حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک بکری ذبح کی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا تو ہم نے اس کا تھوڑا ساحصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تناول فرمایا اور کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے درمیان میں تازہ وضو نہیں کیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23855]
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان (مرد) کو اس حال میں نماز پڑھنے سے روکا ہے کہ اس کے سر کے بالوں کی چوٹی بنی ہوئی ہو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23856]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد اختلف فيه فى تعيين الرجل المبهم، ثم إنه اختلف فى إسناده على مخول
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ قریش کے کچھ لوگوں نے مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی اسلام میرے دل میں گھر کر گیا اور میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اب میں قریش کے پاس واپس نہیں جانا چاہتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں خلاف عہد نہیں کرسکتا اور ایلچیوں کو اپنے پاس نہیں روک سکتا اس لئے اب تو تم واپس چلے جاؤ اگر تمہارے دل میں وہی ارادہ باقی رہے جو اب ہے تو پھر میرے پاس آجانا (چنانچہ میں ان کے پاس چلا گیا پھر واپس آکر بارگاہ نبوت میں حاضر ہوا اور مشرف با اسلام ہوگیا)[مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23857]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، على ابن أبى رافع لا يعرف له رواية، والصواب - إن شاء الله - رواية الحسن ابن على بن أبى رافع عن جده سماعا
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (غزوہ خیبر کے موقع پر) جب علی رضی اللہ عنہ کو اپنا جھنڈا دے کر بھیجا تو ہم بھی ان کے ساتھ نکلے تھے جب وہ قلعہ کے قریب پہنچے تو قلعہ کے لوگ باہر آئے اور لڑائی شروع ہوگئی ایک یہودی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر حملہ کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ڈھال ان کے ہاتھ سے گرگئی تھی انہوں نے قلعہ کا دروازہ اکھیڑ کر اس سے ڈھال کا کام لیا اور دوران قتال وہ مستقل ان کے ہاتھ میں رہا حتیٰ کہ اللہ نے انہیں فتح عطا فرما دی اور جنگ سے فارغ ہو کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے ہاتھ سے پھینک دیا میں نے دیکھا کہ سات آدمیوں کی ایک جماعت نے " جن کے ساتھ آٹھواں میں بھی تھا " اس دروازے کو ہلانے میں اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا لیکن ہم اسے ہلا نہیں سکے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23858]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لابهام الراوي عن أبى رافع
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک ہنڈیا میں گوشت پکایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اس کی دستی نکال کردو چناچہ میں نے نکال دی تھوڑی دیر بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری دستی طلب فرمائی میں نے وہ بھی دے دی تھوڑی دیر بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دستی طلب فرمائی میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی! ایک بکری کی کتنی دستیاں ہوتی ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اگر تم خاموش رہتے تو اس ہنڈیا سے اس وقت تک دستیاں نکلتی رہتیں جب تک میں تم سے مانگتا رہتا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23859]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حال عمة عبدالرحمن بن أبى رافع
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو خوبصورت اور خصی مینڈھوں کی قربانی فرمائی اور فرمایا ان میں سے ایک تو ہر شخص کی جانب سے تھا جو اللہ کی وحدانیت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ رسالت کی گواہی دیتا ہو اور دوسرا اپنی اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے تھا روای کہتے ہیں کہ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری کفایت فرمائی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23860]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف شريك، وعبدالله بن محمد، وقد اضطرب فيه ألوانا، وعلي بن الحسين لم يدرك أبا رافع
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اس شخص کو جانتا ہوں تم میں سے جس کے پاس میری کوئی حدیث پہنچے اور وہ اپنے صوفے پر ٹیک لگائے کہتا ہے کہ مجھے تو یہ حکم کتاب اللہ میں نہیں ملتا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23861]
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی دن میں اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے گئے اور ہر ایک سے فراغت کے بعد غسل فرماتے رہے کسی نے پوچھا یا رسول اللہ! اگر آپ ایک ہی مرتبہ غسل فرما لیتے (تو کوئی حرج تھا؟) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ طریقہ زیادہ پاکیزہ، عمدہ اور طہارت والا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23862]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، عبدالرحمن بن أبى رافع وعمته سلمي، هما ممن لا يحتمل تفرد هما، بل خالفا حديث أنس الصحيح
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ارقم رضی اللہ عنہ یا ان کے صاحبزادے میرے پاس سے گذرے انہیں زکوٰۃ کی وصولی کے لئے مقرر کیا گیا تھا انہوں نے مجھے اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے اس کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابو رافع! محمد و آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر زکوٰۃ حرام ہے اور کسی قوم کا آزاد کردہ غلام ان ہی میں شمار ہوتا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23863]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن أبى ليلى
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابتداء میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ غلام تھے، اسلام ہمارے گھر میں داخل ہوچکا تھا اور میں اور ام الفضل اسلام قبول کرچکے تھے اسلام تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بھی قبول کرلیا تھا لیکن اپنی قوم کے خوف سے اسے چھپا کر رکھتے تھے ابو الہب دشمن اللہ غزوہ بدر میں شریک نہیں ہوسکا تھا اور اس نے اپنی جگہ عاص بن ہشام کو بھیج دیا تھا کیونکہ لوگوں میں یہی رواج تھا کہ اگر کوئی آدمی جنگ میں شریک نہ ہوتا تو اپنے بدلے کسی دوسرے آدمی کو بھیج دیتا تھا، پھر جب ہمارے پاس فتح بدر کی خوشخبری پہنچی تو اللہ نے ابولہب کو ذلیل و رسوا کردیا اور ہمیں اپنے اندر طاقت کا احساس ہوا پھر انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی۔
گذشتہ حدیث کا تسلسل یعقوب کی کتاب میں مرسلاً اس طرح مذکور ہے کہ غزوہ بدر کے قیدیوں میں ابو وداعہ بن صبیرہ سہمی نام کا ایک آدمی بھی تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مکہ مکرمہ میں اس کا ایک بیٹا ہے جو بڑا ہوشیار اور تاجر اور مال والا ہے، عنقریب تم اسے دیکھو گے کہ وہ میرے پاس اپنے باپ کا فدیہ دینے کے لئے آئے گا حالانکہ اس وقت قریش نے یہ اعلان کردیا تھا کہ اپنے قیدیوں کا فدیہ دینے میں جلد بازی سے کام نہ لینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی انہیں تم سے جدا نہ رکھ سکیں گے ابو وداعہ کے بیٹے مطلب نے بھی کہا کہ آپ صحیح کہتے ہیں ایسا ہی کریں لیکن رات ہوئی تو وہ چپکے سے مکہ مکرمہ سے کھسکا اور مدینہ منورہ پہنچ کر چار ہزار درہم کے بدلے اپنے باپ کو چھڑایا اور اسے لے کر روانہ ہوگیا اسی طرح مکرز بن حفص بھی سہیل بن عمرو کا فدیہ لے کر آیا تھا یہ وہی تھا جسے حضرت مالک بن دخش رضی اللہ عنہ جن کا تعلق بنو مالک بن عوف سے تھا نے گرفتار کیا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23864]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، حسين بن عبدالله متروك ، و عكرمة لم يدرك أبا رافع
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا اے ابو رافع! مدینہ میں جتنے کتے پائے جاتے ہیں ان سب کو مار ڈالو، وہ کہتے ہیں کہ میں نے انصار کی کچھ خواتین کے جنت البقیع میں کچھ درخت دیکھے ان خواتین کے پاس بھی کتے تھے وہ کہنے لگیں اے ابو رافع! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے مردوں کو جہاد کے لئے بھیج دیا اللہ کے بعد اب ہماری حفاظت یہ کتے ہی کرتے ہیں اور واللہ کسی کو ہمارے پاس آنے کی ہمت نہیں ہوتی حتیٰ کے ہم میں سے کوئی عورت اٹھتی ہے تو یہ کتے اس کے اور لوگوں کے درمیان آڑ بن جاتے ہیں اس لئے آپ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کردو چناچہ انہوں نے یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کردی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابو رافع! تم انہیں قتل کردو خواتین کی حفاظت اللہ تعالیٰ خود کرے گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23865]
حكم دارالسلام: أصل الحديث صحيح بغير هذه السياقة، وهذا إسناد ضعيف، الفضل بن عبيد الله بن أبى رافع لم يدرك جده أبا رافع، والعباس بن أبى خداش مجهول
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مؤذن کی آواز سنتے تو وہی جملے دہراتے جو وہ کہہ رہا ہوتا تھا لیکن جب وہ حی علی الصلوۃ اور حی علی الفلاح پہنچتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لاحول ولاقوۃ الاباللہ کہتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23866]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك وعاصم بن عبيد الله، ولانقطاعه، على بن الحسين لم يدرك أبا رافع
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک بکری ذبح کی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا تو ہم نے اس کا تھوڑا ساحصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تناول فرمایا اور کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے درمیان میں تازہ وضو نہیں کیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23867]
حكم دارالسلام: الصحيح من حديث أبى رافع أنه أكل من بطن شاة بدل من كتف، وهذا إسناد ضعيف لجهالة المغيرة
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک بکری ذبح کی ' نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا تو ہم نے اس کا تھوڑا ساحصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تناول فرمایا اور کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے درمیان میں تازہ وضو نہیں کیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23868]
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے ہاں امام حسن رضی اللہ عنہ کی پیدائش ہوئی تو میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کے کان میں اذان دی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23869]
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی دن میں اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے گئے اور ہر ایک سے فراغت کے بعد غسل فرماتے رہے کسی نے پوچھا یا رسول اللہ! اگر آپ ایک ہی مرتبہ غسل فرما لیتے (تو کوئی حرج تھا؟) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ طریقہ زیادہ پاکیزہ، عمدہ اور طہارت والا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23870]
عمرو بن شرید کہتے ہیں کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ ایک معاملہ پر ایک دوسرے سے بھاؤ تاؤ کر رہے تھے تو حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ " پڑوسی قرب کا زیادہ حق رکھتا ہے " تو میں آپ کو یہ زمین کبھی نہ دیتا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23871]
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ارقم رضی اللہ عنہ یا ان کے صاحبزادے میرے پاس سے گذرے انہیں زکوٰۃ کی وصولی کے لئے مقرر کیا گیا تھا انہوں نے مجھے اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے اس کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابو رافع! محمد و آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر زکوٰۃ حرام ہے اور کسی قوم کا آزاد کردہ غلام ان ہی میں شمار ہوتا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23872]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 23873
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مُخَوَّلٍ ، عَنْ أَبِي سَعْدٍ ، قَالَ: رَأَيْتُ أَبَا رَافِعٍ جاء إلى الحسن بن علي وهو يُصلَّي، قد عَقَصَ شعرَه، فأطلَقَه أو نهاه عن ذلك، وقال: أنَّ رسول الله صَلَّي الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " رأى رجلًا يُصلَّيَ وقد عَقَصَ رأسه، فنهاه"، أو قال:" نَهَى رسولُ الله صَلَّي الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أن يُصلَّيَ الرَّجلُ وهو عاقصٌ شعرَه" ..
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد اختلف فيه فى تعيين الرجل المبهم، ثم إنه اختلف فى إسناده على مخول
حدیث نمبر: 23875
حدثنا سفيان حدثنا صالح بن كَيْسان ، عن سليمان ، قال: قال أبو رافع : لم يَأْمُرْني أن أَنِزِلَه، ولكن ضَرَبتُ قُبَّته فنَزَل، قال عبدُ الله: قال أَبي: سألتُ ابنَ عُيَيْنة عن هذا.
حدثنا سفيانُ ، عن أبي النَّضْر ، عن عُبَيد الله بن أبي رافعٍ ، عن أَبيه ، عن النبي صَلَّي الله ِعَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال: " لا أُلِفيَنَّ أحدَكم متَّكئًا على أَرِيكتِه، الأمرُ من أَمْري مما أَمَرْتُ به، ونَهَيتُ عنه، فيقولُ: لا َندْري، ما وَجَدْنا في كتاب الله اتَّبَعْناه" .
حدثنا زكريا بن عَدِيَّ ، حدثنا عُبَيد الله بن عمرو ، عن عبد الله ابن محمد عَقِيل ، قال: سألتُ عليَّ بن حُسين ، قال: أخبرني أبو رافعٍ مولى رسول الله ِصَلَّي الله ُعَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أنَّ حَسَن بن عليًّ الأكبر حين وُلِدَ، أَرادت أُمُّه فاطمةُ أن تَعُقَّ بكَبْشينِ، فقال رسول الله صَلَّي الله ُعَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لا تَعُقَّي عنه، ولكن احِلقي شعَر رأْسِه، ثم تَصَدَّقي بوَزْنِ رأسِه من الوَرِقِ في سبيلِ الله" ، ثم وُلِدَ حُسَين بعد ذلك، فصَنعَت مثلَ ذلك.
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عبدالله بن محمد بن عقيل
حدیث نمبر: 23878
حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا ابن جُرَيْج ، حدثني عِمْران بن موسى ، عن سعيد بن أبي سعيدٍ المَقبُري ، عن أبيه ، أنه رأَى أبا رافع مولى رسول الله صَلَّي الله ُعَلَيْهِ وَسَلَّمَ مرَّ بحسن بن عليَّ وهو يُصلَّي قائمًا، وقد غَرَزَ ضَفِيرتَه في قَفَاهُ، فحَلَّها أبو رافعٍ، فالْتَفَتَ إليه مغُضَبًا، فقال أبو رافع : أَقْبِل على صلاتك ولًا تَغضَبْ، فإني سمعتُ رسول الله ِصَلَّي الله ُعَلَيْهِ وَسَلَّمَ يقول: " ذلك كِفْلُ الشَّيطانِ" يعني: مَغرِزَ ضَفِيرته.
حدثنا محمد بن جعفرٍ ، قال: حدثنا شعبةُ ، عن فُرات ، عن أبي الطُفيل ، عن أبي سَرِيحة ، قال: كان رسولُ الله صَلَّي الله ُعَلَيْهِ وَسَلَّمَ في غُرْفة ونحن تحتها نتحدَّثُ، قال: فأشرف علينا رسولُ الله صَلَّي الله ُعَلَّيْهِ وَسَلَّمَ، فقال:" ما تذكُرون؟" قالوا: الساعة، قال: " إن الساعة لن تقوم حتى تَرَوْا عشر آيات: خَسفٌ بالمشرِق، وخَسفٌ بالمَغرِب، وخَسفٌ في جَزِيرة العرب، والدُّخان، والدجَّال، والدابَّة، وطُلُوع الشمس من مغرِبها، ويَأْجوج ومَأْجوجُ، ونارٌ تخرج من قَعْر عَدَنٍ تُرحَّل الناسَ" ، فقال شعبة: سمعتُه وأحسبه قال:" تنزل معهم حيث نَزَلُوا، وتَقِيلُ معهم حيثُ قالُوا"، قال شعبةُ : وحدَّثني بهذا الحديث رجلٌ ، عن أبي الطُفَيل ، عن أبي سَرِيحةَ ، ولم يرفعه إلى النبيَّ صَلَّي الله ُعَلَّيْهِ وَسَلَّمَ، قال أَحدُ هذينِ الرَّجُلينِ: الدَّجَّال يَقتُلُه عيسى ابن مريم، وقال الآخر: رَيحٌ تُلقيِهم في البحر.
ابو طفیل کے واسطہ سے ابو سریحہ سے مروری ہے لیکن مرفوع ہونا روایت نہیں کیا ان میں سے ایک آدمی نے حضرت عیسیٰ بن مریم کا نزول اور دوسرے نے آندھی کا ذکر کیا جو انہیں سمندر میں ڈال دے گی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23878]