اللؤلؤ والمرجان
كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے مسائل
149. باب سترة المصلي
149. باب: نمازی کے سترہ کا بیان
حدیث نمبر: 278
278 صحيح حديث ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا خَرَجَ يَوْمَ الْعِيدِ أَمَر بِالْحَرْبَةِ فَتُوضَعُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَيُصَلي إِلَيْهَا، وَالنَّاسُ وَرَاءَهُ، وَكَانَ يَفْعَلُ ذلِكَ فِي السَّفَرِ، فَمِنْ ثَمَّ اتَّخَذَهَا الأُمَرَاءُ
سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عید کے دن (مدینہ سے) باہر تشریف لے جاتے تو چھوٹے نیزہ (برچھا) کو گاڑنے کا حکم دیتے وہ جب آپ کے آگے گاڑ دیا جاتا تو آپ اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہوتے یہی آپ سفر میں بھی کیا کرتے تھے (مسلمانوں کے) خلفاء نے اسی وجہ سے برچھا ساتھ رکھنے کی عادت بنا لی ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصلاة/حدیث: 278]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 8 كتاب الصلاة: 90 باب سترة الإمام سترة من خلفه»

حدیث نمبر: 279
279 صحيح حديث ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ يُعَرِّضُ رَاحِلَتَهُ فَيُصَلِّي إِلَيْهَا
سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری کو سامنے عرض میں کر لیتے اور اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصلاة/حدیث: 279]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 8 كتاب الصلاة: 98 باب الصلاة إلى الراحلة والبعير والشجر والرحل»

حدیث نمبر: 280
280 صحيح حديث أَبِي جُحَيْفَةَ، أَنَّهُ رَأَى بِلاَلاً يُؤَذِّنُ، فَجَعَلْتُ أَتَتَبَّعُ فَاهُ ههُنَا وَههُنَا بِالأَذانِ
سیّدناابی جحیفہ نے سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دیتے ہوئے دیکھا۔ وہ کہتے ہیں میں بھی ان کے منہ کے ساتھ ادھر ادھر منہ پھیرنے لگا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصلاة/حدیث: 280]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 10 كتاب الأذان: 19 باب هل يتتبع المؤذن فاه ههنا وههنا»

حدیث نمبر: 281
281 صحيح حديث أَبِي جُحَيْفَةَ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قُبَّةٍ حَمْرَاءَ مِنْ أَدَمٍ، وَرَأَيْتُ بِلاَلاً أَخَذَ وَضُوءَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَأَيْتُ النَّاسَ يَبْتَدِرُونَ ذَاكَ الْوَضوءَ، فَمَنْ أَصَابَ مِنْهُ شَيْئًا تَمَسَّحَ بِهِ، وَمَنْ لَمْ يُصِبْ مِنْهُ شَيْئًا أَخَذَ مِنْ بَلَلِ يَدِ صَاحِبِه، ثُمَّ رَأَيْتُ بِلاَلاً أَخَذَ عَنَزَةً فَرَكَزَهَا، وَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ مُشَمِّرًا، صَلَّى إِلَى الْعَنَزَةِ بِالنَّاسِ رَكْعَتَيْنِ، وَرَأَيْتُ النَّاسَ وَالدَّوَابَّ يَمُرُّونَ مِنْ بَيْنَ يَدَيِ الْعَنَزَةِ
سیّدناابو جحیفہ وہب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک سرخ چمڑے کے خیمہ میں دیکھا اور میں نے یہ بھی دیکھا کہ بلال رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرا رہے ہیں اور ہر شخص آپ کے وضو کا پانی حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے اگر کسی کو تھوڑا سا بھی پانی مل جاتا تو وہ اسے اپنے اوپر مل لیتا اور اگر کوئی پانی نہ پا سکتا تو اپنے ساتھی کے ہاتھ کی تری ہی حاصل کرنے کی کوشش کرتا پھر میں نے بلال کو دیکھا کہ انہوں نے اپنی ایک برچھی اٹھائی جس کے نیچے لوہے کا پھل لگا ہوا تھا اور اسے انہوں نے (بطور سترہ) گاڑ دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (ڈیرے میں سے) ایک سرخ پوشاک پہنے ہوئے تہ بند (پنڈلیوں تک)اٹھائے ہوئے باہر تشریف لائے اور برچھی کی طرف منہ کر کے لوگوں کو دو رکعت نماز پڑھائی میں نے دیکھا کہ آدمی اور جانور برچھی کے پرے سے گذر رہے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصلاة/حدیث: 281]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 8 كتاب الصلاة: 17 باب الصلاة في الثوب الأحمر»

وضاحت: امام ابن قیم رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ آپ کا یہ جوڑا مکمل طور پر سرخ نہ تھا بلکہ اس میں سرخ اور کالی دھاریاں تھیں۔ سرخ رنگ کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ کافروں یا عورتوں کی مشابہت کی نیت سے مرد کو سرخ رنگ والے کپڑے پہننے درست نہیں۔ (راز) راوي حدیث: سیّدنا ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ کا اصل نام وہب بن عبداللہ العامری تھا۔ آپ وہب الخیر کے نام سے معروف ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام میں تشریف لائے۔ صغار صحابہ میں شمار ہوتے ہیں۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے انہیں کوفہ میں محکمہ پولیس کا سربراہ بنا دیا تھا۔ کوفہ میں ۷۴ ہجری کو وفات پائی۔

حدیث نمبر: 282
282 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَقْبَلْتُ رَاكِبًا عَلَى حِمَارٍ أَتَانٍ، وَأَنَا يَوْمَئِذٍ قَدْ نَاهَزْتُ الاحْتِلاَمَ، وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِمِنَى إِلَى غَيْرِ جِدَارٍ، فَمَرَرْتُ بَيْنَ يَدَيْ بَعْضِ الصَّفِّ، وَأَرْسَلْتُ الأَتَانَ تَرْتَعُ، فَدَخَلْتُ فِي الصَّفِّ، فَلَمْ يُنْكَرْ ذلِكَ عَلَيَ
سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ٗ کہ میں(ایک مرتبہ) گدھی پر سوار ہو کر چلا، اس زمانے میں‘ بلوغ کے قریب تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں نماز پڑھ رہے تھے۔ اور آپ کے سامنے دیوار (کی آڑ) نہ تھی۔ میں بعض صفوں کے سامنے سے گذرا ‘ اور گدھی کو چھوڑ دیا۔ وہ چرنے لگی‘ اور میں نماز(نماز کے لیے) صف میں داخل ہو گیا(مگر) کسی نے مجھے اس بات پر ٹوکا نہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصلاة/حدیث: 282]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 3 كتاب العلم: 18 باب متى يصح سماع الصغير»