سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں موجود تھے آپ نے ایک شخص کے متعلق جو اپنے کو مسلمان کہتا تھا فرمایا کہ یہ شخص دوزخ والوں میں سے ہے جب جنگ شروع ہوئی تو وہ شخص (مسلمانوں کی طرف سے) بڑی بہادری کے ساتھ لڑا، اور وہ زخمی بھی ہو گیا صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ جس کے متعلق آپ نے فرمایا تھا کہ وہ دوزخ میں جائے گا آج تو وہ بڑی بے جگری کے ساتھ لڑا ہے اور (زخمی ہو کر) مر بھی گیا ہے آپ نے اب بھی وہی جواب دیا کہ جہنم میں گیا سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ممکن تھا کہ بعض لوگوں کے دل میں کچھ شبہ پیدا ہو جاتا لیکن ابھی لوگ اسی غورو فکر میں تھے کہ کسی نے بتایا کہ ابھی وہ مرا نہیں ہے البتہ زخم کاری ہے پھر جب رات آئی تو اس نے زخموں کی تاب نہ لا کر خود کشی کر لی جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی گئی تو آپ نے فرمایا اللہ اکبر میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں پھر آپ نے سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا اور انہوں نے لوگوں میں یہ اعلان کر دیا کہ مسلمان کے سوا جنت میں کوئی اور داخل نہیں ہو گا اور اللہ تعالیٰ کبھی کبھی اپنے دین کی امداد کسی فاجر شخص سے بھی کرا لیتا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 71]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد: 182 باب إن الله يؤيد الدين بالرجل الفاجر»
وضاحت: کیونکہ وہ مسلمان ہو چکا ہے جس کا خون محفوظ ہے۔ اور اسلام اس غلطی پر غالب آگیا ہے جو اس نے تیرا ہاتھ کاٹا تھا۔ یعنی قصاص کی وجہ سے تیرا خون بہانا جائز ہوگیا ہے۔ (مرتبؒ)