عمرو بن محمد بن بکیر ناقد نے کہا: ہمیں سفیان بن عینیہ نے حدیث بیان کی، کہا: اللہ کی قسم!ہمیں یزید بن خصیفہ نے بسر بن سعید سے حدیث بیان کی، کہا: میں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: میں مدینہ منورہ میں انصار کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا اتنے میں ابو موسیٰ ڈرے سہمے ہوئے آئے، ہم نے ان سے پوچھا آپ کو کیا ہوا؟ انھوں نے بتایا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے میری طرف پیغام بھیجا ہے کہ میں ان کے پاس آؤں، میں ان کے دروازے پر گیا اور تین مرتبہ سلام کیا انھوں نے مجھے سلام کا جواب نہیں دیا تو میں لوٹ آیا، انھوں نے کہا: آپ کو ہمارے پاس آنے سے کس بات نے روکا؟میں نے کہا: میں آیا تھا، آپ کے دروازے پر کھڑے تین بار سلام کیا، آپ لوگوں نے مجھے جواب نہیں دیا، اس لئے میں لوٹ گیا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: " جب تم میں سے کوئی شخص تین باراجازت مانگے اور اسے اجازت نہ دی جائے تو وہ لوٹ جائے۔"حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس پر گواہی پیش کرو ورنہ میں تم کو سزا دوں گا۔ حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: ان کے ساتھ صرف وہ شخص جا کرکھڑا ہوگا جو قوم میں سے سب سے کم عمر ہے، حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے کہا کہ میں سب سے کم عمر ہوں توانھوں نے کہا: تم ان کے ساتھ جاؤ (اور گواہی دو)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں مدینہ میں انصار کی مجلس میں بیٹھا ہوا تو ہمارے پاس حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ گھبرائے ہوئے یا خوف زدہ آئے، ہم نے پوچھا، آپ کو کیا ہوا؟ انہوں نے کہا، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے مجھے پیغام بھیجا کہ میں ان کے پاس حاضر ہوں، سو میں ان کی خدمت میں ان کے دروازہ پر پہنچا اور تین دفعہ سلام کہا تو انہوں نے جواب نہ دیا، جس سے میں واپس چلا گیا تو انہوں نے کہا، تم ہمارے پاس کیوں نہیں آئے؟ میں نے کہا، میں آپ کے پاس آیا تھا اور آپ کے دروازہ پر تین دفعہ سلام عرض کیا تو گھر والوں نے مجھے جواب نہ دیا، اس وجہ سے میں واپس چلا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما چکے ہیں، ”جب تم میں سے کوئی تین دفعہ اجازت طلب کرے اور اسے اجازت نہ ملے تو وہ واپس لوٹ جائے۔“ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، اس پر شہادت پیش کرو وگرنہ میں تمہیں سزا دوں گا، تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، ان کے ساتھ حاضرین میں سے سب سے کم عمر جائے گا، ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، میں نے کہا میں سب لوگوں سے چھوٹا ہوں، حضرت ابی نے کہا، اسے لے جاؤ۔
قتیبہ بن سعید اور ابن ابی عمر نے کہا: "ہمیں سفیان نے یزید بن خصیفہ سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی اور ابن ابی عمر نے اپنی حدیث میں یہ اضافہ کیا: حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ان کے ہمرا اٹھ کھڑا ہوا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور گواہی دی۔
امام صاحب کو یہی روایت قتیبہ بن سعید اور ابن ابی عمر سناتے ہیں، ابن ابی عمر کی حدیث میں یہ اضافہ ہے، ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، میں ان کے ساتھ اٹھا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس جا کر شہادت دی۔
بکیر بن اشج سے روایت ہے کہ بسر بن سعید نے انھیں حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے: ایک مجلس میں ہم حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ کے پا س بیٹھےہوئے تھے۔اتنے میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ غصے کی حالت میں آئے اور کھڑے ہوگئے پھر کہنے لگے: میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ تم میں سے کسی شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "اجازت تین بار مانگی جاتی ہے، اگر تمھیں اجازت مل جائے (تو اندر آجاؤ)، نہیں تو لوٹ جاؤ؟حضرت ابی نے کہا معاملہ کیا ہے؟انھوں نے کہا: میں نے کل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تین بار اجازت مانگی، مجھے اجازت نہیں دی گئی تو میں لوٹ گیا پھر میں آج ان کے پاس آیاتو ان کے پا س حاضر ہوگیا۔میں نے انھیں بتایا کہ میں کل آیا تھا، تین بار سلام کیا تھا، پھر چلا گیا تھا۔کہنے لگے ہم نے سن لیاتھا، اس وقت ہم کسی کام میں لگے ہوئے تھے تم کیوں نہ اجازت مانگتے رہے یہاں تک کہ تمھیں اجازت مل جاتی۔میں نے کہا: میں نے اسی طرح اجازت مانگی جس طرح میں نے ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا۔کہنے لگے: اللہ کی قسم!میں تمھاری پشت اور پیٹھ پر کوڑے ماروں گا پھر تم کوئی ایسا شخص لے آؤ جو تمہارے لئے اس پر گواہی دے۔ حضرت ابی ابن کعب کہنے لگے: اللہ کی قسم!تمھارے ساتھ ہم میں سے صرف وہ کھڑاہوگا جو عمر میں سب سے چھوٹاہے (بڑے تو بڑے ہیں یہ حدیث ہم میں سے کم عمر لوگوں نے بھی سنی ہے اور یادرکھی ہے۔) ابو سعید!اٹھو، (انھوں نے کہا) تو میں اٹھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ا س طرح فرماتے ہوئے سنا تھا۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک مجلس میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ حاضر تھے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ناراضی کی حالت میں آ کر رک گئے اور کہنے لگے، میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا تم میں سے کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے ”اجازت تین دفعہ طلب کی جائے، اگر تجھے اجازت مل جائے (تو ٹھیک) وگرنہ لوٹ جاؤ۔“ حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا، اس کی کیا ضرورت ہے؟ انہوں نے کہا، کل میں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے تین دفعہ اجازت طلب کی، مجھے اجازت نہ ملی تو میں لوٹ آیا، پھر آج میں ان کے ہاں حاضر ہو کر ان کے پاس گیا اور انہیں بتایا کہ میں گزشتہ کل حاضر تھا اور تین دفعہ سلام عرض کر کے لوٹ گیا تھا، انہوں نے کہا، ہم نے تمہاری آواز سن لی تھی اور ہم اس وقت مصروف تھے تو آپ نے اجازت طلب کرنے پر اصرار کیوں نہ کیا، حتی کہ آپ کو اجازت دے دی جاتی، حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جیسے سنا تھا، اس کے مطابق اجازت طلب کی، انہوں نے کہا، اللہ کی قسم! میں تمہاری پشت اور تمہارے پیٹ کو درے سے تکلیف تکلیف سے دوچار کروں گا الا یہ کہ تم اس پر گواہی دینے والے کو پیش کرو تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، آپ کے ساتھ ہم سے سب سے کم سن ہی جائے گا، اے ابو سعید! اٹھو تو میں اٹھا، حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس حاضر ہوا اور میں نے کہا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سن چکا ہوں۔
بشر بن مفضل نے کہا: ہمیں سعید بن یزید نے ابو نضرہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے ر وایت کی کہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دروازے پر گئے اور اجازت طلب کی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نےکہا: یہ ایک بار ہے۔پھر انھوں نے دوبارہ اجازت طلب کی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ دوسری بار ہے۔پھر انہوں نے تیسری باراجازت طلب کی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ تیسری بار ہے، پھر وہ لوٹ گئے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (اگلے دن) کسی کو ان کے پیچھے روانہ کیا اور انھیں دوبارہ بلا بھیجا۔پھر (حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے) ان سے کہا: اگر یہ ایسی بات ہے جو تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (سن کر) یار رکھی ہے تو ٹھیک ہے، اگر نہیں تو میں تمھیں (دوسروں کے لیے نشان) عبرت بنا دوں گا۔حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا: تو وہ ہمارے ہاں آئے اور کہنے لگے: تمھیں علم نہیں ہے کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: " اجازت تین بار طلب کی جاتی ہے؟"کہا: تو لوگ ہنسنے لگے، کہا: میں نے (لوگوں سے کہا:) تمھارے پاس تمھارا مسلمان بھائی ڈرا ہوا آیا ہے اور تم ہنس رہے ہو؟ (پھر حضرت موسیٰ رضی اللہ عنہ سے کہا:) چلیں میں اس سزا میں آپ کا حصہ دار بنوں گاپھر وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: یہ ابو سعید ہیں (یہ میرے گواہ ہیں۔)
حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو موسیٰ، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دروازہ پر آئے اور اجازت طلب کی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے دل میں کہا، ایک دفعہ، پھر انہوں نے دوبارہ اجازت طلب کی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے سوچا، دو دفعہ، پھر انہوں نے تیسری دفعہ اجازت طلب کی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، تین دفعہ ہو گیا، پھر ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ واپس چلے گئے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کے پیچھے آدمی بھیج کر انہیں واپس بلوایا اور کہا، اگر یہ ایسی چیز ہے، جو تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے تو شہادت پیش کرو، وگرنہ میں تمہیں عبرت بنا دوں گا، ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، سو وہ ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے، کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ”اجازت، تین دفعہ طلب کی جاتی ہے؟“ تو حاضرین ہنسنے لگے، میں نے کہا، تمہارا مسلمان بھائی تمہارے پاس گھبرایا ہوا آیا ہے اور تم ہنس رہے ہو؟ چلو، میں اس عقوبت میں تمہارا ساتھی ہوں تو وہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آ کر کہنے لگے، یہ ابو سعید (میرا گواہ ہے)
یحییٰ بن سعیدقطان نے ابن جریج سے روایت کی کہا: ہمیں عطاء نے عبید بن عمیر سے حدیث بیان کی کہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے تین مرتبہ اجا زت طلب کی تو جیسے انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مشغول سمجھا اور واپس ہو گئے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا ہم نے عبد اللہ بن قیس (ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ) کی آواز نہیں سنی تھی؟ ان کو اندر آنے کی اجازت دو، (حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ واپس چلے گئے ہوئے تھے، دوسرے دن) حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کو بلا یا گیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے ایسا کیوں کیا؟ انھوں نے کہا: ہمیں یہی (کرنے کا) حکم دیا جا تا تھا۔انھوں نے کہا: تم اس پر گواہی دلاؤ، نہیں تو میں (وہ) کروں گا (جو کروںگا) وہ (حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ) نکلے انصار کی مجلس میں آئے انھوں نے کہا: اس بات پر تمھا رے حق میں اور کوئی نہیں، ہم میں سے جو سب سے چھوٹا ہے وہی گواہی دے گا۔ابو سعید رضی اللہ عنہ نے (حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے) کھڑے ہو کر کہا: ہمیں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں) اسی کا حکم دیا جا تا تھا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم مجھ سے اوجھل رہ گیا، بازاروں میں ہو نے والے سودوں نے مجھے اس سے مشغول کردیا۔
عبید بن عمیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تین دفعہ اجازت مانگی، گویا کہ وہ کسی کام میں مشغول تھے (اس لیے اجازت نہ دے سکے) تو وہ واپس آ گئے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خادم سے کہا، کیا تو نے عبداللہ بن قیس کی آواز نہیں سنی، اسے اجازت دو، (بعد میں) انہیں بلوایا گیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا، آپ نے یہ حرکت کیوں کی، حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، ہمیں یہی حکم دیا جاتا تھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس پر دلیل قائم کر دی، میں تم سے برا سلوک کروں گا تو وہ نکل کر انصار کی ایک مجلس کی طرف چل پڑے، انہوں نے کہا، اس مسئلہ میں آپ کے حق میں، ہم میں سے سب سے کم سن ہی گواہی دے گا تو ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھ کر گئے اور کہا، ہمیں یہی حکم دیا جاتا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان مجھ سے مخفی رہ گیا، مجھے اس سے بازاروں کی خرید و فروخت نے مشغول کیا۔
ابو عاصم اور نضر بن شمیل دونوں نے کہا: ہمیں ابن جریج نے اسی سند کے ساتھ اسی طرح حدیث بیان کی۔اور نضر کی حدیث میں انھوں نے " بازاروں میں ہو نے والے سودوں نے مجھے اس سے مشغول کردیا۔"کے الفا ظ بیان نہیں کیے۔
امام صاحب کو یہ حدیث دو اور اساتذہ نے بھی سنائی، لیکن نضر نے اپنی حدیث میں، ”بازاروں کی خرید و فروخت کی مشغولیت“ کا تذکرہ نہیں کیا۔
افضل بن موسیٰ نے کہا: ہمیں طلحہ بن یحییٰ نے ابو بردہ سے خبر دی، انھوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: السلام علیکم، عبد اللہ بن قیس (حاضر ہوا) ہے، انھوں نے آنے کی اجازت نہ دی۔انھوں نے پھر کہا: السلام علیکم، یہ ابو موسیٰ ہے، السلام علیکم، یہ اشعری ہے، اس کے بعد چلے گئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ان کو میرے پاس واپس لا ؤ۔میرے پاس واپس لا ؤ۔وہ آئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ابو موسیٰ!آپ کو کس بات نے لوٹا دیا؟ ہم کا م میں مشغول تھے۔انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا: "اجازت تین بار طلب کی جا ئے، اگر تم کو اجازت دے دی جا ئے (توآ جاؤ) ورنہ لوٹ جا ؤ۔"حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا تو آپ اس پر گواہ لا ئیں گے یا پھر میں یہ کروں گا تو حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ چلے گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ابو موسیٰ کو گواہ مل گیا تو شام کو وہ تمھیں منبر کے پاس ملیں گے اور اگر ان کو گواہ نہیں ملا تو وہ تمھیں نہیں ملیں گے، جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ شام کو آئے تو انھوں نے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کو موجود پا یا، انھوں نے کہا ابو موسیٰ!کیا کہتے ہیں؟آپ کو گواہ مل گیا؟ انھوں نے کہا: ہاں! ابی بن کعب ہیں انھوں (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) نے کہا: وہ قابل اعتماد گواہ ہیں۔ (پھر ابو طفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہو کر) کہا: ابو طفیل!یہ (ابی بن کعب رضی اللہ عنہ) کیا کہتے ہیں؟ انھوں (حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ) نے کہا: ابن خطاب!میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ یہی فر ما رہے تھے۔لہٰذا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین پر عذاب نہ بنیں۔انھوں نے کہا: سبحان اللہ!میں نے ایک چیز سنی اور چاہا کہ اس کا ثبوت حاصل کروں۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاں گئے اور کہا، السلام عليكم، یہ عبداللہ بن قیس اجازت چاہتا ہے تو انہوں نے اجازت نہ دی تو اس نے دوبارہ کہا، السلام عليكم، یہ ابو موسیٰ حاضر ہے، پھر تیسری دفعہ کہا، السلام عليكم، یہ اشعری موجود ہے، پھر وہ واپس پلٹ گیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، میرے پاس واپس لاؤ، میرے پاس لوٹاؤ تو وہ حاضر ہوئے، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، اے ابو موسیٰ! واپس کیوں چلے گئے؟ ہم تو مشغول تھے، ابو موسیٰ ؓ نے کہا میں نے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے؟ ”اجازت تین دفعہ طلب کی جائے، اگر تمہیں اجازت مل جائے، (تو ٹھیک) وگرنہ واپس لوٹ جاؤ۔“ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، اس پر دلیل پیش کرو، وگرنہ میں یہ یہ کروں گا، ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ چلے گئے، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے (ساتھیوں سے) کہا، اگر اسے بینہ مل گئی تو وہ شام کے وقت منبر کے پاس ہوں گے، اگر اسے بینہ نہ ملی تو تمہیں وہ نہیں ملیں گے، جب شام کو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ آئے تو انہوں نے ابو موسیٰ کو موجود پایا، پوچھا، اے ابو موسیٰ! آپ کیا کہتے ہیں؟ کیا آپ کو شہادت مل گئی؟ انہوں نے کہا، جی ہاں، ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، وہ مجسمہ عدل ہیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا، اے ابو طفیل (حضرت ابی کی کنیت ہے) یہ کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا، اے ابن الخطاب! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا ہے، اس لیے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے لیے عذاب کا باعث نہ بنیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، سبحان اللہ (اس میں عذاب کی کیا بات ہے) میں نے تو ایک بات سن کر اس کی تحقیق کرنا پسند کیا۔
علی بن ہاشم نے طلحہ بن یحییٰ سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی، مگر انھوں نے کہا: تو انھوں (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) نے کہا: ابو منذر! (ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی کنیت) کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی تھی؟انھوں نے کہا: ہاں، ابن خطاب!تو آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے لیے عذاب نہ بنیں اور انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول: سبحان اللہ اور اس کے بعد کا حصہ ذکر نہیں کیا۔
امام صاحب اپنے ایک اور استاد سے یہی روایت بیان کرتے ہیں فرق یہ ہے اس میں اے ابو منذر (یہ حضرت ابی بن کعب کی کنیت ہے) کیا تو نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے تو انہوں نے کہا ہاں اے ابن الخطاب! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے لیے عذاب نہ بن لیکن اس میں یہ نہیں کہ عمر نے سبحان اللہ اور بعد کا جملہ کہا۔