جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے چودہویں کے چاند کی طرف دیکھا، اور فرمایا: ”عنقریب تم لوگ اپنے رب کو دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو کہ اس کے دیکھنے میں تمہیں کوئی پریشانی لاحق نہیں ہو رہی ہے، لہٰذا اگر تم طاقت رکھتے ہو کہ سورج کے نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے نماز سے پیچھے نہ رہو تو ایسا کرو“۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: «وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب»”اپنے رب کی تسبیح و تحمید بیان کیجئے سورج کے نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے“(سورة ق: 39)۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 177]
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے اہل ایمان کے لئے جنت میں اللہ تعالیٰ کی رویت ثابت ہوتی ہے، نیز اللہ رب العزت کے لئے علو اور بلندی کی صفت کہ وہ سب سے اوپر آسمان کے اوپر ہے، نیز اس حدیث سے فجر اور عصر کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، آیت کریمہ میں تسبیح سے مراد صلاۃ (نماز) ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں چودھویں رات کو چاند دیکھنے میں مشقت ہوتی ہے“؟ صحابہ نے کہا: جی نہیں، فرمایا: ”اسی طرح قیامت کے دن تمہیں اپنے رب کی زیارت میں کوئی مشکل نہیں ہو گی“۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 178]
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم اپنے رب کو دیکھیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم ٹھیک دوپہر میں سورج دیکھنے میں کوئی دقت اور پریشانی محسوس کرتے ہو جبکہ کوئی بدلی نہ ہو؟“، ہم نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم چودہویں رات کا چاند دیکھنے میں کوئی رکاوٹ محسوس کرتے ہو جبکہ کوئی بدلی نہ ہو؟“، ہم نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سورج و چاند کو دیکھنے کی طرح تم اپنے رب کے دیدار میں بھی ایک دوسرے سے مزاحمت نہیں کرو گے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 179]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4019)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/16) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے بھی اللہ تعالیٰ کے لئے صفت علو اور مومنین کے لئے اس کی رؤیت ثابت ہوتی ہے، اور اس میں جہمیہ اور معتزلہ دونوں کا ردو ابطال ہوا، جو اہل ایمان کے لئے اللہ تعالی کی رؤیت نیز اللہ تعالیٰ کے لئے علو اور بلندی کی صفت کے منکر ہیں۔
ابورزین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم اللہ تعالیٰ کو قیامت کے دن دیکھیں گے؟ اور اس کی اس کے مخلوق میں کیا نشانی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابورزین! کیا تم میں سے ہر ایک چاند کو اکیلا بلا کسی روک ٹوک کے نہیں دیکھ لیتا ہے؟“، میں نے کہا: کیوں نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اس سے زیادہ عظیم ہے، اور اس کی مخلوق میں یہ (چاند) اس کے دیدار کی ایک نشانی ہے“۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 180]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/السنة 20 (4731)، (تحفة الأشراف: 11175)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/11، 12) (حسن)» (وکیع بن حدس مقبول عند المتابعہ ہیں، او ران کی متابعت موجود ہے، ملاحظہ ہو: السنة لابن أبی عاصم (468)، شیخ الاسلام ابن تیمیة وجھودہ فی الحدیث وعلومہ (38) للدکتور عبد الرحمن الفریوائی)
ابورزین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارا رب اپنے بندوں کے مایوس ہونے سے ہنستا ہے جب کہ اللہ کی طرف سے ان کی حالت بدلنے کا وقت قریب ہوتا ہے“، وہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا رب ہنستا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“، تو میں نے عرض کیا: تب تو ہم ایسے رب کے خیر سے ہرگز محروم نہ رہیں گے جو ہنستا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 181]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11180، ومصباح الزجاجة: 68)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/11، 12) (حسن) (ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2810)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کی صفت ضحک کا اثبات ہوتا ہے، اور اس کا ہنسنا ایسا ہے جیسا اس کی شان کے لائق ہے۔
ابورزین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارا رب اپنی مخلوق کے پیدا کرنے سے پہلے کہاں تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بادل میں تھا، نہ تو اس کے نیچے ہوا تھی نہ اوپر ہوا تھی، اور نہ ہی وہاں کوئی مخلوق تھی، (پھر پانی پیدا کیا) اور اس کا عرش پانی پہ تھا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 182]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/تفسیر القرآن 12 (3109)، (تحفة الأشراف: 11176)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/11، 12) (ضعیف)» (حدیث کی سند میں مذکور راوی وکیع بن حدس مجہول الحال ہیں، نیزملاحظہ ہو: ظلال الجنة: 612)
وضاحت: ۱؎: حدیث میں «عماء» کا لفظ آیا ہے جس کے معنی اگر «بالمد» ہو تو «سحاب رقیق»(بدلی) کے ہوتے ہیں، اور «بالقصر» ہو تو اس کے معنی «لاشیء» کے ہوتے ہیں، بعض اہل لغت نے «العماء» بالقصر کے معنی ایسے امر کے کئے ہیں جو عقل اور ادراک سے ماوراء ہو، حدیث سے اللہ تعالیٰ کے لئے صفت فوقیت و علو ثابت ہوئی، کیفیت مجہول ہے۔
صفوان بن محرز مازنی کہتے ہیں: اس اثناء میں کہ ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ہمراہ تھے، اور وہ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے، اچانک ایک شخص سامنے آیا، اور اس نے کہا: ابن عمر! آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے «نجویٰ»(یعنی اللہ کا اپنے بندے سے قیامت کے دن سرگوشی کرنے) کے بارے میں کیا سنا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”مومن اپنے رب سے قیامت کے دن قریب کیا جائے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنا پردہ ڈال دے گا، (تاکہ اس سرگوشی سے دوسرے باخبر نہ ہو سکیں)، پھر اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کرائے گا، اور فرمائے گا: کیا تم (اس گناہ کو) جانتے ہو؟ وہ بندہ کہے گا: اے رب! میں جانتا ہوں، یہاں تک کہ جب مومن اپنے جملہ گناہوں کا اقرار کر لے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں نے دنیا میں ان گناہوں کی پردہ پوشی کی اور آج میں ان کو بخشتا ہوں“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر اسے اس کی نیکیوں کا صحیفہ یا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رہے کافر و منافق تو ان کو حاضرین کے سامنے پکارا جائے گا (راوی خالد کہتے ہیں کہ «الأشهاد» میں کچھ انقطاع ہے): یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ باندھا، سن لو! اللہ کی لعنت ہے ظالموں پر (سورۃ ہود: ۱۸)“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 183]
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس درمیان کہ اہل جنت اپنی نعمتوں میں ہوں گے، اچانک ان پر ایک نور چمکے گا، وہ اپنے سر اوپر اٹھائیں گے تو دیکھیں گے کہ ان کا رب ان کے اوپر سے جھانک رہا ہے، اور فرما رہا ہے: ”اے جنت والو! تم پر سلام ہو“، اور یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے قول: «سلام قولا من رب رحيم»(سورة يس: 58) کا ”رحيم (مہربان) رب کی طرف سے (اہل جنت کو) سلام کہا جائے گا“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تک باری تعالیٰ کے دیدار کی نعمت ان کو ملتی رہے گی وہ کسی بھی دوسری نعمت کی طرف مطلقاً نظر نہیں اٹھائیں گے، پھر وہ ان سے چھپ جائے گا، لیکن ان کے گھروں میں ہمیشہ کے لیے اس کا نور اور برکت باقی رہ جائے گی“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 184]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3067، ومصباح الزجاجة: 69) (ضعیف)» (ابوعاصم العبادانی منکر الحدیث اور الفضل بن عیسیٰ بن ابان الرقاشی ضعیف ہیں، نیزملاحظہ ہو: المشکاة: 5664)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں کئی طرح سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ جہت علو میں ہے، نیز کلام اللہ کا حروف و اصوات پر مشتمل ہونا، اور قابل سماع ہونا بھی ثابت ہوا کہ جنتی جنت میں اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے، جہمیہ اللہ رب العزت کی رؤیت کے منکر ہیں، ان کا مذہب باطل ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف الفضل الرقاشي: منكر الحديث ورمي بالقدر (تقريب: 5413) وقال أيوب السختياني رحمه اللّٰه: ’’ لو ولد أخرس،كان خيرًا له ‘‘ (كتاب الضعفاء للبخاري بتحقيقي: 306 وسنده صحيح) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 381
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ہر شخص سے اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) بغیر کسی ترجمان کے ہم کلام ہو گا ۱؎، بندہ اپنی دائیں جانب نگاہ ڈالے گا تو اپنے ان اعمال کے سوا جن کو اپنے آگے بھیج چکا تھا کچھ بھی نہ دیکھے گا، پھر بائیں جانب نگاہ ڈالے گا تو اپنے ان اعمال کے سوا جن کو آگے بھیج چکا تھا کچھ بھی نہ دیکھے گا، پھر اپنے آگے دیکھے گا تو جہنم اس کے سامنے ہو گی پس جو جہنم سے بچ سکتا ہو چاہے کھجور کے ایک ٹکڑے کو اللہ کی راہ میں دے کر تو اس کو ضرور ایسا کرنا چاہیئے“۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 185]
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ جب جنت میں لوگ داخل ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اور ان کے درمیان کوئی حجاب (پردہ) نہ ہو گا، اس کی طرف نظر کرنے سے صرف اس ذات مقدس کی عظمت و کبریائی اور جلال و ہیبت ہی مانع ہو گا، پھر جب اللہ عزوجل ان پر اپنی رافت اور رحمت اور فضل و امتنان کا اظہار کرے گا تو وہ رکاوٹ دور ہو جائے گی، اور اہل ایمان اللہ تعالیٰ کی رؤیت کا شرف حاصل کر لیں گے۔
ابوموسیٰ اشعری (عبداللہ بن قیس) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو جنتیں ایسی ہیں کہ ان کے برتن اور ساری چیزیں چاندی کی ہیں، اور دو جنتیں ایسی ہیں کہ ان کے برتن اور ان کی ساری چیزیں سونے کی ہیں، جنت عدن میں لوگوں کے اور ان کے رب کے دیدار کے درمیان صرف اس کے چہرے پہ پڑی کبریائی کی چادر ہو گی جو دیدار سے مانع ہو گی“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 186]
وضاحت: ۱؎: اس حدیث کا مقصد بھی یہ ہے کہ اللہ تبارک تعالیٰ کی رؤیت میں رکاوٹ اس کی عظمت و کبریائی اور اس کی ہیبت اور اس کا جلال ہو گا، جس کے سبب کسی کو اس کی طرف نظر اٹھانے کی ہمت نہ ہو گی، لیکن جب اس کی رحمت و رأفت اور اس کے فضل و کرم کا ظہور ہو گا تو یہ رکاوٹ دور ہو جائے گی، اور اہل ایمان اس کی رؤیت کی نعمت سے سرفراز ہو جائیں گے، اس حدیث میں فرقۂ جہمیہ کا بڑا واضح اور بلیغ رد ہے جو رؤیت باری تعالیٰ کے منکر ہیں۔
صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت: «للذين أحسنوا الحسنى وزيادة»”جن لوگوں نے نیکی کی ان کے لیے نیکی ہے اور اس سے زیادہ بھی ہے“(سورة يونس: 26) کی تلاوت فرمائی، اور اس کی تفسیر میں فرمایا: ”جب جنت والے جنت میں اور جہنم والے جہنم میں داخل ہو جائیں گے تو منادی پکارے گا: جنت والو! اللہ کے پاس تمہارا ایک وعدہ ہے وہ اسے پورا کرنا چاہتا ہے، جنتی کہیں گے: وہ کیا وعدہ ہے؟ کیا اللہ نے ہمارے نیک اعمال کو وزنی نہیں کیا؟ ہمارے چہروں کو روشن اور تابناک نہیں کیا؟ ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا؟ اور ہمیں جہنم سے نجات نہیں دی؟“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر اللہ تعالیٰ اپنے چہرے سے پردہ ہٹا دے گا، لوگ اس کا دیدار کریں گے، اللہ کی قسم! اللہ کے عطیات میں سے کوئی بھی چیز ان کے نزدیک اس کے دیدار سے زیادہ محبوب اور ان کی نگاہ کو ٹھنڈی کرنے والی نہ ہو گی“۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 187]
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس کی سماعت تمام آوازوں کا احاطہٰ کئے ہوئے ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی اور اپنے شوہر کی شکایت کرنے لگی، میں گھر کے ایک گوشہ میں تھی اور اس کی باتوں کو سن نہیں پا رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: «قد سمع الله قول التي تجادلك في زوجها»”بیشک اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو اپنے شوہر کے بارے میں آپ سے جھگڑ رہی تھی“(سورة المجادلة: ۱)۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 188]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/التوحید 9 (7385)، (تعلیقاً)، سنن النسائی/ الطلاق 33 (3490)، (تحفة الأشراف: 16332)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/ 46)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 2063) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ آیت اوس بن صامت کی بیوی خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا کے حق میں نازل ہوئی، ایک بار ان کے شوہر نے ان کو بلایا تو انہوں نے عذر کیا، اس پر اوس رضی اللہ عنہ نے خفا ہو کر کہا: تم میرے اوپر ایسی ہو جیسی میری ماں کی پیٹھ، اسے شرعی اصطلاح (زبان) میں ظہار کہتے ہیں، پھر وہ نادم ہوئے، ظہار و ایلاء جاہلیت کا طلاق تھا، غرض خولہ کے شوہر نے کہا کہ تم مجھ پر حرام ہو، تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اس وقت ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک دھو رہی تھیں، خولہ نے کہا: اللہ کے رسول میرے شوہر اوس بن صامت نے جب مجھ سے شادی کی تھی تو میں جوان اور مالدار تھی، پھر جب انہوں نے میرا مال کھا لیا، اور میری جوانی مٹ گئی، اور میرے عزیز و اقارب چھوٹ گئے، اور میں بوڑھی ہو گئی تو مجھ سے ظہار کیا، اور وہ اب اپنے اس اقدام پر نادم ہیں، تو کیا اب کوئی صورت ایسی ہے کہ میں اور وہ مل جائیں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس پر حرام ہو گئی“، پھر انہوں نے کہا کہ میں اپنے اللہ کے سامنے اپنے فقر و فاقہ اور تنہائی کو رکھتی ہوں، ایک مدت دراز تک میں ان کے پاس رہی اور ان سے میرے بچے ہیں جن سے مجھے پیار ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”تم اس پر حرام ہو، اور مجھے تمہارے بارے میں کوئی حکم نہیں ہوا“، پھر خولہ نے بار بار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے احوال و مشکلات کا اظہار کیا، اور جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ تم اس پر حرام ہو گئی تو وہ فریادیں کرتیں اور کہتیں کہ میں اللہ کے سامنے اپنے فقر و فاقہ اور شدت حال کو رکھتی ہوں، میرے چھوٹے بچے ہیں، اگر میں ان کو شوہر کے سپرد کر دوں تو وہ برباد ہوں گے، اور اگر اپنے پاس رکھوں تو بھوکے مریں گے، اور بار بار آسمان کی طرف اپنا سر اٹھاتی تھیں کہ یااللہ میں تجھ سے فریاد کرتی ہوں، یااللہ تو اپنا کوئی حکم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر اتار دے کہ جس سے میری مصیبت دور ہو، اسلام میں ظہار کا یہ پہلا واقعہ تھا، اور دوسری طرف ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سر دھونے میں مشغول تھیں، تو خولہ رضی اللہ عنہا کو یہ کہتے سنا کہ اللہ کے نبی میرے لئے کچھ غور کریں، اللہ مجھے آپ پر فدا کرے، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ذرا تم خاموش رہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک دیکھتی نہیں ہو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت یہ ہوتی تھی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ پر اونگھ طاری ہو جاتی، پھر جب وحی اتر چکی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خولہ نے اپنے شوہر کا شکوہ کیا“، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی: «قد سمع الله قول التي تجادلك في زوجها»”بیشک اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو اپنے شوہر کے بارے میں آپ سے جھگڑ رہی تھی“(سورة المجادلة: 1)۔ اس قصہ سے بڑے عمدہ فوائد معلوم ہوئے: (۱) آیت کا شان نزول کہ یہ آیت حکم ظہار پر مشتمل ہے، اور اس کی تفصیل اپنے مقام پر آئے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ (۲) صحابہ رضی اللہ عنہم کی عادت تھی کہ جب کوئی حادثہ پیش آتا تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے، اور یہی حکم ہے ساری امت کے لئے کہ مشکلات و مسائل میں کتاب و سنت کی طرف رجوع کریں، اگرچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے جا چکے ہیں مگر آپ کی سنت (احادیث شریفہ) اور کتاب (قرآن مجید) ہمارے درمیان ہے، اور دنیا میں یہی دونوں چیزیں اہل اسلام کے لیے ترکہ اور میراث ہیں، «فمن أخذه أخذ بحظ وافر» ۔ (۳) انبیاء کی بشریت اور مجبوری کہ وہ بھی تمام امور میں اللہ کے حکم کے منتظر رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خولہ رضی اللہ عنہا کو کچھ جواب نہ دیا جب تک کہ رب السماوات نے حکم نہ اتارا۔ (۴) سابقہ شرائع پر ہمارے لئے عمل واجب ہے جب تک کہ اس کے نسخ کا علم ہم تک نہ پہنچے، اور اسی کے موافق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم ان پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو گئی، پھر جب اللہ تعالیٰ نے اس کا نسخ اتارا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناسخ کے موافق حکم دیا۔ (۵) صراحت کے ساتھ اور محسوس اشارے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے لئے علو اور فوقیت کا ثبوت کہ خولہ رضی اللہ عنہا بار بار اپنا سر آسمان کی طرف اٹھاتی تھیں اور کہتی تھیں کہ میں اللہ تعالیٰ سے اپنی حالت بیان کرتی ہوں، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس امر کی تقریر و تصویب فرمائی اور کوئی اعتراض نہ کیا، اور اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی جانب و جہت خاص نہ ہو، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی اللہ تعالیٰ کے لئے جہت کو خاص کرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر خاموش رہیں، اور اللہ تعالیٰ کی معرفت میں جو اسلام کی اساس اور ایمان کی بنیاد ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جہالت اور بدعقیدگی کو گوارہ کریں یہ محال بات ہے، اور اس سے بھی محال اور بعید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس علو اور فوقیت کے عقیدہ کو ناپسند کرے، اور اس پر تنبیہ نہ کر کے ظہار کے بارے میں اپنے احکام اتارے اور صحیح عقیدہ کی تعلیم نہ دے، خلاصہ یہ ہے کہ اس قصے میں اللہ تعالیٰ کے لیے علو اور بلندی کی بات پورے طورپر واضح ہے، اور سلف صالحین اور ائمہ اسلام کے یہاں یہ مسئلہ اجماعی ہے۔ (۶) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ و صحابیات کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنی محبت تھی، اور وہ کس ادب و احترام کے ساتھ آپ سے مخاطب ہوتے تھے، اور بات بات میں اپنے آپ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا کرتے تھے، اور یہی نسبت ضروری ہے ہر مسلمان کو آپ کی سنت شریفہ سے کہ دل و جان سے اس پر عمل کرے۔ (۷) اس آیت سے اللہ تعالیٰ کے لئے «سمع و بصر»(سننے اور دیکھنے) کی صفات ثابت ہوئیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: «إن الله سميع بصير»”یقینا اللہ تعالیٰ سننے اور دیکھنے والا ہے“(سورة المجادلة: 1) اور فرمایا: «قال لا تخافا إنني معكما أسمع وأرى»”اللہ نے (موسیٰ و ہارون) سے کہا تم بالکل نہ ڈرو میں تمہارے ساتھ ہوں، اور سنتا اور دیکھتا رہوں گا“(سورة طه: 46)۔ اور ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں مروی ہے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے۔ جب بلندی پر چڑھتے تو «اللہ اکبر» کہتے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی جانوں پر نرمی کرو، اس لئے کہ تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکارتے، بلکہ «سمیع و بصیر»(سننے والے دیکھنے والے) کو پکارتے ہو“۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مخلوقات کے پیدا کرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے اپنے ذمہ لکھ لیا کہ میری رحمت میرے غضب سے بڑھی ہوئی ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 189]
وضاحت: ۱؎: قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ کے پیر، ہاتھ اور انگلیوں کا ذکر ہے، اس سلسلے میں سلف صالحین کا مسلک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیر بھی ہیں، ہاتھ بھی ہیں، انگلیاں بھی ہیں، ان کے ہونے پر ہمارا کامل ایمان اور یقین بھی ہے، لیکن وہ کیسے ہیں؟ ان کی کیفیت کیا ہے؟ ہمیں معلوم نہیں اور نہ ہمیں ان کی کیفیت سے کوئی غرض ہے، بس اتنی سی بات کافی ہے کہ اس کی عظمت و جلالت کے مطابق اس کی انگلیاں ہوں گی، نہ تو اسے کسی مخلوق کے ساتھ تشبیہ اور تمثیل دی جا سکتی ہے، اور نہ اللہ کے ہاتھ پاؤں اور اس کی انگلیوں کے لئے جو الفاظ مستعمل ہوئے ہیں انہیں اپنے اصلی اور حقیقی معنی سے ہٹایا جا سکتا ہے، اللہ تعالیٰ کی انگلیوں سے مراد اللہ کی رحمتیں ہیں، ایسا کہنا مناسب نہیں، بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ «ید»(ہاتھ) «کف»(ہتھیلی) اور «انامل»(انگلیاں) جس معنی کے لئے موضوع ہیں بعینہ وہی معنی مراد لینا چاہئے، اس حدیث میں بھی صفات کے منکر فرقہ جہمیہ کا رد و ابطال ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے «ید»(ہاتھ) رحمت اور غضب کی صفات کا انکار کرتے ہیں جب کہ اس حدیث میں یہ صفات اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہیں۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب عبداللہ بن عمرو بن حرام غزوہ احد کے دن قتل کر دئیے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ملے اور فرمایا: ”جابر! کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد سے کیا کہا ہے؟“، (اور یحییٰ بن حبیب راوی نے اپنی حدیث میں کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جابر! میں تمہیں کیوں شکستہ دل دیکھتا ہوں؟“)، جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے والد اللہ کی راہ میں قتل کر دئیے گئے، اور اہل و عیال اور قرض چھوڑ گئے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں اس چیز کی بشارت نہ دوں جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد سے ملاقات کے وقت کہا؟“، جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: جی ہاں ضرور بتائیے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی کسی سے بغیر حجاب کے کلام نہیں کیا، لیکن تمہارے والد سے بغیر حجاب کے کلام کیا، اور فرمایا: میرے بندے! مجھ سے آرزو کر میں تجھے عطا کروں گا، اس پر انہوں نے کہا: میرے رب! میری آرزو یہ ہے کہ تو مجھے زندہ کر دے، اور میں تیری راہ میں دوبارہ قتل کیا جاؤں، تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: یہ بات تو پہلے ہی ہماری جانب سے لکھی جا چکی ہے کہ لوگ دنیا میں دوبارہ واپس نہیں لوٹائے جائیں گے ۱؎، انہوں نے کہا: میرے رب! ان لوگوں کو جو دنیا میں ہیں میرے احوال کی خبر دیدے“، انہوں نے کہا: اس وقت اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ نازل فرمائی: «ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل أحياء عند ربهم يرزقون»”جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے تم ان کو مردہ نہ سمجھو، بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس روزی پاتے ہیں“(سورة آل عمران: ۱۶۹)۲؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 190]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2287، ومصباح الزجاجة: 70)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/تفسیر القرآن 4 (3010) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 2800) (حسن) (ملاحظہ ہو: السنة لابن أبی عاصم: 615، 616)»
وضاحت: ۱؎: اور جب شہیدوں کو دوبارہ دنیا میں نہیں لوٹایا جاتا تو دوسرے کس کو لوٹنے کی اجازت ہو گی، پتہ چلا کہ جو لوگ انتقال کر گئے وہ دوبارہ دنیا میں نہیں آئیں گے۔ ۲؎: اس سے پتہ چلا کہ جو لوگ شہید ہو گئے ان کی زندگی دنیاوی زندگی نہیں ہے، اور نہ وہ دنیا میں زندہ ہیں۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ان دو افراد کے حال پر ہنستا ہے جن میں سے ایک دوسرے کو قتل کرتا ہے، اور دونوں جنت میں داخل ہوتے ہیں، ایک اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتال کرتا ہے اور شہید کر دیا جاتا ہے، پھر اس کے قاتل کو اللہ تعالیٰ توبہ کی توفیق دیتا ہے، اور وہ اسلام قبول کر لیتا ہے، پھر اللہ کی راہ میں لڑائی کرتا ہے اور شہید کر دیا جاتا ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 191]
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے اہل سنت نے اللہ تعالیٰ کے لئے صفت «ضحک»(ہنسنے) پر استدلال کیا ہے، اور یہ صفت رضا اور خوشی پر دلالت کرتی ہے، اور اللہ تعالیٰ کی دوسری صفات کی طرح اس پر بھی ہم ایمان رکھتے ہیں، جیسا کہ اس ذات باری تعالیٰ کے لئے لائق و سزاوار ہے، اور اس کو ہم مخلوقات سے کسی طرح کی مشابہت نہیں دیتے، اور نہ اس صفت کے معنی کو معطل کرتے ہیں، اور نہ اس کا انکار کرتے ہیں۔
سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ قیامت کے دن زمین کو اپنی مٹھی میں لے لے گا، اور آسمان کو اپنے دائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا، پھر فرمائے گا: اصل بادشاہ میں ہوں، زمین کے بادشاہ کہاں ہیں؟“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 192]
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کے لئے «ید» و «قبض» و «طی» کا اثبات ہوتا ہے، اہل سنت اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے دو ہاتھ ہیں جو قبض و بسط و انفاق جیسی صفات رکھتے ہیں، اس کے دونوں ہاتھ «یمین» ہیں، اور اس کے ہاتھ ایسے ہیں جیسے اس کی شان کے لائق ہیں۔
عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک جماعت کے ہمراہ مقام بطحاء میں تھا، اور ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجود تھے کہ بادل کا ایک ٹکڑا گزرا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا: ”تم لوگ اس کو کیا کہتے ہو؟“، لوگوں نے کہا: «سحاب»، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «مزن» بھی؟“، انہوں نے کہا: جی ہاں، «مزن» بھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «عنان» بھی؟“، لوگوں نے کہا: «عنان» بھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے اور آسمان کے درمیان کتنا فاصلہ جانتے ہو؟“، لوگوں نے کہا: ہم نہیں جانتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے اور اس کے درمیان اکہتر (۷۱)، بہتر (۷۲)، یا تہتر (۷۳) سال کی مسافت ہے، پھر اس کے اوپر آسمان کی بھی اتنی ہی مسافت ہے“، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح سات آسمان شمار کیے، پھر فرمایا: ”ساتویں آسمان پر ایک سمندر ہے، اس کے نچلے اور اوپری حصہ کے درمیان اتنی ہی مسافت ہے جتنی کہ دو آسمانوں کے درمیان میں ہے، پھر اس کے اوپر آٹھ فرشتے پہاڑی بکروں کی طرح ہیں، ان کے کھروں اور گھٹنوں کے درمیان اتنی دوری ہے جتنی کہ دو آسمانوں کے درمیان ہے، پھر ان کی پیٹھ پر عرش ہیں، اس کے نچلے اور اوپری حصہ کے درمیان اتنی مسافت ہے جتنی کہ دو آسمانوں کے درمیان میں ہے، پھر اس کے اوپر اللہ تعالیٰ ہے جو بڑی برکت والا، بلند تر ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 193]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/السنة 19 (4723)، سنن الترمذی/تفسیر القرآن 67 (3320)، (تحفة الأشراف: 5124)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/ 206، 207) (ضعیف)» (حدیث کی سند میں مذکور راوی ''الولید بن أبی ثور الہمدانی'' ضعیف ہیں، ''عبد اللہ بن عمیرہ'' لین الحدیث، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 1247)
وضاحت: ۱؎: اگرچہ اس حدیث کی سند میں کلام ہے، لیکن اس حدیث سے مصنف نے اللہ تعالیٰ کے لئے صفت علو ثابت کیا ہے، جب کہ یہ صفت کتاب و سنت کے بے شمار دلائل سے ثابت ہے اور ائمہ اسلام کا اس پر اجماع ہے، اس میں تاویل کی قطعاً گنجائش نہیں، یہاں پر علو سے مراد علو معنوی نہیں بلکہ حسی اور حقیقی علو ہے، اور یہ امر فطرت انسانی کے عین موافق ہے، لیکن معتزلہ و جہمیہ کی عقلیں ماری گئی ہیں کہ وہ اس کی تاویل کرتے اور اس کا انکار کرتے ہیں، اور جس بات کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عقلاً، حسا، لفظاً اور معناً بیان فرما دیا ہے اس میں شک کرتے ہیں، ائمہ دین نے اس مسئلہ میں مستقل کتابیں تصنیف فرمائیں ہیں، جیسے ”كتاب العلو للعلي الغفار“ للامام الذہبی۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (4723) ترمذي (3320) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 381
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی فیصلہ صادر فرماتا ہے تو فرشتے اس کے فرمان کی تابعداری میں بطور عاجزی اپنے بازو بچھا دیتے ہیں، جس کی آواز کی کیفیت چکنے پتھر پر زنجیر مارنے کی سی ہوتی ہے، پس جب ان کے دلوں سے خوف دور کر دیا جاتا ہے تو وہ باہم ایک دوسرے سے کہتے ہیں: تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ وہ جواب دیتے ہیں: اس نے حق فرمایا، اور وہ بلند ذات والا اور بڑائی والا ہے“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چوری سے باتیں سننے والے (شیاطین) جو اوپر تلے رہتے ہیں اس کو سنتے ہیں، اوپر والا کوئی ایک بات سن لیتا ہے تو وہ اپنے نیچے والے کو پہنچا دیتا ہے، بسا اوقات اس کو شعلہ اس سے پہلے ہی پا لیتا ہے کہ وہ اپنے نیچے والے تک پہنچائے، اور وہ کاہن (نجومی) یا ساحر (جادوگر) کی زبان پر ڈال دے، اور بسا اوقات وہ شعلہ اس تک نہیں پہنچتا یہاں تک کہ وہ نیچے والے تک پہنچا دیتا ہے، پھر وہ اس میں سو جھوٹ ملاتا ہے تو وہی ایک بات سچ ہوتی ہے جو آسمان سے سنی گئی تھی“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 194]
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے بھی واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ بلندی پر ہے، اس کے احکام اوپر ہی سے نازل ہوتے ہیں، پس احکم الحاکمین اوپر ہی ہے، اور نیچے والے فرشتے اوپر کے درجہ والوں سے پوچھتے ہیں: کیا حکم ہوا؟ وہ ان کو جواب دیتے ہیں کہ جو حکم اللہ تعالیٰ کا ہے وہ حق ہے، اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کی بڑی عظمت اور ہیبت واضح ہوتی ہے، اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے باوجود قرب، نورانیت اور معصومیت کے اس قدر اللہ تعالیٰ سے لرزاں و ترساں ہیں تو ہم کو بدرجہا اس سے زیادہ ڈرنا چاہئے۔
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور پانچ باتیں بیان فرمائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ سوتا نہیں اور اس کے لیے مناسب بھی نہیں کہ سوئے، میزان کو اوپر نیچے کرتا ہے، رات کا عمل دن کے عمل سے پہلے اور دن کا عمل رات کے عمل سے پہلے اس تک پہنچا دیا جاتا ہے، اس کا حجاب نور ہے، اگر اس کو ہٹا دے تو اس کے چہرے کی تجلیات ان ساری مخلوقات کو جہاں تک اس کی نظر پہنچے جلا دیں“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 195]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الإیمان 79 (179)، (تحفة الأشراف: 9146)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/395، 400، 405) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے اللہ تعالی کے لئے صفت «نور» اور «وجہ»(چہرہ) ثابت ہوا، لیکن اس کی کیفیت مجہول اور غیر معلوم ہے، اہل سنت یہی کہتے ہیں کہ رب عزوجل کے لئے صفت «وجہ»(چہرہ) ہے، مگر ایسا کہ جیسا اس کی شان کے لائق ہے، ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی تجلیات کی کوئی تاب نہیں لا سکتا۔
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ سوتا نہیں اور اس کے لیے مناسب بھی نہیں کہ سوئے، میزان کو جھکاتا اور بلند کرتا ہے، اس کا حجاب نور ہے، اگر وہ اس حجاب کو ہٹا دے تو اس کے چہرے کی تجلیاں ان تمام چیزوں کو جلا دیں جہاں تک اس کی نظر جائے“، پھر ابوعبیدہ نے آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی: «أن بورك من في النار ومن حولها وسبحان الله رب العالمين»”کہ بابرکت ہے وہ جو اس آگ میں ہے اور برکت دیا گیا ہے وہ جو اس کے آس پاس ہے اور اللہ جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے“(سورة النمل: 8)۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 196]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے، رات دن خرچ کرتا رہتا ہے پھر بھی اس میں کوئی کمی نہیں ہوتی ہے، اس کے دوسرے ہاتھ میں میزان ہے، وہ اسے پست و بالا کرتا ہے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ذرا غور کرو کہ آسمان و زمین کی تخلیق (پیدائش) سے لے کر اس نے اب تک کتنا خرچ کیا ہو گا؟ لیکن جو کچھ اس کے دونوں ہاتھ میں ہے اس میں سے کچھ بھی نہ گھٹا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 197]
وضاحت: ۱؎: رات دن کی سخاوت کے باوجود اللہ عزوجل کے خزانے سے کچھ بھی کمی نہیں ہوئی، اسی کے پاس سارے خزانے ہیں، اس نے کسی کو نہیں سونپے، آسمان و زمین والوں کا رزق اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، وہی سب کو رزق دیتا ہے، حلال ہو یا حرام، اہل سنت کا یہی مذہب ہے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا: ” «جبار»(اللہ تعالیٰ) آسمانوں اور زمین کو اپنے ہاتھ میں لے لے گا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مٹھی بند کی اور پھر اسے باربار بند کرنے اور کھولنے لگے) اور فرمائے گا: میں «جبار» ہوں، کہاں ہیں «جبار» اور کہاں ہیں تکبر (گھمنڈ) کرنے والے؟“، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں اور بائیں جھکنے لگے یہاں تک کہ میں نے منبر کو دیکھا کہ نیچے سے ہلتا تھا، مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ وہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر گر نہ پڑے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 198]
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے صاف ثابت ہوا کہ صفات باری تعالیٰ میں لفظ «ید»(ہاتھ) سے حقیقی «ید» ہی مراد ہے، اس کی تاویل قدرت و طاقت اور اقتدار سے کرنا گمراہی ہے۔
نواس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”ہر شخص کا دل اللہ تعالیٰ کی دونوں انگلیوں کے درمیان ہے، اگر وہ چاہے تو اسے حق پر قائم رکھے اور چاہے تو اسے حق سے منحرف کر دے“، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرماتے تھے: ”اے دلوں کے ثابت رکھنے والے! تو ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت رکھ“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ”اور ترازو رحمن کے ہاتھ میں ہے، کچھ لوگوں کو بلند کرتا ہے اور کچھ کو پست، قیامت تک (ایسے ہی کرتا رہے گا)“۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 199]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11715، ومصباح الزجاجة: 71)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/182) (صحیح)»
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ تین طرح کے لوگوں کو دیکھ کر ہنستا ہے: ایک نماز میں نمازیوں کی صف، دوسرا وہ شخص جو رات کے درمیانی حصہ میں اٹھ کر نماز پڑھتا ہے، تیسرا وہ شخص جو جہاد کرتا ہے“۔ راوی کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لشکر کے پیچھے“، یعنی ان کے بھاگ جانے کے بعد۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 200]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3993، ومصباح الزجاجة: 72)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/80) (ضعیف)» (سند میں عبداللہ بن اسماعیل مجہول اور مجالد ضعیف ہیں، اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 2103)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف مجالد: ضعيف (تقدم: 11) وعبد اللّٰه بن إسماعيل: مجهول (تقريب: 3212) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 381
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے دنوں میں اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے اور فرماتے: ”کیا کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو مجھے اپنی قوم میں لے جائے؟ اس لیے کہ قریش نے مجھے اپنے رب کے کلام کی تبلیغ سے روک دیا ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 201]
ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے فرمان: «كل يوم هو في شأن»”وہ ذات باری تعالیٰ ہر روز ایک نئی شان میں ہے“(سورة الرحمن: 29) کے سلسلے میں بیان فرمایا: ”اس کی شان میں سے یہ ہے کہ وہ کسی کے گناہ کو بخش دیتا ہے، کسی کی مصیبت کو دور کرتا ہے، کسی قوم کو بلند اور کسی کو پست کرتا ہے“۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 202]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11005، ومصباح الزجاجة: 73) (حسن)» (بخاری نے تعلیقاً تفسیر سورہ الرحمن میں ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے، صحیح بخاری مع فتح الباری: 8/620)