سیّدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (اپنے اصحاب کے ہمراہ احد یا خیبر کی لڑائی میں) مشرکین سے مڈبھیڑ ہوئی اور جنگ چھڑ گئی پھر جب آپ (اس دن لڑائی سے فارغ ہو کر) اپنے پڑاؤ کی طرف واپس ہوئے اور مشرکین اپنے پڑاؤ کی طرف تو آپ کی فوج کے ساتھ ایک شخص تھا لڑائی لڑنے میں اس کا یہ حال تھا کہ مشرکین کا کوئی آدمی بھی اگر کسی طرف نظر پڑ جاتا تو اس کا پیچھا کر کے وہ شخص اپنی تلوار سے اسے قتل کر دیتا سہل رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق کہا کہ آج جتنی سر گرمی کے ساتھ فلاں شخص لڑا ہے ہم میں کوئی بھی اس طرح نہ لڑ سکا آپ نے اس پر فرمایا کہ لیکن وہ شخص دوزخی ہے مسلمانوں میں سے ایک شخص نے (اپنے دل میں) کہا اچھا میں اس کا پیچھا کروں گا (دیکھوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کیوں دوزخی فرمایا ہے) بیان کیا کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ (دوسرے دن لڑائی میں موجود) رہا جب کبھی وہ کھڑا ہو جاتا تو یہ بھی کھڑا ہو جاتا اور جب وہ تیز چلتا تو یہ بھی اس کے ساتھ تیز چلتا بیان کیا کہ آخر وہ شخص زخمی ہو گیا زخم بڑا گہرا تھا اس لئے اس نے چاہا کہ موت جلدی آ جائے اور اپنی تلوار کا پھل زمین پر رکھ کر اس کی دھار کو سینے کے مقابلہ میں کر لیا اور تلوار پر گر کر اپنی جان دے دی اب وہ صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں آپ نے دریافت فرمایا کیا بات ہوئی؟ انہوں نے بیان کیا کہ وہی شخص جس کے متعلق آپ نے فرمایا تھا کہ وہ دوزخی ہے، صحابہ رضی اللہ عنہم پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بڑا شاق گذرا تھا میں نے ان سے کہا کہ تم سب لوگوں کی طرف سے میں اس کے متعلق تحقیق کرتا ہوں چنانچہ میں اس کے پیچھے ہو لیا اس کے بعد وہ شخص سخت زخمی ہوا اور چاہا کہ جلدی موت آ جائے اس لئے اس نے اپنی تلوار کا پھل زمین پر رکھ کر اس کی دھار کو اپنے سینے کے مقابل کر لیا اور اس پر گر کر خود جان دے دی اس وقت آپ نے فرمایا کہ ایک آدمی زندگی بھر بظاہر اہل جنت کے سے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل دوزخ میں سے ہوتا ہے اور ایک آدمی بظاہر اہل دوزخ کے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل جنت میں ہوتا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 72]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد: 77 باب لا يقول فلان شهيد»
وضاحت: راوي حدیث: سیّدنا سہل بن سعد بن مالک رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو العباس الساعدی تھی۔ ان کا نام حزن تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدل کر سہل رکھ دیا۔ بڑے مشہور صحابی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت ان کی عمر ۱۵سال تھی۔ مدینہ منورہ میں سب سے آخر میں فوت ہونے والے صحابی ہیں۔ ۹۱ ہجری کو وفات پائی۔ متعدد احادیث کے راوی ہیں۔