394/509 عن هشام، عن أبيه قال: دخلت أنا وعبد الله بن الزبيرعلى أسماء- قبل قتل عبد الله بعشر ليال- وأسماء وجعة. فقال لها عبد الله: كيف تجدينك؟ قالت: وجعة. قال: إني في الموت. فقالت: لعلك تشتهي موتي، فلذلك تتمناه؟ فلا تفعل، فوالله ما أشتهي أن أموت حتى يأتي على أحد طرفيك، أو تُقتل فأحتسبك، وإما أن تظفر فتقر عيني، فإياك أن تعرض عليك خطة، فلا توافقك، فتقبلها كراهية الموت.وإنما عنى ابن الزبير ليقتل فيحزنها ذلك.
ہشام اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں اور عبداللہ بن زبیر، عبداللہ (بن زبیر) کے قتل سے دس دن پہلے سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا بیمار تھیں۔ عبداللہ نے ان سے کہا: کیسی طبیعت ہے؟ انہوں نے کہا: مجھے تکلیف ہے، عبداللہ نے کہا: مجھے موت درپیش ہے (میری موت یقینی ہے)، اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا: شاید آپ چاہتے ہیں کہ میں مر جاؤں اس لیے آپ اس کی تمنا کرتے ہیں، ایسا نہ کرو، اللہ کی قسم! میں موت نہیں چاہتی، جب تک آپ کا ایک فیصلہ نہ ہو جائے، یا آپ قتل کر دیے جائیں میں اس پر صبر کروں یا آپ فتح مند ہو جائیں اور میری آنکھیں ٹھنڈی ہوں، خبردار کسی بھی تجویز پر جس سے آپ کو اتفاق نہ ہو موت کے ڈر سے راضی نہ ہو جانا، عبداللہ کے دل میں یہ تھا کہ وہ قتل ہو جائیں گے تو اسماء رضی اللہ عنہا (ان کی والدہ کو) صدمہ نہ اٹھانا پڑے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 394]
تخریج الحدیث: (صحيح الإسناد)
حدیث نمبر: 395
395/510 عن أبي سعيد الخدري: أنه دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو موعوك، عليه قطيفة، فوضع يده عليه، فوجد حرارتها فوق القطيفة. فقال أبو سعيد: ما أشد حماك يا رسول الله! قال:"إنا كذلك، يشتد علينا البلاء، ويضاعف لنا الأجر". فقال: يا رسول الله! أي الناس أشد بلاء؟. قال:"الأنبياء ثم الصالحون، وقد كان أحدهم يبتلى بالفقر، حتى ما يجد إلا العباءة(1) يجوبُها فيلبسها، ويبتلى بالقمل حتى يقتله، ولأحدهم كان أشد فرحاً بالبلاء، من أحدكم بالعطاء".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس وقت آپ کو شدید بخار تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک چادر تھی، انہوں نے چادر کے اوپر اپنا ہاتھ رکھا تو چادر کے اوپر سے بخار کی تپش محسوس کی تو ابوسعید نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کا بخار کتنا تیز ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس طرح ہم پر آزمائش بہت سخت ہوتی ہے اسی طرح ہمارے لیے اجر بھی دہرا ہوتا ہے۔“ اس پر (ابوسعید نے) کہا: یا رسول اللہ! کون لوگ سب سے زیادہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انبیاء پھر صالحین۔ اور ان میں سے ایک آدمی کو فقر سے آزمایا جاتا یہاں تک کہ اس کے پاس ایک لمبے چوغے کے سوا کچھ نہ ہوتا جس کو وہ گریبان سے کاٹ کر پہن لیتا، اور جوؤں میں مبتلا کر دیا جاتا یہاں تک کہ وہ (جوئیں) اسے مار ڈالتیں اور یہ لوگ آزمائش سے اتنے مسرور ہوتے تھے جتنا کہ تم میں سے کوئی عطیہ سے بھی نہیں ہو تا۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 395]