عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم النحر کو طواف افاضہ کیا پھر منی میں ظہر ادا کی یعنی (طواف سے) لوٹ کر۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1998]
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میری وہ رات جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے یوم النحر کی شام تھی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، اتنے میں وہب بن زمعہ اور ان کے ساتھ ابوامیہ کی اولاد کا ایک شخص دونوں قمیص پہنے میرے یہاں آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہب سے پوچھا: ”ابوعبداللہ! کیا تم نے طواف افاضہ کر لیا؟“ وہ بولے: قسم اللہ کی! نہیں اللہ کے رسول، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو پھر اپنی قمیص اتار دو“، چنانچہ انہوں نے اپنی قمیص اپنے سر سے اتار دی اور ان کے ساتھی نے بھی اپنے سر سے اپنی قمیص اتار دی پھر بولے: اللہ کے رسول! ایسا کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ وہ دن ہے کہ جب تم جمرہ کو کنکریاں مار لو تو تمہارے لیے وہ تمام چیزیں حلال ہو جائیں گی جو تمہارے لیے حالت احرام میں حرام تھیں سوائے عورتوں کے، پھر جب شام کر لو اور بیت اللہ کا طواف نہ کر سکو تو تمہارا احرام باقی رہے گا، اسی طرح جیسے رمی جمرات سے پہلے تھا یہاں تک کہ تم اس کا طواف کر لو“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 1999]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 18186، 18175، 18275)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/295، 303) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے یوم النحر کو طواف زیارت کرنے کی تاکید ثابت ہوتی ہے، اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر اس دن کسی نے طواف نہیں کیا تو وہ دوبارہ احرام میں واپس لوٹ آئے گا، جب تک وہ طواف نہ کرلے وہ احرام ہی میں رہے (ملاحظہ ہو: «صحیح ابن خزیمہ (كتاب المناسك، باب النهي عن الطيب واللباس إذا أمسى الحاج يوم النحر قبل أن يفيض وكل ما زجر الحاج عنه قبل رمي الجمرة يوم النحر، حدیث نمبر: ۲۹۵۸»)
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن صححه ابن خزيمة (2958 وسنده حسن) أبو عبيدة بن عبد اللّٰه بن زمعة صدوق حسن الحديث، وثقه ابن خزيمة بتخريج حديثه وروي له مسلم في صحيحه
ام المؤمنین عائشہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم النحر کا طواف رات تک مؤخر کیا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 2000]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/ الحج 129 (قبیل 1732) تعلیقًا، سنن الترمذی/الحج 80 (920)، سنن ابن ماجہ/المناسک 77 (3059)، (تحفة الأشراف: 6452، 17594)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/ الکبری/ الحج (4169)، مسند احمد (1/288) (ضعیف)» ابو الزبیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز صحیح احادیث کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف افاضہ دن میں زوال کے بعد کیا تھا، (ملاحظہ ہو: زاد المعاد، وصحیح ابی داود 6؍ 185)
وضاحت: ۱؎: دسویں تاریخ کے طواف کو طواف زیارہ یا طواف افاضہ کہتے ہیں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (920) ابن ماجه (3059) أبو الزبير مدلس ولم أجد تصريح سماعه و تابعه محمد بن طارق ولكنه عن طاووس : مرسل انوار الصحيفه، صفحه نمبر 76
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف افاضہ کے سات پھیروں میں رمل نہیں کیا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 2001]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/المناسک 77 (3060)، (تحفة الأشراف: 5917)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/ الکبری/ الحج (4170) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ دوران طواف دلکی چال جسے رمل کہتے ہیں وہ صرف طواف قدوم میں مشروع ہے طواف افاضہ وغیرہ میں مشروع نہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن مشكوة المصابيح (2673) صححه ابن خزيمة (2943 وسنده حسن) حديث ابن جريج عن عطاء قوي وإن عنعن