سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکان کے سامنے کھلی جگہ پر، اور راستوں پر بیٹھنے سے منع فرمایا۔ مسلمانوں نے عرض کیا: ہم میں اس کی طاقت نہیں، یعنی ایسا کرنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم ایسا نہیں کر سکتے تو راستے کا حق ادا کرو۔“ صحابہ نے عرض کیا: اس کا حق کیا ہے؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”نگاہوں کو پست رکھنا، مسافر کی راہنمائی کرنا، چھینکنے والا الحمد للہ کہے تو اس کا جواب دینا، اور سلام کا جواب دینا۔“[الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 1014]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: سب سے بڑا بخیل وہ ہے جو سلام میں بخل کرے، اور نقصان میں وہ ہے جو سلام کا جواب نہ دے۔ اگر تیرے اور تیرے بھائی کے درمیان درخت حائل ہو جائے تو اگر طاقت رکھتا ہے کہ سلام میں پہل کرے تو کرنا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 1015]
تخریج الحدیث: «ضعيف الإسناد موقوفًا: تفرد المصف بهذا التفصيل»
سالم مولی عبداللہ بن عمرو رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کو جب سلام کہا جاتا تو سلام کے جواب میں زیادہ کلمات فرماتے۔ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ وہ تشریف فرما تھے تو میں نے کہا: السلام علیکم! انہوں نے جواب دیا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ! میں پھر ایک مرتبہ آیا اور کہا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ! تو انہوں نے جواب دیا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ! پھر ایک دفعہ ان کے پاس آیا تو میں نے کہا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ! انہوں نے جواب دیا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ و طبيب صلواتہ! تجھ پر سلامتی، اللہ کی رحمت اور اس کی برکات اور اس کی پاکیزه صلوات ہوں۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 1016]
تخریج الحدیث: «ضعيف الإسناد موقوفًا: تفرد به المصنف»