36. باب بيان غلظ تحريم قتل الإِنسان نفسه وأن من قتل نفسه بشيء عذب به في النار، وأنه لا يدخل الجنة إلا نفس مسلمة
36. باب: خود کشی کی سخت حرمت اور خود کشی کرنے والے کا عذاب جہنم میں مبتلا ہونا اور جنت میں سوائے مسلمان کے کسی کا نہ جانا
حدیث نمبر: 69
69 صحيح حديث أَبي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ تَرَدَّى مِنْ جَبَلٍ فَقَتَلَ نَفْسَهُ فَهُوَ في نَارِ جَهَنَّمَ يَتَرَدَّى فِيهِ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيها أَبَدًا، وَمَنْ تَحَسَّى سُمًّا فَقَتَلَ نَفْسَهُ فَسُمُّهُ في يَدِهِ يَتَحَسَّاهُ في نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فيها أَبَدًا، وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِحَديدَةٍ فَحَدِيدَتُهُ في يَدِهِ يَجَأُ بِها في بَطْنِهِ في نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيها أَبَدًا
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے پہاڑ سے اپنے آپ کو گرا کر خود کشی کر لی وہ جہنم کی آگ میں ہو گا اور اس میں ہمیشہ پہاڑ سے گرتا رہے گا اور جس نے زہر پی کر خود کشی کر لی تو وہ زہر اس کے ہاتھ میں ہو گا اور جہنم کی آگ میں وہ اسے اسی طرح ہمیشہ پیتا رہے گا اور جس نے لوہے کے کسی ہتھیار سے خود کشی کر لی تو اس کا ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہو گا اور جہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لیے وہ اسے اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 69]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 76 كتاب الطب: 56 باب شرب السم والدواء به وبما يخاف منه»
سیّدنا ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ صحاب شجر (بیعت رضوان کرنے والوں) میں سے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اسلام کے سوا کسی اور مذہب پر قسم کھائے (کہ اگر میں نے فلاں کام کیا تو میں نصرانی ہوں، یہودی ہوں) تو وہ ایسے ہی ہو جائے گا جیسے اس نے کہا اور کسی انسان پر ان چیزوں کی نذر صحیح نہیں ہوتی جو اس کے اختیار میں نہ ہوں۔ اور جس نے دنیا میں کسی چیز سے خود کشی کر لی اسے اسی چیز سے آخرت میں عذاب ہوگا، اور جس نے کسی مسلمان پر لعنت بھیجی تو یہ اس کا خون کرنے کے برابر ہے اور جو شخص کسی مسلمان کو کافر کہے تو وہ ایسا ہے جیسے اس کا خون کیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 70]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 78 كتاب الأدب: 44 باب ما ينهى من السباب واللعن»
وضاحت: راوي حدیث: سیّدنا ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو یزید ہے۔ آپ بیعت رضوان میں شریک ہوئے، بقول امام ترمذی بدر میں حاضر ہوئے۔ تین نبوی کو پیدا ہوئے، اور ۴۵ ہجری کو وفات پائی۔
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں موجود تھے آپ نے ایک شخص کے متعلق جو اپنے کو مسلمان کہتا تھا فرمایا کہ یہ شخص دوزخ والوں میں سے ہے جب جنگ شروع ہوئی تو وہ شخص (مسلمانوں کی طرف سے) بڑی بہادری کے ساتھ لڑا، اور وہ زخمی بھی ہو گیا صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ جس کے متعلق آپ نے فرمایا تھا کہ وہ دوزخ میں جائے گا آج تو وہ بڑی بے جگری کے ساتھ لڑا ہے اور (زخمی ہو کر) مر بھی گیا ہے آپ نے اب بھی وہی جواب دیا کہ جہنم میں گیا سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ممکن تھا کہ بعض لوگوں کے دل میں کچھ شبہ پیدا ہو جاتا لیکن ابھی لوگ اسی غورو فکر میں تھے کہ کسی نے بتایا کہ ابھی وہ مرا نہیں ہے البتہ زخم کاری ہے پھر جب رات آئی تو اس نے زخموں کی تاب نہ لا کر خود کشی کر لی جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی گئی تو آپ نے فرمایا اللہ اکبر میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں پھر آپ نے سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا اور انہوں نے لوگوں میں یہ اعلان کر دیا کہ مسلمان کے سوا جنت میں کوئی اور داخل نہیں ہو گا اور اللہ تعالیٰ کبھی کبھی اپنے دین کی امداد کسی فاجر شخص سے بھی کرا لیتا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 71]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد: 182 باب إن الله يؤيد الدين بالرجل الفاجر»
وضاحت: کیونکہ وہ مسلمان ہو چکا ہے جس کا خون محفوظ ہے۔ اور اسلام اس غلطی پر غالب آگیا ہے جو اس نے تیرا ہاتھ کاٹا تھا۔ یعنی قصاص کی وجہ سے تیرا خون بہانا جائز ہوگیا ہے۔ (مرتبؒ)
سیّدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (اپنے اصحاب کے ہمراہ احد یا خیبر کی لڑائی میں) مشرکین سے مڈبھیڑ ہوئی اور جنگ چھڑ گئی پھر جب آپ (اس دن لڑائی سے فارغ ہو کر) اپنے پڑاؤ کی طرف واپس ہوئے اور مشرکین اپنے پڑاؤ کی طرف تو آپ کی فوج کے ساتھ ایک شخص تھا لڑائی لڑنے میں اس کا یہ حال تھا کہ مشرکین کا کوئی آدمی بھی اگر کسی طرف نظر پڑ جاتا تو اس کا پیچھا کر کے وہ شخص اپنی تلوار سے اسے قتل کر دیتا سہل رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق کہا کہ آج جتنی سر گرمی کے ساتھ فلاں شخص لڑا ہے ہم میں کوئی بھی اس طرح نہ لڑ سکا آپ نے اس پر فرمایا کہ لیکن وہ شخص دوزخی ہے مسلمانوں میں سے ایک شخص نے (اپنے دل میں) کہا اچھا میں اس کا پیچھا کروں گا (دیکھوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کیوں دوزخی فرمایا ہے) بیان کیا کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ (دوسرے دن لڑائی میں موجود) رہا جب کبھی وہ کھڑا ہو جاتا تو یہ بھی کھڑا ہو جاتا اور جب وہ تیز چلتا تو یہ بھی اس کے ساتھ تیز چلتا بیان کیا کہ آخر وہ شخص زخمی ہو گیا زخم بڑا گہرا تھا اس لئے اس نے چاہا کہ موت جلدی آ جائے اور اپنی تلوار کا پھل زمین پر رکھ کر اس کی دھار کو سینے کے مقابلہ میں کر لیا اور تلوار پر گر کر اپنی جان دے دی اب وہ صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں آپ نے دریافت فرمایا کیا بات ہوئی؟ انہوں نے بیان کیا کہ وہی شخص جس کے متعلق آپ نے فرمایا تھا کہ وہ دوزخی ہے، صحابہ رضی اللہ عنہم پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بڑا شاق گذرا تھا میں نے ان سے کہا کہ تم سب لوگوں کی طرف سے میں اس کے متعلق تحقیق کرتا ہوں چنانچہ میں اس کے پیچھے ہو لیا اس کے بعد وہ شخص سخت زخمی ہوا اور چاہا کہ جلدی موت آ جائے اس لئے اس نے اپنی تلوار کا پھل زمین پر رکھ کر اس کی دھار کو اپنے سینے کے مقابل کر لیا اور اس پر گر کر خود جان دے دی اس وقت آپ نے فرمایا کہ ایک آدمی زندگی بھر بظاہر اہل جنت کے سے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل دوزخ میں سے ہوتا ہے اور ایک آدمی بظاہر اہل دوزخ کے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل جنت میں ہوتا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 72]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد: 77 باب لا يقول فلان شهيد»
وضاحت: راوي حدیث: سیّدنا سہل بن سعد بن مالک رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو العباس الساعدی تھی۔ ان کا نام حزن تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدل کر سہل رکھ دیا۔ بڑے مشہور صحابی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت ان کی عمر ۱۵سال تھی۔ مدینہ منورہ میں سب سے آخر میں فوت ہونے والے صحابی ہیں۔ ۹۱ ہجری کو وفات پائی۔ متعدد احادیث کے راوی ہیں۔
سیّدنا جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پچھلے زمانے میں ایک شخص (کے ہاتھ میں) زخم ہو گیا تھا اور اسے اس سے بڑی تکلیف تھی، آخر اس نے چھری سے اپنا ہاتھ کاٹ لیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خون بہنے لگا اور اسی سے وہ مر گیا پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے نے خود میرے پاس آنے میں جلدی کی اس لئے میں نے بھی جنت کو اس پر حرام کر دیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 73]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 60 كتاب الأنبياء: 50 باب ما ذكر عن بني إسرائيل»
وضاحت: راوي حدیث: سیّدنا جندب بن عبداللہ بن سفیان رضی اللہ عنہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اپنے دادا کی طرف منسوب ہوتے تھے۔ کوفہ اور بصرہ میں رہائش پذیر رہے۔ انہیں جندب الخیر، جندب الفاروق اور جندب ابن ام جندب بھی کہا جاتا ہے۔ ۶۴ ہجری کوفات پائی۔