121/163 عن أبي أمامة قال: أقبل النبي صلى الله عليه وسلم معه غلامان، فوهب أحدهما لعلي صلوات الله عليه، وقال:" لا تضربه؛ فإني نهيت عن ضرب أهل الصلاة، وإني رأيته يصلي منذ أقبلنا". وأعطى أبا ذر غلاماً، وقال:"استوص به معروفاً" فأعتقه، فقال:"ما فعل؟" قال: أمرتني أن استوصي به خيراً، فأعتقته.
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو غلام تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک سیدنا علی صلوات اللہ علیہ کو دے دیا اور فرمایا: ”اس کو نہ مارنا، مجھے نمازیوں کو مارنے سے منع کیا گیا ہے اور جب سے ہم آئے ہیں میں نے اس کو دیکھا ہے یہ نماز پڑھتا ہے“ اور سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کو ایک دوسرا غلام دے دیا اور فرمایا: ”میری طرف سے اس کے متعلق اچھے سلوک کرنے کی نصیحت حاصل کر لو۔“ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے اسے آزاد کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اس کا کیا کیا؟“ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ نے مجھے حکم دیا تھا کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا تو میں نے اُسے آزاد کر دیا۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 121]
تخریج الحدیث: (حسن)
حدیث نمبر: 122
122/164 عن أنس قال: قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة وليس له خادم، فأخذ أبو طلحة بيدي، فانطلق بي، حتى أدخلني على النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا نبي الله! إن أنساً غلام كيّس لبيب؛ فليخدمك، قال:"فخدمته في السفر والحضر، مقدمه المدينة، حتى توفي صلى الله عليه وسلم، ما قال لي لشيء صنعته: لم صنعت هذا هكذا؟ ولا قال لي لشيء لم أصنعه: ألا صنعت هذا هكذا؟".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی خادم نہ تھا۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے لے کر چلے یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ اور کہا: یا نبی اﷲ! یہ انس سمجھدار اور ذہین لڑکا ہے، یہ آپ کی خدمت کرے گا۔ سیدنا انس رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ پھر میں نے مدینہ میں تشریف آوری سے وفات تک سفر و حضر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مجھ سے کسی کام کرنے پر یہ نہ کہا کہ کہ تم نے ایسا کیوں کیا اور نہ کسی کام کے نہ کرنے پر کبھی یہ فرمایا کہ ایسا کیوں نہ کیا۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 122]