عمرو بن محمد ناقد، اسحاق بن ابراہیم حنظلی، عبیداللہ بن سعید اور محمد بن ابی عمر مکی، ان سب نے ہمیں ابن عیینہ سے حدیث بیان کی۔الفاظ ابن ابی عمر کے ہیں۔سفیان بن عیینہ نے کہا: ہمیں عمرو بن دینار نے سعید بن جبیر سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کہتا ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام جو بنی اسرائیل کے پیغمبر تھے، وہ اور ہیں اور جو موسیٰ خضر علیہ السلام کے پاس گئے تھے وہ اور ہیں انہوں نے کہا کہ اللہ کا دشمن جھوٹ بولتا ہے۔ میں نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم بنی اسرائیل پر خطبہ پڑھنے کو کھڑے ہوئے، ان سے پوچھا گیا کہ سب لوگوں میں زیادہ علم کس کو ہے؟ انہوں نے کہا کہ مجھ کو ہے (یہ بات اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہوئی) پس اللہ تعالیٰ نے ان پر اس وجہ سے ناراضگی کا اظہار کیا کہ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو وحی بھیجی کہ دو دریاؤں کے ملاپ پر میرا ایک بندہ ہے، وہ تجھ سے زیادہ عالم ہے سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے پروردگار! میں اس سے کیسے ملوں؟ حکم ہوا کہ ایک مچھلی زنبیل (ٹوکرے) میں رکھ، جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے، وہیں وہ بندہ ملے گا۔ یہ سن کر سیدنا موسیٰ علیہ السلام اپنے ساتھی یوشع بن نون علیہ السلام کو ساتھ لے کر چلے اور انہوں نے ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لی۔ دونوں چلتے چلتے صخرہ (ایک مقام ہے) کے پاس پہنچے تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی سو گئے۔ مچھلی تڑپی یہاں تک کہ زنبیل سے نکل کر دریا میں جا پڑی اور اللہ تعالیٰ نے پانی کا بہنا اس پر سے روک دیا، یہاں تک کہ پانی کھڑا ہو کر طاق کی طرح ہو گیا اور مچھلی کے لئے خشک راستہ بن گیا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی کے لئے تعجب ہوا پھر دونوں چلے دن بھر اور رات بھر اور موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی مچھلی کا حال ان سے کہنا بھول گئے جب صبح ہوئی تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ساتھی سے کہا کہ ہمارا ناشتہ لاؤ، ہم تو اس سفر سے تھک گئے ہیں اور تھکاوٹ اسی وقت ہوئی جب اس جگہ سے آگے بڑھے جہاں جانے کا حکم ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ جب ہم (مقام) صخرہ پر اترے تو میں مچھلی بھول گیا اور شیطان نے مجھے بھلایا اور تعجب ہے کہ اس مچھلی نے دریا میں جانے کی راہ لی۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ہم تو اسی مقام کو ڈھونڈھتے تھے، پھر دونوں اپنے پاؤں کے نشانوں پر لوٹے یہاں تک کہ صخرہ پر پہنچے۔ وہاں ایک شخص کو کپڑا اوڑھے ہوئے دیکھا تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے ان کو سلام کیا تو انہوں نے کہا کہ تمہارے ملک میں سلام کہاں سے ہے؟ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں موسیٰ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ سیدنا موسیٰ نے کہا کہ ہاں۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے کہا کہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے وہ علم دیا ہے جو میں نہیں جانتا۔ اور مجھے وہ علم دیا ہے جو تم نہیں جانتے سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں تمہارے ساتھ رہنا چاہتا ہوں اس لئے کہ مجھے وہ علم سکھلاؤ جو تمہیں دیا گیا ہے۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے کہا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے اور تم سے اس بات پر کیسے صبر ہو سکے گا جس کو تم نہیں جانتے ہو۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ اگر اللہ نے چاہا تو تم مجھے صابر پاؤ گے اور میں کسی بات میں تمہاری نافرمانی نہیں کروں گا۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے کہا کہ اچھا اگر میرے ساتھ ہوتے ہو تو مجھ سے کوئی بات نہ پوچھنا جب تک میں خود اس کا ذکر نہ کروں۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ بہت اچھا۔ پس خضر علیہ السلام اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام دونوں سمندر کے کنارے چلے جاتے تھے کہ ایک کشتی سامنے سے نکلی، دونوں نے کشتی والوں سے کہا کہ ہمیں بٹھا لو، انہوں نے سیدنا خضر علیہ السلام کو پہچان لیا اور دونوں کو بغیر کرایہ چڑھا لیا۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے اس کشتی کا ایک تختہ اکھاڑ ڈالا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ان لوگوں نے تو ہمیں بغیر کرایہ کے چڑھایا اور تم نے ان کی کشتی کو توڑ ڈالا تاکہ کشتی والوں کو ڈبو دو، یہ تم نے بڑا بھاری کام کیا۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے کہا کہ کیا میں نہیں کہتا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے؟ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ بھول چوک پر مت پکڑو اور مجھ پر تنگی مت کرو۔ پھر دونوں کشتی سے باہر نکلے اور سمندر کے کنارے چلے جاتے تھے کہ ایک لڑکا ملا جو اور لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، سیدنا خضر علیہ السلام نے اس کا سر پکڑ کر اکھیڑ لیا اور مار ڈالا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ تم نے ایک بےگناہ کو ناحق مار ڈالا، یہ تو بہت برا کام کیا۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے کہا کہ کیا میں نہ کہتا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے؟ اور یہ کام پہلے کام سے بھی زیادہ سخت تھا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ اب میں تم سے کسی بات پر اعتراض کروں تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا بیشک تمہارا اعتراض بجا ہو گا۔ پھر دونوں چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں میں پہنچے، گاؤں والوں سے کھانا مانگا تو انہوں نے انکار کیا، پھر ایک دیوار ملی جو گرنے کے قریب تھی اور جھک گئی تھی، سیدنا خضر علیہ السلام نے اس کو اپنے ہاتھ سے سیدھا کر دیا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ان گاؤں والوں سے ہم نے کھانا مانگا اور انہوں نے انکار کیا اور کھانا نہ کھلایا (ایسے لوگوں کا کام مفت کرنا کیا ضروری تھا؟) اگر تم چاہتے تو اس کی مزدوری لے سکتے تھے۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے کہا کہ بس، اب میرے اور تمہارے درمیان جدائی ہے، اب میں تم سے ان باتوں کا مطلب کہے دیتا ہوں جن پر تم سے صبر نہ ہو سکا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے، مجھے آرزو ہے کہ کاش وہ صبر کرتے اور ہمیں ان کی اور باتیں معلوم ہوتیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلی بات سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے بھولے سے کی۔ پھر ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھی اور اس نے سمندر میں چونچ ڈالی، سیدنا خضر علیہ السلام نے کہا کہ میں نے اور تم نے اللہ تعالیٰ کے علم میں سے اتنا ہی علم سیکھا ہے جتنا اس چڑیا نے سمندر میں سے پانی کم کیا ہے۔ سیدنا سعید بن جبیر نے کہا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس طرح پڑھتے تھے کہ ”ان کشتی والوں کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ثابت کشتی کو ناحق جبر سے چھین لیتا تھا“ اور پڑھتے تھے کہ ”وہ لڑکا کافر تھا“۔
حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں،میں نے سیدنا ابن عباس ؓ سے کہا کہ نوف بکالی کہتا ہے کہ سیدنا موسیٰ ؑ جو بنی اسرائیل کے پیغمبر تھے، وہ اور ہیں اور جو موسیٰ خضر ؑ کے پاس گئے تھے وہ اور ہیں انہوں نے کہا کہ اللہ کا دشمن جھوٹ بولتا ہے۔ میں نے سیدنا ابی بن کعب ؓ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ سیدنا موسیٰ ؑ اپنی قوم بنی اسرائیل پر خطبہ پڑھنے کو کھڑے ہوئے، ان سے پوچھا گیا کہ سب لوگوں میں زیادہ علم کس کو ہے؟ انہوں نے کہا کہ مجھ کو ہے (یہ بات اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہوئی) پس اللہ تعالیٰ نے ان پر اس وجہ سے ناراضگی کا اظہار کیا کہ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو وحی بھیجی کہ دو دریاؤں کے ملاپ پر میرا ایک بندہ ہے، وہ تجھ سے زیادہ عالم ہے سیدنا موسیٰ ؑ نے عرض کیا کہ اے پروردگار! میں اس سے کیسے ملوں؟ حکم ہوا کہ ایک مچھلی زنبیل (ٹوکرے) میں رکھ، جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے، وہیں وہ بندہ ملے گا۔ یہ سن کر سیدنا موسیٰ ؑ اپنے ساتھی یوشع بن نون ؑ کو ساتھ لے کر چلے اور انہوں نے ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لی۔ دونوں چلتے چلتے صخرہ (ایک مقام ہے) کے پاس پہنچے تو سیدنا موسیٰ ؑ اور ان کے ساتھی سو گئے۔ مچھلی تڑپی یہاں تک کہ زنبیل سے نکل کر دریا میں جا پڑی اور اللہ تعالیٰ نے پانی کا بہنا اس پر سے روک دیا، یہاں تک کہ پانی کھڑا ہو کر طاق کی طرح ہو گیا اور مچھلی کے لئے خشک راستہ بن گیا۔ سیدنا موسیٰ ؑ اور ان کے ساتھی کے لئے تعجب ہوا پھر دونوں چلے دن بھر اور رات بھر اور موسیٰ ؑ کے ساتھی مچھلی کا حال ان سے کہنا بھول گئے جب صبح ہوئی تو موسیٰ ؑ نے اپنے ساتھی سے کہا کہ ہمارا ناشتہ لاؤ، ہم تو اس سفر سے تھک گئے ہیں اور تھکاوٹ اسی وقت ہوئی جب اس جگہ سے آگے بڑھے جہاں جانے کا حکم ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ جب ہم (مقام) صخرہ پر اترے تو میں مچھلی بھول گیا اور شیطان نے مجھے بھلایا اور تعجب ہے کہ اس مچھلی نے دریا میں جانے کی راہ لی۔ سیدنا موسیٰ ؑ نے کہا کہ ہم تو اسی مقام کو ڈھونڈھتے تھے، پھر دونوں اپنے پاؤں کے نشانوں پر لوٹے یہاں تک کہ صخرہ پر پہنچے۔ وہاں ایک شخص کو کپڑا اوڑھے ہوئے دیکھا تو سیدنا موسیٰ ؑ نے ان کو سلام کیا تو انہوں نے کہا کہ تمہارے ملک میں سلام کہاں سے ہے؟ سیدنا موسیٰ ؑ نے کہا کہ میں موسیٰ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ سیدنا موسیٰ نے کہا کہ ہاں۔ سیدنا خضر ؑ نے کہا کہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے وہ علم دیا ہے جو میں نہیں جانتا۔ اور مجھے وہ علم دیا ہے جو تم نہیں جانتے سیدنا موسیٰ ؑ نے کہا کہ میں تمہارے ساتھ رہنا چاہتا ہوں اس لئے کہ مجھے وہ علم سکھلاؤ جو تمہیں دیا گیا ہے۔ سیدنا خضر ؑ نے کہا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے اور تم سے اس بات پر کیسے صبر ہو سکے گا جس کو تم نہیں جانتے ہو۔ سیدنا موسیٰ ؑ نے کہا کہ اگر اللہ نے چاہا تو تم مجھے صابر پاؤ گے اور میں کسی بات میں تمہاری نافرمانی نہیں کروں گا۔ سیدنا خضر ؑ نے کہا کہ اچھا اگر میرے ساتھ ہوتے ہو تو مجھ سے کوئی بات نہ پوچھنا جب تک میں خود اس کا ذکر نہ کروں۔ سیدنا موسیٰ ؑ نے کہا کہ بہت اچھا۔ پس خضر ؑ اور سیدنا موسیٰ ؑ دونوں سمندر کے کنارے چلے جاتے تھے کہ ایک کشتی سامنے سے نکلی، دونوں نے کشتی والوں سے کہا کہ ہمیں بٹھا لو، انہوں نے سیدنا خضر ؑ کو پہچان لیا اور دونوں کو بغیر کرایہ چڑھا لیا۔ سیدنا خضر ؑ نے اس کشتی کا ایک تختہ اکھاڑ ڈالا۔ سیدنا موسیٰ ؑ نے کہا کہ ان لوگوں نے تو ہمیں بغیر کرایہ کے چڑھایا اور تم نے ان کی کشتی کو توڑ ڈالا تاکہ کشتی والوں کو ڈبو دو، یہ تم نے بڑا بھاری کام کیا۔ سیدنا خضر ؑ نے کہا کہ کیا میں نہیں کہتا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے؟ سیدنا موسیٰ ؑ نے کہا کہ بھول چوک پر مت پکڑو اور مجھ پر تنگی مت کرو۔ پھر دونوں کشتی سے باہر نکلے اور سمندر کے کنارے چلے جاتے تھے کہ ایک لڑکا ملا جو اور لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، سیدنا خضر ؑ نے اس کا سر پکڑ کر اکھیڑ لیا اور مار ڈالا۔ سیدنا موسیٰ ؑ نے کہا کہ تم نے ایک بےگناہ کو ناحق مار ڈالا، یہ تو بہت برا کام کیا۔ سیدنا خضر ؑ نے کہا کہ کیا میں نہ کہتا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے؟ اور یہ کام پہلے کام سے بھی زیادہ سخت تھا۔ سیدنا موسیٰ ؑ نے کہا کہ اب میں تم سے کسی بات پر اعتراض کروں تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا بیشک تمہارا اعتراض بجا ہو گا۔ پھر دونوں چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں میں پہنچے، گاؤں والوں سے کھانا مانگا تو انہوں نے انکار کیا، پھر ایک دیوار ملی جو گرنے کے قریب تھی اور جھک گئی تھی، سیدنا خضر ؑ نے اس کو اپنے ہاتھ سے سیدھا کر دیا۔ سیدنا موسیٰ ؑ نے کہا کہ ان گاؤں والوں سے ہم نے کھانا مانگا اور انہوں نے انکار کیا اور کھانا نہ کھلایا (ایسے لوگوں کا کام مفت کرنا کیا ضروری تھا؟) اگر تم چاہتے تو اس کی مزدوری لے سکتے تھے۔ سیدنا خضر ؑ نے کہا کہ بس، اب میرے اور تمہارے درمیان جدائی ہے، اب میں تم سے ان باتوں کا مطلب کہے دیتا ہوں جن پر تم سے صبر نہ ہو سکا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ موسیٰ ؑ پر رحم کرے، مجھے آرزو ہے کہ کاش وہ صبر کرتے اور ہمیں ان کی اور باتیں معلوم ہوتیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلی بات سیدنا موسیٰ ؑ نے بھولے سے کی۔ پھر ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھی اور اس نے سمندر میں چونچ ڈالی، سیدنا خضر ؑ نے کہا کہ میں نے اور تم نے اللہ تعالیٰ کے علم میں سے اتنا ہی علم سیکھا ہے جتنا اس چڑیا نے سمندر میں سے پانی کم کیا ہے۔ سیدنا سعید بن جبیر نے کہا کہ سیدنا ابن عباس ؓ اس طرح پڑھتے تھے کہ ”ان کشتی والوں کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ثابت کشتی کو ناحق جبر سے چھین لیتا تھا“ اور پڑھتے تھے کہ ”وہ لڑکا کافر تھا“۔
۔ معتمر کے والد سلیمان تیمی نے رقبہ سے، انھوں نے ابو اسحق سے انھوں نے سعید بن جبیر سے روایت کی، کہا: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ نوف سمجھتا ہے۔کہ جو موسیٰ علیہ السلام علم کے حصول کے لئے گئے تھے وہ بنی اسرائیل کے موسیٰ علیہ السلام نہ تھے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: سعید!کیا آپ نے خود اس سے سنا ہے؟میں نے کہا: جی ہاں، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: نوف نے جھوٹ کہا۔
سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں،حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا کہ نوف سمجھتا ہے۔کہ جو موسیٰ ؑ علم کے حصول کے لئے گئے تھے وہ بنی اسرائیل کے موسیٰ ؑ نہ تھے،حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:سعید!کیا آپ نے خود اس سے سنا ہے؟میں نے کہا:جی ہاں،حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:نوف نے جھوٹ کہا۔
حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے ہمیں حدیث سنائی، کہا: میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "ایک دن موسیٰ علیہ السلام اپنے لوگوں میں بیٹھے انھیں اللہ کے دن یاد دلارہے تھے (اور) اللہ کے دنوں سے مراد اللہ کی نعمتیں اوراس کی آزمائشیں ہیں، اس وقت انھوں نے (ایک سوال کے جواب میں) کہا: میرے علم میں اس وقت روئے زمین پر مجھ سے بہتر اور مجھ سے زیادہ علم رکھنے والا اور کوئی نہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ میں اس شخص کو جانتاہوں جوان (موسیٰ علیہ السلام) سے بہتر ہےیا (فرمایا:) جس کے پاس ان سے بڑھ کر ہے زمین پر ایک آدمی ہے جو آپ سے بڑھ کر عالم ہے۔ (موسیٰ علیہ السلام نے) کہا: میرے پروردگار مجھے اس کا پتہ بتائیں، (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا: ان سے کہا گیا: ایک نمکین مچھلی کا زاد راہ لے لیں، وہ آدمی وہیں ہوگا جہاں آپ سے وہ مچھلی گم ہوجائے گی۔فرمایا: موسیٰ علیہ السلام اور ان کا نوجوان ساتھی چل پڑے، یہاں تک کہ وہ ایک چٹان کے پاس پہنچے تو ان (حضرت موسیٰ علیہ السلام) پر ایک طرح کی بے خبری طاری ہو گئی اور وہ اپنے جوان کو چھوڑ کر آگے چلے گئے۔ مچھلی (زندہ ہو کر) تڑپی اور پانی میں چلی گئی۔پانی اس کے اوپر اکٹھا نہیں ہو رہا تھا، ایک طاقچے کی طرح ہو گیا تھا۔اس نو جوان نے (اس مچھلی کو پانی میں جاتا ہوا دیکھ لیا اور) کہا: کیا میں اللہ کے نبی (موسیٰ علیہ السلام) کے پاس پہنچ کر انھیں اس بات کی خبر نہ دوں!فرمایا: پھر اسے بھی یہ بات بھلا دی گئی۔جب وہ آگے نکل گئے تو انھوں نے اپنے جوان سے کہا: ہمارا دن کا کھانا لے آؤ، اس سفر میں ہمیں بہت تھکاوٹ ہوگئی فرمایا: ان کو اس وقت تک تھکاوٹ محسوس نہ ہوئی تھی۔یہاں تک کہ وہ (اس جگہ سے) آگے نکل گئے تھے۔فرمایا: تو اس (جوان) کو یادآگیا اور اس نے کہا: آپ نے دیکھا کہ جب ہم چٹان کے پاس بیٹھے تھے تو میں مچھلی بھول گیا اور مجھے شیطان ہی نے یہ بات بھلائی کہ میں اس کا ذکر کروں اور عجیب بات یہ ہے کہ اس (مچھلی) نے (زندہ ہوکر) پانی میں اپنا ر استہ پکڑ لیا۔انھوں نے فرمایا ہمیں اسی کی تلاش تھی پھر وہ دونوں واپس اپنے قدموں کےنشانات پر چل پڑے۔اس نے انھیں مچھلی کی جگہ دیکھائی۔انھوں نے کہا مجھے اسی جگہ کے بارے میں بتایا گیا تھا وہ تلاش میں چل پڑے تو انھیں حضرت خضر علیہ السلام اپنے اردگرد کپڑا لپیٹے نظرآگئے گدی کے بل (سیدھے) لیٹے ہوئے تھے یا کہا: گدی کے درمیانے حصے کےبل لیٹے ہوئے تھے۔انھوں نے کہا: السلام علیکم! (خضر علیہ السلام نے) کہا: وعلیکم السلام! پوچھا: آپ کون ہیں؟کہا: میں موسیٰ علیہ السلام ہوں، پوچھا، کون موسیٰ؟کہا: بنی اسرائیل کے موسیٰ، پوچھا: کیسے آنا ہوا ہے؟ کہا: میں اس لئے آیا ہوں کہ صحیح ر استے کا جو علم آپ کو دیاگیا ہے وہ آپ مجھے بھی سکھا دیں۔ (خضر علیہ السلام نے) کہا: میری معیت میں آپ صبر نہ کرپائیں گے۔ (موسیٰ علیہ السلام نے) کہا: ان شاء اللہ، آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے اور میں کسی بات میں آپ کی خلاف ورزی نہیں کروں گا۔انھوں نے کہا: اگر آپ میرے پیچھے چلتے ہیں تو مجھ سے اس وقت تک کسی چیز کے بارے میں سوال نہ کریں جب تک میں خود اس کا ذکر شروع نہ کروں، پھر وہ دونوں چل پڑے یہاں تک کہ جب وہ دونوں ایک کشتی میں سوار ہوئے تو انھوں (خضر علیہ السلام) نے اس میں لمبا سا سوراخ کردیا۔کہا: انھوں نے کشتی پر اپنا پہلو کازور ڈالا (جس سے اس میں درز آگئی) موسیٰ علیہ السلام نے انھیں کہا: آپ نے اس لئے اس میں درز ڈالی کہ انھیں غرق کردیں۔آپ نے عجیب کام کیا۔ (خضر علیہ السلام نے) کہا: میں نے آپ سے کہا نہ تھا کہ آپ میرے ساتھ کسی صورت صبر نہ کرسکیں گے۔ (موسیٰ علیہ السلام نے) کہا: میرے بھول جانے پر میرا مواخذہ نہ کریں اور میرے معاملے میں مجھ سے سخت برتاؤ نہ کریں۔دونوں (پھر) چل پڑے یہاں تک کہ وہ کچھ لڑکوں کے پاس پہنچے،، وہ کھیل رہے تھے۔وہ (خضر علیہ السلام) تیزی سے ایک لڑکے کی طرف بڑھے اور اسے قتل کردیا۔اس پر موسیٰ علیہ السلام سخت گھبراہٹ کا شکار ہوگئے۔انھوں نے کہا: کیا آپ نے ایک معصوم جان کو کسی جان کے بدلے کے بغیر مار دیا؟"اس مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہم پر اور موسیٰ علیہ السلام پر اللہ کی رحمت ہو! اگر وہ جلدبازی نہ کرتے تو (اور بھی) عجیب کام دیکھتے، لیکن انھیں اپنے ساتھی سے شرمندگی محسوس ہو ئی، کہا: اگر میں اس کے بعد آپ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کروں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیں، آپ میری طرف سے عذر کو پہنچ گئے اور (فرما یا:) اگر موسیٰ علیہ السلام صبر کرتے تو (اوربھی) عجائبات کا مشاہدہ کرتے۔" (ابھی بن کعب رضی اللہ عنہ نے) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب انبیاء علیہ السلام میں سے کسی کا ذکر کرتے تو اپنی ذات سے شروع (فرما تے): "ہم پر اللہ کی رحمت ہو اور ہمارے فلاں بھا ئی پر ہم اللہ کی رحمت ہو!۔۔۔پھر وہ دونوں (آگے) چل پڑے یہاں تک کہ ایک بستی کے بخیل لو گوں کے پاس آئے۔کئی مجا لس میں پھر ےاور ان لوگوں سے کھا نا طلب کیا لیکن انھوں نے ان کی مہمانداری سے صاف انکار کردیا، پھر انھوں نے اس (بستی) میں ایک دیوار دیکھی جو گرنے ہی والی تھی کہ انھوں (خضر علیہ السلام) نے اسے سیدھا کھڑا کردیا۔ (موسیٰ علیہ السلام نے) کہا: اگرآپ چاہتے تو اس پر اُجرت (بھی) لے سکتے تھے۔انھوں نےکہا: یہ میرے اور آپ کے درمیان مفارقت (کا وقت) ہے۔اور انھوں (موسیٰ علیہ السلام) نے ان کا کپڑا تھام لیا (تاکہ وہ جدا نہ ہوجائیں اور کہا کہ مجھے ان کی حقیقت بتادو) کہا: میں ابھی آپ کوان (کاموں) کی حقیقت بتاتاہوں جن پر آپ صبر نہیں کرسکے۔جو کشتی تھی وہ ایسے مسکین لوگوں کی تھی جو سمندر میں (ملاحی کا) کام کرتے ہیں۔"آیت کے آخر تک"جب اس پر قبضہ کرنے والا آئے گا تو اسے سوراخ والی پائے گا اور آگے بڑھ جائے گا اور یہ لوگ ایک لکڑی (کے تختے) سے اس کو ٹھیک کرلیں گے اور جو لڑکا تھا تو جس دن اس کی سرشت (فطرت) بنائی گئی وہ کفر پر بنائی گئی۔اس کے والدین کو اس کے ساتھ شدید لگاؤ ہے۔اگروہ اپنی بلوغت تک پہنچ جاتا تو اپنی سرکشی اور کفر سے انہیں عاجز کردیتا۔ہم نے چاہا کہ اللہ ان دنوں کو اس کے بدلے میں پاکبازی میں بڑھ کر صلہ رحمی کے اعتبارسے بہتر بدل عطا فرمادے اور رہی دیوار تو وہ شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی (اور اس کے نیچے ان دونوں کاخزانہ دفن تھا۔) "آیت کے آخرتک۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:"ایک دن موسیٰ ؑ اپنے لوگوں میں بیٹھے انھیں اللہ کے دن یاد دلارہے تھے(اور) اللہ کے دنوں سے مراد اللہ کی نعمتیں اوراس کی آزمائشیں ہیں،اس وقت انھوں نے(ایک سوال کے جواب میں)کہا:میرے علم میں اس وقت روئے زمین پر مجھ سے بہتر اور مجھ سے زیادہ علم رکھنے والا اور کوئی نہیں،اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ میں اس شخص کو جانتاہوں جوان(موسیٰ ؑ) سے بہتر ہےیا(فرمایا:)جس کے پاس ان سے بڑھ کر ہے زمین پر ایک آدمی ہے جو آپ سے بڑھ کر عالم ہے۔(موسیٰ ؑ نے) کہا:میرے پروردگار مجھے اس کا پتہ بتائیں،(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا:ان سے کہا گیا:ایک نمکین مچھلی کا زاد راہ لے لیں،وہ آدمی وہیں ہوگا جہاں آپ سے وہ مچھلی گم ہوجائے گی۔فرمایا:موسیٰ ؑ اور ان کا نوجوان ساتھی چل پڑے،یہاں تک کہ وہ ایک چٹان کے پاس پہنچے تو ان(حضرت موسیٰ ؑ)پر ایک طرح کی بے خبری طاری ہو گئی اور وہ اپنے جوان کو چھوڑ کر آگے چلے گئے۔ مچھلی (زندہ ہو کر)تڑپی اور پانی میں چلی گئی۔پانی اس کے اوپر اکٹھا نہیں ہو رہا تھا،ایک طاقچے کی طرح ہو گیا تھا۔اس نو جوان نے(اس مچھلی کو پانی میں جاتا ہوا دیکھ لیا اور)کہا:کیا میں اللہ کے نبی (موسیٰ ؑ) کے پاس پہنچ کر انھیں اس بات کی خبر نہ دوں!فرمایا:پھر اسے بھی یہ بات بھلا دی گئی۔جب وہ آگے نکل گئے تو انھوں نے اپنے جوان سے کہا:ہمارا دن کا کھانا لے آؤ،اس سفر میں ہمیں بہت تھکاوٹ ہوگئی فرمایا:ان کو اس وقت تک تھکاوٹ محسوس نہ ہوئی تھی۔یہاں تک کہ وہ(اس جگہ سے) آگے نکل گئے تھے۔فرمایا:تو اس(جوان) کو یادآگیا اور اس نے کہا:آپ نے دیکھا کہ جب ہم چٹان کے پاس بیٹھے تھے تو میں مچھلی بھول گیا اور مجھے شیطان ہی نے یہ بات بھلائی کہ میں اس کا ذکر کروں اور عجیب بات یہ ہے کہ اس (مچھلی) نے(زندہ ہوکر)پانی میں اپنا ر استہ پکڑ لیا۔انھوں نے فرمایا ہمیں اسی کی تلاش تھی پھر وہ دونوں واپس اپنے قدموں کےنشانات پر چل پڑے۔اس نے انھیں مچھلی کی جگہ دیکھائی۔انھوں نے کہا مجھے اسی جگہ کے بارے میں بتایا گیا تھا وہ تلاش میں چل پڑے تو انھیں حضرت خضر ؑ اپنے اردگرد کپڑا لپیٹے نظرآگئے گدی کے بل(سیدھے) لیٹے ہوئے تھے یا کہا:گدی کے درمیانے حصے کےبل لیٹے ہوئے تھے۔انھوں نے کہا:السلام علیکم!(خضر ؑ نے) کہا:وعلیکم السلام! پوچھا: آپ کون ہیں؟کہا: میں موسیٰ ؑ ہوں،پوچھا،کون موسیٰ؟کہا:بنی اسرائیل کے موسیٰ،پوچھا:کیسے آنا ہوا ہے؟ کہا: میں اس لئے آیا ہوں کہ صحیح ر استے کا جو علم آپ کو دیاگیا ہے وہ آپ مجھے بھی سکھا دیں۔(خضر ؑ نے) کہا:میری معیت میں آپ صبر نہ کرپائیں گے۔(موسیٰ ؑ نے)کہا:ان شاء اللہ،آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے اور میں کسی بات میں آپ کی خلاف ورزی نہیں کروں گا۔انھوں نے کہا:اگر آپ میرے پیچھے چلتے ہیں تو مجھ سے اس وقت تک کسی چیز کے بارے میں سوال نہ کریں جب تک میں خود اس کا ذکر شروع نہ کروں،پھر وہ دونوں چل پڑے یہاں تک کہ جب وہ دونوں ایک کشتی میں سوار ہوئے تو انھوں(خضر ؑ) نے اس میں لمبا سا سوراخ کردیا۔کہا:انھوں نے کشتی پر اپنا پہلو کازور ڈالا(جس سے اس میں درز آگئی)موسیٰ ؑ نے انھیں کہا:آپ نے اس لئے اس میں درز ڈالی کہ انھیں غرق کردیں۔آپ نے عجیب کام کیا۔(خضر ؑ نے) کہا:میں نے آپ سے کہا نہ تھا کہ آپ میرے ساتھ کسی صورت صبر نہ کرسکیں گے۔(موسیٰ ؑ نے) کہا:میرے بھول جانے پر میرا مواخذہ نہ کریں اور میرے معاملے میں مجھ سے سخت برتاؤ نہ کریں۔دونوں(پھر) چل پڑے یہاں تک کہ وہ کچھ لڑکوں کے پاس پہنچے،،وہ کھیل رہے تھے۔وہ(خضر ؑ) تیزی سے ایک لڑکے کی طرف بڑھے اور اسے قتل کردیا۔اس پر موسیٰ ؑ سخت گھبراہٹ کا شکار ہوگئے۔انھوں نے کہا: کیا آپ نے ایک معصوم جان کو کسی جان کے بدلے کے بغیر مار دیا؟"اس مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر یا:"ہم پر اور موسیٰ ؑ پر اللہ کی رحمت ہو! اگر وہ جلدبازی نہ کرتے تو (اور بھی)عجیب کام دیکھتے،لیکن انھیں اپنے ساتھی سے شرمندگی محسوس ہو ئی،کہا: اگر میں اس کے بعد آپ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کروں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیں،آپ میری طرف سے عذر کو پہنچ گئے اور (فر یا:) اگر موسیٰ ؑ صبر کرتے تو (اوربھی) عجائبات کا مشاہدہ کرتے۔"(ابھی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب انبیاء ؑ میں سے کسی کا ذکر کرتے تو اپنی ذات سے شروع (فر تے):"ہم پر اللہ کی رحمت ہو اور ہمارے فلاں بھا ئی پر ہم اللہ کی رحمت ہو!۔۔۔پھر وہ دونوں (آگے) چل پڑے یہاں تک کہ ایک بستی کے بخیل لو گوں کے پاس آئے۔کئی مجا لس میں پھر ےاور ان لوگوں سے کھا نا طلب کیا لیکن انھوں نے ان کی مہمانداری سے صاف انکار کردیا،پھر انھوں نے اس(بستی) میں ایک دیوار دیکھی جو گرنے ہی والی تھی کہ انھوں(خضر ؑ) نے اسے سیدھا کھڑا کردیا۔(موسیٰ ؑ نے) کہا:اگرآپ چاہتے تو اس پر اُجرت(بھی) لے سکتے تھے۔انھوں نےکہا:یہ میرے اور آپ کے درمیان مفارقت(کا وقت) ہے۔اور انھوں(موسیٰ ؑ) نے ان کا کپڑا تھام لیا(تاکہ وہ جدا نہ ہوجائیں اور کہا کہ مجھے ان کی حقیقت بتادو)کہا:میں ابھی آپ کوان(کاموں) کی حقیقت بتاتاہوں جن پر آپ صبر نہیں کرسکے۔جو کشتی تھی وہ ایسے مسکین لوگوں کی تھی جو سمندر میں(ملاحی کا) کام کرتے ہیں۔"آیت کے آخر تک"جب اس پر قبضہ کرنے والا آئے گا تو اسے سوراخ والی پائے گا اور آگے بڑھ جائے گا اور یہ لوگ ایک لکڑی(کے تختے) سے اس کو ٹھیک کرلیں گے اور جو لڑکا تھا تو جس دن اس کی سرشت(فطرت) بنائی گئی وہ کفر پر بنائی گئی۔اس کے والدین کو اس کے ساتھ شدید لگاؤ ہے۔اگروہ اپنی بلوغت تک پہنچ جاتا تو اپنی سرکشی اور کفر سے انہیں عاجز کردیتا۔ہم نے چاہا کہ اللہ ان دنوں کو اس کے بدلے میں پاکبازی میں بڑھ کر صلہ رحمی کے اعتبارسے بہتر بدل عطا فرمادے اور رہا دیوار کا معاملہ تو وہ شہر کے دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان کا خزانہ تھا اور ان کا باپ ایک اچھا نیک آدمی تھا،آیت نمبر۔82 کے آخر تک۔
عمروناقد نے کہا: ہمیں سفیان بن عینیہ نے عمرو (بن دینار) سے حدیث بیان کی، انھوں نے سعید بن جبیر سے، انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (لاتخذتکی بجائے) اس طرح پڑھا: (لَاتَّخَذْتَ عَلَیْہِ أَجْرًا)۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے "لَاتَّخَذْتَ" کی بجائے"لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا"پڑھا،یعنی اتَّخَذَ کی جگہ تَّخَذْ،معنی ایک ہی ہے۔
یونس نے ابن شہاب سے، انھوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ان کا اور حر بن قیس بن حصن فزاری کاحضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں مباحثہ ہوا، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ خضر علیہ السلام تھے، پھر حضرت ابی بن کعب انصاری رضی اللہ عنہ کا ان دونوں کے پاس سے گزر ہوا توحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان کو بلایا اور کہا: ابوطفیل!ہمارے پاس آیئے، میں نے اور میرے اس ساتھی نے اس بات پر بحث کی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وہ ساتھی کون تھے جن سے ملاقات کا طریقہ انھوں نے پوچھا تھا؟آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے بارے میں کچھ فرماتے ہو ئے سناہے؟تو حضرت اُبی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہو ئے سنا: "موسیٰ علیہ السلام اسرائیل کی ایک مجلس میں تھے اور آپ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا: کیاآپ کسی ایسے آدمی کو جا نتے ہیں جو آپ سے زیادہ علم رکھتا ہو؟موسیٰ علیہ السلام نے کہا: نہیں، اس پر اللہ تعا لیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی کی، کیوں نہیں ہمارا بندہ خضرہے فرمایا: تو موسیٰ علیہ السلام نے ان سے ملنے کا طریقہ پو چھا تو اللہ تعا لیٰ نے مچھلی ان کی نشانی مقرر فرما ئی اور ان سے کہا گیا: جب آپ مچھلی گم پائیں تو لوٹیں، آپ کی ان سے ضرور ملا قات ہو جائے گی۔موسیٰ علیہ السلام جتنا اللہ نے چا ہا سفر کیا، پھر اپنے جوان سے کہا: ہمارا کھا نا لاؤ، جب موسیٰ علیہ السلام نے ناشتہ مانگا تو ان کے جوان نے کہا: آپ نے دیکھا کہ جب ہم چٹان کے پاس رکے تھےتو میں مچھلی کو بھول گیا اور شیطان ہی نے مجھے یہ بھلا دیا کہ میں (آپ کو) یہ بات بتا ؤں۔موسیٰ علیہ السلام نے اپنے جوان سے فرمایا: ہم اسی کی تلاش کر رہے تھے، چنانچہ وہ دونوں اپنے پاؤں کے نشانات پر واپس چل پڑے۔دونوں کو حضرت خضر علیہ السلام مل گئے، پھر ان دونوں کے ساتھ وہی ہوا جو اللہ تعا لیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا۔مگر یونس نے یہ کہا: وہ (موسیٰ علیہ السلام) سمندر میں مچھلی کے آثار ڈھونڈرہے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ ان کا اور حر بن قیس بن حصن فزاری کاحضرت موسیٰ ؑ کے ساتھی کے بارے میں مباحثہ ہوا،حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ وہ خضر ؑ تھے،پھر حضرت ابی بن کعب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ان دونوں کے پاس سے گزر ہوا توحضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو بلایا اور کہا:ابوطفیل!ہمارے پاس آیئے،میں نے اور میرے اس ساتھی نے اس بات پر بحث کی ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے وہ ساتھی کون تھے جن سے ملاقات کا طریقہ انھوں نے پوچھا تھا؟آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے بارے میں کچھ فر تے ہو ئے سناہے؟تو حضرت اُبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فر تے ہو ئے سنا:"موسیٰ ؑ اسرائیل کی ایک مجلس میں تھے اور آپ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا:کیاآپ کسی ایسے آدمی کو جا نتے ہیں جو آپ سے زیادہ علم رکھتا ہو؟موسیٰ ؑ نے کہا: نہیں،اس پر اللہ تعا لیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کی طرف وحی کی، کیوں نہیں ہمارا بندہ خضرہے فر یا:تو موسیٰ ؑ نے ان سے ملنے کا طریقہ پو چھا تو اللہ تعا لیٰ نے مچھلی ان کی نشانی مقرر فر ئی اور ان سے کہا گیا: جب آپ مچھلی گم پائیں تو لوٹیں،آپ کی ان سے ضرور ملا قات ہو جائے گی۔موسیٰ ؑ جتنا اللہ نے چا ہا سفر کیا،پھر اپنے جوان سے کہا: ہمارا کھا نا لاؤ،جب موسیٰ ؑ نے ناشتہ مانگا تو ان کے جوان نے کہا: آپ نے دیکھا کہ جب ہم چٹان کے پاس رکے تھےتو میں مچھلی کو بھول گیا اور شیطان ہی نے مجھے یہ بھلا دیا کہ میں (آپ کو) یہ بات بتا ؤں۔موسیٰ ؑ نے اپنے جوان سے فر یا:ہم اسی کی تلاش کر رہے تھے،چنانچہ وہ دونوں اپنے پاؤں کے نشانات پر واپس چل پڑے۔دونوں کو حضرت خضر ؑ مل گئے،پھر ان دونوں کے ساتھ وہی ہوا جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فر یا۔مگر یونس نے یہ کہا: وہ(موسیٰ ؑ)سمندر میں مچھلی کے آثار ڈھونڈرہے تھے۔