جریر نے اعمش سے، انہوں نے ابوضحیٰ سے، انہوں نے مسروق سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو شخص آئے، مجھے معلوم نہیں کس معاملے میں انہوں نے آپ سے گفتگو کی اور آپ کو ناراض کر دیا، آپ نے ان پر لعنت کی اور ان دونوں کو برا کہا، جب وہ نکل کر چلے گئے تو میں نے عرض کی: کوئی شخص بھی جسے کوئی خیر ملی ہو (وہ) ان دونوں کو نہیں ملی۔ آپ نے فرمایا: "وہ کیسے؟" کہا: میں نے عرض کی: آپ نے ان کو لعنت کی اور برا کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہیں علم نہیں ہے میں نے اپنے رب سے کیا شرط کی ہوئی ہے؟ میں نے کہا ہے: اے اللہ! میں صرف بشر ہوں، لہذا میں جس مسلمان کو لعنت کروں یا برا کہوں تو اس (لعنت اور برا بھلا کہنے) کو اس کے لیے گناہوں سے پاکیزگی اور حصولِ اجر کا ذریعہ بنا دے۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دو آدمی حاضر ہوئے اور آپ سے کسی چیز کے بارے میں گفتگو کی، مجھے معلوم نہیں وہ کیا مسئلہ تھا تو آپ کو غصہ دلادیا، چنانچہ آپ نے ان پر لعنت بھیجی اور سخت کلامی کی تو جب وہ دونوں چلے گئے میں نے کہا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !اور کسی کو تو خیر میسر آسکتی ہے یہ دونوں تو اس کو حاصل نہیں کر سکتے، آپ نے پوچھا "یہ کیوں؟"میں نے کہا، آپ نے ان پر لعنت بھیجی ہے اور ان کو برابھلا کہا ہے آپ نے فرمایا:"کیا تمھیں معلوم نہیں ہے میں نے اپنے رب سے کیا طے کیا ہے،کیا شرط کی ہے؟ میں نے کہا ہے اے اللہ! میں صرف بشر ہوں(الہ نہیں ہوں)تو جس مسلمان پر میں لعنت بھیجوں یا اس کو برا بھلا کہوں تو اسے اس کے لیے پاکیزگی اور اجرکا باعث بنا دے۔"
ابومعاویہ اور عیسیٰ بن یونس نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ جریر کی حدیث کے مانند حدیث بیان کی، اور عیسیٰ (بن یونس) کی حدیث میں کہا: وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علیحدگی میں ملے تو آپ نے انہیں برا بھلا کہا، ان دونوں پر لعنت بھیجی اور ان کو نکال دیا۔
امام صاحب مذکورہ بالا روایت مختلف اساتذہ سے بیان کرتے ہیں، عیسیٰ کی حدیث میں یہ ہے، ان دونوں نے آپ سے خلوت میں بات کی، چنانچہ آپ نے ان کو برابھلا کہا اور لعنت بھیجی اور ان کو نکلوادیا۔
) عبداللہ بن نمیر نے کہا: ہمیں اعمش نے ابوصالح سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے اللہ! میں صرف ایک بشر ہوں، اس لیے میں جس مسلمان کو برا بھلا کہوں یا اس پر لعنت کروں یا اس کو کوڑے ماروں تو اسے اُس کے لیے پاکیزگی (کا ذریعہ) اور رحمت بنا دے۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اے اللہ!میں ایک بشر ہی ہوں (غصہ میں آسکتا ہوں)تو جس مسلمان آدمی کو میں برابھلا کہوں یا اس پر لعنت بھیجوں، یا اس کو سزا دوں تو اس چیز کو اس کے لیے پاکیزگی اور رحمت بنادے۔"
عبداللہ بن نمیر نے کہا: ہمیں اعمش نے ابوسفیان سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی حدیث کے مانند روایت کی مگر اس میں "پاکیزگی اور اجر" کے الفاظ ہیں۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں صرف یہ فرق ہے کہ اس میں رحمت کی جگہ اجر کا لفظ ہے۔"
ابومعاویہ اور عیسیٰ بن یونس نے اعمش سے عبداللہ بن نمیر کی سند کے ساتھ اسی کی حدیث کے مانند حدیث بیان کی، مگر عیسیٰ کی روایت میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں "بنا دے" اور "اجر" کے لفظ ہیں اور جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اور "بنا دے" اور "رحمت" کے لفظ ہیں۔
امام صاحب مذکورہ بالا روایت مختلف اساتذہ سے بیان کرتے ہیں، عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ نے اجر کا لفظ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں کہا ہے اور رحمت کا لفظ حضرت جابر کی روایت میں۔
مغیرہ بن عبدالرحمٰن حزامی نے ہمیں ابوزناد سے حدیث بیان کی، انہوں نے اعرج سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (دعا کرتے ہوئے) فرمایا: "اے اللہ! میں تجھ سے عہد لیتا ہوں جس میں تو میرے ساتھ ہرگز خلاف ورزی نہیں فرمائے گا کہ میں ایک بشر ہی ہوں، میں جس کسی مومن کو تکلیف پہنچاؤں، اسے برا بھلا کہوں، اس پر لعنت کروں، اسے کوڑے ماروں تو ان تمام باتوں کو قیامت کے دن اس کے لیے رحمت، پاکیزگی اور ایسی قربت بنا دے جس کے ذریعے سے تو اسے اپنا قرب عطا فرمائے۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اے اللہ! میں تجھے سے یہ عہد لیتا ہوں تو میرے ساتھ اس کے خلاف نہیں کرے گا میں ایک بشر ہی تو ہوں، اس لیے جس مومن کو میں نے اذیت دی ہے، اس کو سخت سست کہا ہے اس پر لعنت بھیجی ہے، اس کو سزا دی ہے تو اس کو اس کے لیے رحمت پاکیزگی اور ایسی قربت بنا دے جس کے ذریعہ تو اس قیامت کے روز تقرب بخشے۔"
ابوزناد نے ہمیں اسی سند کے ساتھ یہ روایت بیان کی، البتہ انہوں نے "او جلدۃ" کہا۔ ابوزناد نے کہا: یہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی زبان ہے۔ (قریش کی زبان میں) یہ لفظ "جلدتہ" ہی ہے۔ (معنی ایک ہی ہے، یعنی جسے میں کوڑے ماروں۔)
امام صاحب یہی روایت ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں اس میں (جَلدَتُهُ) کی جگہ (جَلَدُه) ہے ابو زنا رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں (جَلَدُه) ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لعنت ہے اصل میں(جَلَدتُه) ہے۔
نصریوں کے آزاد کردہ غلام سالم نے کہا: میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا، کہہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ (دعا کرتے ہوئے) فرما رہے تھے: "اے اللہ! محمد ایک بشر ہی ہے، جس طرح ایک بشر کو غصہ آتا ہے، اسے بھی غصہ آتا ہے اور میں تیرے حضور ایک وعدہ لیتا ہوں جس میں تو میرے ساتھ ہرگز خلاف ورزی نہیں فرمائے گا کہ جس مومن کو بھی میں نے تکلیف پہنچائی، اسے برا بھلا کہا یا کوڑے سے مارا تو اس سب کچھ کو اس کے لیے گناہوں کا کفارہ بنا دینا اور ایسی قربت میں بدل دینا جس کے ذریعے سے قیامت کے دن تو اسے اپنا قرب عطا فرمائے۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا:"اے اللہ محمد! بشرہی ہے۔ جس طرح بشر کو غصہ آتا ہے، اسے بھی غصہ آتا ہے اور میں تجھ سے عہد لیتا ہوں، جس کی تو ہرگز میرے ساتھ خلاف ورزی نہیں فرمائے گا۔ جس مومن کو میں نے اذیت دی ہے یا اسے برابھلا کہا ہے یا میں نے اسے کوڑے مارے ہیں تو اس کو اس کے لیے کفارہ اور ایسی قربت بنادے جس کے ذریعہ تو اسے قیامت کے روز تقرب بخش دے۔"
یونس نے ابن شہاب سے روایت کی، انہوں نے کہا: مجھے سعید بن مسیب نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ (دعا کرتے ہوئے) فرما رہے تھے: "اے اللہ! میں جس بندہ مومن کو برا بھلا کہوں تو اس کے لیے اسے قیامت کے دن اپنی قربت میں بدل دینا۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا:"اے اللہ! جس مسلمان بندے کو میں نے برا بھلا کہا ہےتو اسے اس کے لیے قیامت کے دن اپنی نزدیکی کا سبب بنادے۔"
ابن شہاب کے بھتیجے نے اپنے چچا سے روایت کی، انہوں نے کہا: مجھے سعید بن مسیب نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ (دعا کرتے ہوئے) فرما رہے تھے: "اے اللہ! میں نے تیرے حضور پختہ عہد لیا ہے جس میں تو میرے ساتھ ہرگز خلاف ورزی نہیں فرمائے گا کہ کوئی بھی مومن جسے میں نے تکلیف پہنچائی ہو یا اسے برا بھلا کہا ہو یا اسے کوڑے سے مارا ہو، اسے تو قیامت کے دن اس کے لیے (گناہوں کا) کفارہ بنا دینا۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا:"اے اللہ! میں نے تجھ سے عہد لیا جس کی تو میرے ساتھ خلاف ورزی نہیں فرمائے گا، جس مومن کو میں نے برا کہا ہے، یا اسے کوڑے لگائے ہیں، اس کو اس کے لیے قیامت کے دن کفارہ بنا دیا۔"
حجاج بن محمد نے کہا: ابن جریج نے کہا: مجھے ابوزبیر نے بتایا، انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا، آپ فرماتے تھے: "میں ایک بشر ہی ہوں اور میں نے اپنے رب عزوجل سے یہ عہد لیا ہے کہ میں مسلمانوں میں سے جس بندے کو سب و شتم کروں تو یہ سب کچھ اس کے لیے پاکیزگی اور اجر (کا سبب) بن جائے۔"
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے سنا:"میں بشر ہی تو ہوں اور میں نے اپنے رب عزوجل کے ساتھ یہ طے کیا ہے۔"جس مسلمان کو بندے کو میں برابھلا کہوں،یا اسے سے سخت کلامی کروں، یہ چیز اس کے لیے پاکیزگی اور اجر بنے۔"
) زہیر بن حرب اور ابومعن رقاشی نے ہمیں حدیث بیان کی۔۔ اور الفاظ زہیر کے ہیں۔۔ دونوں نے کہا: ہمیں عمر بن یونس نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں عکرمہ بن عمار نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں اسحق بن ابی طلحہ نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا: مجھے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس ایک یتیم لڑکی تھی اور یہی (ام سلیم رضی اللہ عنہا) ام انس بھی کہلاتی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھا تو فرمایا: "تو وہی لڑکی ہے، تو بڑی ہو گئی ہے! تیری عمر (اس تیزی سے) بڑی نہ ہو" وہ لڑکی روتی ہوئی واپس حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس گئی، حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے پوچھا: بیٹی! تجھے کیا ہوا؟ اس نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے خلاف دعا فرما دی ہے کہ میری عمر زیادہ نہ ہو، اب میری عمر کسی صورت زیادہ نہ ہو گی، یا کہا: اب میرا زمانہ ہرگز زیادہ نہیں ہو گا، حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا جلدی سے دوپٹہ لپیٹتے ہوئے نکلیں، حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: "ام سلیم! کیا بات ہے؟" حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے نبی! کیا آپ نے میری (پالی ہوئی) یتیم لڑکی کے خلاف دعا کی ہے؟ آپ نے پوچھا: "یہ کیا بات ہے؟" حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا: وہ کہتی ہے: آپ نے دعا فرمائی ہے کہ اس کی عمر زیادہ نہ ہو، اور اس کا زمانہ لمبا نہ ہو، (حضرت انس رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے، پھر فرمایا: "ام سلیم! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں نے اپنے رب سے پختہ عہد لیا ہے، میں نے کہا: میں ایکبشر ہی ہوں، جس طرح ایک بشر خوش ہوتا ہے، میں بھی خوش ہوتا ہوں اور جس طرح بشر ناراض ہوتے ہیں میں بھی ناراض ہوتا ہوں۔ تو میری امت میں سے کوئی بھی آدمی جس کے خلاف میں نے دعا کی اور وہ اس کا مستحق نہ تھا تو اس دعا کو قیامت کے دن اس کے لیے پاکیزگی، گناہوں سے صفائی اور ایسی قربت بنا دے جس کے ذریعے سے تو اسے اپنے قریب فرما لے۔" ابو معن نے کہا: حدیث میں تینوں جگہ (یتیمہ کے بجائے) تصغیر کے ساتھ یتیمۃ (چھوٹی سی یتیم بچی کا لفظ) ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ ہیں کے پاس ایک یتیم بچی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیم بچی کو دیکھا تو فرمایا:"تو وہی ہے(اتنی جلد جوان ہو گئی)؟ تو بڑی ہوگئی ہے، تیری عمر بڑی نہ ہو۔" چنانچہ یتیم بچی روتی ہوئی اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئی تو اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا تجھے کیا ہوا؟ اے بیٹی! بچی نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے خلاف دعا کی ہے کہ میری عمر بڑی نہ ہو۔اس لیے اب کبھی میری عمر زیادہ نہیں ہو گی۔یا کہا میرا دور زیادہ نہ ہو گا، چنانچہ حضرت اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا جلدی جلدی دوپٹہ لپیٹتی ہوئی نکلیں حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا اے اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا! تمھیں کیا ہوا؟"اس نے کہا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ نے میرے ہاں یتیم بچی کے خلاف دعا فرمائی ہے؟ آپ نے پوچھا۔"کیا واقعہ ہے؟ اے سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا!"اس نے عرض کیا بچی کا گمان ہے، آپ نے دعا فرمائی ہے کہ اس کی عمر نہ بڑھے اور اس کا دور یا عہد زیادہ نہ ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے پھر فرمایا:"اے اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا! کیا تجھے معلوم نہیں ہے، میری اپنے رب کے ساتھ شرط ہے میں نے اپنے رب سے طے کیا ہے میں نے کہا میں بشر ہی تو ہوں،جس طرح بشر راضی ہوتا ہے میں راضی ہوتا ہوں اور جس طرح بشر غصہ میں آجاتا ہے میں غصہ میں آجاتا ہوں تو جس کے خلاف بھی میں اپنی امت سے ایسی دعا کروں جس کا وہ مستحق نہیں ہے، اسے وہ اس کے لیے طہارت پاکیزگی اور ایسی قربت بنادے جس کے سبب تو اسے قیامت کے دن اپنا تقرب بخشے،"ابو معن کی روایت میں (يَتِيمُة) کا لفظ تینوں جگہ مصغر ہے یعنی (يُتَيمَة) ہے۔
محمد بن مثنیٰ عنزی اور ابن بشار نے ہمیں حدیث بیان کی۔۔ الفاظ ابن مثنیٰ کے ہیں۔۔ دونوں نے کہا: ہمیں امیہ بن خالد نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں شعبہ نے ابوحمزہ قصاب سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا، کہا: آپ آئے اور میرے دونوں شانوں کے درمیان اپنے کھلے ہاتھ سے ہلکی سی ضرب لگائی (مقصود پیار کا اظہار تھا) اور فرمایا: "جاؤ، میرے لیے معاویہ کو بلا لاؤ۔" میں نے آپ سے آ کر کہا: وہ کھانا کھا رہے ہیں۔ آپ نے دوبارہ مجھ سے فرمایا: "جاؤ، معاویہ کو بلا لاؤ۔" میں نے پھر آ کر کہا: وہ کھانا کھا رہے ہیں، تو آپ نے فرمایا: "اللہ اس کا پیٹ نہ بھرے۔"
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا، آپ نے آکر میرے کندھوں کے درمیان پیار سے تھپکی دی اور فرمایا:"جاؤ اور میرے لیے معاویہ کو بلا لو۔"تو میں نے آکر کہا وہ کھانا کھارہا ہے، آپ نے فرمایا:"جاؤ اور میری خاطر معاویہ کو بلا لاؤ تو میں نے واپس آکر کہا:وہ کھانا کھا رہا ہے چنانچہ آپ نے فرمایا:"اللہ اس کا پیٹ نہ بھرے۔"ابن مثنیٰ کہتے ہیں میں نے اپنے استاد امیہ سے پوچھا"حَطَاَنِي"کا کیا معنی ہے؟اس نے کہا "قَفَدَنِي قَفدَةً":گدی پر دھول ماری۔
نضر بن شمیل نے کہا: ہمیں شعبہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں ابوحمزہ نے خبر دی کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا، کہتے تھے: میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے تو میں آپ سے چھپ گیا۔ آگے اسی (سابقہ حدیث) کی طرح بیان کیا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور میں آپ سے چھپ گیا، آگے مذکورہ بالا روایت ہے۔