہ یہ دوسروں کی نسبت قرآن زیادہ اور کثرت سے پڑھتے تھے۔ ان کی تعداد ستر تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نجد والوں کی طرف بھیجا تھا کہ انہیں اسلام کی دعوت دیں۔ جب یہ بیئرمعونہ کے مقام پر پہنچے تو عامر بن طفیل نے ان پر لشکر کشی کر کے انہیں شہید کر دیا۔ بنو سلیم کے قبیلوں رعل اور ذکوان نے یہ دھوکہ دہی کی تھی۔

حدیث نمبر: 395
395 صحيح حديث أَنَسٍ رضي الله عنه، قَالَ: بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً يُقَالُ لَهُمُ الْقُرَّاءُ، فَأُصِيبُوا، فَمَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ عَلَى شَيْءٍ مَا وَجَدَ عَلَيْهِمْ، فَقَنَتَ شَهْرًا فِي صَلاَةِ الْفَجْرِ، وَيَقُولُ: إِنَّ عُصَيَّةَ عَصَوُا اللهَ وَرَسُولَهُ
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہم بھیجی جس میں شریک لوگوں کو قراء (یعنی قرآن مجید کے قاری) کہا جاتا تھا ان سب کو شہید کر دیا گیا میں نے نہیں دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کسی چیز کا اتنا غم ہوا ہو جتنا آپ کو ان کی شہادت کا غم ہوا تھا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینے تک فجر کی نماز میں ان کے لئے بد دعا کی آپ کہتے کہ عصیہ نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 395]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 8 كتاب الدعوات: 58 باب الدعاء على المشركين»