ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا ابتدائی دور اچھے سچے اور پاکیزہ خوابوں سے شروع ہوا آپ خواب میں جو کچھ دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح صحیح اور سچا ثابت ہوتا پھر من جانب قدرت آپ تنہائی پسند ہو گئے اور آپ نے غار حرا میں خلوت نشینی اختیار فرمائی اور کئی کئی دن اور رات وہاں مسلسل عبادت یاد الٰہی اور ذکر و فکر میں مشغول رہتے جب تک گھر آنے کو دل نہ چاہتا توشہ (کھانے پینے کا سامان) ہمراہ لئے ہوئے وہاں رہتے توشہ ختم ہونے پر ہی اہلیہ محترمہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لاتے اور کچھ توشہ ہمراہ لے کر دوبارہ وہاں جا کر خلوت گزیں ہو جاتے یہی طریقہ جاری رہا یہاں تک کہ آپ پر حق منکشف ہو گیا اور آپ غار حرا ہی میں قیام پذیر تھے اچانک حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! پڑھو آپ نے کہا میں پڑھنا نہیں جانتا آپ فرماتے ہیں کہ فرشتے نے مجھے پکڑ کر اتنے زور سے بھینچا کہ میری طاقت جواب دے گئی پھر مجھے چھوڑ کر کہا کہ پڑھو میں نے پھر وہی جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں اس پر فرشتے نے مجھ کو نہایت ہی زور سے بھینچا کہ مجھ کو سخت تکلیف محسوس ہوئی پھر اس نے کہا کہ پڑھ میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں فرشتے نے تیسری بار مجھ کو پکڑا اور تیسری مرتبہ پھر مجھ کو بھینچا پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہنے لگا کہ پڑھو اپنے رب کے نام کی مدد سے جس نے پیدا کیا انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا پڑھو اور آپ کا رب بہت ہی مہربانیاں کرنے والا ہے (العلق۳۱)پس (یہی آیتیں آپ حضرت جبرئیل علیہ السلام سے سن کر) اس حال میں غار حرا سے واپس ہوئے کہ آپ کا دل اس انوکھے واقعہ سے کانپ رہا تھا آپ سیدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھا دو مجھے کمبل اڑھا دو انہوں نے آپ کو کمبل اڑھا دیا جب آپ کا ڈر جاتا رہا تو آپ نے اپنی اہلیہ محترمہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو تفصیل کے ساتھ یہ واقعہ سنایا اور فرمانے لگے کہ مجھ کو اب اپنی جان کا خوف ہو گیا ہے آپ کی اہلیہ محترمہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہانے آپ کی ڈھارس بندھائی اور کہا کہ آپ کا خیال صحیح نہیں ہے اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا آپ تو اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں آپ تو کنبہ پرور ہیں بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں مفلسوں کے لئے آپ کماتے ہیں مہمان نوازی میں آپ بے نظیر ہیں اور مشکل وقت میں آپ امر حق کا ساتھ دیتے ہیں (ایسے اوصاف حسنہ والا انسان یوں بے وقت ذلت و خواری کی موت نہیں پا سکتا) پھر مزید تسلی کے لئے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو ان کے چچا زاد بھائی تھے اور زمانہ جاہلیت میں نصرانی مذہب اختیار کر چکے تھے اور عبرانی زبان کے کاتب تھے چنانچہ انجیل کو بھی حسب منشائے خداوندی عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے وہ بہت بوڑھے ہو گئے تھے یہاں تک کہ ان کی بینائی بھی رخصت ہو چکی تھی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کے سامنے آپ کے حالات بیان کئے اور کہا کہ اے چچا زاد بھائی اپنے بھتیجے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی زبانی ذرا ان کی کیفیت سن لیجئے وہ بولے کہ بھتیجے آپ نے جو کچھ دیکھا ہے اس کی تفصیل سناؤ چنانچہ آپ نے از اول تا آخر پورا واقعہ سنایا جسے سن کر ورقہ بے اختیار ہو کر بول اٹھے کہ یہ تو وہی ناموس (معزز راز داں فرشتہ) ہے جسے اللہ نے سیّدناموسیٰ علیہ السلام پر وحی دے کر بھیجا تھا کاش میں آپ کے اس عہد نبوت کے شروع ہونے پر جوان عمر ہوتا کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو اس شہر سے نکال دے گی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر تعجب سے پوچھا کہ کیا وہ لوگ مجھ کو نکال دیں گے؟ (حالانکہ میں تو ان میں صادق و امین و مقبول ہوں) ورقہ بولا ہاں یہ سب کچھ سچ ہے مگر جو شخص بھی آپ کی طرح امر حق لے کر آیا لوگ اس کے دشمن ہی ہو گئے ہیں اگر مجھے آپ کی نبوت کا وہ زمانہ مل جائے تو میں آپ کی پوری پوری مدد کروں گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 99]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 1 كتاب بدء الوحى: 3 باب حدثنا يحيى ابن بكير»
سیّدناجابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کے رک جانے کے زمانے کے حالات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک روز میں چلا جا رہا تھا کہ اچانک میں نے آسمان کی طرف ایک آواز سنی اور میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا وہ آسمان و زمین کے بیچ میں ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے میں اس سے ڈر گیا اور گھر آنے پر میں نے پھر کمبل اوڑھنے کی خواہش ظاہر کی اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ آیات نازل ہوئیں اے لحاف اوڑھ کر لیٹنے والے اٹھ کھڑا ہو اور لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرا اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر اور اپنے کپڑوں کو پاک صاف رکھ اور گندگی سے دور رہ (المدثر ۵۱) اس کے بعد وحی تیزی کے ساتھ پے در پے آنے لگی۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 100]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 1 كتاب بدء الوحى: 3 باب حدثنا يحيى ابن بكير»
وضاحت: راوي حدیث: سیّدنا جابر بن عبداللہ بن عمرو بن حرام انصاری رضی اللہ عنہ بڑے مجتہد اور امام تھے۔ ابوعبداللہ اور ابوعبدالرحمن کنیتیں تھیں۔ بدر کے علاوہ انیس غزوات میں شریک ہوئے۔ اپنے زمانہ میں مدینہ میں مفتی رہے۔ مسجد نبوی میں درس وتدریس اور افتاء کی مجلس لگایا کرتے تھے۔ آپ نے بڑھاپے کی عمر کو پایا اور آخر میں نابینے ہوگئے تھے۔ نوے سال کی زندگی پائی۔ اور ۷۴ ہجری میں مدینہ منورہ میں فوت ہوئے۔ ۱۵۴۰ احادیث کے راوی ہیں۔ کثرت سے حدیث رسول بیان فرمائی۔
یحییٰ بن کثیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن رحمہ اللہ سے پوچھا تھا کہ قرآن مجید کی کون سی آیت سب سے پہلے نازل ہوئی تھی؟ ابو سلمہ نے فرمایا کہ یاایہا المدثر (اے کپڑے میں لپٹنے والے) میں نے ان سے کہا کہ مجھے تو خبر ملی ہے کہ اقرا باسم ربک الذی خلق سب سے پہلے نازل ہوئی تھی تو انہوں نے کہا کہ میں تمہیں وہی خبر دے رہا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے غار حراء میں تنہائی اختیار کی جب میں وہ مدت پوری کر چکا اور نیچے اتر کر وادی کے بیچ میں پہنچا تو مجھے پکارا گیا میں نے اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں دیکھا اور مجھے دکھائی دیا کہ فرشتہ آسمان اور زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہے پھر میں خدیجہ کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ مجھے کپڑا اڑھا دو اور میرے اوپر ٹھنڈا پانی ڈالو اور مجھ پہ یہ آیت نازل ہوئی اے کپڑے میں لپٹنے والے اٹھئے پھر لوگوں کو عذاب آخرت سے ڈرائیے اور اپنے پروردگار کی بڑائی کیجئے۔ (المدثر: ۳۱)[اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 101]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 74 سورة المدثر: باب حدثنا يحيى»