صحيح الادب المفرد
حصہ دوئم: احادیث 250 سے 499
242.  باب الحياء
حدیث نمبر: 466
466/597 عن ابن مسعود، عقبة قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" إن مما أدرك الناس من كلام النبوة [الأولى/1316]: إذا لم تستحي فاصنع ما شئت".
ابومسعود عقبہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک لوگوں نے سابقہ نبوت کے کلام میں سے جو کچھ لیا اس میں سے یہ ہے: جب تم میں حیا نہ رہے تو جو چاہو کرو۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 466]
تخریج الحدیث: (صحيح)

حدیث نمبر: 467
467/598 عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:"الإيمان بضع وستون- أو بضع وسبعون – شعبة؛ أفضلها لا إله إلا الله، وأدناها إماطة الأذى عن الطريق، والحياء شعبة من الإيمان".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان کی ساٹھ یا ستر سے اوپر کچھ شاخیں ہیں ان میں سے افضل ترین «لا اله الا الله» ہے اور ادنیٰ ترین راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹانا ہے اور حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 467]
تخریج الحدیث: (صحيح)

حدیث نمبر: 468
468/599 عن أبي سعيد قال:"كان النبي صلى الله عليه وسلم أشد حياء من العذراء(1) في خدرها، وكان إذا كره [شيئاً] عرفناه في وجهه".
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیادار تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات ناپسند فرماتے تھے تو ہم آپ کے چہرے سے اسے معلوم کر لیتے تھے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 468]
تخریج الحدیث: (صحيح)

حدیث نمبر: 469
469/600 عن عثمان وعائشة: أن أبا بكر استأذن على رسول الله صلى الله عليه وسلم – وهو مضطجعٌ على فراش عائشة، لابساً مرط عائشة- فأذن لأبي بكر وهو كذلك، فقضى إليه حاجته، ثم انصرف. ثم استأذن عمر رضي الله عنه، فأذن له وهو كذلك، فقضى إليه حاجته، ثم انصرف. قال عثمان: ثم استأذنت عليه، فجلس. وقال لعائشة:"اجمعي إليك ثيابك". فقضيت إليه حاجتي ثم انصرفتُ.قال: فقالت عائشة: يا رسول الله! لم أرك فزعت لأبي بكر وعمر رضي الله عنهما كما فزعت لعثمان؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"إن عثمان رجل حيي، وإني خشيت أن أذنتُ له- وأنا على تلك الحال- أن لا يبلغ إليّ في حاجته".
سیدنا عثمان اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (حاضر ہونے کی) اجازت چاہی، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بستر پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی چادر لپیٹے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اجازت دے دی جبکہ آپ اسی حال میں تھے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جو کام تھا وہ انہوں نے پورا کیا پھر چلے گئے۔ اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی اجازت دے دی اور آپ اسی حال میں تھے، انہوں نے اپنے ضرورت پوری کی پھر وہ چلے گئے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی، تو آپ سنبھل کر بیٹھ گئے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ اپنے کپڑے سمیٹ لو انہوں نے کہا: میں نے آپ سے اپنی ضرورت پوری کی پھر میں چلا گیا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں: یا رسول اللہ! میں نے دیکھا کہ آپ نے ابوبکر و عمر کے لئے وہ اہتمام نہیں کیا جو عثمان کے لئے کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عثمان بہت حیادار انسان ہیں مجھے یہ ڈر لاحق ہوا کہ اگر میں نے اسی حال میں ان کو بھی اندر آنے کی اجازت دے دی تو وہ اپنی ضرورت کی بات مجھ سے نہ کر سکیں گے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 469]
تخریج الحدیث: (صحيح)

حدیث نمبر: 470
470/601 عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:"ما كان الحياء في شيء إلا زانه، ولا كان الفحش في شيء إلا شانه".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حیا جس چیز میں بھی ہو اسے مزین کر دیتی ہے اور بے حیائی جس چیز میں بھی ہو اسے عیب دار کر دیتی ہے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 470]
تخریج الحدیث: (صحيح)

حدیث نمبر: 471
471/602 عن سالم، عن أبيه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر برجل يعظ (وفي رواية … يعاتب) أخاه في الحياء، [ حتى كأنه يقول: أضرّ بك] فقال:" دعهُ؛ فإن الحياء من الإيمان".
سالم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے وہ اپنے بھائی کو حیا کے بارے میں وعظ کر رہا تھا (اس پر ناراض ہو رہا تھا اور اس کو ڈانٹ رہا تھا) یہاں تک کہ وہ یہ کہہ رہا تھا: تم اتنی حیا کرتے ہو کہ تمہیں نقصان ہوتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے چھوڑ دو، بیشک حیا ایمان میں سے ہے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 471]
تخریج الحدیث: (صحيح)

حدیث نمبر: 472
472/603 عن عائشة قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم مضطجعاً في بيتي، كاشفاً عن فخه أو ساقيه(2)، فاستأذن أبو بكر رضي الله عنه فأذن له كذلك، فتحدث، ثم استأذن عمر رضي الله عنه، فأذن له كذلك، ثم تحدّث. ثم استأذن عثمان رضي الله عنه، فجلس النبي صلى الله عليه وسلم وسوى ثيابه- قال محمد: ولا أقول في يوم واحد- فدخل، فتحدث، فلما خرج. قالت: قلت:"يا رسول الله! دخل أبو بكر فلم تهِشّ ولم تباله، ثم دخل عمر فلم تهش ولم تباله، ثم دخل عثمان فجلست وسويت ثيابك؟ قال:"ألا أستحي من رجل تستحي منه الملائكة؟".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں لیٹے ہوئے تھے اور آپ نے ران کو یا دونوں پنڈلیوں کو کھولا ہوا تھا اتنے میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی آپ نے اسی حالت میں انہیں اندر آنے کی اجازت دے دی انہوں نے آ کر باتیں کی اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی آپ نے اسی حالت میں انہیں بھی اجازت دے دی انہوں نے آ کر باتیں کی اس کے بعد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور آپ نے اپنے کپڑے درست کیے۔ محمد (راوی) نے کہا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ ایک ہی دن میں (وہ تینوں آئے)۔ وہ داخل ہوئے انہوں نے باتیں کیں پھر جب وہ چلے گئے تو عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے کہا: یا رسول اللہ! ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے آپ نہ ہلے جلے نہ ہی پرواہ کی، پھر عمر رضی اللہ عنہ آئے آپ نہ ہلے جلے نہ پرواہ کی، لیکن جب عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور آپ نے کپڑے بھی درست کیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے حیا کرتے ہیں؟ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 472]
تخریج الحدیث: (صحيح)