الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
(أبواب كتاب السنة)
(ابواب کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت)
35. بَابُ : فِيمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِيَّةُ
35. باب: جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔
حدیث نمبر: 188
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ سَلَمَةَ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ:" الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَسِعَ سَمْعُهُ الْأَصْوَاتَ، لَقَدْ جَاءَتِ الْمُجَادِلَةُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا فِي نَاحِيَةِ الْبَيْتِ تَشْكُو زَوْجَهَا"، وَمَا أَسْمَعُ مَا تَقُولُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ: قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا سورة المجادلة آية 1.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس کی سماعت تمام آوازوں کا احاطہٰ کئے ہوئے ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی اور اپنے شوہر کی شکایت کرنے لگی، میں گھر کے ایک گوشہ میں تھی اور اس کی باتوں کو سن نہیں پا رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: «قد سمع الله قول التي تجادلك في زوجها» بیشک اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو اپنے شوہر کے بارے میں آپ سے جھگڑ رہی تھی (سورة المجادلة: ۱) ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 188]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/التوحید 9 (7385)، (تعلیقاً)، سنن النسائی/ الطلاق 33 (3490)، (تحفة الأشراف: 16332)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/ 46)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 2063) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یہ آیت اوس بن صامت کی بیوی خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا کے حق میں نازل ہوئی، ایک بار ان کے شوہر نے ان کو بلایا تو انہوں نے عذر کیا، اس پر اوس رضی اللہ عنہ نے خفا ہو کر کہا: تم میرے اوپر ایسی ہو جیسی میری ماں کی پیٹھ، اسے شرعی اصطلاح (زبان) میں ظہار کہتے ہیں، پھر وہ نادم ہوئے، ظہار و ایلاء جاہلیت کا طلاق تھا، غرض خولہ کے شوہر نے کہا کہ تم مجھ پر حرام ہو، تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اس وقت ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک دھو رہی تھیں، خولہ نے کہا: اللہ کے رسول میرے شوہر اوس بن صامت نے جب مجھ سے شادی کی تھی تو میں جوان اور مالدار تھی، پھر جب انہوں نے میرا مال کھا لیا، اور میری جوانی مٹ گئی، اور میرے عزیز و اقارب چھوٹ گئے، اور میں بوڑھی ہو گئی تو مجھ سے ظہار کیا، اور وہ اب اپنے اس اقدام پر نادم ہیں، تو کیا اب کوئی صورت ایسی ہے کہ میں اور وہ مل جائیں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس پر حرام ہو گئی، پھر انہوں نے کہا کہ میں اپنے اللہ کے سامنے اپنے فقر و فاقہ اور تنہائی کو رکھتی ہوں، ایک مدت دراز تک میں ان کے پاس رہی اور ان سے میرے بچے ہیں جن سے مجھے پیار ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: تم اس پر حرام ہو، اور مجھے تمہارے بارے میں کوئی حکم نہیں ہوا، پھر خولہ نے بار بار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے احوال و مشکلات کا اظہار کیا، اور جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ تم اس پر حرام ہو گئی تو وہ فریادیں کرتیں اور کہتیں کہ میں اللہ کے سامنے اپنے فقر و فاقہ اور شدت حال کو رکھتی ہوں، میرے چھوٹے بچے ہیں، اگر میں ان کو شوہر کے سپرد کر دوں تو وہ برباد ہوں گے، اور اگر اپنے پاس رکھوں تو بھوکے مریں گے، اور بار بار آسمان کی طرف اپنا سر اٹھاتی تھیں کہ یااللہ میں تجھ سے فریاد کرتی ہوں، یااللہ تو اپنا کوئی حکم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر اتار دے کہ جس سے میری مصیبت دور ہو، اسلام میں ظہار کا یہ پہلا واقعہ تھا، اور دوسری طرف ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سر دھونے میں مشغول تھیں، تو خولہ رضی اللہ عنہا کو یہ کہتے سنا کہ اللہ کے نبی میرے لئے کچھ غور کریں، اللہ مجھے آپ پر فدا کرے، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ذرا تم خاموش رہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک دیکھتی نہیں ہو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت یہ ہوتی تھی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ پر اونگھ طاری ہو جاتی، پھر جب وحی اتر چکی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خولہ نے اپنے شوہر کا شکوہ کیا، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی:  «قد سمع الله قول التي تجادلك في زوجها» بیشک اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو اپنے شوہر کے بارے میں آپ سے جھگڑ رہی تھی (سورة المجادلة: 1)۔ اس قصہ سے بڑے عمدہ فوائد معلوم ہوئے: (۱) آیت کا شان نزول کہ یہ آیت حکم ظہار پر مشتمل ہے، اور اس کی تفصیل اپنے مقام پر آئے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ (۲) صحابہ رضی اللہ عنہم کی عادت تھی کہ جب کوئی حادثہ پیش آتا تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے، اور یہی حکم ہے ساری امت کے لئے کہ مشکلات و مسائل میں کتاب و سنت کی طرف رجوع کریں، اگرچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے جا چکے ہیں مگر آپ کی سنت (احادیث شریفہ) اور کتاب (قرآن مجید) ہمارے درمیان ہے، اور دنیا میں یہی دونوں چیزیں اہل اسلام کے لیے ترکہ اور میراث ہیں،  «فمن أخذه أخذ بحظ وافر» ۔ (۳) انبیاء کی بشریت اور مجبوری کہ وہ بھی تمام امور میں اللہ کے حکم کے منتظر رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خولہ رضی اللہ عنہا کو کچھ جواب نہ دیا جب تک کہ رب السماوات نے حکم نہ اتارا۔ (۴) سابقہ شرائع پر ہمارے لئے عمل واجب ہے جب تک کہ اس کے نسخ کا علم ہم تک نہ پہنچے، اور اسی کے موافق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم ان پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو گئی، پھر جب اللہ تعالیٰ نے اس کا نسخ اتارا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناسخ کے موافق حکم دیا۔ (۵) صراحت کے ساتھ اور محسوس اشارے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے لئے علو اور فوقیت کا ثبوت کہ خولہ رضی اللہ عنہا بار بار اپنا سر آسمان کی طرف اٹھاتی تھیں اور کہتی تھیں کہ میں اللہ تعالیٰ سے اپنی حالت بیان کرتی ہوں، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس امر کی تقریر و تصویب فرمائی اور کوئی اعتراض نہ کیا، اور اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی جانب و جہت خاص نہ ہو، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی اللہ تعالیٰ کے لئے جہت کو خاص کرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر خاموش رہیں، اور اللہ تعالیٰ کی معرفت میں جو اسلام کی اساس اور ایمان کی بنیاد ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جہالت اور بدعقیدگی کو گوارہ کریں یہ محال بات ہے، اور اس سے بھی محال اور بعید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس علو اور فوقیت کے عقیدہ کو ناپسند کرے، اور اس پر تنبیہ نہ کر کے ظہار کے بارے میں اپنے احکام اتارے اور صحیح عقیدہ کی تعلیم نہ دے، خلاصہ یہ ہے کہ اس قصے میں اللہ تعالیٰ کے لیے علو اور بلندی کی بات پورے طورپر واضح ہے، اور سلف صالحین اور ائمہ اسلام کے یہاں یہ مسئلہ اجماعی ہے۔ (۶) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ و صحابیات کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنی محبت تھی، اور وہ کس ادب و احترام کے ساتھ آپ سے مخاطب ہوتے تھے، اور بات بات میں اپنے آپ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا کرتے تھے، اور یہی نسبت ضروری ہے ہر مسلمان کو آپ کی سنت شریفہ سے کہ دل و جان سے اس پر عمل کرے۔ (۷) اس آیت سے اللہ تعالیٰ کے لئے «سمع و بصر» (سننے اور دیکھنے) کی صفات ثابت ہوئیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:  «إن الله سميع بصير» یقینا اللہ تعالیٰ سننے اور دیکھنے والا ہے (سورة المجادلة: 1) اور فرمایا:  «قال لا تخافا إنني معكما أسمع وأرى» اللہ نے (موسیٰ و ہارون) سے کہا تم بالکل نہ ڈرو میں تمہارے ساتھ ہوں، اور سنتا اور دیکھتا رہوں گا (سورة طه: 46)۔ اور ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں مروی ہے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے۔ جب بلندی پر چڑھتے تو «اللہ اکبر» کہتے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی جانوں پر نرمی کرو، اس لئے کہ تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکارتے، بلکہ «سمیع و بصیر» (سننے والے دیکھنے والے) کو پکارتے ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 188 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث188  
اردو حاشہ:
(1)
اس حدیث کو اس باب میں بیان کرنے کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ سمیع یعنی سننے والا ہے اور سننا اس کی صفت ہے، لیکن اللہ کی صفات بندوں کی صفات کی طرح نہیں۔
ہلکی سے ہلکی آواز اس کے علم سے باہر نہیں کیونکہ اس کی دیگر صفات کی طرح سننے کی صفت بھی لا محدود ہے۔

(2)
اس حدیث اور آیت میں جس خاتون کا ذکر کیا گیا ہے اس کا نام خولہ رضی اللہ عنہا ہے جو مالک بن ثعلبہ کی بیٹٰی تھیں، ان کے خاوند حضرت اوس بن صامت رضی اللہ عنہ نے ان سے ظہار کر لیا، اس وقت تک ظہار کے کالعدم ہونے کا حکم نازل نہیں ہوا تھا، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تو اپنے خاوند پر حرام ہو گئی ہے۔
اس نے اپنے حالات عرض کیے کہ جدائی کی صورت میں بہت سی مشکلات پیدا ہوں گی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی، تب اللہ تعالیٰ نے سورہ مجادلہ میں اس کا حل نازل فرمایا۔ (سنن ابی داود، الطلاق، باب فی الظھار، حدیث: 2214)

(3)
ظہار کا مطلب ہے بیوی کو ماں سے تشبیہ دے کر خود پر حرام کر لینا، مثلاً:
کوئی شخص اپنی بیوی سے کہتا ہے:
تو میرے لیے اس طرح ہے جیسے میری ماں۔
اسلام سے قبل اس صورت میں مرد اور عورت کا تعلق ہمیشہ کے لیے منقطع ہو جاتا تھا اور بیوی کو واقعی ماں کے برابر سمجھ لیا جاتا تھا۔
سورہ مجادلہ میں واضح کیا گیا ہے کہ بیوی کو ماں کہنے سے وہ ماں نہیں بن جاتی، لیکن اس طرح کہنا گناہ کی بات ہے۔
یہ گناہ اس صورت میں معاف ہو سکتا ہے کہ ایک غلام آزاد کیا جائے، یہ ممکن نہ ہو تو مسلسل دو ماہ روزے رکھے جائیں، اگر درمیان میں ناغہ ہو جائے تو نئے سرے سے گنتی شروع کی جائے۔
یہ بھی نہ ہو سکے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے، جب تک یہ کفارہ ادا نہ کر لیا جائے، میاں بیوی کو صنفی تعلقات قائم کرنے کی اجازت نہیں۔

(4)
بعض لوگ کسی اجنبی عورت کو ماں، بہن یا بیٹی کہہ دیتے ہیں یا کوئی عورت کسی مرد کو اپنا بھائی یا بیٹا قرار دے لیتی ہے، حالانکہ اس سے کوئی حقیقی محرم والا رشتہ نہیں ہوتا۔
پھر اس منہ بولے رشتے کی بنا پر آپس میں پردہ ختم کر دیا جاتا ہے، یہ سب غلط اور شرعا گناہ ہے جس سے اجتناب کرنا اور توبہ کرنا ضروری ہے۔

(5)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم حکم الہی کے پابند تھے، اپنی مرضی سے حلال و حرام نہیں فرما سکتے تھے۔
جب وحی نازل ہوئی تو حکم بیان فرما دیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 188