ابومسعود بدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کی امامت وہ شخص کرے جو کتاب اللہ کو سب سے زیادہ پڑھنے والا ہو، اگر لوگ قرأت میں برابر ہوں تو ان میں جس نے پہلے ہجرت کی ہو وہ امامت کرے، اگر ہجرت میں بھی برابر ہوں تو ان میں بڑی عمر والا امامت کرے، آدمی کی امامت اس کے گھر میں نہ کی جائے اور نہ اس کی حکومت میں، اور نہ ہی اس کی «تکرمہ»(مسند وغیرہ جو اس کی عزت کی جگہ ہو) پر اس کی اجازت کے بغیر بیٹھا جائے“۔ شعبہ کا بیان ہے: میں نے اسماعیل بن رجاء سے کہا: آدمی کا «تکرمہ» کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا: اس کا «فراش» یعنی مسند (اس کا بستر) وغیرہ۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 582]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/المساجد 53 (673)، سنن الترمذی/الصلاة 62 (235)، سنن النسائی/الإمامة 3، (781)، 6 (784)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 46 (980)، (تحفة الأشراف: 9976)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/ 118، 121، 122) (صحیح)»
وضاحت: اس باب کی ایک دوسری حدیث میں حافظ کے بعد سنت کے عالم کا درجہ بیان ہوا ہے۔ ہجرت کی فضیلت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی کے ساتھ مخصوص تھی۔ کسی دوسرے شخص کے حلقہ عمل میں بلااجازت امامت کرانا (اور ضمناً فتوے دینے شروع کر دینا) شرعاً ممنوع ہے۔ ایسے ہی اس کی خاص مسند (نشست یا بستر) پر بلااجازت بیٹھنا بھی منع ہے۔
اس سند سے بھی شعبہ سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے: «ولا يؤم الرجل الرجل في سلطانه» کوئی شخص کسی کی سربراہی کی جگہ میں اس کی امامت نہ کرے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح یحییٰ قطان نے شعبہ سے «أقدمهم قرائة»(لوگوں کی امامت وہ شخص کرے جو قرأت میں سب سے فائق ہو) کی روایت کی ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 583]
ابومسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر لوگ قرأت میں برابر ہوں تو وہ شخص امامت کرے جو سنت کا سب سے بڑا عالم ہو، ا گر اس میں بھی برابر ہوں تو وہ شخص امامت کرے جس نے پہلے ہجرت کی ہو“۔ اس روایت میں «فأقدمهم قرائة» کے الفاظ نہیں ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے حجاج بن ارطاۃ نے اسماعیل سے روایت کیا ہے، اس میں ہے: ”تم کسی کے «تکرمہ»(مسند وغیرہ) پر اس کی اجازت کے بغیر نہ بیٹھو“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 584]
وضاحت: ہجرت کی فضیلت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی کے ساتھ مخصوص تھی۔ کسی دوسرے شخص کے حلقہ عمل میں بلااجازت امامت کرانا (اور ضمناً فتوے دینے شروع کر دینا) شرعاً ممنوع ہے۔ ایسے ہی اس کی خاص مسند (نشست یا بستر) پر بلااجازت بیٹھنا بھی منع ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح انظر الحديثين السابقين (582، 583)
عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم ایسے مقام پر (آباد) تھے جہاں سے لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے جاتے گزرتے تھے، تو جب وہ لوٹتے تو ہمارے پاس سے گزرتے اور ہمیں بتاتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ایسا فرمایا ہے، اور میں ایک اچھے حافظہ والا لڑکا تھا، اس طرح سے میں نے بہت سا قرآن یاد کر لیا تھا، چنانچہ میرے والد اپنی قوم کے کچھ لوگوں کے ساتھ وفد کی شکل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز سکھائی اور فرمایا: ”تم میں لوگوں کی امامت وہ کرے جو سب سے زیادہ قرآن پڑھنے والا ہو“، اور میں ان میں سب سے زیادہ قرآن پڑھنے والا تھا اس لیے کہ میں قرآن یاد کیا کرتا تھا، لہٰذا لوگوں نے مجھے آگے بڑھا دیا، چنانچہ میں ان کی امامت کرتا تھا اور میرے جسم پر ایک چھوٹی زرد رنگ کی چادر ہوتی، تو جب میں سجدہ میں جاتا تو میری شرمگاہ کھل جاتی، چنانچہ ایک عورت نے کہا: تم لوگ اپنے قاری (امام) کی شرمگاہ ہم سے چھپاؤ، تو لوگوں نے میرے لیے عمان کی بنی ہوئی ایک قمیص خرید دی، چنانچہ اسلام کے بعد مجھے جتنی خوشی اس سے ہوئی کسی اور چیز سے نہیں ہوئی، ان کی امامت کے وقت میں سات یا آٹھ برس کا تھا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 585]
اس سند سے بھی عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث مروی ہے، اس میں ہے میں ایک پیوند لگی ہوئی پھٹی چادر میں ان کی امامت کرتا تھا، تو جب میں سجدہ میں جاتا تو میری سرین کھل جاتی تھی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 586]
مسعر بن حبیب جرمی نے عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ سے انہوں نے اپنے والد سے بیان کیا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا وفد کے کر گئے۔ ان لوگوں نے جب واپسی کا ارادہ کیا تو کہا: اے اللہ کے رسول! ہماری امامت کون کرائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس نے قرآن زیادہ یاد کیا ہو۔“ چنانچہ برادری میں کوئی ایسا نہ تھا جسے اس قدر قرآن آتا ہو جتنا کہ مجھے آتا تھا۔ تو انہوں نے مجھے آگے کر دیا اور میں نوعمر لڑکا تھا اور مجھ پر میری چادر (شملہ) ہوتی تھی۔ میں اپنی قوم بنی جرم کے جس اجتماع میں بھی ہوتا میں ہی ان کی امامت کرایا کرتا اور ان کے جنازے بھی پڑھاتا اور آج تک پڑھا رہا ہوں۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یزید بن ہارون نے مسعر بن حبیب سے، انہوں نے عمرو بن سلمہ سے روایت کیا کہ جب میری قوم اپنا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر آئی۔ اس سند میں «عن أبيه» کا واسطہ نہیں ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 587]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ما قبله، (تحفة الأشراف: 4565) (صحیح)» لیکن: «عن أبيه» کا قول غیر محفوظ ہے
وضاحت: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز فرض ہو یا نفل نابالغ لڑکا (جو اچھا قاری اور نماز کے ضروری مسائل سے واقف ہو) امام بنایا جا سکتا ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ”ان کی امامت کے وقت میں سات یا آٹھ برس کا تھا“(سنن ابوداود، حدیث ۵۸۵)۔
قال الشيخ الألباني: صحيح لكن قوله عن أبيه غير محفوظ
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے جب مہاجرین اوّلین (مدینہ) آئے اور عصبہ ۱؎ میں قیام پذیر ہوئے تو ان کی امامت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام سالم رضی اللہ عنہ کیا کرتے تھے، انہیں قرآن سب سے زیادہ یاد تھا۔ ہیثم نے اضافہ کیا ہے کہ ان میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور ابوسلمہ بن عبدالاسد رضی اللہ عنہ بھی موجود ہوتے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 588]
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یا ان کے ایک ساتھی سے فرمایا: ”جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم اذان دو، پھر تکبیر کہو، پھر جو تم دونوں میں عمر میں بڑا ہو وہ امامت کرے“۔ مسلمہ کی روایت میں ہے: اور ہم دونوں علم میں قریب قریب تھے۔ اسماعیل کی روایت میں ہے: خالد کہتے ہیں کہ میں نے ابوقلابہ سے پوچھا: پھر قرآن کہاں رہا؟ (یعنی قرآت قرآن کا مسئلہ کہ جس کو قرآن زیادہ یاد ہو وہ امامت کرائے) انہوں نے کہا: اس میں بھی وہ دونوں قریب قریب تھے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 589]
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے وہ لوگ اذان دیں جو تم میں بہتر ہوں، اور تمہاری امامت وہ لوگ کریں جو تم میں عالم و قاری ہوں“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 590]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الأذان 5 (726)، (تحفة الأشراف: 6039) (ضعیف)» (اس کے راوی حسین حنفی ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن ماجه (726) حسين بن عيسي الحنفي : ضعيف (تقريب:1341) وقال الھيثمي : وضعفه الجمھور (مجمع الزوائد 10/ 55) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 34