محمد بن مثنیٰ عنزی اور ابن بشار نے ہمیں حدیث بیان کی۔۔ الفاظ ابن مثنیٰ کے ہیں۔۔ دونوں نے کہا: ہمیں امیہ بن خالد نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں شعبہ نے ابوحمزہ قصاب سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا، کہا: آپ آئے اور میرے دونوں شانوں کے درمیان اپنے کھلے ہاتھ سے ہلکی سی ضرب لگائی (مقصود پیار کا اظہار تھا) اور فرمایا: "جاؤ، میرے لیے معاویہ کو بلا لاؤ۔" میں نے آپ سے آ کر کہا: وہ کھانا کھا رہے ہیں۔ آپ نے دوبارہ مجھ سے فرمایا: "جاؤ، معاویہ کو بلا لاؤ۔" میں نے پھر آ کر کہا: وہ کھانا کھا رہے ہیں، تو آپ نے فرمایا: "اللہ اس کا پیٹ نہ بھرے۔"
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا، آپ نے آکر میرے کندھوں کے درمیان پیار سے تھپکی دی اور فرمایا:"جاؤ اور میرے لیے معاویہ کو بلا لو۔"تو میں نے آکر کہا وہ کھانا کھارہا ہے، آپ نے فرمایا:"جاؤ اور میری خاطر معاویہ کو بلا لاؤ تو میں نے واپس آکر کہا:وہ کھانا کھا رہا ہے چنانچہ آپ نے فرمایا:"اللہ اس کا پیٹ نہ بھرے۔"ابن مثنیٰ کہتے ہیں میں نے اپنے استاد امیہ سے پوچھا"حَطَاَنِي"کا کیا معنی ہے؟اس نے کہا "قَفَدَنِي قَفدَةً":گدی پر دھول ماری۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6628
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بلانے گئے تو وہ روٹی کھا رہے تھے، وہ دیکھ کر واپس آ گئے اور آپ کو بتا دیا، اس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو بھی آپ کے بلانے کی اطلاع دی تھی، یا فورا آنے کے لیے کہا تھا، اس لیے آپ نے عربوں کی عادت کے مطابق، بے تکلفی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا، اللہ اس کا پیٹ نہ بھرے، جس طرح آج بھی ساتھی اور دوست بے تکلفی سے کھانے والے کو کہہ دیتے، تیرا پیٹ ہے یا تنور ہے، جو بھرنے کا نام ہی نہیں لیتا اور آپ نے ام سلیم کی یتیم بچی کو کہا تھا، اس کی عمر نہ بڑے یا حضرت حفصہ کو کہا تھا، عقری حلقٰی، بعض دفعہ کہا، تربت عينك، ایسے مواقع پر محض پیارومحبت اور بے تکلفی کا اظہار ہوتا ہے، بددعا مقصود نہیں ہوتی، اس لیے امام مسلم اس کو ان حدیثوں میں لائے ہیں، جن میں بتایا گیا ہے کہ اگر میں اپنے کسی امتی کے خلاف ایسی دعا کروں، جس کا وہ مستحق نہ ہو تو اس کو اس کے لیے اجروثواب، رحمت اور تقرب کا باعث بنا، اس طرح یہ الفاظ ان کے حق میں دعا بن گئے۔