حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میرے پاس صدقہ کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں سوائے اس کے جو زبیر گھر میں لاتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خرچ کیا کرو اور گن گن کر نہ رکھا کرو کہ تمہیں بھی گن گن کردیا جائے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26912]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میری والدہ قریش سے معاہدے کے زمانے میں آئی، اس وقت وہ مشرک تھیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کرسکتی ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میری والدہ قریش سے معاہدے کے زمانے میں آئی اس وقت وہ مشرک تھیں۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26913]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میری والدہ قریش سے معاہدے کے زمانے میں آئی، اس وقت وہ مشرک تھیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کرسکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں، اپنی والدہ سے صلہ رحمی کرو۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26915]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2620، م: 1003، وهذا إسناد ضعيف، ابن لهيعة سيء الحفظ، وقد توبع
حضرت اسماء بنت ابی بکر سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے ارادے سے روانہ ہوئے مقام عروج پر پہنچ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ ڈال دیا، حضرت عائشہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں آ کر بیٹھ گئیں اور میں اپنی والد کے پہلو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر کی سواری ایک ہی تھی اور وہ حضرت صدیق اکبر کے غلام کے پاس تھی حضرت ابوبکر اپنے غلام کے آنے کا انتظار کر رہے تھے، لیکن جب وہ آیا تو اس کے ساتھ اونٹ نہیں تھا، حضرت ابوبکر نے اس سے پوچھا کہ تمہارا اونٹ کہاں گیا؟ اس نے کہا کہ وہ مجھ سے رات کو گم ہوگیا ہے، حضرت صدیق اکبرنے فرمایا ایک اونٹ تھا اور وہ بھی تم نے گم کردیا؟ اور اسے مارنے لگے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ کر مسکراتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ اس محرم کو دیکھو یہ کیا کر رہا ہے؟۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26916]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لعنعنة ابن إسحاق، وهو مدلس
مجاہد کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زبیر فرماتے ہیں حج افراد کیا کرو اور ابن عباس کی بات چھوڑ دو، حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ آپ اپنی والدہ سے کیوں نہیں پوچھ لیتے چنانچہ انہوں نے ایک قاصد حضرت اسماء کی طرف بھیجا تو انہوں نے فرمایا ابن عباس سچ کہتے ہیں، ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے ارادے سے نکلے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا تو ہم نے اسے عمرے کا احرام بنا لیا اور ہمارے لئے تمام چیزیں حسب سابق حلال ہوگئیں حتی کہ عورتوں اور مردوں کے درمیان انگیٹھیاں بھی دہکائی گئیں۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26917]
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میری بیٹی کی نئی نئی شادی ہوئی ہے یہ بیمار ہوگئی ہے اور اس کے سرکے بال جھڑ رہے ہیں کیا میں اس کے سر پر دوسرے بال لگوا سکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بال لگانے والی اور لگوانے والی دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26918]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک عورت بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ اگر کسی عورت کے جسم (یاکپڑوں) پر دم حیض لگ جائے تو کیا حکم ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے کھرچ دے پھر پانی سے بہادے اور اسی میں نماز پڑھ لے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26920]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ میری ایک سوکن ہے اگر مجھے میرے خاوند نے کوئی چیز نہ دی ہو لیکن میں یہ ظاہر کروں کہ اس نے مجھے فلاں چیز سے سیراب کردیا ہے، تو کیا اس میں مجھ پر کوئی گناہ ہوگا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے آپ کو ایسی چیز سے سیراب ہونیوالا ظاہر کرنا جو اسے نہیں ملی وہ ایسے ہے جیسے جھوٹ کے دو کپڑے پہننے والا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26921]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا سخاوت اور فیاضی کیا کرو اور خرچ کیا کرو جمع مت کیا کرو ورنہ اللہ بھی تم پر جمع کرنے لگے گا اور گن گن کر نہ خرچ کیا کرو کہ تمہیں بھی اللہ گن گن کر دینا شروع کردے گا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26922]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں سورج گرہن ہوگیا، اس دن میں حضرت عائشہ کے یہاں گئی، تو ان سے پوچھا کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ اس وقت نماز پڑھ رہے ہیں؟ انہوں نے اپنے سر سے آسمان کی طرف اشارہ کردیا میں نے پوچھا کہ کیا کوئی نشانی ظاہر ہوئی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل قیام کیا حتی کہ مجھ پر غشی طاری ہوگئی، میں نے اپنے پہلو میں رکھے ہوئے ایک مشکیزے کو پکڑا اور اس سے اپنے سر پر پانی بہانے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے جب سلام پھیرا تو سورج گرہن ختم ہوچکا تھا۔
پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا اور اللہ کی حمد وثناء کرنے کے بعد فرمایا حمد وصلوۃ کے بعد! اب تک میں نے جو چیزیں نہیں دیکھی تھیں وہ اپنے اس مقام پر آج دیکھ لیں حتی کہ جنت اور جہنم کو بھی دیکھ لیا مجھے یہ وحی کی گئی ہے کہ تم لوگوں کو اپنی قبروں میں مسح دجال کے برابریا اس کے قریب قریب فتنے میں مبتلا کیا جائے گا تمہارے پاس فرشتے آئیں گے اور پوچھیں گے کہ اس آدمی کے متعلق تم کیا جانتے ہو؟ تو جو مؤمن ہوگا وہ جواب دے گا کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور ہمارے پاس واضح معجزات اور ہدایت لے کر آئے ہم نے ان کی پکار پر لبک کہا اور ان کی اتباع کی (تین مرتبہ) اس سے کہا جائے گا ہم جانتے تھے کہ تو اس پر ایمان رکھتا ہے لہذا سکون کے ساتھ سو جاؤ! اور جو منافق ہوگا تو وہ کہے گا میں نہیں جانتا میں لوگوں کو کچھ کہتے ہوئے سنتا تھا وہی میں بھی کہہ دیتا تھا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26925]
حضرت اسماء کے حوالے سے مروی ہے کہ جب ان کے پاس کسی عورت کو دعا کے لئے لایا جاتا تو وہ اس کے گریبان میں (دم کرکے) پانی ڈالتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ بخار کو پانی سے ٹھنڈا کیا کریں اور فرمایا ہے کہ بخار جہنم کی تپش کا اثرہوتا ہے [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26926]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ہم لوگوں نے ماہ رمضان کے ایک ابرآلود دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں روزہ ختم کردیا تھا پھر سورج روشن ہوگیا (بعد میں جس کی قضاء کرلی گئی تھی)[مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26927]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کا ارادہ کیا تو حضرت صدیق اکبر کے گھر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سامان سفر میں نے تیار کیا تھا، مجھے سامان سفر اور مشکیزے کا منہ باندھنا تھا لیکن اس کے لئے مجھے کوئی چیز نہ مل سکی، میں نے حضرت صدیق اکبر سے عرض کیا کہ مجھے اپنے کمربند کے علاوہ کوئی چیز سامان سفرباندھنے کے لئے نہیں مل رہی، انہوں نے فرمایا اسے دو ٹکڑے کردو اور ایک ٹکڑے سے مشکیزے کا منہ باندھ دو اور دوسرے سے سامان سفر، اسی وجہ سے میرا نام " ذات النطاقین " پڑگیا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26928]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ میری ایک سوکن ہے اگر مجھے میرے خاوند نے کوئی چیز نہ دی ہو لیکن میں یہ ظاہر کروں کہ اس نے مجھے فلاں چیز سے سیراب کردیا ہے، تو کیا اس میں مجھ پر کوئی گناہ ہوگا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے آپ کو ایسی چیز سے سیراب ہونیوالا ظاہر کرنا جو اسے نہیں ملی وہ ایسے ہے جیسے جھوٹ کے دو کپڑے پہننے والا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26929]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میری بیٹی کی نئی نئی شادی ہوئی ہے یہ بیمار ہوگئی ہے اور اس کے سرکے بال جھڑ رہے ہیں، کیا میں اس کے سر پر دوسرے بال لگواسکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بال لگانے والی اور لگوانے والی دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26931]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک عورت بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ اگر کسی عورت کے جسم (یاکپڑوں) پر دم حیض لگ جائے تو کیا حکم ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے کھرچ دے پھر پانی سے بہادے اور اسی میں نماز پڑھ لے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26932]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا سخاوت اور فیاضی کیا کرو اور خرچ کیا کرو جمع مت کیا کرو ورنہ اللہ بھی تم پر جمع کرنے لگے گا اور گن گن کر نہ خرچ کیا کرو کہ تمہیں بھی اللہ گن گن کر دینا شروع کردے گا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26934]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا سخاوت اور فیاضی کیا کرو اور خرچ کیا کرو جمع مت کیا کرو ورنہ اللہ بھی تم پر جمع کرنے لگے گا اور گن گن کر نہ خرچ کیا کرو کہ تمہیں بھی اللہ گن گن کر دینا شروع کردے گا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26935]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں گندم کے دو مد صدقہ فطر کے طور پر ادا کرتے تھے اس مد کی پیمائش کے مطابق جس سے تم پیمائش کرتے ہو۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26936]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ جس وقت حضرت زبیر سے میرا نکاح ہوا روئے زمین پر ان کے گھوڑے کے علاوہ کوئی مال یا غلام یا کوئی اور چیز ان کی ملکیت میں نہ تھی میں ان کے گھوڑے کا چارہ تیار کرتی تھی اس کی ضروریات مہیا کرتی تھی اور اس کی دیکھ بھال کرتی تھی اسی طرح ان کے اونٹ کے لئے گٹھلیاں کو ٹتی تھی اس کا چارہ بناتی تھی، اسے پانی پلاتی تھی، ان کے ڈول کو سیتی تھی، آٹاگوندھتی تھی، میں روٹی اچھی طرح نہیں پکا سکتی تھی، اس لئے میری کچھ انصاری پڑوسی خواتین مجھے روٹی پکا دیتی تھیں، وہ سچی سہیلیاں تھیں، یاد رہے کہ میں گٹھلیاں حضرت زبیر کی اس زمین سے لایا کرتی تھی جو بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بطور جاگیر کے دیدی تھی، میں نے انہیں اپنے سر پر رکھا ہوتا تھا اور وہ زمین ہمارے گھر سے ایک فرسخ کے دوتہائی کے قریب بنتی تھی۔ ایک دن میں وہاں سے آرہی تھی اور گٹھلیوں کی گٹھڑی میرے سر پر تھی کہ راستے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوگئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کچھ صحابہ بھی تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پکارا اور مجھے اپنے پیچھے سوار کرنے کے لئے اونٹ کو بٹھانے لگے لیکن مجھے مردوں کے ساتھ جاتے ہوئے شرم آئی اور مجھے زبیر اور ان کی غیرت یاد آگئی کیونکہ وہ بڑے باغیرت آدمی تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھانپ گئے کہ مجھے شرم آرہی ہے لہذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگے چل پڑے، میں گھر پہنچی تو زبیر سے ذکر کیا کہ آج مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ملے تھے، میرے سر پر کھجوروں کی گٹھلیاں تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کچھ صحابہ بھی تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اونٹ کو بٹھایا تاکہ میں اس پر سوار ہوجاؤں لیکن مجھے حیاء آئی اور آپ کی غیرت کا بھی خیال آیا، انہوں نے فرمایا واللہ تمہارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار ہونے کی نسبت گٹھلیاں لاد کر لانا مجھ پر اس سے زیادہ شاق گزرتا ہے بالآخر حضرت صدیق اکبر نے اس کے کچھ ہی عرصے بعد میرے پاس ایک خادم بھیج دیا اور گھوڑے کی دیکھ بھال سے میں بری الذمہ ہوگئی اور ایسا لگا کہ جیسے انہوں نے مجھے آزاد کردیا ہو۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26937]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ انہیں مکہ مکرمہ میں عبداللہ بن زبیر کی ولادت کی امید ہوگئی تھی، وہ کہتی ہیں کہ جب میں مکہ مکرمہ سے نکلی تو پورے دنوں سے تھی، مدینہ منورہ پہنچ کر میں نے قباء میں قیام کیا تو وہیں عبداللہ کو جنم دیا، پھر انہیں لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ان کی گود میں انہیں ڈال دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کھجور منگوا کر اسے چبایا اور اپنا لعاب ان کے منہ میں ڈال دیا اس طرح ان کے پیٹ میں سب سے پہلے جو چیز داخل ہوئی وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب دہن تھا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کھجور سے گھٹی دی اور ان کے لئے برکت کی دعاء فرمائی اور یہ پہلا بچہ تھا جو مدینہ منورہ میں مسلمانوں کے یہاں پیدا ہوا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26938]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میری والدہ قریش سے معاہدے کے زمانے میں آئی، اس وقت وہ مشرک اور ضرورت مند تھیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کرسکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں، اپنی والدہ سے صلہ رحمی کرو۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26939]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میری والدہ قریش سے معاہدے کے زمانے میں آئی، اس وقت وہ مشرک اور ضرورت مند تھیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کرسکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اپنی والدہ سے صلہ رحمی کرو۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26940]
عبداللہ جو حضرت اسماء کے آزاد کردہ غلام ہیں سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت اسماء نے دار مزدلفہ کے قریب پڑاؤ کیا اور پوچھا کہ بیٹا کیا چاند غروب ہوگیا یہ مزدلفہ کی رات تھی اور وہ نماز پڑھ رہی تھیں، میں نے کہا ابھی نہیں وہ کچھ دیرتک مزید نماز پڑھتی رہیں پھر پوچھا بیٹاچاند چھپ گیا؟ اس وقت تک چاند غائب ہوچکا تھا لہذا میں نے کہہ دیا جی ہاں! انہوں نے فرمایا پھر کوچ کرو چنانچہ ہم لوگ وہاں سے روانہ ہوگئے اور منیٰ پہنچ کر جمرہ عقبہ کی رمی کی اور اپنے خیمے میں پہنچ کر فجر کی نماز ادا کی میں نے ان سے عرض کیا کہ ہم تو منہ اندھیرے ہی مزدلفہ سے نکل آئے، انہوں نے فرمایا ہرگز نہیں بیٹے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو جلدی چلے جانے کی اجازت دی ہے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26941]
عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت اسماء نے مجھے سبز رنگ کا ایک جبہ نکال کر دکھایا جس میں بالشت بھر کسروانی ریشم کی دھاریاں پڑی ہوئی تھیں اور اس کے دونوں کف ریشم کے بنے ہوئے تھے، انہوں نے بتایا کہ یہ جبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم زیب تن فرمایا کرتے تھے اور یہ حضرت عائشہ کے پاس تھا حضرت عائشہ کے وصال کے بعد یہ میرے پاس آگیا اور ہم لوگ اپنے میں سے کسی کے بیمار ہونے پر اسے دھو کر اس کے ذریعے شفاء حاصل کرتے ہیں۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26942]
عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت اسماء نے مجھے سبز رنگ کا ایک جبہ نکال کر دکھایا جس میں بالشت بھر کسروانی ریشم کی دھاریاں پڑی ہوئی تھیں انہوں نے بتایا کہ یہ جبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دشمن سے سامنا ہونے پر زیب تن فرمایا کرتے تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26944]
عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت اسماء نے مجھے سبز رنگ کا ایک جبہ نکال کر دکھایا جس میں بالشت بھر کسروانی ریشم کی دھاریاں پڑی ہوئی تھیں انہوں نے بتایا کہ یہ جبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم زیب تن فرمایا کرتے تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26945]
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه على عبدالملك بن أبى سليمان
مسلم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے حج تمتع کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اس کی اجازت دی جبکہ حضرت ابن زبیر اس سے منع فرماتے تھے جضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ابن زبیر کی والدہ ہی بتاتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی ہے تم جا کر ان سے پوچھ لو ہم ان کے پاس چلے گئے، وہ بھاری جسم کی نابینا عورت تھیں اور انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی ہے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26946]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم میں سے جو عورت اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہے وہ سجدے سے اپنا سر اس وقت تک نہ اٹھایا کرے جب تک ہم مرد اپنا سر نہ اٹھالیں، دراصل مردوں کے تہبند چھوٹے ہوتے تھے اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو ناپسند سمجھتے تھے کہ خواتین کی نگاہ مردوں کی شرمگاہ پر نہ پڑیں اور اس زمانے میں لوگوں کا تہبند یہ چادریں ہوتی تھیں۔ (شلواریں نہیں ہوتی تھیں)[مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26947]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لابهام مولاة أسماء، وقد اختلف على عبدالله بن مسلم فيه
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم میں سے جو عورت اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہے وہ سجدے سے اپنا سر اس وقت تک نہ اٹھایا کرے جب تک ہم مرد اپنا سر نہ اٹھالیں، دراصل مردوں کے تہبند چھوٹے ہوتے تھے اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو ناپسند سمجھتے تھے کہ خواتین کی نگاہ مردوں کی شرمگاہ پر نہ پڑیں اور اس زمانے میں لوگوں کا تہبند یہ چادریں ہوتی تھیں۔ (شلواریں نہیں ہوتی تھیں)[مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26948]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لإبهام مولاة أسماء
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم میں سے جو عورت اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہے وہ سجدے سے اپنا سر اس وقت تک نہ اٹھایا کرے جب تک ہم مرد اپنا سر نہ اٹھالیں، دراصل مردوں کے تہبند چھوٹے ہوتے تھے اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو ناپسند سمجھتے تھے کہ خواتین کی نگاہ مردوں کی شرمگاہ پر نہ پڑیں اور اس زمانے میں لوگوں کا تہبند یہ چادریں ہوتی تھیں۔ (شلواریں نہیں ہوتی تھیں)[مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26950]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لإبهام مولاة أسماء، وقد اختلف على عبدالله بن مسلم فيه
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم میں سے جو عورت اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہے وہ سجدے سے اپنا سر اس وقت تک نہ اٹھایا کرے جب تک ہم مرد اپنا سر نہ اٹھا لیں دراصل مردوں کے تہبند چھوٹے ہوتے تھے اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو ناپسند سمجھتے تھے کہ خواتین کی نگاہ مردوں کی شرمگاہ پر پڑے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26951]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد أخطأ فيه سريج بن النعمان
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے ارادے سے نکلے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا تو ہم نے اسے عمرے کا احرام بنا لیا اور ہمارے لئے تمام چیزیں حسب سابق حلال ہوگئیں حتی کہ عورتوں اور مردوں کے درمیان انگیٹھیاں بھی دہکائی گئیں۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26952]
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ ضباعہ بنت زبیربن عبد المطلب کے پاس آئے، وہ بیمار تھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کیا تم اس سفر میں ہمارے ساتھ نہیں چلو گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ حجۃ الوداع کا تھا انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں بیمار ہوں مجھے خطرہ ہے کہ میری بیماری آپ کو روک نہ دے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم حج کا احرام باندھ لو اور یہ نیت کرلو کہ اے اللہ! جہاں تو مجھے روک دے گا، وہی جگہ میرے احرام کھل جانے کی ہوگی۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26953]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حال أبى بكر بن عبدالله
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ جس دن سورج گرہن ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بےچین ہوگئے اور اپنی قمیص لے کر اس پر چادر اوڑھی اور لوگوں کو لے کر طویل قیام کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس دوران قیام اور رکوع کرتے رہے میں نے ایک عورت کو دیکھا جو مجھ سے زیادہ بڑی عمر کی تھی لیکن وہ کھڑی تھی، پھر میں نے ایک عورت کو دیکھا جو مجھ سے زیادہ بیمار تھی لیکن پھر بھی کھڑی تھی یہ دیکھ کر میں نے سوچا کہ تم سے زیادہ ثابت قدمی کے ساتھ کھڑے ہونے کی حقدار تو میں ہوں [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26954]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک دن میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حجر اسود کے سامنے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا یہ اس وقت کی بات ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل مشرکین کے سامنے دعوت پیش کرنے کا حکم نہیں ہوا تھا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نماز میں جبکہ مشرکین بھی سن رہے تھے،، یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا فبای آلاء ربکما تکذبن۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26955]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مقم ذی طوی پر پہنچ کر رکے تو ابوقحافہ نے اپنے چھوٹے بیٹے کی لڑکی سے کہا بیٹی! مجھے ابوقبیس پر لے کر چڑھو! اس وقت تک ان کی بینائی زائل ہوچکی تھی، وہ انہیں اس پہاڑ پر لے کر چڑھ گئی تو ابوقحافہ نے پوچھا بیٹی! تمہیں کیا نظر آرہا ہے؟ اس نے کہا کہ ایک بہت بڑا لشکر جو اکٹھا ہو کر آیا ہوا ہے ابوقحافہ نے کہا کہ وہ گھڑ سوار لوگ ہیں ان کی پوتی کا کہنا ہے کہ میں نے اس لشکر کے آگے آگے ایک آدمی کو دوڑتے ہوئے دیکھا جو کبھی آگے آجاتا تھا اور کبھی پیچھے ابوقحافہ نے بتایا کہ وہ واضح ہوگیا یعنی وہ آدمی جو شہسواروں کو حکم دیتا اور ان سے آگے رہتا ہے، وہ کہتی ہے کہ پھر وہ لشکرپھیلنا شروع ہوگیا، اس پر ابوقحافہ نے کہا واللہ پھر تو گھڑ سوار لوگ روانہ ہوگئے ہیں، تم مجھے جلدی سے گھرلے چلو، وہ انہیں لے کرنیچے اترنے لگی لیکن قبل اس کے کہ وہ اپنے گھرتک پہنچتے لشکر وہاں تک پہنچ چکا تھا، اس بچی کی گردن میں چاندی کا ایک ہار تھا جو ایک آدمی نے اس کی گردن میں سے اتار لیا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور مسجد میں تشریف لے گئے تو حضرت صدیق اکبر بارگاہ نبوت میں اپنے والد کو لے کر حاضر ہوئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا آپ انہیں گھر میں ہی رہنے دیتے، میں خود ہی وہاں چلا جاتا، حضرت صدیق اکبر نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ ان کا زیادہ حق بنتا ہے کہ یہ آپ کے پاس چل کر آئیں بہ نسبت اس کے کہ آپ ان کے پاس تشریف لے جائیں پھر انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بٹھادیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینے پر ہاتھ پھیر کر انہیں قبول اسلام کی دعوت دی چنانچہ وہ مسلمان ہوگئے، جس وقت حضرت ابوبکر انہیں لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے تو ان کا سر ثغامہ نامی بوٹی کی طرح (سفید) ہوچکا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کے بالوں کو رنگ کردو پھر حضرت صدیق اکبر کھڑے ہوئے اور اپنی بہن کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا میں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر کہتاہوں کہ میری بہن کا ہار واپس لوٹا دو، لیکن کسی نے اس کا جواب نہ دیا، تو حضرت صدیق اکبرنے فرمایا پیاری بہن اپنے ہار پر ثواب کی امید رکھو۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26956]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ہمراہ حضرت صدیق اکبر بھی مکہ مکرمہ سے نکلے تو حضرت صدیق اکبر نے اپنا سارا مال جو پانچ چھ ہزار درہم بنتا تھا بھی ساتھ لے لیا اور روانہ ہوگئے تھوڑی دیر بعد ہمارے دادا ابوقحافہ آگئے، ان کی بینائی زائل ہوچکی تھی، وہ کہنے لگے میرا خیال ہے کہ وہ اپنے ساتھ ہی اپنا سارا مال بھی لے گیا ہے، میں نے کہا ابا جان! نہیں وہ تو ہمارے لئے بہت سا مال چھوڑ گئے ہیں یہ کہہ کر میں نے کچھ پتھر لئے اور انہیں گھر کے ایک طاقچے میں جہاں میرے والد اپنا مال رکھتے تھے، رکھ دیا اور ان پر ایک کپڑا ڈھانپ لیا پھر ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا ابا جان! اس مال پر اپنا ہاتھ رکھ کر دیکھ لیجئے! انہوں نے اس پر ہاتھ پھیر کر کہا کہ اگر وہ تمہارے لئے یہ چھوڑ گیا ہے تو کوئی حرج نہیں اور اس نے بہت اچھا کیا اور تم اس سے اپنی ضروریات کی تکمیل کرسکو گے، حالانکہ والد صاحب کچھ بھی چھوڑ کر نہیں گئے تھے، میں نے اس طریقے سے صرف بزرگوں کو اطمینان دلانا تھا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26957]
حضرت اسماء کے حوالے سے مروی ہے کہ جب وہ کھانا بناتی تھیں تو کچھ دیر کے لئے اسے ڈھانپ دیتی تھیں تاکہ اس کی حرارت کی شدت کم ہوجائے اور فرماتی تھیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس سے کھانے میں خوب برکت ہوتی ہے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26958]
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف، رواية حسن عن ابن لهيعة بعد احتراق كتبه ، لكنه توبع، وقد توبع ابن لهيعة ايضاً
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میری بیٹی کی نئی نئی شادی ہوئی ہے یہ بیمار ہوگئی ہے اور اس کے سرکے بال جھڑ رہے ہیں، کیا میں اس کے سر پر دوسرے بال لگوا سکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بال لگانے والی اور لگوانے والی دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26960]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 5935، م: 2122، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عمران بن يزيد، وقد توبع
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حج کا احرام باندھ کر روانہ ہوئے، بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا جس شخص کے ساتھ ہدی کا جانور ہو اسے اپنا احرام باقی رکھنا چاہئے اور جس کے ساتھ ہدی کا جانور نہ ہو اسے احرام کھول لینا چاہئے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26961]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1236، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عمران بن يزيد، وقد توبع
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حج کا احرام باندھ کر روانہ ہوئے، بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا جس شخص کے ساتھ ہدی کا جانور ہوا سے اپنا احرام باقی رکھنا چاہئے اور جس کے ساتھ ہدی کا جانور نہ ہو اسے احرام کھول لینا چاہئے، حضرت اسماء کہتی ہیں کہ میں اور عائشہ مقداد اور زبیر عمرہ کا احرام باندھنے والوں میں سے تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26962]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف بهذه السياقة من حديث أسماء لجهالة عبادة بن المهاجر، وابن لهيعة سيئ الحفظ، وقد خولف
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ سوج گرہن کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نماز پڑھائی اس میں طویل قیام فرمایا: پھر رکوع کیا اور وہ بھی طویل کیا، پھر سر اٹھا کر طویل قیام فرمایا: پھر دوسری مرتبہ طویل رکوع کیا، پھر سر اٹھایا اور سجدے میں چلے گئے اور طویل سجدہ کیا، پھر کھڑے ہو کر طویل قیام فرمایا پھر دو مرتبہ طویل رکوع کیا، پھر سر اٹھالیا اور سجدے میں چلے گئے اور طویل سجدہ کیا پھر سر اٹھا کر دوسرا طویل سجدہ کیا پھر نماز سے فارغ ہو کر فرمایا کہ دوران نماز جنت میرے اتنے قریب کردی گئی تھی کہ اگر میں ہاتھ بڑھاتا تو اس کا کوئی خوشہ توڑ لاتا، پھر جہنم کو اتنا قریب کردیا گیا کہ میں کہنے لگا پروردگار! کیا میں بھی ان میں ہوں؟ میں نے اس میں ایک عورت کو دیکھا جسے ایک بلی نوچ رہی تھی، میں نے پوچھا کہ اس کا کیا ماجرا ہے؟ تو مجھے بتایا گیا کہ اس عورت نے اس بلی کو باندھ دیا تھا اور اسی حال میں یہ بلی مرگئی تھی، اس نے اسے خود ہی کچھ کھلایا اور نہ ہی اسے چھوڑا کہ خود ہی زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26963]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ سوج گرہن کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نماز پڑھائی اس میں طویل قیام فرمایا: پھر رکوع کیا اور وہ بھی طویل کیا، پھر سر اٹھا کر طویل قیام فرمایا: پھر دوسری مرتبہ طویل رکوع کیا، پھر سر اٹھایا اور سجدے میں چلے گئے اور طویل سجدہ کیا، پھر کھڑے ہو کر طویل قیام فرمایا پھر دو مرتبہ طویل رکوع کیا، پھر سر اٹھالیا اور سجدے میں چلے گئے اور طویل سجدہ کیا پھر سر اٹھا کر دوسرا طویل سجدہ کیا پھر نماز سے فارغ ہو کر فرمایا کہ دوران نماز جنت میرے اتنے قریب کردی گئی تھی کہ اگر میں ہاتھ بڑھاتا تو اس کا کوئی خوشہ توڑ لاتا، پھر جہنم کو اتنا قریب کردیا گیا کہ میں کہنے لگا پروردگار! کیا میں بھی ان میں ہوں؟ میں نے اس میں ایک عورت کو دیکھا جسے ایک بلی نوچ رہی تھی، میں نے پوچھا کہ اس کا کیا ماجرا ہے؟ تو مجھے بتایا گیا کہ اس عورت نے اس بلی کو باندھ دیا تھا اور اسی حال میں یہ بلی مرگئی تھی، اس نے اسے خود ہی کچھ کھلایا اور نہ ہی اسے چھوڑا کہ خود ہی زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26964]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 745، غير أن قولها: فأطال القيام، ثم سجد سجدتين لم يرد فى طرق حديث أسماء، وهذا من حديث جابر عند مسلم
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حج کا احرام باندھ کر روانہ ہوئے، بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا جس شخص کے ساتھ ہدی کا جانور ہوا سے اپنا احرام باقی رکھنا چاہئے اور جس کے ساتھ ہدی کا جانور نہ ہو اسے احرام کھول لینا چاہئے، میرے ساتھ چونکہ ہدی کا جانور نہیں تھا، لہذا میں حلال ہوگئی اور میرے شوہر حضرت زبیر کے پاس ہدی کا جانور تھا لہذا وہ حلال نہیں ہوئے، میں اپنے کپڑے پہن کر اور احرام کھول کر حضرت زبیر کے پاس آئی تو وہ کہنے لگے کہ میرے پاس سے اٹھ جاؤ میں نے کہا کیا آپ کو اندیشہ ہے کہ میں آپ پر کو دوں گی۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26965]
عبداللہ جو حضرت اسماء کے آزاد کردہ غلام ہی سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت اسماء دار مزدلفہ کے قریب پڑاؤ کیا اور پوچھا کہ بیٹا کیا چاند غروب ہوگیا یہ مزدلفہ کی رات تھی اور وہ نماز پڑھ رہی تھیں، میں نے کہا ابھی نہیں وہ کچھ دیرتک مزید نماز پڑھتی رہیں پھر پوچھا بیٹاچاند چھپ گیا؟ اس وقت تک چاند غائب ہوچکا تھا لہذا میں نے کہہ دیا جی ہاں! انہوں نے فرمایا پھر کوچ کرو چنانچہ ہم لوگ وہاں سے روانہ ہوگئے اور منیٰ پہنچ کر جمرہ عقبہ کی رمی کی اور اپنے خیمے میں پہنچ کر فجر کی نماز ادا کی میں نے ان سے عرض کیا کہ ہم تو منہ اندھیرے ہی مزدلفہ سے نکل آئے، انہوں نے فرمایا ہرگز نہیں بیٹے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو جلدی چلے جانے کی اجازت دی ہے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26966]
ابو الصدیق ناجی کہتے ہیں کہ حجاج بن یوسف حضرت عبداللہ بن زبیر کو شہید کرچکا تو حضرت اسماء کے پاس آکر کہنے لگا کہ آپ کے بیٹے نے حرم شریف میں کجی کی راہ اختیار کی تھی، اس لئے اللہ نے اسے دردناک عذاب کا مزہ چکھا دیا اور اس کے ساتھ جو کرنا تھا سو کرلیا، انہوں نے فرمایا تو جھوٹ بولتا ہے، وہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنیوالا تھا، صائم النہار اور قائم اللیل تھا، واللہ ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ بنوثقیف میں سے دو کذاب آدمیوں خروج عنقریب ہوگا، جن میں سے دوسرا پہلے کی نبست زیادہ بڑا شر اور فتنہ ہوگا اور وہ مبیر ہوگا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26967]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ جس دن سورج گرہن ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بےچین ہوگئے اور اپنی قمیص لے کر اس پر چادر اوڑھی اور لوگوں کو لے کر طویل قیام کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس دوران قیام اور رکوع کرتے رہے میں نے ایک عورت کو دیکھا جو مجھ سے زیادہ بڑی عمر کی تھی لیکن وہ کھڑی تھی، پھر میں نے ایک عورت کو دیکھا جو مجھ سے زیادہ بیمار تھی لیکن پھر بھی کھڑی تھی، یہ دیکھ کر میں نے سوچا کہ تم سے زیادہ ثابت قدمی کے ساتھ کھڑے ہونے کی حقدار تو میں ہوں۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26968]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے اس وقت میں کچھ گن رہی تھی اور اسے ناپ رہی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اسماء گن گن کر نہ رکھ ورنہ اللہ بھی تمہیں گن گن کردے گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے بعد میں نے اپنے پاس سے کچھ جانیوالے کو یا آنے والے کو کبھی شمار نہیں کیا اور جب بھی میرے پاس اللہ کا کوئی زرق ختم ہوا، اللہ نے اس کا بدل مجھے عطاء فرمادیا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26970]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ جس وقت حضرت زبیر سے میرا نکاح ہوا میں ان کے گھوڑے کا چارہ تیار کرتی تھی اس کی ضروریات مہیا کرتی تھی اور اس کی دیکھ بھال کرتی تھی اسی طرح ان کے اونٹ کے لئے گٹھلیاں کو ٹتی تھی اس کا چارہ بناتی تھی، اسے پانی پلاتی تھی، ان کے ڈول کو سیتی تھی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کچھ ہی عرصے بعد میرے پاس ایک خادم بھیج دیا اور گھوڑے کی دیکھ بھال سے میں بری الذمہ ہوگئی اور ایسا لگا کہ جیسے انہوں نے مجھے آزاد کردیا ہو۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26972]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بر سر منبر فرمایا کرتے تھے اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی غیور نہیں ہوسکتا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26973]
عنترہ کہتے ہیں کہ جب حجاج بن یوسف حضرت عبداللہ بن زبیر کو شہید کرچکا ان کا جسم پھانسی سے لٹکا ہوا تھا اور حجاج منبر پر تھا کہ تو حضرت اسما آگئیں ان کے ساتھ ایک باندی تھی جو انہیں لے کر آرہی تھی کیونکہ ان کی بینائی ختم ہوچکی تھی، انہوں نے فرمایا تمہارا امیر کہاں ہے؟ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا تو جھوٹ بولتا ہے واللہ ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ بنوثقیف میں سے دو کذاب آدمیوں کا خروج عنقریب ہوگا جن میں سے دوسرا پہلے کی نسبت زیادہ بڑا شر اور فتنہ ہوگا اور وہ مبیر ہوگا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26974]
حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح لكن بلفظ: "ان فى ثقيف كذابا و مبيرا" وهذا اسناد فيه هارون بن عنترة، وفيه كلام، وقد انفرد بسياق هذه القصة. وقوله: "منكوسا" تفرد له، وان الحجاج هو الذى دخل على اسماء
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ میرے پاس حضرت زبیر کی قمص کے دو بازو موجود ہیں جو ریشمی ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بوقت جنگ پہننے کے لئے عطا فرمائے تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26975]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب انسان کو اس کی قبر میں داخل کردیا جاتا ہے اور وہ مؤمن ہو تو اس کے اعمال مثلا نماز، روزہ اسے گھیرے میں لے لیتے ہیں، فرشتہ عذاب نماز کی طرف سے آنا چاہتا ہے تو نماز اسے روکی دیتی ہے، روزے کی طرف سے آنا چاہے تو روزہ روک دیتا ہے، وہ اسے پکار کر بیٹھنے کے لئے کہتا ہے چنانچہ انسان بیٹھ جاتا ہے، فرشتہ اس سے پوچھتا ہے کہ تو اس آدمی یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیا کہتا ہے؟ وہ پوچھتا ہے کون آدمی؟ فرشتہ کہتا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم وہ کہتا ہے میں گواہی دیتاہوں کہ وہ اللہ کے پیغمبر ہیں، فرشتہ کہتا ہے کہ تو اسی پر زندہ رہا اور اسی پر تجھے موت آگئی اور اسی پر تجھے اٹھایا جائے گا۔ اور اگر مردہ فاجریا کافر ہو تو جب فرشتہ اس کے پاس آتا ہے تو درمیان میں اسے واپس لوٹا دینے والی کوئی چیز نہیں ہوتی، وہ اسے بٹھاکرپوچھتا ہے کہ تو اس آدمی کے متعلق کیا کہتا ہے؟ مردہ پوچھتا ہے کون آدمی وہ کہتا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، مردہ کہتا ہے کہ واللہ میں کچھ نہیں جانتا، میں لوگوں کو جو کہتے ہوئے سنتا تھا، وہی کہہ دیتا تھا، فرشتہ کہتا ہے کہ تو اسی پر زندہ رہا، اسی پر مرا اور اسی پر تجھے اٹھایا جائے گا، پھر اس پر قبر میں ایک جانور کو مسلط کردیا جاتا ہے اس کے پاس ایک کوڑا ہوتا ہے جس کے سرے پر چنگاری ہوتی ہے جیسے اونٹ کی نوک ہو جب تک اللہ کو منظور ہوگا وہ اسے مارتا رہے گا، وہ جانور بہرا ہے جو آواز سن ہی نہیں سکتا کہ اس پر رحم کھالے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26976]
حكم دارالسلام: رجاله ثقات، لم يذكر سماع محمد بن المنكدر من اسماء، وهو قد ادركها
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ میری ایک سوکن ہے اگر مجھے میرے خاوند نے کوئی چیز نہ دی ہو لیکن میں یہ ظاہر کروں کہ اس نے مجھے فلاں چیز سے سیراب کردیا ہے، تو کیا اس میں مجھ پر کوئی گناہ ہوگا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے آپ کو ایسی چیز سے سیراب ہونیوالا ظاہر کرنا جو اسے نہیں ملی وہ ایسے ہے جیسے جھوٹ کے دو کپڑے پہننے والا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26977]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میری بیٹی کی نئی نئی شادی ہوئی ہے یہ بیمار ہوگئی ہے اور اس کے سرکے بال جھڑ رہے ہیں، کیا میں اس کے سر پر دوسرے بال لگوا سکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بال لگانے والی اور لگوانے والی دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26979]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میرے پاس صدقہ کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں سوائے اس کے جو زبیر گھر میں لاتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خرچ کیا کرو اور گن گن کر نہ رکھا کرو کہ تمہیں بھی گن گن کردیا جائے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26980]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک عورت بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ! اگر کسی عورت کے جسم (یاکپڑوں) پر دم حیض لگ جائے تو کیا حکم ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے کھرچ دے، پھر پانی سے بہادے اور اسی میں نماز پڑھ لے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26981]
عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت اسماء نے مجھے سبز رنگ کا ایک جبہ نکال کردکھایا اور بتایا کہ یہ جبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم زیب تن فرمایا کرتے تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26982]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میرے پاس صدقہ کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں سوائے اس کے جو زبیرگھر میں لاتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خرچ کیا کرو اور گن گن کر نہ رکھا کرو کہ تمہیں بھی گن گن کردیا جائے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26984]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خرچ کیا کرو اور گن گن کر نہ رکھا کرو کہ تمہیں بھی گن گن کردیا جائے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26985]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 1433، م: 1029، وهذا اسناد اختلف فيه على اسامة بن زيد
عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت اسماء نے مجھے سبز رنگ کا ایک جبہ نکال کر دکھایا جس میں بالشت بھر کسروانی ریشم کی دھاریاں پڑی ہوئی تھیں اور اس کے دونوں کف ریشم کے بنے ہوئے تھے، انہوں نے بتایا کہ یہ جبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم زیب تن فرمایا کرتے تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26986]
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون ذكر لقاء رسول الله ﷺ بهذه الجبة ، وهذا إسناد ضعيف لضعف حجاج بن أرطاة
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میرے پاس صدقہ کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں سوائے اس کے جو زبیر گھر میں لاتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خرچ کیا کرو اور گن گن کر نہ رکھا کرو کہ تمہیں بھی گن گن کردیا جائے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26987]
عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت اسماء نے مجھے سبز رنگ کا ایک جبہ نکال کر دکھایا جس میں بالشت بھر کسروانی ریشم کی دھاریاں پڑی ہوئی تھیں۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26989]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وقد اختلف فى هذا الإسناد على عبدالملك بن أبى سليمان
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا سخاوت اور فیاضی کیا کرو اور خرچ کیا کرو جمع مت کیا کرو ورنہ اللہ بھی تم پر جمع کرنے لگے گا اور گن گن کر نہ خرچ کیا کرو کہ تمہیں بھی اللہ گن گن کر دینا شروع کردے گا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26990]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا سخاوت اور فیاضی کیا کرو اور خرچ کیا کرو جمع مت کیا کرو ورنہ اللہ بھی تم پر جمع کرنے لگے گا اور گن گن کر نہ خرچ کیا کرو کہ تمہیں بھی اللہ گن گن کر دینا شروع کردے گا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26991]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں سورج گرہن ہوگیا، اس دن میں حضرت عائشہ کے یہاں گئی، تو ان سے پوچھا کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ اس وقت نماز پڑھ رہے ہیں؟ انہوں نے اپنے سر سے آسمان کی طرف اشارہ کردیا میں نے پوچھا کہ کیا کوئی نشانی ظاہر ہوئی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل قیام کیا حتی کہ مجھ پر غشی طاری ہوگئی، میں نے اپنے پہلو میں رکھے ہوئے ایک مشکیزے کو پکڑا اور اس سے اپنے سر پر پانی بہانے لگی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے جب سلام پھیرا تو سورج گرہن ختم ہوچکا تھا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا اور اللہ کی حمد وثناء کرنے کے بعد فرمایا حمد وصلوۃ کے بعد! اب تک میں نے جو چیزیں نہیں دیکھی تھیں وہ اپنے اس مقام پر آج دیکھ لیں حتی کہ جنت اور جہنم کو بھی دیکھ لیا مجھے یہ وحی کی گئی ہے کہ تم لوگوں کو اپنی قبروں میں مسیح دجال کے برابریا اس کے قریب قریب فتنے میں مبتلا کیا جائے گا تمہارے پاس فرشتے آئیں گے اور پوچھیں گے کہ اس آدمی کے متعلق تم کیا جانتے ہو؟ تو جو مؤمن ہوگا وہ جواب دے گا کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور ہمارے پاس واضح معجزات اور ہدایت لے کر آئے ہم نے ان کی پکار پر لبک کہا اور ان کی اتباع کی (تین مرتبہ) اس سے کہا جائے گا ہم جانتے تھے کہ تو اس پر ایمان رکھتا ہے لہذا سکون کے ساتھ سوجاؤ! اور جو منافق ہوگا تو وہ کہے گا میں نہیں جانتا میں لوگوں کو کچھ کہتے ہوئے سنتا تھا وہی میں بھی کہہ دیتا تھا اور میں نے پچاس یا ستر ہزار ایسے آدمی دیکھے جو جنت میں چودھویں رات کے چاند کی طرح داخل ہوں گے، ایک آدمی نے اٹھ کر عرض کیا اللہ سے دعاء کردیجئے کہ وہ مجھ کو بھی ان میں شامل کردے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ اسے بھی ان میں شامل فرمادے، اے لوگوں اس وقت تم میرے منبر سے اترنے سے پہلے جو سوال بھی کرو گے میں تمہیں اس کا جواب ضروردوں گا، ایک آدمی نے کھڑے ہو کر پوچھا کہ میرا باپ کون ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیرا باپ فلاں آدمی ہے جس کی طرف اس کی نسبت کی جاتی تھی۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26992]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف بهذه السياقة، فقد انفرد به فليح، وهو ممن لا يحتمل تفرده، ولم يذكر سماع محمد بن عباد من أسماء
عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت اسماء نے مجھے سبز رنگ کا ایک جبہ نکال کر دکھایا جس میں بالشت بھر کسروانی ریشم کی دھاریاں پڑی ہوئی تھیں اور اس کے دونوں کف ریشم کے بنے ہوئے تھے، انہوں نے بتایا کہ یہ جبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم زیب تن فرمایا کرتے تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26993]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میری والدہ قریش سے معاہدے کے زمانے میں آئی، اس وقت وہ مشرک اور ضرورت مند تھیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کرسکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اپنی والدہ سے صلہ رحمی کرو۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26994]
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں گندم کے دو مد صدقہ فطر کے طور پر ادا کرتے تھے، اس مد کی پیمائش کے مطابق جس سے تم پیمائش کرتے ہو۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26995]