بہیہ کہتی ہیں کہ میں نے ایک عورت کو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک عورت کے بارے میں جس کا حیض بگڑ گیا تھا اور خون برابر آ رہا تھا (مسئلہ) پوچھتے ہوئے سنا (ام المؤمنین عائشہ کہتی ہیں): تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں اسے بتاؤں کہ وہ دیکھ لے کہ جب اس کا حیض صحیح تھا تو اسے ہر مہینے کتنے دن حیض آتا تھا؟ پھر اسی کے بقدر ایام شمار کر کے ان میں یا انہیں کے بقدر ایام میں نماز چھوڑ دے، غسل کرے، کپڑے کا لنگوٹ باندھے پھر نماز پڑھے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/حدیث: 284]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 17826) (ضعیف)» (اس کی سند میں واقع بہیَّہ مجہول ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف بھية: لا تعرف (تقريب: 8547) وأبو عقيل يحيي بن المتوكل: ضعيف (تقريب: 7633) وقال الھيثمي: وھو ضعيف عند الجمھور (مجمع الزوائد 5/ 53) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 24
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سالی اور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی بیوی ام حبیبہ بنت حجش رضی اللہ عنہا کو سات سال تک استحاضہ کا خون آتا رہا، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا، تو آپ نے فرمایا: ”یہ حیض نہیں ہے بلکہ یہ رگ (کا خون) ہے، لہٰذا غسل کر کے نماز پڑھتی رہو“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث میں اوزاعی نے زہری سے، زہری نے عروہ اور عمرہ سے اور انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے یوں اضافہ کیا ہے کہ: ام حبیبہ بنت حجش رضی اللہ عنہا کو سات سال تک استحاضہ کا خون آتا رہا، اور وہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے عقد میں تھیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ جب حیض آ جائے تو نماز چھوڑ دو، اور جب ختم ہو جائے تو غسل کر کے نماز پڑھو۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ اوزاعی کے علاوہ زہری کے کسی اور شاگرد نے یہ بات ذکر نہیں کی ہے، اسے زہری سے عمرو بن حارث، لیث، یونس، ابن ابی ذئب، معمر، ابراہیم بن سعد، سلیمان بن کثیر، ابن اسحاق اور سفیان بن عیینہ نے روایت کیا ہے اور ان لوگوں نے یہ بات ذکر نہیں کی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ یہ صرف ہشام بن عروہ کی حدیث کے الفاظ ہیں جسے انہوں نے اپنے والد سے اور عروہ نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ ابن عیینہ نے اس میں یہ بھی اضافہ کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حیض کے دنوں میں نماز چھوڑ دینے کا حکم دیا، یہ ابن عیینہ کا وہم ہے ۱؎، البتہ محمد بن عمرو کی حدیث میں جسے انہوں نے زہری سے نقل کیا ہے کچھ ایسی چیز ہے، جو اوزاعی کے اضافہ کے قریب قریب ہے ۲؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/حدیث: 285]
وضاحت: ۱؎: ابوداؤد کا یہ قول حدیث نمبر ۲۸۱ میں گزر چکا ہے۔ ۲؎: اس حدیث کو مختلف رواۃ نے متعدد طریقے اور الفاظ سے روایت کیا ہے اس سے اصل مسئلہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مستحاضہ حیض کے دنوں میں نماز نہیں پڑھے گی اور ان مخصوص ایام کے گزر جانے کے بعد وہ غسل کر کے ہر نماز کے لئے نیا وضو کرے اور شرمگاہ پرلنگوٹ کس کر نماز پڑھا کرے گی، یا پھر دو دو نماز کے لئے ایک بار وضو کرے گی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (327) صحيح مسلم (334)
فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہیں استحاضہ کا خون آتا تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”حیض کا خون سیاہ ہوتا ہے جو پہچان لیا جاتا ہے، جب یہ خون آئے تو نماز سے رک جاؤ، اور جب اس کے علاوہ خون ہو تو وضو کرو اور نماز پڑھو، کیونکہ یہ رگ (کا خون) ہے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابن مثنی کا بیان ہے کہ ابن ابی عدی نے اسے ہم سے اپنی کتاب سے اسی طرح بیان کی ہے پھر اس کے بعد انہوں نے ہم سے اسے زبانی بھی بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہم سے محمد بن عمرو نے بیان کیا ہے، انہوں نے زہری سے، زہری نے عروہ سے اور عروہ نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو استحاضہ کا خون آتا تھا، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: انس بن سیرین نے مستحاضہ کے سلسلے میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ جب وہ گاڑھا کالا خون دیکھے تو نماز نہ پڑھے اور جب پاکی دیکھے (یعنی کالا خون کا آنا بند ہو جائے) خواہ تھوڑی ہی دیر سہی، تو غسل کرے اور نماز پڑھے۔ اور مکحول نے کہا ہے کہ عورتوں سے حیض کا خون پوشیدہ نہیں ہوتا، اس کا خون کالا اور گاڑھا ہوتا ہے، جب یہ ختم ہو جائے اور زرد اور پتلا ہو جائے، تو وہ (عورت) مستحاضہ ہے، اب اسے غسل کر کے نماز پڑھنی چاہیئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مستحاضہ کے بارے میں حماد بن زید نے یحییٰ بن سعید سے، یحییٰ نے قعقاع بن حکیم سے، قعقاع نے سعید بن مسیب سے روایت کی ہے کہ جب حیض آئے تو نماز ترک کر دے، اور جب حیض آنا بند ہو جائے تو غسل کر کے نماز پڑھے۔ سمیّ وغیرہ نے سعید بن مسیب سے روایت کی ہے کہ وہ ایام حیض میں بیٹھی رہے (یعنی نماز سے رکی رہے)۔ ایسے ہی اسے حماد بن سلمہ نے یحییٰ بن سعید سے اور یحییٰ نے سعید بن مسیب سے روایت کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور یونس نے حسن سے روایت کی ہے کہ حائضہ عورت کا خون جب زیادہ دن تک جاری رہے تو وہ اپنے حیض کے بعد ایک یا دو دن نماز سے رکی رہے، پھر وہ مستحاضہ ہو گی۔ تیمی، قتادہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب اس کے حیض کے دنوں سے پانچ دن زیادہ گزر جائیں، تو اب وہ نماز پڑھے۔ تیمی کا بیان ہے کہ میں اس میں سے کم کرتے کرتے دو دن تک آ گیا: جب دو دن زیادہ ہوں تو وہ حیض کے ہی ہیں۔ ابن سیرین سے جب اس کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا: عورتیں اسے زیادہ جانتی ہیں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/حدیث: 286]
حمنہ بنت حجش رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھے استحاضہ کا خون کثرت سے آتا تھا، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ سے مسئلہ پوچھنے، اور آپ کو اس کی خبر دینے آئی، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بہن زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کے گھر پایا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے بہت زیادہ خون آتا ہے، اس سلسلے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ اس نے مجھے نماز اور روزے سے روک دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں (شرمگاہ پر) روئی رکھنے کا مشورہ دیتا ہوں، کیونکہ اس سے خون بند ہو جائے گا“، حمنہ نے کہا: وہ اس سے بھی زیادہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لنگوٹ باندھ کر اس کے نیچے کپڑا رکھ لو“، انہوں نے کہا: وہ اس سے بھی زیادہ ہے، بہت تیزی سے نکلتا ہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں دو باتوں کا حکم دیتا ہوں، ان دونوں میں سے جس کو بھی تم اختیار کر لو وہ تمہارے لیے کافی ہے، اور اگر تمہارے اندر دونوں پر عمل کرنے کی طاقت ہو تو تم اسے زیادہ جانتی ہو“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”یہ تو شیطان کی لات ہے، لہٰذا تم (ہر ماہ) اپنے آپ کو چھ یا سات دن تک حائضہ سمجھو، پھر غسل کرو، اور جب تم اپنے آپ کو پاک و صاف سمجھ لو تو تیئس یا چوبیس روز نماز ادا کرو اور روزے رکھو، یہ تمہارے لیے کافی ہے، اور جس طرح عورتیں حیض و طہر کے اوقات میں کرتی ہیں اسی طرح ہر ماہ تم بھی کر لیا کرو، اور اگر تم ظہر کی نماز مؤخر کرنے اور عصر کی نماز جلدی پڑھنے پر قادر ہو تو غسل کر کے ظہر اور عصر کو جمع کر لو اور مغرب کو مؤخر کرو، اور عشاء میں جلدی کرو اور غسل کر کے دونوں نماز کو ایک ساتھ ادا کرو، اور ایک نماز فجر کے لیے غسل کر لیا کرو، تو اسی طرح کرو، اور روزہ رکھو، اگر تم اس پر قادر ہو“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان دونوں باتوں میں سے یہ دوسری بات مجھے زیادہ پسند ہے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے عمرو بن ثابت نے ابن عقیل سے روایت کیا ہے، اس میں ہے کہ حمنہ رضی اللہ عنہا نے کہا: یہ دوسری بات مجھے زیادہ پسند ہے، انہوں نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نہیں بلکہ حمنہ رضی اللہ عنہ کا قول قرار دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عمرو بن ثابت رافضی برا آدمی ہے، لیکن حدیث میں صدوق ہے- اور ثابت بن مقدام ثقہ آدمی ہیں- ۱؎، اس کا ذکر انہوں نے یحییٰ بن معین کے واسطے سے کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے احمد بن حنبل کو کہتے سنا: ابن عقیل کی حدیث کے بارے میں میرے دل میں بے اطمینانی ہے ۲؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/حدیث: 287]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الطھارة 95 (128)، سنن ابن ماجہ/الطھارة 115 (622، 627) (تحفة الأشراف: 15821)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/439، سنن الدارمی/الطھارة 83 (812) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: ثابت بن مقدام کا تذکرہ مؤلف نے برسبیل تذکرہ عمرو بن ثابت بن ابی المقدام کی وجہ سے کر دیا ہے، ورنہ یہاں کسی سند میں ان کا نام نہیں آیا ہے، عمرو بن ثابت کو حافظ ابن حجر نے ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔ ۲؎: لیکن بتصریح ترمذی امام بخاری نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے حتی کہ امام احمد نے بھی اس کی تحسین کی ہے، حافظ ابن القیم نے اس پر مفصل بحث کی ہے، اس کی تائید حدیث نمبر: (۳۹۴) سے بھی ہو رہی ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن لم يجعله من قول النبي صلى الله عليه وسلم جعله كلام حمنة
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (128)،ابن ماجه (622،627) ابن عقيل: ضعيف (تقدم: 128) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 24