اللؤلؤ والمرجان
کِتَابُ الْاِیْمَانِ
کتاب: ایمان کا بیان
55. باب بيان الزمن الذي لا يقبل فيه الإيمان
55. باب: اس زمانے کا بیان جب ایمان مقبول نہ ہوگا
حدیث نمبر: 97
97 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا، فَإِذَا طَلَعَتْ وَرَآهَا النَّاسُ آمَنُوا أَجْمَعُونَ، وَذَلِكَ حِينَ لاَ يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا ثُمَّ قَرَأَ الآية
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو لے جب مغرب سے سورج طلوع ہو گا اور لوگ دیکھ لیں گے تو سب ایمان لائیں گے لیکن یہ وہ وقت ہو گا جب کسی کو اس کا ایمان نفع نہ دے گا پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی کیا یہ اس بات کے منتظر ہیں؟ کہ ان کے پاس فرشتے آئیں؟ یا تیرا رب آئے؟ یا تیرے رب کی بعض نشانیاں آ جائیں؟ جس دن تیرے رب کی بعض نشانیاں آ جائیں گی تو کسی شخص کو جو اس سے پہلے ایمان نہیں لایا تھا اس کا ایمان مطلق فائدہ نہ دے گا نہ اسے جس نے اپنے ایان کی حالت میں نیکیاں نہ کی ہوں کہدے کہ اچھا منتظر رہو ہم بھی انتظار کر رہے ہیں۔ (الانعام ۱۵۸) [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 97]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 6 سورة الأنعام: 9 باب هلمّ شهداءكم»

وضاحت: یعنی نماز میں امام تم میں سے ہوگا اور عیسیٰ علیہ السلام اس کی اقتدا کریں گے۔ ان کے مقتدی بنیں گے۔ (مرتبؒ)

حدیث نمبر: 98
98 صحيح حديث أَبِي ذَرٍّ رضي الله عنه، قَالَ: دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ، فَلَمَّا غَرَبَتِ الشَّمْسُ قَالَ: يَا أَبَا ذَرٍّ هَلْ تَدْرِي أَيْنَ تَذْهَبُ هذِهِ قَالَ قُلْتُ اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ: فَإِنَّهَا تَذْهَبُ تَسْتَأْذِنُ فِي السُّجُودِ فَيُؤْذَنُ لَهَا وَكَأَنَّهَا قَدْ قِيل لَهَا ارْجِعِي مِنْ حَيْثُ جِئْتِ، فَتَطْلُعُ مِنْ مَغْرِبِهَا ثُمَّ قَرَأَ (ذَلِكَ مُسْتَقَرٌّ لَهَا)
سیّدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں مسجد میں داخل ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے پھر جب سورج غروب ہوا تو آپ نے فرمایا اے ابوذر کیا تمہیں معلوم ہے یہ کہاں جاتا ہے؟ بیان کیا کہ میں نے عرض کی کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جاننے والے ہیں فرمایا کہ یہ جاتا ہے اور سجدہ کی اجازت چاہتا ہے پھر اسے اجازت دی جاتی ہے اور گویا اس سے کہا جاتا ہے کہ واپس وہاں جاؤ جہاں سے آئے ہو۔ چنانچہ وہ مغرب کی طرف سے طلوع ہوتا ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھی ذالک مستقرلہا۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 98]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في:97 كتاب التوحيد: 22 باب وكان عرشه على الماء وهو رب العرش العظيم»