قیس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرنے کے بعد فرمایا: اے لوگو! تم اس آیت کی تلاوت کرتے ہو: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ إِلَى اللَّـهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ»[5-المائدة:105]”اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو، اگر تم راہ راست پر ہو تو کوئی گمراہ شخص تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔“ اور ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگ گناہ کا کام ہوتے ہوئے دیکھیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں تو عنقریب ان سب کو اللہ کا عذاب گھیر لے گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1]
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنتا تھا تو اللہ تعالیٰ جیسے چاہتا تھا، مجھے اس سے فائدہ پہنچاتا تھا اور جب کوئی دوسرا شخص مجھ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کرتا تو میں اس سے اس پر قسم لیتا، جب وہ قسم کھا لیتا کہ یہ حدیث اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے تب کہیں جا کر میں اس کی بات کو سچا تسلیم کرتا تھا۔ مجھ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی ہے اور وہ یہ حدیث بیان کرنے میں سچے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی کوئی گناہ کر بیٹھے، پھر وضو کرے اور خوب اچھی طرح کرے، اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے اور اللہ سے اپنے اس گناہ کی معافی مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ کو یقیناً معاف فرما دے گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 2]
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے میرے والد حضرت عازب رضی اللہ عنہ سے تیرہ درہم کے عوض ایک زین خریدی اور میرے والد سے فرمایا کہ اپنے بیٹے براء سے کہہ دیجیے کہ وہ اسے اٹھا کر میرے گھر تک پہنچا دے، انہوں نے کہا کہ پہلے آپ وہ واقعہ سنائیے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کی اور آپ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ شب ہجرت ہم لوگ رات کی تاریکی میں نکلے اور سارا دن اور ساری رات تیزی سے سفر کرتے رہے، یہاں تک کہ ظہر کا وقت ہو گیا، میں نے نظر دوڑا کر دیکھا کہ کہیں کوئی سایہ نظر آتا ہے یا نہیں؟ مجھے اچانک ایک چٹان نظر آئی، میں اسی کی طرف لپکا تو وہاں کچھ سایہ موجود تھا، میں نے وہ جگہ برابر کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹھنے کے لئے اپنی پوستین بچھا دی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر عرض کیا یا رسول اللہ! کچھ دیر آرام فرما لیجیے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے۔ ادھر میں یہ جائزہ لینے کے لئے نکلا کہ کہیں کوئی جاسوس تو نہیں دکھائی دے رہا؟ اچانک مجھے بکریوں کا ایک چرواہا مل گیا، میں نے اس سے پوچھا: بیٹا! تم کس کے ہو؟ اس نے قریش کے ایک آدمی کا نام لیا جسے میں جانتا تھا، میں نے اس سے فرمائش کی کہ کیا تمہاری بکریوں میں دودھ ہے؟ اس نے اثبات میں جواب دیا، میں نے اس سے دودھ دوہ کر دینے کی فرمائش کی تو اس نے اس کا بھی مثبت جواب دیا اور میرے کہنے پر اس نے ایک بکری کو قابو میں کر لیا۔ پھر میں نے اس سے بکری کے تھن پر سے غبار صاف کرنے کو کہا جو اس نے کر دیا، پھر میں نے اس سے اپنے ہاتھ جھاڑنے کو کہا تاکہ وہ گرد و غبار دور ہو جائے چنانچہ اس نے اپنے ہاتھ بھی جھاڑ لیے، اس وقت میرے پاس ایک برتن تھا، جس کے منہ پر چھوٹا سا کپڑا لیپٹا ہوا تھا، اس برتن میں اس نے تھوڑا سا دودھ دوہا اور میں نے اس پر پانی چھڑک دیا تاکہ برتن نیچے سے ٹھنڈا ہو جائے۔ اس کے بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو، جب میں وہاں پہنچا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہو چکے تھے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ دودھ نوش فرمانے کی درخواست کی، جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کر لیا اور اتنا دودھ پیا کہ میں مطمئن اور خوش ہو گیا، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا اب روانگی کا وقت آ گیا ہے اور اب ہمیں چلنا چاہئے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایماء پر ہم وہاں سے روانہ ہو گئے، پوری قوم ہماری تلاش میں تھی، لیکن سراقہ بن مالک بن جعشم کے علاوہ جو اپنے گھوڑے پر سوار تھا ہمیں کوئی نہ پا سکا، سراقہ کو دیکھ کر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ جاسوس ہم تک پہنچ گیا ہے، اب کیا ہو گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آپ غمگین اور دل برداشتہ نہ ہوں، اللہ ہمارے ساتھ ہے“، ادھر وہ ہمارے اور قریب ہو گیا اور ہمارے اور اس کے درمیان ایک یا دو تین نیزوں کے بقدر فاصلہ رہ گیا، میں نے پھر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ تو ہمارے قریب پہنچ گیا ہے اور یہ کہہ کر میں رو پڑا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے رونے کی وجہ پوچھی تو میں نے عرض کیا: بخدا! میں اپنے لئے نہیں رو رہا، میں تو آپ کے لئے رو رہا ہوں کہ اگر آپ کو پکڑ لیا گیا تو یہ نجانے کیا سلوک کریں گے؟ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سراقہ کے لئے بددعا فرمائی کہ اے اللہ! تو جس طرح چاہے، اس سے ہماری کفایت اور حفاظت فرما۔ اس وقت اس کے گھوڑے کے پاؤں پیٹ تک زمین میں دھنس گئے، حالانکہ وہ زمین انتہائی سپات اور سخت تھی اور سراقہ اس سے نیچے گر پڑا اور کہنے لگا کہ اے محمد! میں جانتاہوں کہ یہ آپ کا کوئی عمل ہے، آپ اللہ سے دعا کر دیجیے کہ وہ مجھے اس مصیبت سے نجات دے دے، میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آپ کی تلاش میں اپنے پیچھے آنے والے تمام لوگوں پر آپ کو مخفی رکھوں گا اور کسی کو آپ کی خبر نہ ہونے دوں گا، نیز یہ میرا ترکش ہے، اس میں سے ایک تیر بطور نشانی کے آپ لے لیجئیے، فلاں فلاں مقام پر آپ کا گزر میرے اونٹوں اور بکریوں پر ہو گا، آپ کو ان میں سے جس چیز کی جتنی ضرورت ہو، آپ لے لیجیے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اور اسے رہائی مل گئی، اس کے بعد وہ اپنے ساتھیوں کے پاس واپس لوٹ گیا اور ہم دونوں اپنی راہ پر ہو لئے یہاں تک کہ ہم لوگ مدینہ منورہ پہنچ گئے، لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لئے اپنے گھروں سے نکل پڑے، کچھ اپنے گھروں کی چھتوں پر کھڑے ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کرنے لگے۔ اور راستے ہی میں بچے اور غلام مل کر زور زور سے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری پر لوگوں میں یہ جھگڑا ہونے لگا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کس قبیلے کے مہمان بنیں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جھگڑے کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا: ”آج رات تو میں عبد المطلب کے اخوال بنو نجار کا مہمان بنوں گا تاکہ ان کے لئے باعث عزوشرف ہو جائے“، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے جہاں کا آپ کو حکم ملا۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نقل فرماتے ہیں کہ مہاجرین میں سے ہمارے یہاں سب سے پہلے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ جن کا تعلق بنو عبدالدار سے تھا، تشریف لائے تھے، پھر بنوفہر سے تعلق رکھنے والے ایک نابینا صحابی حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور اس کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بیسں سواروں کے ساتھ ہمارے یہاں رونق افروز ہوئے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے، تو ہم نے ان سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا ارادہ ہے؟ انہوں نے بتایا کہ وہ بھی میرے پیچھے پیچھے آ رہے ہیں، چنانچہ کچھ ہی عرصے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی مدینہ منورہ میں جلوہ افروز ہو گئے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی ساتھ آئے۔ حضرت براء رضی اللہ عنہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے قبل ہی میں مفصلات کی متعدد سورتیں پڑھ اور یاد کر چکا تھا، راوی حدیث اسرائیل کہتے ہیں کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو حارثہ سے تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 3]
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں امیر حج بنا کر بھیجتے وقت اہل مکہ سے اس برائت کا اعلان کرنے کی ذمہ داری بھی سونپی تھی کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کر سکے گا، کوئی آدمی برہنہ ہو کر طواف نہیں کر سکے گا، جنت میں صرف وہی شخص داخل ہو سکے گا جو مسلمان ہو، جس شخص کا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی خاص مدت کے لئے کوئی معاہدہ پہلے سے ہوا ہو، وہ اپنی مدت کے اختتام تک برقرار رہے گا اور یہ کہ اللہ اور اس کا پیغمبر مشرکین سے بری ہیں۔ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس پیغام کو لے کر روانہ ہو گئے اور تین دن کی مسافت طے کر چکے، تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ابوبکر کے پیچھے جاؤ اور انہیں میرے پاس واپس بلا کر لاؤ اور امارت حج نہیں لیکن صرف پیغام تم نے اہل مکہ تک پہنچانا ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ روانہ ہو گئے، جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ واپس آئے تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور وہ کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! کیا میرے بارے کوئی نئی بات پیش آ گئی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپ کے بارے تو صرف خیر ہی پیش آ سکتی ہے، اصل بات یہ ہے کہ اس پیغام کو اہل عرب کے رواج کے مطابق اہل مکہ تک یا خود میں پہنچا سکتا تھا یا میرے خاندان کا کوئی فرد، اس لئے میں نے صرف یہ ذمہ داری علی کے سپرد کر دی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 4]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لعلل، وسيأتي فى مسند على مختصرة برقم: 594، وهو المحفوظ
اوسط کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا کہ اس جگہ گزشتہ سال نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تھے، یہ کہہ کر آپ رو پڑے، پھر فرمایا اللہ سے درگزر کی درخواست کیا کرو، کیونکہ ایمان کے بعد عافیت سے بڑھ کر نعمت کسی کو نہیں دی گئی، سچائی کو اختیار کرو، کیونکہ سچائی کا تعلق نیکی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں چیزیں جنت میں ہوں گی، جھوٹ بولنے سے اپنے آپ کو بچاؤ، کیونکہ جھوٹ کا تعلق گناہ سے ہے اور یہ دونوں چیزیں جہنم میں ہوں گی، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، بغض نہ کرو، قطع تعلقی مت کرو، ایک دوسرے سے منہ مت پھیرو اور اے اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 5]
حضرت رفاعہ بن رافع کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو منبر رسول پر یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کر کے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر گریہ طاری ہو گیا اور وہ رو پڑے، پھر جب حالت سنبھلی تو فرمایا کہ میں نے گزشتہ سال اسی جگہ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ اللہ سے اس کے عفو اور عافیت کا سوال کیا کرو اور دنیا و آخرت میں یقین کی دعا مانگا کرو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 6]
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مسواک منہ کی پاکیزگی اور پروردگار کی خوشنودی کا سبب ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 7]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا سند رجاله ثقات، إلا أن فيه انقطاع، والد ابن أبى عتيق لم يسمع من أبى بكر
ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیجئے جو میں نماز میں مانگ لیا کروں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس دعاء تلقین فرمائی «اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا، وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ، وَارْحَمْنِي، إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ» کہ اے اللہ! میں نے اپنی جان پر بڑا ظلم کیا، تیرے علاوہ کوئی بھی گناہوں کو معاف نہیں کر سکتا، اس لئے خاص اپنے فضل سے میرے گناہوں کو معاف فرما اور مجھ پر رحم فرما، بیشک تو بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 8]
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد ایک دن حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میراث کا مطالبہ لے کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے یہاں تشریف لائے، اس وقت ان دونوں کا مطالبہ ارض فدک اور خیبر کا حصہ تھا، ان دونوں بزرگوں کی گفتگو سننے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، بلکہ ہم جو کچھ چھوڑ کر جاتے ہیں، وہ سب صدقہ ہوتا ہے، البتہ آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس مال میں سے کھا سکتی ہے اور میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جیسا کرتے ہوئے دیکھا ہے، میں اس طریقے کو کسی صورت نہیں چھوڑوں گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 9]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اس منبر رسول پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ آج ہی کے دن گزشتہ سال میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا اور یہ کہہ کر آپ رو پڑے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، تھوڑی دیر کے بعد فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کلمہ توحید و اخلاص کے بعد تمہیں عافیت جیسی کوئی دوسری نعمت نہیں دی گئی، اس لئے اللہ سے عافیت کا سوال کیا کرو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 10]
حكم دارالسلام: حديث صحيح لغيره، عبدالملك بن الحارث مترجم فى التاريخ الكبير للبخاري : 409/5 ، والجرح والتعديل : 346/5، وذكره ابن حبان فى الثقات : 117/5 وقد توبع .
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شب ہجرت کی یاد تازہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جس وقت ہم لوگ غار ثور میں تھے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنے پاؤں کی طرف دیکھ لیا تو نیچے سے ہم نظر آ جائیں گے، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر! ان دو کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ ہو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 11]
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دجال کا خروج مشرق کے ایک علاقے سے ہو گا جس کا نام خراسان ہو گا اور اس کی پیروی ایسے لوگ کریں گے جن کے چہرے چپٹی کمان کی طرح محسوس ہوں گے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 12]
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کوئی بخیل، کوئی دھوکہ باز، کوئی خیانت کرنے والا اور کوئی بداخلاق شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا اور جنت کا دروازہ سب سے پہلے کھٹکھٹانے والے لوگ غلام ہوں گے لیکن اس سے مراد وہ غلام ہیں جو اللہ اور اپنے آقاؤں کے معاملے میں اچھے ثابت ہوں یعنی حقوق اللہ کی بھی فکر کرتے ہوں اور اپنے آقا کی خدمت میں بھی کسی قسم کی کمی نہ کرتے ہوں اور ان کے حقوق بھی مکمل طور پر ادا کرتے ہوں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 13]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف صدقة بن موسي و فرقد السبخي.
ابوالطفیل کہتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال مبارک ہو گیا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس ایک قاصد کے ذریعے یہ پیغام بھجوایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث آپ ہیں یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ؟ انہوں نے جواباً فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ ہی ان کے وارث ہیں، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: تو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ کہاں ہے؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں نے خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو کوئی چیز کھلاتا ہے، پھر انہیں اپنے پاس بلا لیتا ہے تو اس کا نظم و نسق اس شخص کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو خلیفہ وقت ہو، اس لئے میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ اس مال کو مسلمانوں میں تقسیم کر دوں، یہ تمام تفصیل سن کر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے جو سنا ہے، آپ اسے زیادہ جانتے ہیں، چناچہ اس کے بعد انہوں نے اس کا مطالبہ کرنا چھوڑ دیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 14]
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح فجر کی نماز پڑھائی اور نماز پڑھا کر چاشت کے وقت تک اپنے مصلی پر ہی بیٹھے رہے، چاشت کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر ضحک کے آثار نمودار ہوئے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ ہی تشریف فرما رہے، تآنکہ ظہر، عصر اور مغرب بھی پڑھ لی، اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے کوئی بات نہیں کی، حتیٰ کہ عشاء کی نماز بھی پڑھ لی، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر تشریف لے گئے۔ لوگوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آج کے احوال سے متعلق کیوں نہیں دریافت کرتے؟ آج تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کام کیا ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہیں کیا؟ چناچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس دن کے متعلق دریافت کیا، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں! میں بتاتا ہوں، دراصل آج میرے سامنے دنیا و آخرت کے وہ تمام امور پیش کئے گئے جو آئندہ رونما ہونے والے ہیں، چنانچہ مجھے دکھایا گیا کہ تمام اولین و آخرین ایک ٹیلے پر جمع ہیں، لوگ پسینے سے تنگ آ کر بہت گھبرائے ہوئے ہیں، اسی حال میں وہ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس جاتے ہیں اور پسینہ گویا ان کے منہ میں لگام کی طرح ہے، وہ لوگ حضرت آدم علیہ السلام سے کہتے ہیں کہ اے آدم! آپ ابوالبشر ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا برگزیدہ بنایا ہے اپنے رب سے ہماری سفارش کر دیجئے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے انہیں جواب دیا کہ میرا بھی وہی حال ہے جو تمہارا ہے اپنے باپ آدم کے بعد دوسرے باپ ابوالبشر ثانی حضرت نوح علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ کیونکہ اللہ نے انہیں بھی اپنا برگزیدہ بندہ قرار دیا ہے، چنانچہ وہ سب لوگ حضرت نوح علیہ السلام کے پاس جاتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ آپ اپنے پروردگار سے ہماری سفارش کر دیجئے، اللہ نے آپ کو بھی اپنا برگزیدہ بندہ قرار دیا ہے، آپ کی دعاؤں کو قبول کیا ہے اور زمین پر کسی کافر کا گھر باقی نہیں چھوڑا، وہ جواب دیتے ہیں کہ تمہارا گوہر مقصود میرے پاس نہیں ہے، تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ کیونکہ اللہ نے انہیں اپنا خلیل قرار دیا ہے۔ چنانچہ وہ سب لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاتے ہیں، لیکن وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ تمہارا گوہر مقصود میرے پاس نہیں ہے، البتہ تم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ کیونکہ اللہ نے ان سے براہ راست کلام فرمایا ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی معزرت کر رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ وہ پیدائشی اندھے اور برص کے مریض کو ٹھیک کر دیتے تھے اور اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کر دیتے تھے، لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی معذرت کر رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ تم اس ہستی کے پاس جاؤ جو تمام اولاد آدم کی سردار ہے وہی وہ پہلے شخص ہیں جن کی قبر قیامت کے دن سب سے پہلے کھولی گئی، تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ وہ تمہاری سفارش کریں گے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بارگاہ الٰہی میں جاتے ہیں، ادھر سے حضرت جبرائیل علیہ السلام بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوتے ہیں، اللہ کی طرف سے حکم ہوتا ہے کہ میرے پیغمبر کو آنے کی اجازت دو اور انہیں جنت کی خوشخبری بھی دو، چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام یہ پیغام نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہنچاتے ہیں جسے سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور متواتر ایک ہفتہ تک سر بسجود رہتے ہیں، ایک ہفتہ گزرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! اپنا سر تو اٹھائیے، آپ جو کہیں گے ہم اسے سننے کے لئے تیار ہیں، آپ جس کی سفارش کریں گے، اس کی سفارش قبول کر لی جائے گی۔ یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سر اٹھاتے ہیں اور جوں ہی اپنے رب کے رخ تاباں پر نظر پڑتی ہے، اسی وقت دوبارہ سجدہ ریز ہو جاتے ہیں اور مزید ایک ہفتہ تک سر بسجود رہتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اپنا سر تو اٹھائیے، آپ جو کہیں گے اس کی شنوائی ہو گی اور جس کی سفارش کریں گے قبول ہو گی، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدہ ریز ہی رہنا چاہیں گے لیکن حضرت جبرائیل علیہ السلام آ کر بازو سے پکڑ کر اٹھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب منور ایسی دعاؤں کا دروازہ کھولتا ہے جو اب سے پہلے کسی بشر پر کبھی نہیں کھولا تھا۔ چنانچہ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: پروردگار! تو نے مجھے اولاد آدم کا سردار بنا کر پیدا کیا اور میں اس پر کوئی فخر نہیں کرتا، قیامت کے دن سب سے پہلے زمین میرے لئے کھولی گئی، میں اس پر بھی فخر نہیں کرتا، یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس آنے والے اتنے زیادہ ہیں جو صنعاء اور ایلہ کے درمیانی فاصلے سے بھی ز یادہ جگہ کو پُر کیے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد کہا جائے گا کہ صدیقین کو بلاؤ، وہ آکر سفارش کریں گے، پھر کہا جائے گا کہ دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کو بلاؤ، چنانچہ بعض انبیاء علیہم السلام تو ایسے آئیں گے جن کے ساتھ اہل ایمان کی ایک بڑی جماعت ہو گی، بعض کے ساتھ پانچ، چھ آدمی ہوں گے، بعض کے ساتھ کوئی بھی نہ ہو گا، پھر شہداء کو بلانے کا حکم ہو گا چنانچہ وہ اپنی مرضی سے جس کی چاہیں گے سفارش کریں گے۔ جب شہدا بھی سفارش کر چکیں گے، تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ میں ارحم الراحمین ہوں، جنت میں وہ تمام لوگ داخل ہو جائیں جو میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے، چنانچہ ایسے تمام لوگ جنت میں داخل ہو جائیں گے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ دیکھو جہنم میں کوئی ایسا آدمی تو نہیں ہے جس نے کبھی کوئی نیکی کا کام کیا ہو؟ تلاش کرنے پر نہیں ایک آدمی ملے گا، اسی کو بارہ گاہ الہٰی میں پیش کر دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے پوچھیں گے کیا کبھی تو نے کوئی نیکی کا کام بھی کیا ہے؟ وہ جواب میں کہے گا نہیں! البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ میں بیع و شراء اور تجارت کے درمیان غریبوں سے نرمی کر لیا کرتا تھا، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ جس طرح یہ میرے بندوں سے نرمی کرتا تھا، تم بھی اس سے نرمی کرو، چنانچہ اسے بخش دیا جائے گا۔ اس کے بعد فرشتے جہنم سے ایک اور آدمی کو نکال کر لائیں گے، اللہ تعالیٰ اس سے بھی یہی پوچھیں گے کہ تم نے کبھی کوئی نیکی کا کام بھی کیا ہے؟ وہ کہے گا ک نہیں! البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ میں نے اپنی اولاد کو یہ وصیت کی تھی کہ جب میں مر جاؤں تو مجھے آگ میں جلا کر میری راکھ کا سرمہ بنانا اور سمندر کے پاس جا کر اس راکھ کو ہوا میں بکھیر دینا، اس طرح رب العالمین بھی مجھ پر قادر نہ ہو سکے گا، اللہ تعالیٰ پوچھیں گے کہ تو نے یہ کام کیوں کیا؟ وہ جواب دے گا، تیرے خوف کی وجہ سے، اللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے کہ سب سے بڑے بادشاہ کا ملک دیکھو، تمہیں وہ اور اس جیسے دس ملکوں کی حکومت ہم نے عطا کر دی، وہ کہے گا کہ پروردگار! تو بادشاہوں کا بادشاہ ہو کر مجھ سے کیوں مذاق کرتا ہے؟ اس بات پر مجھے چاشت کے وقت ہنسی آئی تھی اور میں ہنس پڑا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 15]
قیس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرنے کے بعد فرمایا: اے لوگو! تم اس آیت کی تلاوت کرتے ہو۔ «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ إِلَى اللَّـهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ»[5-المائدة:105]”اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو، اگر تم راہ راست پر ہو تو کوئی گمراہ شخص تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔“ لیکن تم اسے اس کے صحیح مطلب پر محمول نہیں کرتے۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگ گناہ کا کام ہوتے ہوئے دیکھیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں تو عنقریب ان سب کو اللہ کا عذاب گھیر لے گا نیز میں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے بھی سنا کہ جھوٹ سے اپنے آپ کو بچاؤ، کیونکہ جھوٹ ایمان سے الگ ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 16]
اوسط کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اس جگہ گزشتہ سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تھے، یہ کہہ کر آپ رو پڑے، پھر فرمایا: سچائی کو اختیار کرو، کیونکہ سچائی کا تعلق نیکی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں چیزیں جنت میں ہوں گی، جھوٹ بولنے سے اپنے آپ کو بچاؤ، کیونکہ جھوٹ کا تعلق گناہ سے ہے اور یہ دونوں چیزیں جہنم میں ہوں گی اور اللہ سے عافیت کی دعا مانگا کرو کیونکہ ایمان کے بعد عافیت سے بڑھ کر نعمت کسی کو نہیں دی گئی، پھر فرمایا کہ ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، بغض نہ کرو، قطع تعلقی مت کرو، ایک دوسرے سے منہ مت پھیرو اور اے اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 17]
حمید بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ جس وقت حضور نبی مکرم، سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ کے قریبی علاقے میں تھے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کی خبر سنتے ہی تشریف لائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور سے کپڑا ہٹایا، اسے بوسہ دیا اور فرمایا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ زندگی میں اور اس دنیوی زندگی کے بعد بھی کتنے پاکیزہ ہیں، رب کعبہ کی قسم! محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ تیزی کے ساتھ سقیفہ بنی ساعدہ کی طرف روانہ ہوئے جہاں تمام انصار مسئلہ خلافت طے کرنے کے لئے جمع تھے، یہ دونوں حضرات وہاں پہنچے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے گفتگو شروع کی، اس دوران انہوں نے قرآن کریم کی وہ تمام آیات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ تمام احادیث جو انصار کی فضیلت سے تعلق رکھتی تھیں، سب بیان کر دیں اور فرمایا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ اگر لوگ ایک راستے پر چلتے اور انصار دوسرے پر تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم انصار کا راستہ اختیار کرتے۔ پھر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ سعد! آپ بھی جانتے ہیں کہ ایک مجلس میں جس میں آپ بھی موجود تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ خلافت کے حقدار قریش ہوں گے، لوگوں میں سے جو نیک ہوں گے وہ قریش کے نیک افراد کے تابع ہوں گے اور جو بدکار ہوں گے وہ بدکاروں کے تابع ہوں گے۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا آپ سچ کہتے ہیں، اب ہم وزیر ہوں گے اور آپ امیر یعنی خلیفہ۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 18]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، لشواهد وهو مرسل، فإن حميد بن عبدالرحمن الحميري تابعي ولم يدرك أبا بكر ولا عمر، ولم يصرح هنا بذكر من حدثه.
ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! ہم جو عمل کرتے ہیں، کیا وہ پہلے سے لکھا جا چکا ہے یا ہمارا عمل پہلے ہوتا ہے؟ فرمایا: ”نہیں! بلکہ وہ پہلے سے لکھا جا چکا ہے“، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! پھر عمل کا کیا فائدہ؟ فرمایا: ”جو شخص جس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس کے اسباب مہیا کر دئیے جاتے ہیں اور وہ عمل اس کے لئے آسان کر دیا جاتا ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 19]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة الراوي عن طلحة بن عبيد الله.
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ یہ حدیث بیان فرمائی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم غمگین رہنے لگے بلکہ بعض حضرات کو طرح طرح کے وساوس نے گھیرنا شروع کر دیا تھا، میری بھی کچھ ایسی ہی کیفیت تھی، اسی تناظر میں ایک دن میں کسی ٹیلے کے سائے میں بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا گزر ہوا، انہوں نے مجھے سلام کیا، لیکن مجھے پتہ ہی نہ چل سکا کہ وہ یہاں سے گزر کر گئے ہیں یا انہوں نے مجھے سلام کیا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ یہاں سے ہو کر سیدھے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور ان سے کہا کہ آپ کو ایک حیرانگی کی بات بتاؤں؟ میں ابھی عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرا تھا، میں نے انہیں سلام کیا لیکن انہوں نے میرے سلام کا جواب ہی نہیں دیا؟ یہ خلافت صدیقی کا واقعہ ہے، اس مناسبت سے تھوڑی دیر بعد سامنے سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ آتے ہوئے دکھائی دئیے، ان دونوں نے آتے ہی مجھے سلام کیا۔ اس کے بعد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اللہ عنہ فرمانے لگے کہ میرے پاس ابھی تمہارے بھائی عمر آئے تھے، وہ کہہ رہے تھے کہ ان کا آپ کے پاس سے گزر ہوا، انہوں نے آپ کو سلام کیا لیکن آپ نے اس کا کوئی جواب ہی نہیں دیا، آپ نے ایسا کیوں کیا؟ میں نے کہا کہ میں نے تو ایسا کچھ نہیں کیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کیوں نہیں! میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آپ نے ایسا کیا ہے، اصل بات یہ ہے کہ اے بنو امیہ! آپ لوگ اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا سمجھتے ہیں، میں نے کہا: کہ اللہ کی قسم! مجھے آپ کے گزرنے کا احساس ہوا اور نہ ہی مجھے آپ کے سلام کرنے کی خبر ہو سکی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عثمان ٹھیک کہہ رہے ہیں، اچھا یہ بتائیے کہ آپ کسی سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ آپ کن خیالات میں مستغرق تھے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو اپنے پاس بلا لیا اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی نہ پوچھ سکا کہ اس حادثہ سے صحیح سالم نجات پانے کا کیا راستہ ہو گا؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کے متعلق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم کر چکا ہوں، یہ سن کر میں کھڑا ہو گیا اور میں نے کہا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ ہی اس سوال کے زیادہ حقدار تھے، اس لئے اب مجھے بھی اس کا جواب بتا دیجئے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا، یا رسول اللہ! اس حادثہ جانکاہ سے نجات کا راستہ کیا ہو گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص میری طرف سے وہ کلمہ توحید قبول کر لے جو میں نے اپنے چچا خواجہ ابوطالب پر پیش کیا تھا اور انہوں نے وہ کلمہ کہنے سے انکار کر دیا تھا، وہ کلمہ ہی ہر شخص کے لئے نجات کا راستہ اور سبب ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 20]
حكم دارالسلام: المرفوع منه صحيح بشواهده، رجاله ثقات رجال الشيخين غير الرجال الذى روي عنه الزهري
یزید بن ابی سفیان فرماتے ہیں کہ مجھے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب شام کی طرف روانہ فرمایا تو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: یزید! تمہاری کچھ رشتہ داریاں ہیں، ہو سکتا ہے کہ تم امیر لشکر ہونے کی وجہ سے اپنے رشتہ داروں کو ترجیح دو، مجھے تمہارے متعلق سب سے زیادہ اسی چیز کا اندیشہ ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو شخص مسلمانوں کے کسی اجتماعی معاملے کا ذمہ دار بنے اور وہ دوسروں سے مخصوص کر کے کسی منصب پر کسی شخص کو مقرر کر دے، اس پر اللہ کی لعنت ہے، اللہ اس کا کوئی فرض اور کوئی نفلی عبادت قبول نہیں کرے گا، یہاں تک کہ اسے جہنم میں داخل کر دے۔ اور جو شخص کسی کو اللہ کے نام پر حفاظت دینے کا وعدہ کر لے اور اس کے بعد ناحق اللہ کے نام پر دی جانے والے اس حفاظت کے وعدے کو توڑ دیتا ہے، اس پر اللہ کی لعنت ہے یا یہ فرمایا کہ اللہ اس سے بری ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 21]
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مجھے اپنی امت میں ستر ہزار آدمی ایسے بھی عطا کئے گئے ہیں جو بلا حساب کتاب جنت میں داخل ہوں گے، ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتے ہوں گے اور ان کے دل ہر طرح کی بیماری سے پاک ہونے میں ایک شخص کے دل کی طرح ہوں گے۔ میں نے اپنے رب سے اس تعداد میں اضافے کی درخواست کی تو اس نے میری درخواست کو قبول کرتے ہوئے ان میں سے ہر ایک کے ساتھ مزید ستر ہزار کا اضافہ کر دیا۔ (گویا اب ستر ہزار میں سے ہر ایک کو ستر ہزار سے ضرب دے کر جو تعداد حاصل ہو گی، وہ سب جنت میں مذکورہ طریقے کے مطابق داخل ہوں گے۔)“ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری رائے کے مطابق یہ وہ لوگ ہوں گے جو بستیوں میں رہتے ہیں یا کسی دیہات کے کناروں پر آباد ہوتے ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 22]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة الرجل الراوي عن أبى بكر، والمسعودي اختلط.
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص برے اعمال کرے گا، اسے دنیا میں ہی اس کا بدلہ دیا جائے گا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 23]
حكم دارالسلام: صحيح بطرقه وشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف زياد الجصاص وعلي بن زيد.
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ یہ حدیث بیان فرمائی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم غمگین رہنے لگے، بلکہ بعض حضرات کو طرح طرح کے وساوس گھیرنا شروع کر دیا تھا، میری بھی کچھ ایسی ہی کیفیت تھی، اس کے بعد راوی نے پوری حدیث ذکر کی جس کا ترجمہ حدیث نمبر 21 کے ذیل میں گزر چکا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 24]
حكم دارالسلام: المرفوع منه صحيح بشواهده، رجاله ثقات غير الرجل الذى روى عنه الزهري
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ مال غنیمت میں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو ترکہ بنتا ہے، اس کی میراث تقسیم کر دیں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا اپنے ذہن میں اس پر کچھ بوجھ محسوس ہوا، چنانچہ انہوں نے اس معاملے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بات کرنا ہی چھوڑ دی اور یہ سلسلہ حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہما کی وفات تک رہا، یاد رہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صرف چھ ماہ ہی زندہ رہیں۔ اصل میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ارض خیبر و فدک میں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ کا مطالبہ کر رہی تھیں، نیز صدقات مدینہ میں سے بھی اپنا حصہ وصول کرنا چاہتی تھیں، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس مطالبے کو پورا کرنے سے معذرت کرتے ہوئے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح جو کام کرتے تھے، میں اسے چھوڑ نہیں سکتا بلکہ اسی طرح عمل کروں گا جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے، اس لئے کہ مجھے اندیشہ ہے کہ اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عمل اور طریقے کو چھوڑا تو میں بہک جاؤں گا۔ بعد میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے صدقات مدینہ کا انتظام حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے کر دیا تھا، جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ پر غالب آ گئے، جبکہ خیبر اور فدک کی زمینیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خلاف کے زیر انتظام ہی رکھیں اور فرمایا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا صدقہ ہیں اور اس کا مصرف پیش آمدہ حقوق اور مشکل حالات ہیں اور ان کی ذمہ داری وہی سنبھالے گا جو خلیفہ ہو، یہی وجہ ہے کہ آج تک ان دونوں کی یہی صورت حال ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 25]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اس دنیوی فانی زندگی کے آخری لمحات گزار رہے تھے تو میں نے ایک شعر پڑھا (جس کا ترجمہ یہ ہے) «وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَى الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ . . . رَبِيعُ الْيَتَامَى عِصْمَةٌ لِلْأَرَامِلِ» کہ وہ ایسے خوبصورت چہرے والا ہے کہ جس کے روئے انور کی برکت سے طلب باران کی جاتی ہے، یتیموں کا سہارا اور بیواؤں کا محافظ ہے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بخدا! یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی شان ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 26]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف على ابن زيد وهو ابن جدعان
ابن جریج کہتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے یہ حدیث سنائی کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا تو لوگوں کے علم میں یہ بات نہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کہاں بنائی جائے؟ حتی کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس مسئلے کو حل کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر نبی کی قبر وہیں بنائی جاتی ہے جہاں ان کا انتقال ہوتا ہے، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر مبارک اٹھا کر اس کے نیچے قبر مبارک کھودی اور وہیں تدفین عمل میں آئی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 27]
حكم دارالسلام: حديث قوي بطرقه، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، وابن جريج: هو عبدالملك ابن عبدالعزيز بن جريج، ووالده لم يدرك أبا بكر، على لين فيه
ایک مرتبہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا، یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیجئے جو میں نماز میں مانگ لیا کروں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ دعا تلقین فرمائی: «اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا، وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ وَارْحَمْنِي، إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ» کہ اے اللہ! میں نے اپنی جان پر بڑا ظلم کیا، تیرے علاوہ کوئی بھی گناہوں کو معاف نہیں کر سکتا، اس لئے خاص اپنے فضل سے میرے گناہوں کو معاف فرما اور مجھ پر رحم فرما، بیشک تو بڑ ا بخشنے والا، مہربان ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 28]
قیس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا: اے لوگو! تم اس آیت کی تلاوت کرتے ہو «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ»[5-المائدة:105]”اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو، اگر تم راہ راست پر ہو تو کوئی گمراہ شخص تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔“ یاد رکھو! جب لوگ گناہ کا کام ہوتے ہوئے دیکھیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں تو عنقریب ان سب کو اللہ کا عذاب گھیر لے گا۔ یاد رکھو! کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح فرماتے ہوئے سنا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 29]
قیس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا: اے لوگو! تم اس آیت کی تلاوت کرتے ہو۔ «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ»[5-المائدة:105]”اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو، اگر تم راہ راست پر ہو تو کوئی گمراہ شخص تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔“ یاد رکھو! جب لوگ گناہ کا کام ہوتے ہوئے دیکھیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں تو عنقریب ان سب کو اللہ کا عذاب گھیر لے گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 30]
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کوئی بد اخلاق شخص جنت میں نہ جائے گا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 31]
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کوئی دھوکہ باز، کوئی بخیل، کوئی احسان جتانے والا اور کوئی بداخلاق جنت میں داخل نہ ہو گا اور جنت کا دروازہ سب سے پہلے جو شخص بجائے گا وہ غلام ہو گا، بشرطیکہ وہ اللہ کی اطاعت بھی کرتا ہو اور اپنے آقا کی بھی اطاعت کرتا ہو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 32]
عمرو بن حریث کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کچھ بیمار ہو گئے، جب صحت یاب ہوئے تو لوگوں سے ملنے باہر تشریف لائے لوگوں سے معذرت کی اور فرمایا ہم تو صرف خیر ہی چاہتے ہیں، پھر فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ حدیث ارشاد فرمائی ہے کہ دجال ایک مشرقی علاقے سے خروج کرے گا جس کا نام ”خراسان“ ہو گا اور اس کی پیروی ایسے لوگ کریں گے جن کے چہرے چپٹی کمانوں کی طرح ہوں گے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 33]
اوسط کہتے ہیں کہ خلافت کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو میں نے انہیں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اس جگہ گزشتہ سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تھے، یہ کہہ کر آپ رو پڑے، پھر فرمایا: میں اللہ سے درگزر اور عافیت کی درخواست کرتا ہوں، کیونکہ ایمان کے بعد عافیت سے بڑھ کر نعمت کسی کو نہیں دی گئی، سچائی کو اختیار کرو، کیونکہ سچائی جنت میں ہو گی، جھوٹ بولنے سے اپنے آپ کو بچاؤ، کیونکہ جھوٹ کا تعلق گناہ سے ہے اور یہ دونوں چیزیں جہنم میں ہوں گی، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، بغض نہ کرو، قطع تعلقی مت کرو، ایک دوسرے سے منہ مت پھیرو اور اے اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 34]
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرات شیخین عنہما نے انہیں یہ خوشخبری دی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص یہ چاہتا ہے کہ قرآن کریم جس طرح نازل ہوا ہے، اسی طرح اس کی تلاوت پر مضبوطی سے جما رہے، اسے چاہیے کہ قرآن کریم کی تلاوت ابن ام عبد یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود کی قرأت پر کرے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 35]
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی روایت منقول ہے، البتہ اس میں «غضا» یا «رطبا» دونوں الفاظ آئے ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 36]
سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس چیز کی بڑی تمنا تھی کہ کاش! میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال سے پہلے یہ دریافت کر لیتا کہ شیطان ہمارے دلوں میں جو وساوس اور خیالات ڈالتا ہے، ان سے ہمیں کیا چیز بچا سکتی ہے؟ یہ سن کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں یہ سوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ چکا ہوں، جس کا جواب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں دیا تھا کہ تم وہی کلمہ توحید کہتے رہو جو میں نے اپنے چچا کے سامنے پیش کیا تھا لیکن انہوں نے وہ کلمہ کہنے سے انکار کر دیا تھا، اس کلمہ کی کثرت ہی تمہیں ان وساوس سے نجات دلا دے گی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 37]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه ، محمد بن جبير بن مطعم لم يسمع من عثمان، وأبو الحويرث مختلف فيه
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لوگو! انسان کو دنیا میں ایمان اور عافیت سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں دی گئی، اس لئے اللہ سے ان دونوں چیزوں کی دعا کرتے رہا کرو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 38]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، الحسن البصري لم يدرك أبا بكر
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ صحابہ کرام عنہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جب قبر مبارک کی کھدوائی کا ارادہ کیا اور معلوم ہوا کہ سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ صندوقی قبر بناتے ہیں جیسے اہل مکہ اور سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ جن کا اصل نام زید بن سہل تھا اہل مدینہ کے لئے بغلی قبر بناتے ہیں، تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے دو آدمیوں کو بلایا، ایک کو سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اور دوسرے کو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس اور دعا کی کہ اے اللہ! اپنے پیغمبر کے لئے جو بہتر ہو اسی کو پسند فرما لے، چنانچہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس جانے والے آدمی کو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ مل گئے اور وہ انہی کو لے کر آ گیا، اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بغلی قبر تیار کی گئی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 39]
حكم دارالسلام: حديث صحيح بشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف حسين بن عبد الله
سیدنا عقبہ بن حارث کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے چند دن بعد عصر کی نماز پڑھ کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد نبوی سے نکلا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ایک جانب تھے، ابوبکر رضی اللہ عنہ کا گزر سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے پاس سے ہوا جو اپنے ہم جولیوں کے ساتھ کھیل رہے تھے، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں اٹھا کر اپنے کندھے پر بٹھا لیا اور فرمانے لگے میرے باپ قربان ہوں، یہ تو پورا پورا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہہ ہے علی کے مشابہہ تھوڑی ہے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اللہ عنہ یہ سن کر مسکرا رہے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 40]
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا، اتنی دیر میں ماعز بن مالک آ گئے اور ایک مرتبہ بدکاری کا اعتراف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں واپس بھیج دیا، دوسری مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا، تیسری مرتبہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں واپس بھیجا تو میں نے ان سے کہا: اگر تم نے چوتھی مرتبہ بھی اعتراف کر لیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں رجم کی سزا دیں گے، تاہم انہوں نے چوتھی مرتبہ آ کر بھی اعتراف جرم کر لیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک لیا اور لوگوں سے ان کے متعلق دریافت کیا، لوگوں نے بتایا کہ ہمیں تو ان کے بارے میں خیر ہی کا علم ہے، بہرحال! ضابطے کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رجم کرنے کا حکم دے دیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 41]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف جابر الجعفي
حضرت رافع طائی جو غزوہ ذات السلاسل میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے رفیق تھے کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے انصار کی بیعت کے بارے میں کہی جانے والی باتوں کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے وہ باتیں بیان فرمائیں جو انصار نے کہی تھیں، یا جو خود انہوں نے فرمائی تھیں، یا جو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے انصار سے کی تھیں ور انہیں یہ بھی یاد دلایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے آپ کے مرض الوفات میں وہ لوگ میری امامت میں نماز ادا کرتے رہے ہیں، اس پر تمام انصار نے میری بیعت کر لی اور میں نے اسے ان کی طرف سے قبول کر لیا، بعد میں مجھے اندیشہ ہو کہ کہیں یہ کسی امتحان کا سبب نہ بن جائے چناچہ اس کے بعد فتنہ ارتداد پیش آ کر رہا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 42]
سیدنا وحشی بن حرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مرتدین سے قتال کے لئے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے اعزاز میں خصوصی طور پر جھنڈا تیار کروایا اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ کا بہترین بندہ اور اپنے قبیلہ کا بہترین فرد خالد بن ولید ہے جو اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے، جو اللہ نے کفار و منافقین کے خلاف میان سے نکال کر سونت لی ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 43]
حكم دارالسلام: حديث صحيح بشواهده، وهذا إسناد ضعيف، حرب بن وحشي لم يرو عنه غير ابنه وحشي، فهو مجهول فى الرواية وإن كان معروفاً فى النسب
اوسط کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے ایک سال بعد میں مدینہ منورہ حاضر ہوا، تو میں نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو لوگوں کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے پایا، انہوں نے فرمایا کہ اس جگہ گزشتہ سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تھے، یہ کہہ کر آپ رو پڑے، تین مرتبہ اسی طرح ہوا، پھر فرمایا: لوگو! اللہ سے درگزر کی درخواست کیا کرو، کیونکہ ایمان کے بعد عافیت سے بڑھ کر نعمت کسی کو نہیں دی گئی، اسی طرح کفر کے بعد شک سے بدترین چیز کسی کو نہیں دی گئی، سچائی کو اختیار کرو کیونکہ سچائی کا تعلق نیکی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں چیزیں جنت میں ہوں گی، جھوٹ بولنے سے اپنے آپ کو بچاؤ کیونکہ جھوٹ کا تعلق گناہ سے ہے اور یہ دونوں چیزیں جہنم میں ہوں گی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 44]
سیدہ عائشہ صدیقہ عنہا سے مروی ہے کہ جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اس دنیوی زندگی کے آخری لمحات قریب آئے، تو انہوں نے پوچھا کہ آج کون سا دن ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ پیر کا دن ہے، فرمایا: اگر میں آج ہی رات دنیا سے رخصت ہو جاؤں تو کل کا انتظار نہ کرنا بلکہ رات ہی کو دفن کر دینا کیونکہ مجھے وہ دن اور رات زیادہ محبوب ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ قریب ہو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 45]
سیدنا ابوعبیدہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے پورے ایک سال بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا کہ گزشتہ سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی جگہ پر کھڑے ہوئے تھے اور فرمایا تھا کہ اللہ سے عافیت کا سوال کیا کرو، کیونکہ کسی انسان کو عافیت سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں دی گئی سچائی اور نیکی کو اختیار کرو اور یہ دونوں چیزیں جنت میں ہوں گی، جھوٹ اور گناہ سے بچو کیونکہ یہ دونوں جہنم میں ہوں گے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 46]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، أبو عبيدة لم يدرك أبا بكر
سیدنا علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ میں جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنتا تھا تو اللہ تعالیٰ جیسے چاہتا تھا، مجھے اس سے فائدہ پہنچاتا تھا۔ مجھ سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی ہے اور وہ یہ حدیث بیان کرنے میں سچے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو مسلمان کوئی گناہ کر بیٹھے، پھر وضو کرے اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے اور اللہ سے اپنے اس گناہ کی معافی مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ کو یقیناً معاف فرما دے گا، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دو آیتیں پڑھیں: «وَمَن يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّـهَ يَجِدِ اللَّـهَ غَفُورًا رَّحِيمًا»[4-النساء:110]”جو شخص کوئی گناہ کرے یا اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھے، پھر اللہ سے معافی مانگے تو وہ اللہ کو بڑا بخشنے والا مہربان پائے گا۔“ اور «وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّـهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّـهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ»[3-آل عمران:135]”وہ لوگ کہ جب وہ کوئی گناہ کر بیٹھیں یا اپنے اوپر ظلم کریں . . .۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 47]
ایک دوسری سند سے بھی یہ روایت اسی طرح مروی ہے، البتہ اس میں امام شعبہ رحمہ اللہ کا یہ قول منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو میں سے کسی ایک آیت کی تلاوت فرمائی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 48]
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہمارے سامنے خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ گزشتہ سال ہمارے درمیان اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تھے اور فرمایا تھا کہ لوگوں کے درمیان ایمان و یقین کے بعد عافیت سے بڑھ کر کوئی نعمت تقسیم نہیں کی گئی، یاد رکھو! سچائی جنت میں ہے اور جھوٹ اور گناہ جہنم میں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 49]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وإسناده ضعيف لانقطاعه، حميد بن عبدالرحمن لم يدرك عمر بن الخطاب
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کر کے آ رہے تھے تو راستے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیاس لگی، اتفاقاً وہاں سے بکریوں کے ایک چرواہے کا گزر ہوا، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک پیالہ لے کر اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تھوڑا سا دودھ دوہا اور اسے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نوش فرمایا یہاں تک کہ میں خوش ہو گیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 50]
ایک مرتبہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کیا، یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیجئے جو میں صبح و شام اور بستر پر لیٹتے وقت پڑھ لیا کروں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا سکھائی: «اللَّهُمَّ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، أَوْ قَالَ: اللَّهُمَّ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، رَبَّ كُلِّ شَيْءٍ وَمَلِيكَهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِي، وَشَرِّ الشَّيْطَانِ وَشِرْكِهِ» اے اللہ! اے آسمان و زمین کو پیدا کرنے والے، ظاہر اور پوشیدہ سب کچھ جاننے والے، ہر چیز کے پالنہار اور مالک! میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہو سکتا، میں اپنی ذات کے شر، شیطان کے شر اور اس کے شرک سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 51]
قیس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا: اے لوگو! تم اس آیت کی تلاوت کرتے ہو: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ إِلَى اللَّـهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ»[5-المائدة:105]”اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو، اگر تم راہ راست پر ہو تو کوئی گمراہ شخص تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔“ اور تم اسے اس صحیح محمل پر محمود نہیں کرتے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگ گناہ کا کام ہوتے ہوئے دیکھیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں تو عنقریب ان سب کو اللہ کا عذاب گھیر لے گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 53]
سیدنا ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کی اور انتہائی سخت کلمات کہے، میں نے عرض کیا کہ میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے پیار سے جھڑک کر فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ بات کسی کے لئے نہیں ہے۔ (شان رسالت میں گستاخی کی سزا تو یہی ہے البتہ ہم اپنے لئے اس کی اجازت نہیں دیں گے)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 54]
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک دن سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ، فدک اور خیبر کے خمس کی میراث کا مطالبہ لے کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے یہاں ایک خادم بھیجا، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی بلکہ ہم جو کچھ چھوڑ کر جاتے ہیں، وہ سب صدقہ ہوتا ہے، البتہ آل محمد اس مال میں سے کھا سکتی ہے اور میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جیسا کرتے ہوئے دیکھا ہے، میں اس طریقے کو کسی صورت نہیں چھوڑوں گا اور میں اس میں اسی طرح کام کروں گا جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، گویا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس میں سے کچھ بھی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دینے سے انکار کر دیا جس سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طبیعت میں (فطرت انسانی کی بناء پر) ایک بوجھ آیا، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرنے سے میرے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار زیادہ محبوب ہیں، لیکن اس مال کے حوالے سے میرے اور آپ کے درمیان جو اختلاف رائے ہے، اس میں حق سے پیچھے نہیں ہٹوں گا اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جس طرح کوئی کام کرتے ہوئے سنا ہے، میں اسی طرح اس کام کو کرنا ترک نہیں کروں گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 55]
سیدنا علی کرم اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنتا تھا تو اللہ تعالیٰ جیسے چاہتا تھا، مجھے اس سے فائدہ پہنچاتا تھا اور جب کوئی دوسرا شخص مجھ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کرتا تو میں اس سے اس پر قسم لیتا، جب وہ قسم کھا لیتا کہ یہ حدیث اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے تب کہیں جا کر میں اس کی بات کو سچا تسلیم کرتا تھا۔ مجھ سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی ہے اور وہ یہ حدیث بیان کرنے میں سچے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی کوئی گناہ کر بیٹھے، پھر وضو کرے اور خوب اچھی طرح کرے، اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے اور اللہ سے اپنے اس گناہ کی معافی مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ کو یقینا معاف فرما دے گا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: «وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ . . .» [3-آل عمران:135]”اور وہ لوگ کہ جب وہ کوئی گناہ کر بیٹھیں یا اپنی جان پر ظلم کریں . . .۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 56]
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے جنگ یمامہ میں شہید ہونے والے حفاظ کی خبر بھجوائی اور مجھ سے فرمایا کہ زید! تم ایک سمجھ دار نوجوان ہو، ہم تمہیں کسی غلط کام کے ساتھ متہم بھی نہیں پاتے، تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی بھی رہ چکے ہو، اس لیے قرآن کریم کو مختلف جگہوں سے تلاش کر کے یکجا اکٹھا کرو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 57]
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد ایک دن سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث کا مطالبہ لے کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے یہاں تشریف لائے اس وقت ان دونوں کا مطالبہ ارض فدک اور خیبر کا حصہ تھا، ان دونوں بزرگوں کی گفتگو سننے کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، بلکہ ہم جو کچھ چھوڑ کر جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے، البتہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس مال میں سے کھا سکتی ہے اور میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جیسا کرتے ہوئے دیکھا ہے، میں اس طریقے کو کسی صورت نہیں چھوڑوں گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 58]
ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ”یا خلیفۃ اللہ“ کہہ کر پکارا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں خلیفۃ اللہ نہیں ہوں بلکہ خلیفہ رسول اللہ ہوں اور میں اسی درجے پر راضی ہوں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 59]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، فإن ابن أبى مليكة لم يدرك أبا بكر
ابوسلمہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ جب آپ اس دنیا سے کوچ فرمائیں گے تو آپ کو وارث کون ہو گا؟ فرمایا: میرے بیوی بچے، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ پھر ہم کیوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث نہیں؟ فرمایا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ نبی کے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جن کی عیال داری اور نگہبانی فرماتے تھے میں ان کی عیال داری اور کفالت کرتا رہوں گا اور جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم خرچ فرماتے تھے میں اس پر خرچ کرتا رہوں گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 60]
حكم دارالسلام: حديث صحيح لغيره، وأبو سلمة لم يدرك أبا بكر، لكن سيأتي الحديث موصولاً برقم: 79
سیدنا ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم ایک مرتبہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ کسی کام میں مشغول تھے، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اسی دوران ایک مسلمان پر کسی وجہ سے غصہ آ گیا اور وہ غصہ بہت زیادہ بڑھ گیا، جب میں نے صورت حال دیکھی تو عرض کیا یا خیفۃ رسول اللہ! کیا میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ جب میں نے قتل کا نام لیا تو انہوں گفتگو کا عنوان اور موضوع ہی بدل دیا۔ جب ہم لوگ وہاں سے فراغت کے بعد منتشر ہو گئے تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک قاصد کے ذریعے مجھے بھیجا اور فرمایا: ابوبرزہ! تم کیا کہہ رہے تھے؟ میں نے عرض کیا: واللہ مجھے یاد نہیں ہے۔ فرمایا: یاد کرو جب تم نے مجھے ایک شخص پر غصہ ہوتے ہوئے دیکھا تھا تو تم نے کہا تھا یا خلیفۃ رسول اللہ! کیا میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ یاد آیا؟ کیا تم واقعی ایسا کر گزرتے؟ میں نے قسم کھا کر عرض کیا جی ہاں! اگر آپ اب بھی مجھے یہ حکم دیں تو میں اسے پورا کر گزروں، فرمایا: افسوس! اللہ کی قسم! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ کسی کے لئے نہیں ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 61]
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مسواک منہ کی پاکیزگی اور پروردگار کی خوشنودی کا سبب ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 62]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد فيه انقطاع، والد ابن أبى عتيق لم يسمع من أبى بكر
ایک مرتبہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیجئے جو میں صبح و شام پڑھ لیا کروں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یوں کہہ لیا کرو، «اللَّهُمَّ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، رَبَّ كُلِّ شَيْءٍ وَمَلِيكَهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِي، وَمِنْ شَرِّ الشَّيْطَانِ وَشِرْكِهِ»”اے اللہ! اے آسمان و زمین کو پیدا کرنے والے، ظاہر اور پوشیدہ سب کچھ جاننے والے، ہر چیز کے پالنہار اور مالک! میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہو سکتا، میں اپنی ذات کے شر، شیطان کے شر اور اس کے شرک سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔“ اور انہیں حکم دیا کہ صبح و شام اور بستر پر لیٹتے وقت یہ دعا پڑھ لیا کریں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 63]
ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ”یا خلیفۃ اللہ“ کہہ کر پکارا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں ”خلیفۃ اللہ“ نہیں ہوں بلکہ ”خلیفہ رسول اللہ“ ہوں اور میں اسی درجے پر راضی ہوں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 64]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه ، فإن ابن أبى مليكة لم يدرك أبا بكر
سیدنا ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے اگر اونٹنی کی لگام چھوٹ کر گر جاتی، تو آپ اپنی اونٹنی کے اگلے پاؤں پر ہاتھ مارتے، وہ بیٹھ جاتی تو خود اس کی لگام اٹھاتے، ہم عرض کرتے کہ آپ ہمیں کیوں نہیں حکم دیتے کہ ہم آپ کو پکڑا دیں؟ فرماتے: میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس بات کا حکم دیا ہے کہ لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کروں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 65]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، عبد الله بن المؤمل ضعيف، وابن أبى مليكة لم يدرك أبابكر
سیدنا ابوعبیدہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے پورے ایک سال بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا کہ گزشتہ سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی جگہ پر کھڑے ہوئے تھے اور فرمایا تھا کہ اللہ سے عافیت کا سوال کیا کرو، کیونکہ کسی انسان کو عافیت سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں دی گئی، سچائی اور نیکی اختیار کرو کیونکہ یہ دونوں جنت میں ہوں گی اور جھوٹ اور گناہ سے بچو کیونکہ یہ دونوں جہنم میں ہوں گے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 66]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، أبو عبيدة لم يدرك أبا بكر
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے اس وقت تک لوگوں سے قتال کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ «لا اله الا الله» نہ کہہ لیں، لیکن جب وہ یہ کلمہ کہہ لیں تو انہوں نے اپنی جان اور مال کو مجھ سے محفوظ کر لیا، ہاں اگر کوئی حق ان کی طرف متوجہ ہو تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا، باقی ان کا حساب کتاب اللہ کے ذمے ہے۔ جب فتنہ ارتداد پیش آیا تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ ان لوگوں سے کس طرح قتال کر سکتے ہیں جب کہ آپ نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سن رکھی ہے؟ فرمایا: بخدا! میں نماز اور زکوٰۃ کے درمیان تفریق نہیں کروں گا اور جو ان دونوں کے درمیان تفریق کرے گا، میں اس سے ضرور قتال کروں گا، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم بھی ان کے ساتھ اس قتال میں شریک ہو گئے تب ہمیں جا کر احساس ہوا کہ اسی میں رشد و ہدایت تھی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 67]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 6924، م: 20، سفيان حسين وثقوه إلا فى رواية عن الزهري، وقد توبع
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس آیت کے بعد «لَّيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ»[4-النساء:123]”کیا بہتری باقی رہ جاتی ہے کہ تمہاری خواہشات اور اہل کتاب کی خواہشات کا کوئی اعتبار نہیں، جو برا عمل کرے گا، اس کا بدلہ پائے گا . . .“ تو کیا ہمیں ہر برے عمل کی سزا دی جائے گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ابوبکر! اللہ آپ کی بخشش فرمائے، کیا آپ بیمار نہیں ہوتے؟ کیا آپ پریشان نہیں ہوتے؟ کیا آپ غمگین نہیں ہوتے؟ کیا آپ رنج و تکلیف کا شکار نہیں ہوتے؟ عرض کیا کیوں نہیں! فرمایا یہی تو بدلہ ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 68]
حكم دارالسلام: حديث صحيح بطرقه وشواهده، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه بين أبى بكر بن أبى زهير وبين أبى بكر الصديق، ثم إن أبا بكر بن أبى زهير مستور
سیدنا ابوبکر صدیق عنہ نے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس آیت کے بعد کیا بہتری باقی رہ جاتی ہے «لَّيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ» کہ ”تمہاری خواہشات اور اہل کتاب کی خواہشات کا کوئی اعتبار نہیں، جو برا عمل کرے گا، اس کا بدلہ پائے گا . . .“ تو کیا ہمیں ہر برے عمل کی سزا دی جائے گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ابوبکر! اللہ آپ پر رحم فرمائے، کیا آپ بیمار نہیں ہوتے؟ کیا آپ پریشان نہیں ہوتے؟ کیا آپ غمگین نہیں ہوتے؟ کیا آپ رنج و تکلیف کا شکار نہیں ہوتے؟“ عرض کیا کیوں نہیں! فرمایا: ”یہی تو بدلہ ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 69]
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس آیت کے بعد کیا بہتری باقی رہ جاتی ہے پھر انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 70]
ابوبکر بن ابی زہیر کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی «لَّيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ»[4-النساء:123] کہ ”تمہاری خواہشات اور اہل کتاب کی خواہشات کا کوئی اعتبار نہیں، جو برا عمل کرے گا، اس کا بدلہ پائے گا“، تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہمیں ہر برے عمل کی سزا دی جائے گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ابوبکر! اللہ آپ پر رحم فرمائے؟ کیا آپ بیمار نہیں ہوتے؟ کیا آپ پریشان نہیں ہوتے؟ کیا آپ غمگین نہیں ہوتے؟ کیا آپ رنج و تکلیف کا شکار نہیں ہوتے؟ یہی تو بدلہ ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 71]
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف ایک خط لکھا جس میں یہ تحریر فرمایا کہ یہ زکوٰۃ کے مقررہ اصول ہیں جو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے لئے مقرر فرمائے ہیں، یہ وہی اصول ہیں جن کا حکم اللہ نے اپنے پیغمبر کو دیا تھا، ان اصولوں کے مطابق جب مسلمانوں سے زکوٰۃ وصول کی جائے تو انہیں زکوٰۃ ادا کر دینی چاہئے اور جس سے اس سے زیادہ کا مطالبہ کیا جائے وہ زیادہ نہ دے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ پچیس سے کم اونٹوں میں ہر پانچ اونٹ پر ایک بکری واجب ہو گی، جب اونٹوں کی تعداد پچیس ہو جائے تو ایک بنت مخاض (جو اونٹنی دوسرے سال میں لگ گئی ہو) واجب ہو گی اور یہی تعداد پینتیس اونٹوں تک رہے گی، اگر کسی کے پاس بنت مخاض نہ ہو تو وہ ایک ابن لبون مذکر (جو تیسرے سال میں لگ گیا ہو) دے دے، جب اونٹوں کی تعداد چھتیس ہو جائے تو اس میں پینتالیس تک ایک بنت لبون واجب ہو گی، جب اونٹوں کی تعداد چھیالیس ہو جائے تو اس میں ایک حقہ (چوتھے سال میں لگ جانے والی اونٹنی) کا وجوب ہو گا جس کے پاس رات کو نر جانور آ سکے۔ یہ حکم ساٹھ تک رہے گا، جب یہ تعداد اکسٹھ ہو جائے تو پچہتر تک اس میں ایک جذعہ (جو پانچویں سال میں لگ جائے) واجب ہو گا، جب یہ تعداد چھہتر ہو جائے تو نوے تک اس میں دو بنت لبون واجب ہوں گی، جب یہ تعداد اکیانوے ہو جائے تو ایک سو بیس تک اس میں دو ایسے حقے ہوں گے جن کے پاس نر جانور آ سکے، جب یہ تعداد ایک سو بیس سے تجاوز کر جائے تو ہر چالیس میں ایک بنت لبون اور ہر پچاس میں ایک حقہ واجب ہو گا۔ اور اگر زکوٰۃ کے اونٹوں کی عمریں مختلف ہوں تو جس شخص پر زکوٰۃ میں جذعہ واجب ہو لیکن اس کے پاس جذعہ نہ ہو، حقہ ہو تو اس سے وہی قبول کر لیا جائے گا اور اگر اس کے پاس صرف جذعہ ہو تو اس سے وہ لے کر زکوٰۃ وصول کرنے والا اسے بیس درہم یا دو بکریاں دے دے اور اگر اسی مذکورہ شخص کے پاس بنت لبون ہو تو اس سے وہ لے کردو بکریاں بشرطیکہ آسانی سے ممکن ہو یا بیس درہم وصول کئے جائیں۔ اگر کسی شخص پر بنت لبون واجب ہو مگر اس کے پاس حقہ ہو تو اس سے وہ لے کر اسے زکوٰۃ وصول کرنے والا بیس درہم یا دو بکریاں دے دے اور اگر اسی مذکورہ شخص کے پاس بنت مخاض ہو تو اس سے وہی لے کر وہ بکریاں بشرط آسانی یا بیس درہم بھی وصول کئے جائیں اور اگر کسی شخص پر بنت مخاض واجب ہو اور اس کے پاس صرف ابن لبون مذکر ہو تو اسی کو قبول کر لیا جائے اور اس کے ساتھ کوئی چیز نہیں لی جائے گی اور اگر کسی شخص کے پاس صرف چار اونٹ ہوں تو اس پر بھی زکوٰۃ واجب نہیں ہے ہاں! البتہ اگر مالک کچھ دینا چاہے تو اس کی مرضی پر موقوف ہے۔ سائمہ (خود چر کر اپنا پیٹ بھرنے والی) بکریوں میں زکوٰۃ کی تفصیل اس طرح ہے کہ جب بکریوں کی تعداد چالیس ہو جائے ایک سو بیس تک اس میں صرف ایک بکری واجب ہوگی، ایک سو بیس سے زائد ہونے پر دو سو تک دو بکریاں واجب ہوں گی، دو سو سے زائد ہونے پر تین سو تک تین بکریاں واجب ہوں گی، اس کے بعد ہر سو میں ایک بکری دینا واجب ہو گی۔ یاد رہے کہ زکوٰۃ میں انتہائی بوڑھا اور عیب دار جانور نہ لیا جائے، اسی طرح خوب عمدہ جانور بھی نہ لیا جائے ہاں! اگر زکوٰۃ دینے والا اپنی مرضی سے دینا چاہے تو اور بات ہے، نیز زکوٰۃ سے بچنے کے لئے متفرق جانوروں کو جمع اور اکٹھے جانوروں کو متفرق نہ کیا جائے اور یہ کہ اگر دو قسم کے جانور ہوں (مثلاً بکریاں بھی اور اونٹ بھی) تو ان دونوں کے درمیاں برابری سے زکوٰۃ تقسیم ہو جائے گی، نیز یہ کہ اگر کسی شخص کی سائمہ بکریوں کی تعداد چالیس سے کم ہو تو اس پر کچھ واجب نہیں ہے الاّ یہ کہ اس کا مالک خود دینا چاہے، نیز چاندی کے ڈھلے ہوئے سکوں میں ربع عشر واجب ہو گا، سو اگر کسی شخص کے پاس صرف ایک سو نوے درہم ہوں تو اس پر کچھ واجب نہیں ہے الاّ یہ کہ اس کا مالک خود زکوٰۃ دینا چاہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 72]
عبدالرزاق کہتے ہیں کہ اہل مکہ کہا کرتے تھے ابن جریج نے نماز سیدنا عطاء بن ابی رباح سے سیکھی ہے، عطاء نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے، سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے نانا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی ہے، عبدالرزاق کہتے ہیں کہ میں نے ابن جریج سے بڑھ کر بہتر نماز پڑھتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 73]
حكم دارالسلام: هذا أثر وليس حديثاً. وهو فى الثناء على صلاة ابن جريج وأنه يحسن أداءها على ما أخذ عملاً عن عطاء. قاله أحمد شاكر
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری بیٹی حفصہ کے شوہر خنیس بن حذافہ یا حذیفہ فوت ہو گئے اور وہ بیوہ ہو گئی، یہ بدری صحابی تھے اور مدینہ منورہ میں فوت ہو گئے تھے، میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان کے سامنے اپنی بیٹی سے نکاح کی پیشکش رکھی انہوں نے مجھ سے سوچنے کی مہلت مانگی اور چند روز بعد کہہ دیا کہ آج کل میرا شادی کا کوئی ارادہ نہیں ہے، اس کے بعد میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے بھی یہی کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں اپنی بیٹی حفصہ کا نکاح آپ سے کر دوں، لیکن انہوں نے مجھے کوئی جواب نہ دیا، مجھے ان پر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی نسبت زیادہ غصہ آیا۔ چند دن گزرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ کے ساتھ اپنے لئے پیغام نکاح بھیج دیا، چنانچہ میں نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہ کا نکاح نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا، اتفاقاً ایک مرتبہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو وہ فرمانے لگے کہ شاید آپ کو اس بات پر غصہ آیا ہو گا کہ آپ نے مجھے حفصہ سے نکاح کی پیشکش کی اور میں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا؟ میں نے کہا ہاں! ایسا ہی ہے، انہوں نے فرمایا کہ دراصل بات یہ ہے کہ جب آپ نے مجھے یہ پیشکش کی تھی تو مجھے اسے قبول کر لینے میں کوئی حرج نہیں تھا، البتہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حفصہ کا ذکر کرتے ہوئے سنا تھا، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش نہیں کرنا چاہتا تھا، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں چھوڑ دیتے تو میں ضرور ان سے نکاح کر لیتا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 74]
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کوئی بد اخلاق شخص جنت میں نہ جائے گا“، اس پر ایک شخص نے یہ سوال کیا کہ یا رسول اللہ! کیا آپ ہی نے ہمیں نہیں بتایا کہ سب سے زیادہ غلام اور یتیم اس امت میں ہی ہوں گے؟ (یعنی ان کے ساتھ بد اخلاق کا ہو جانا ممکن ہی نہیں بلکہ واقع بھی ہے) فرمایا: ”کیوں نہیں!“ فرمایا: ”کیوں نہیں! البتہ تم ان کی عزت اسی طرح کرو جیسے اپنی اولاد کی عزت کرتے ہو اور جو خود کھاتے ہو اسی میں سے انہیں بھی کھلایا کرو“، لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! اس کا دنیا میں ہمیں کیا فائدہ ہو گا؟ فرمایا: ”وہ نیک گھوڑا جسے تم تیار کرتے ہو، اس پر تم اللہ کے راستہ میں جہاد کر سکتے ہو اور تمہارا غلام تمہاری کفایت کر سکتا ہے، یاد رکھو! اگر وہ نماز پڑھتا ہے، تو وہ تمہارا بھائی ہے“، یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ دہرائی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 75]
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے میرے پاس جنگ یمامہ کے شہداء کی خبر دے کر قاصد کو بھیجا، میں جب ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہاں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا کہ عمر میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ جنگ یمامہ میں بڑی سخت معرکہ آرائی ہوئی ہے اور مسلمانوں میں سے جو قراء تھے وہ بڑی تعداد میں شہید ہو گئے ہیں، مجھے اندیشہ ہے کہ اگر اسی طرح مختلف جگہوں میں قراء کرام یونہی شہید ہوتے رہے تو قرآن کریم کہیں ضائع نہ ہو جائے کہ اس کا کوئی حافظ ہی نہ رہے، اس لئے میری رائے یہ ہوئی کہ میں آپ کو جمع قرآن کا مشورہ دوں، میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ جو کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا، میں وہ کام کیسے کر سکتا ہوں؟ لیکن انہوں نے مجھ سے کہا کہ بخدا! یہ کام سراسر خیر ہی خیر ہے اور یہ مجھ سے مسلسل اس پر اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ اس مسئلے پر اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی شرح صدر عطاء فرما دیا اور اس سلسلے میں میری بھی وہی رائے ہو گئی جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی تھی۔ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی وہاں موجود تھے لیکن سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ادب سے بولتے نہ تھے، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی نے فرمایا کہ آپ ایک سمجھدار نوجوان ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی بھی رہ چکے ہیں، اس لئے جمع قرآن کا یہ کام آپ سر انجام دیں۔ سیدنا زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: بخدا! اگر یہ لوگ مجھے کسی پہاڑ کو اس کی جگہ سے منتقل کرنے کا حکم دے دیتے تو وہ مجھ پر جمع قرآن کے اس حکم سے زیادہ بھاری نہ ہوتا، چنانچہ میں نے بھی ان سے یہی کہا کہ جو کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا، آپ وہ کام کیوں کر رہے ہیں؟ (لیکن جب میرا بھی شرح صدر ہو گیا تو میں نے یہ کام شروع کیا اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 76]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک پرواز کر گئی اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہو گئے، تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے درمیان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ میں اختلاف رائے پیدا ہو گیا، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو چیز چھوڑ کر گئے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں ہلایا، میں بھی اسے نہیں ہلاؤں گا۔ جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہوئے تو وہ دونوں حضرات ان کے پاس اپنا معاملہ لے کر آئے لیکن انہوں نے یہی فرمایا کہ جس چیز کو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نہیں ہلایا، میں بھی اسے نہیں ہلاؤں گا، جب خلافت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوئی تو وہ دونوں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بھی آئے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کا موقف سن کر خاموشی اختیار کی اور سر جھکا لیا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اسے حکومت کی تحویل میں نہ لے لیں چنانچہ میں اپنے والد سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے دونوں کندھوں کے درمیان ہاتھ رکھا اور ان سے کہا: اباجان! میں آپ کو قسم دے کر کہتا ہوں کہ اسے علی رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیجئے چنانچہ انہوں نے اسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 77]
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ آ گئے، ان دونوں کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عباس! رک جائیے، مجھے معلوم ہے کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ آپ یہ کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے بھتیجے تھے اس لئے آپ کو نصف مال ملنا چاہئے اور اے علی! مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ آپ کی رائے یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی آپ کے نکاح میں تھیں اور ان کا آدھا حصہ بنتا تھا۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں میں جو کچھ تھا، وہ میرے پاس موجود ہے، ہم نے دیکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اس میں کیا طریقہ کار تھا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے، انہوں نے وہی کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد مجھے خلیفہ بنایا گیا، میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا، میں اسی طرح کرنے کی پوری کوشش کرتا رہوں گا۔ پھر فرمایا کہ مجھے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سنائی اور اپنے سچے ہونے پر اللہ کی قسم بھی کھائی کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ انبیاء کرام (علیہم السلام) کے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ان کا ترکہ فقراء مسلمین اور مساکین میں تقسیم ہوتا ہے اور مجھ سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بھی بیان کی اور اپنے سچا ہونے پر اللہ کی قسم بھی کھائی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کوئی نبی اس وقت تک دنیا سے رخصت نہیں ہوتا جب تک وہ اپنے کسی امتی کی اقتداء نہیں کر لیتا۔“ بہرحال! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو کچھ تھا، وہ یہ موجود ہے اور ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کار کو بھی دیکھا ہے، اب اگر آپ دونوں چاہتے ہیں کہ میں یہ اوقاف آپ کے حوالے کر دوں اور آپ اس میں اسی طریقے سے کام کریں گے جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کرتے رہے تو میں اسے آپ کے حوالے کر دیتا ہوں۔ یہ سن کر وہ دونوں کچھ دیر کے لئے خلوت میں چلے گئے، تھوڑی دیر کے بعد جب وہ واپس آئے تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ یہ اوقاف علی کے حوالے کر دیں، میں اپنے دل کی خوشی سے اس بات کی اجازت دیتا ہوں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 78]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: إن النبى لا يموت حتى يؤمه بعض أمته وهذا إسناد ضعيف لجهالة الشيخ من قريش
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں اور ان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث کا مطالبہ کیا، دونوں حضرات نے فرمایا کہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے مال میں وراثت جاری نہیں ہو گی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 79]
قیس بن ابی حازم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے ایک مہینے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا، لوگوں میں منادی کر دی گئی کہ نماز تیار ہے اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد وہ پہلی نماز تھی جس کے لئے مسلمانوں میں ”الصلوۃ جامعۃ“ کہہ کر منادی کی گئی تھی، چنانچہ لوگ جمع ہو گئے، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ منبر پر رونق افروز ہوئے، یہ آپ کا پہلا خطبہ تھا جو آپ نے اہل اسلام کے سامنے ارشاد فرمایا: اس خطبے میں آپ نے پہلے اللہ کی حمد و ثناء کی، پھر فرمایا: لوگو! میری خواہش تھی کہ میرے علاوہ کوئی دوسرا شخص اس کام کو سنبھال لیتا، اگر آپ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر رکھ کر دیکھنا چاہیں گے تو میرے اندر اس پر پورا اترنے کی طاقت نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو شیطان کے حملوں سے محفوط تھے اور ان پر تو آسمان سے وحی کا نزول ہوتا تھا (اس لئے میں ان کے برابر کہاں ہو سکتا ہوں؟)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 80]
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے صبح و شام اور بستر پر لیٹتے وقت یہ دعا پڑھنے کا حکم دیا ہے: «اللَّهُمَّ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، أَنْتَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ وَمَلِيكُهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ وَحْدَكَ لَا شَرِيكَ لَكَ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُكَ وَرَسُولُكَ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِي، وَشَرِّ الشَّيْطَانِ وَشِرْكِهِ، وَأَنْ أَقْتَرِفَ عَلَى نَفْسِي سُوءًا»”اے اللہ! اے آسمان و زمین کو پیدا کرنے والے، ظاہر اور پوشیدہ سب کچھ جاننے والے، ہر چیز کے پالنہار اور مالک! میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہو سکتا، تو اکیلا ہے، تیرا کوئی شریک نہیں، میں اپنی ذات کے شر، شیطان کے شر اور اس کے شرک سے، خود اپنی جان پر کسی گناہ کا بوجھ لادنے سے یا کسی مسلمان کو اس میں کھینچ کر مبتلا کرنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 81]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، ليث ضعيف، ومجاهد لم يدرك أبا بكر