عثمان بن ابی شیبہ اور اسحٰق بن ابراہیم نے کہا: ہمیں جریر نے اعمش سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابووائل سے، انہوں نے مسروق سے روایت کی، کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے کوئی شخص نہیں دیکھا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ عثمان کی روایت میں "سخت تکلیف کا سامنا" کے بجائے "جس کی تکلیف زیادہ سخت ہو" ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت بیماری کسی آدمی کی نہیں دیکھی،عثمان کی روایت میں "وَجعُ" کی جگہ "وَجعاً" ہے۔
عثمان بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب اور اسحٰق بن ابراہیم نے کہا؛ ہمیں جریر نے اعمش سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابراہیم تیمی سے، انہوں نے حارث بن سوید سے، انہوں نے حضرت عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت آپ کو بخار چڑھ رہا تھا، میں نے آپ کو ہاتھ سے چھوا اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کو تو بہت سخت بخار چڑھا ہوا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں، مجھے اتنا بخار چڑھتا ہے جتنا تم میں سے دو آدمیوں کو بخار چڑھتا ہے۔" میں نے عرض کی: یہ اس لیے کہ آپ کے لیے دہرا اجر ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں، (یہی بات ہے۔) " پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی مسلمان نہیں جسے کوئی تکلیف پہنچے، مرض ہو یا اس کے علاوہ کوئی اور تکلیف مگر اللہ اس کے سبب سے اس کی برائیاں (گناہ) جھاڑ دیتا ہے جس طرح درخت اپنے پتے جھاڑتا ہے۔" زہیر کی حدیث میں یہ الفاظ نہیں: "تو میں نے آپ کو ہاتھ سے چھوا۔"
حضرت عبداللہ بیان کرتےہیں،میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا،جبکہ آپ کو بخار تھا،چنانچہ میں نے آپ کو اپنا ہاتھ لگا کردیکھا اورعرض کیا:اےاللہ کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم )!آپ کو تو بہت شدید بخار ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں،مجھے تم میں سے دو آدمیوں کے برابر بخار ہوتا ہے،سو میں نےکہا،یہ اس لیے ہے کہ آپ کو دوگنا اجر ملتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس مسلمان کو بھی کوئی تکلیف پہنچتی ہے،بیماری ہو یاکوئی مصیبت تو اللہ اس کے سبب اس کی بُرائیاں گرادیتاہے،جس طرح (سوکھا) درخت اپنے پتے جھاڑتا ہے۔"زہیر کی حدیث میں،اپنےہاتھ سے چھونے کا ذکر نہیں ہے۔
ابومعاویہ، سفیان، عیسیٰ بن یونس اور یحییٰ بن عبدالملک بن ابی غنیہ سب نے اعمش سے جریر کی سند کے ساتھ، اسی کی حدیث کے مانند روایت کی اور ابومعاویہ کی حدیث میں مزید ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں، مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! روئے زمین پر کوئی مسلمان نہیں۔۔۔"
امام صاحب مذکورہ بالاروایت اپنے مختلف اساتذہ کی سندوں سے بیان کرتے ہیں،ابومعاویہ کی حدیث میں یہ اضافہ ہے،آپ نے فرمایا:"ہاں،اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،روئے زمین پر جوبھی مسلمان ہے۔"
منصور نے ابراہیم سے، انہوں نے اسود (بن یزید نخعی) سے روایت کی، انہوں نے کہا: کچھ قریشی نوجوان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ وہ منیٰ میں تھیں۔ وہ نوجوان ہنس رہے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: تم کس وجہ سے ہنس رہے ہو؟ انہوں نے کہا: فلاں شخص خیمے کی رسیوں پر گر پڑا، قریب تھا کہ اس کی گردن یا آنکھ جاتی رہتی۔ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ہنسو مت، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا: "کوئی مسلمان نہیں جسے کانٹا چبھ جائے یا اس سے بڑھ کر (تکلیف) ہو مگر اس کے لیے ایک درجہ لکھ دیا جاتا ہے اور اس کا ایک گناہ معاف کر دیا جاتا ہے۔"
حضرت اسود رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں،کچھ قریشی نوجوان منیٰ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ہنستے ہوئے گئے تو انہوں نے پوچھا،کیوں ہنستے ہو؟انہوں نے کہا،فلاں انسان خیمہ کی طناب(رسی) پرگرپڑا اور قریب تھا اس کی گردن یا اس کی آنکھ ضائع ہوجاتی۔تو انہوں نے فرمایا:مت ہنسو،کیونکہ میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئےسنا:"جس مسلمان کو بھی کانٹا یا اس سے بڑی چیز چبتی ہے یا اس سے کم تکلیف پہنچتی ہے تو اس کے لیے اس کے سبب ایک درجہ لکھ دیا جاتا ہے اور اس کے سبب اس کی ایک لغزش مٹادی جاتی ہے۔
اعمش نے ابراہیم سے، انہوں نے اسود سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک مومن کو کوئی کانٹا نہیں چبھتا یا اس سے زیادہ کوئی تکلیف نہیں ہوتی مگر اللہ تعالیٰ اس سے اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے یا اس کی بنا پر اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کر تی ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمانوں کو کانٹے کی تکلیف یا اس سے کم وبیش تکلیف سے پہنچتی ہے تو اس کے سبب اللہ اس کا ایک درجہ بلند کرتا ہے یا اس کا گناہ مٹا دیتا ہے۔“
محمد بن بشر نے کہا: ہمیں ہشام نے اپنے والد (عروہ) سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک مومن کو جب بھی کوئی کانٹا چبھتا ہے یا اس سے بڑھ کر کوئی تکلیف ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کر تی ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مسلمان کو کانٹا یا اس سے کم وبیش تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ کو اسکی لغزش کاکفارہ بنادیتاہے۔
ابن شہاب نے عروہ بن زبیر سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی بھی مصیبت نہیں جس میں کوئی مسلمان مبتلا ہو مگر اس کی بنا پر اس کا کوئی گناہ اس سے ہٹا دیا جاتا ہے حتی کہ وہ کانٹا بھی جو اسے چبھتا ہے (اور کسی گناہ کا کفارہ بن جاتا ہے۔) "
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" کوئی مصیبت بھی اگر مسلمان کو پہنچتی ہے تو وہ اس کے لیے کفارہ بنتی ہے حتیٰ کہ کانٹا بھی جو اسے چبھ جاتا ہے۔"
امام مالک بن انس نے یزید بن خُصَیفہ سے، انہوں نے عروہ بن زبیر سے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان پر کوئی بھی مصیبت نہیں آتی، چاہے ایک کانٹا ہی (چبھا) ہو مگر اس کی وجہ سے اس کی غلطیاں معاف کر دی جاتی ہیں یا اس کو اس کی کچھ غلطیوں کا کفارہ بنا دیا جاتا ہے۔" یزید کو پتہ نہیں کہ عروہ نے ان دونوں میں سے کون سا جملہ بولا تھا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"مومن کو کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچتی حتیٰ کہ کانٹا نہیں چبھتا مگر وہ اس کے قصوروں کامعاوضہ ٹھہرتا ہے یا اس کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے۔راوی کو معلوم نہیں ان دونوں کلمات میں سے عروہ نے کونسا کلمہ بولا۔
عمرہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی بھی مصیبت نہیں جو مومن پر آتی ہے، حتی کہ وہ کانٹا بھی جو اسے چبھتا ہے تو اللہ اس کے بدلے اس کے لیے ایک نیکی لکھ دیتا ہے یا اس کی وجہ سے اس کی کوئی غلطی معاف کر دی جاتی ہے۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے:"مومن کو جو مصیبت بھی پہنچتی ہے حتیٰ کہ کانٹا جو چبھ جاتا ہے تو اس کے سبب اس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے،یا اس کےسبب اس سے ایک لغزش جھاڑدی جاتی ہے۔"
عطاء بن یسار نے حضرت ابوسعید اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، دونوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "مومن کو کوئی تکلیف نہیں پہنچتی، نہ تھکاوٹ، نہ بیماری، نہ غم حتی کہ کوئی فکر بھی جو اسے فکرمند کر دے مگر اس کے بدلے اس کے گناہوں کو مٹا دیا جاتا ہے۔"
حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا:"مسلمان کو جو مرض ہویاتھکاوٹ،تکلیف ہویا پریشانی یا غم جو اس کوفکر میں مبتلا کرے اس کے سبب اس کی بُرائیاں مٹتی ہیں۔"
سفیان نے قریش کے ایک بزرگ ابن محیصن سے روایت کی، انہوں نے محمد بن قیس بن مخرمہ کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا، انہوں نے کہا: جب (یہ آیت) نازل ہوئی: "جو شخص کوئی برائی کرے گا، اس کے بدلے اسے سزا دی جائے گی۔" یہ (بات) مسلمانوں کے لیے سخت خوف اور تشویش کا باعث بنی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " (مطلوبہ معیار کے) قریب تر پہنچو اور اچھی طرح سیکھے ہو جاؤ۔ ہر مصیبت میں، جو کسی مسلمان کو پہنچتی ہے، ایک کفارہ ہوتا ہے حتی کہ ٹھوکر جو اسے لگ جاتی ہے یا کانٹا اسے چبھ جاتا ہے۔" امام مسلم نے کہا: وہ (قریش کے شیخ ابن محیصن) اہل مکہ میں سے عمر بن عبدالرحمان بن محیصن ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،جب یہ آیت مبارکہ اتری:"جو بھی برائی کا ارتکاب کرے گا،اس کو اس کی جزا ملے گی۔"(نساء:123) مسلمانوں کو اس سے انتہائی سخت تشویش لاحق ہوئی۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میانہ روی اختیار کرو اور راہ راست پرچلو،مسلمانوں کو جو تکلیف بھی پہنچتی ہے وہ کفار بنتی ہے،حتیٰ کہ جوٹھوکر لگتی ہے یا کانٹا جو چبھ جاتا ہے۔"امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:عمر بن عبدالرحمان بن محیصن مکہ کا باشندہ ہے۔
ابوزبیر نے کہا: ہمیں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک انصاری خاتون) حضرت ام سائب یا حضرت ام مسیب رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے، آپ نے فرمایا: "ام سائب یا (فرمایا:) ام مسیب! تہیں کیا ہوا؟ کیا تم شدت سے کانپ رہی ہو؟" انہوں نے کہا: بخار ہے، اللہ تعالیٰ اس میں برکت نہ دے! آپ نے فرمایا: "بخار کو برا نہ کہو، کیونکہ یہ آدم کی اولاد کے گناہوں کو اس طرح دور کرتا ہے جس طرح بھٹی لوہے کے زنگ کو دور کرتی ہے۔"
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام السائب یا ام المسیب کے ہاں تشریف لے گئے اور پوچھا:"اے ام السائب! یا ام المسیب!تمھیں کیا ہوا ہے؟تم کانپ رہی ہو؟"اس نے جواب دیا:بخارہے،اللہ اس کو برکت نہ دے تو آپ نے فرمایا:"بخار کو برا نہ کہو،کیونکہ یہ انسان کے گناہ ختم کرتا ہے،جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کودور کرتی ہے۔"
عطاء بن ابی رباح نے حدیث بیان کی، کہا: ایک دن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: کیا میں تمہیں اہل جنت میں سے ایک عورت نہ دکھاؤں؟ میں نے کہا: کیوں نہیں! انہوں نے کہا: یہ سیاہ فام عورت ہے، یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: اللہ کے رسول! مجھ پر مرگی کا دورہ پڑتا ہے جس سے (کبھی) میرا لباس کھل جاتا ہے۔ آپ میرے لیے اللہ سے دعا کیجئے۔ آپ نے فرمایا: "اگر تم چاہو تو اس پر صبر کرو اور تمہارے لیے جنت ہے اور اگر تم چاہو تو میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تم کو صحت عطا فرمائے۔" اس عورت نے کہا: میں صبر کروں گی، اس نے کہا: میرا لباس کھل جاتا ہے، آپ اللہ سے یہ دعا فرما دیں کہ میرا لباس نہ کھلے، تو آپ نے اس کے لیے دعا فرمائی۔
حضرت عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں،مجھے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:کیا میں تمہیں جنتی عورت نہ دکھاؤں؟میں نےکہا:کیوں نہیں،انہوں نے کہا،یہ سیاہ فام عورت،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکرکہنے لگی،مجھے مرگی کادورہ پڑتا ہے۔اور میرا ستر کھل جاتاہے،آپ میرے لیے اللہ سے دعا فرمائیں،آپ نے فرمایا:"اگر تو چاہے تو صبرکر،تجھےجنت مل جائےگی اور اگر تو چاہے تو میں اللہ سے دعا کر دیتا ہوں،وہ تجھے صحت بخشے۔"اس نے کہا،میں صبر کروں گی اور کہا میں بے پردہ ہوجاتی ہوں تو آپ اللہ سے دعا فرمائیں،میں بےپردہ نہ ہوں،چنانچہ آپ نے اس کے لیے دعا فرمائی۔