458/588 عن ابن عباس قال:" لو أن جبلاً بغى على جبل لدُك الباغي".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اگر ایک پہاڑ دوسرے پہاڑ پر ظلم کرے تو ظلم کرنے والے کو ریزہ ریزہ کر دیا جائے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 458]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 459
459/590 عن فضالة بن عبيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" ثلاثة لا يسأل عنهم، رجل فارق الجماعة، وعصى إمامه فمات عاصياً؛ فلا تسأل عنه، وأمَةٌ أو عبد أبق من سيده، وامرأة غاب زوجها، وكفاها مؤونة الدنيا فتبرجت وتمرجت بعده. وثلاثة لا يسأل عنهم: رجل نازع اللهَ رداءَه؛ فإن رداءه الكبرياء، وإزاره عزّه. ورجل شك في أمر الله، والقنوط من رحمة الله".
سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین قسم کے آدمیوں سے کوئی سوال نہیں کیا جائے گا، ایک وہ آدمی جس نے جماعت سے علیحدگی اختیار کی اپنے امام کی نافرمانی کی اور گناہ گاری میں ہی فوت ہو گیا، اس کے بارے میں تم کچھ نہ پوچھو (کہ اس کا کیا حال ہو گا)، دوسری وہ لونڈی یا غلام جو اپنے آقا کو چھوڑ کر بھاگ گیا، تیسری وہ عورت جس کا شوہر گھر میں موجود نہ ہو، وہ اس کو دنیا کے اخراجات سے کفایت کرتا ہو تو وہ اس کے بعد گھر سے باہر زینت لگا کر نکلنے لگے اور آدمیوں میں گھلنے ملنے لگے۔ تین آدمی ایسے ہیں ان سے سوال نہ کیا جائے گا (یعنی سیدھے مجرم ہوں گے) وہ آدمی جس نے اللہ سے اس کی اوپر لینے والی چادر چھینی، بیشک اللہ کی اوپر لینے والی چادر کبریائی ہے اور بیشک اس کا نیچے کا تہبند اس کی عزت ہے، دوسرا وہ آدمی جو اللہ کے بارے میں شک و شبہ کا شکار ہے اور تیسرا اللہ کی رحمت سے مایوس ہونے والا۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 459]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 460
460/591 عن بكار بن عبد العزيز، عن أبيه، عن جده [ أبي بكرة]، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" كل ذنوب يؤخر الله منها ما شاء إلى يوم القيامة إلا البغي، وعقوق الولدين، أو قطعية الرحم، يعجل لصاحبها في الدنيا قبل الموت".
بکار بن عبدالعزیز اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا (ابوبکرہ) سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمام گناہوں میں سے جن کی سزا اللہ چاہے گا قیامت کے دن تک موخر کر دے گا سوائے ظلم، والدین کی نافرمانی اور قطع رحمی کے۔ ایسے آدمی کو اللہ موت سے پہلے دنیا میں ہی جلد سزا دے دیتا ہے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 460]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 461
461/592 عن أبي هريرة، قال:" يبصر أحدكم القذاة في أعين أخيه، وينسى الجذل- أو الجذع – في عين نفسه". قال أبو عبيد:"الجذل": الخشبة العالية الكبيرة.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ تم میں سے کوئی ایک آدمی اپنے بھائی کی آنکھ میں تنکا تو دیکھ لیتا ہے لیکن اپنی آنکھ میں ایک بڑی لکڑی (شہتیر) یا کھجور کے تنے کو بھول جاتا ہے۔ ابوعبید نے کہا: «الجذل» سے مراد ہے: بڑی اور اونچی لکڑی ہے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 461]
تخریج الحدیث: (صحيح موقوفاً)
حدیث نمبر: 462
462/593 عن معاوية بن قرة قال: كنت مع معقل المزني، فأماط أذى عن طريق فرأيت شيئاً فبادرته. فقال: ما حملك على ما صنعت يا ابن أخي؟ قال: رأيتك تصنع شيئاً فصنعته. فقال: أحسنت يا ابن أخي! سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول:"من أماط أذى عن طريق مسلمين، كتب له حسنة، ومن تقبلت له حسنة، دخل الجنة".
معاویہ بن قرہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ میں معقل مزنی کے ساتھ تھا تو انہوں نے راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹا دی میں نے بھی ایک چیز دیکھی تو میں نے بڑھ کر اسے ہٹا دیا اس پر معقل نے کہا: اے میرے بھتیجے! تم نے ایسا کیوں کیا؟ میں نے کہا: میں نے آپ کو ایک کام کرتے ہوئے دیکھا تو میں نے بھی کیا۔ انہوں نے کہا: اے بھتیجے! تم نے اچھا کیا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس نے مسلمانوں کی راہ سے کوئی تکلیف دہ چیز ہٹا دی تو اس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے اور جس کی ایک نیکی بھی قبول ہو جائے وہ جنت میں جائے گا۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 462]