حضرت عاصم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیّدنا انس رضی اللہ عنہ سے دعائے قنوت کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ رکوع سے پہلے ہونی چاہیے میں نے عرض کیا کہ فلاں صاحب (محمد بن سیرین) تو کہتے ہیں کہ آپ نے کہا تھا کہ رکوع کے بعد ہوتی ہے سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ انہوں نے غلط کہا ہے پھر سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے ہم سے یہ حدیث بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینے تک رکوع کے بعد دعائے قنوت کی تھی اور آپ نے اس میں قبیلہ بنو سلیم کے قبیلوں کے حق میں بد دعا کی تھی انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس یا ستر قرآن کے عالم صحابہ کی ایک جماعت (راوی کو شک تھا) مشرکین کے پاس بھیجی تھی لیکن یہ بنی سلیم کے لوگ (جن کا سردار عامر بن طفیل تھا) ان کے آڑے آئے اور ان کو مار ڈالا حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا معاہدہ تھا (لیکن انہوں نے دغا دی) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی معاملہ پر اتنا رنجیدہ اور غمگین نہیں دیکھا جتنا ان صحابہ کی شہادت پر آپ رنجیدہ تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 394]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 58 كتاب الجزية: 8 باب دعاء الإمام على من نكث عهدا»
وضاحت: یعنی اتنا پریشان کسی پر نہیں ہوئے جتنا قراء پر پریشان اور غمگین ہوئے کیونکہ یہ دوسروں کی نسبت قرآن زیادہ اور کثرت سے پڑھتے تھے۔ ان کی تعداد ستر تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نجد والوں کی طرف بھیجا تھا کہ انہیں اسلام کی دعوت دیں۔ جب یہ بیئرمعونہ کے مقام پر پہنچے تو عامر بن طفیل نے ان پر لشکر کشی کر کے انہیں شہید کر دیا۔ بنو سلیم کے قبیلوں رعل اور ذکوان نے یہ دھوکہ دہی کی تھی۔