بکیر بن اشج سے روایت ہے کہ بسر بن سعید نے انھیں حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے: ایک مجلس میں ہم حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ کے پا س بیٹھےہوئے تھے۔اتنے میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ غصے کی حالت میں آئے اور کھڑے ہوگئے پھر کہنے لگے: میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ تم میں سے کسی شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "اجازت تین بار مانگی جاتی ہے، اگر تمھیں اجازت مل جائے (تو اندر آجاؤ)، نہیں تو لوٹ جاؤ؟حضرت ابی نے کہا معاملہ کیا ہے؟انھوں نے کہا: میں نے کل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تین بار اجازت مانگی، مجھے اجازت نہیں دی گئی تو میں لوٹ گیا پھر میں آج ان کے پاس آیاتو ان کے پا س حاضر ہوگیا۔میں نے انھیں بتایا کہ میں کل آیا تھا، تین بار سلام کیا تھا، پھر چلا گیا تھا۔کہنے لگے ہم نے سن لیاتھا، اس وقت ہم کسی کام میں لگے ہوئے تھے تم کیوں نہ اجازت مانگتے رہے یہاں تک کہ تمھیں اجازت مل جاتی۔میں نے کہا: میں نے اسی طرح اجازت مانگی جس طرح میں نے ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا۔کہنے لگے: اللہ کی قسم!میں تمھاری پشت اور پیٹھ پر کوڑے ماروں گا پھر تم کوئی ایسا شخص لے آؤ جو تمہارے لئے اس پر گواہی دے۔ حضرت ابی ابن کعب کہنے لگے: اللہ کی قسم!تمھارے ساتھ ہم میں سے صرف وہ کھڑاہوگا جو عمر میں سب سے چھوٹاہے (بڑے تو بڑے ہیں یہ حدیث ہم میں سے کم عمر لوگوں نے بھی سنی ہے اور یادرکھی ہے۔) ابو سعید!اٹھو، (انھوں نے کہا) تو میں اٹھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ا س طرح فرماتے ہوئے سنا تھا۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک مجلس میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ حاضر تھے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ناراضی کی حالت میں آ کر رک گئے اور کہنے لگے، میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا تم میں سے کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے ”اجازت تین دفعہ طلب کی جائے، اگر تجھے اجازت مل جائے (تو ٹھیک) وگرنہ لوٹ جاؤ۔“ حضرت ابی رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا، اس کی کیا ضرورت ہے؟ انہوں نے کہا، کل میں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے تین دفعہ اجازت طلب کی، مجھے اجازت نہ ملی تو میں لوٹ آیا، پھر آج میں ان کے ہاں حاضر ہو کر ان کے پاس گیا اور انہیں بتایا کہ میں گزشتہ کل حاضر تھا اور تین دفعہ سلام عرض کر کے لوٹ گیا تھا، انہوں نے کہا، ہم نے تمہاری آواز سن لی تھی اور ہم اس وقت مصروف تھے تو آپ نے اجازت طلب کرنے پر اصرار کیوں نہ کیا، حتی کہ آپ کو اجازت دے دی جاتی، حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جیسے سنا تھا، اس کے مطابق اجازت طلب کی، انہوں نے کہا، اللہ کی قسم! میں تمہاری پشت اور تمہارے پیٹ کو درے سے تکلیف تکلیف سے دوچار کروں گا الا یہ کہ تم اس پر گواہی دینے والے کو پیش کرو تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، آپ کے ساتھ ہم سے سب سے کم سن ہی جائے گا، اے ابو سعید! اٹھو تو میں اٹھا، حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس حاضر ہوا اور میں نے کہا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سن چکا ہوں۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5628
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ سے بینہ کا مطالبہ دوسرے دن کیا تھا، چونکہ دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس دن حضرت ابو موسیٰ اشعری کو طلب کیا تھا اور ان کے جواب پر بینہ کا مطالبہ کیا تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی مشغولیت سے فارغ ہو کر، ان کے بارے میں پوچھا اور جب یہ بتایا گیا تھا کہ وہ آ کر چلے گئے ہیں تو ان کی طرف پیغام رساں بھیجا، لیکن وہ نہ مل سکے اور خود ہی دوسرے دن حاضر ہو گئے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5628
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5180
´گھر میں داخل ہونے کی اجازت لینے کے لیے آدمی کتنی بار سلام کرے؟` ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں انصار کی مجالس میں سے ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا اتنے میں ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ گھبرائے ہوئے آئے، تو ہم نے ان سے کہا: کس چیز نے آپ کو گھبراہٹ میں ڈال دیا ہے؟ انہوں نے کہا: مجھے عمر رضی اللہ عنہ نے بلا بھیجا تھا، میں ان کے پاس آیا، اور تین بار ان سے اندر آنے کی اجازت طلب کی، مگر مجھے اجازت نہ ملی تو میں لوٹ گیا (دوبارہ ملاقات پر) انہوں نے کہا: تم میرے پاس کیوں نہیں آئے؟ میں نے کہا: میں تو آپ کے پاس گیا تھا، تین بار اجازت مانگی، پھر مجھے اجازت نہ دی گئی، رسول اللہ صلی الل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/أبواب النوم /حدیث: 5180]
فوائد ومسائل: 1۔ اجازت طلب کرنے کے لئے اصل شرعی ادب اسلام علیکم کہنا ہے اور تین بار سلام کہہ کر اجازت مانگی جائے۔ اسی پر دستک دینے یا گھنٹی بجانے کو قیاس کرنا چاہیے۔ اس سے زیادہ خلاف ادب ہے، نہ معلوم گھر والا کسی خاص کام میں مشغول ہو یا آرام کر رہا ہو، تو اسے پریشان نہ کیا جائے۔ علاوہ ازیں دستک دینے یا گھنٹی بجانے میں بھی بے ادبی یا بد تمیزی کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ اتنی زور سے دستک دیتے ہیں کہ اڑوس پروس کے لوگوں کا سکون بھی بر باد ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بعض لوگ گھنٹی اس طرح تسلسل سے بجاتے ہیں جیسے انہوں نے مردوں کو زندہ کرنا یا بہروں کو سنانا ہے یہ بے ہوگیاں ہماری اخلاقی پستی کی غماز ہیں۔
2: اجازت یا جواب نہ ملنے پر بلاوجہ ناراض انہیں ہونا چاہیے، بلکہ واپس آجانا چاہیے۔
3: حضرت عمر رضی اللہ احادیث رسول کی روایت میں اس لئے شدید تھے کہ لوگ کہیں یقین واعتماد کے بغیر رسول ﷺکی طرف سے نسبت نہ کرنے لگیں اور اللہ انہیں جزائے خیر دے یہ ان کی بہت بڑی دانائی کی سختی تھی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5180
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3706
´(گھر کے اندر داخل ہونے کے لیے) اجازت لینے کا بیان۔` ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے تین مرتبہ عمر رضی اللہ عنہ سے (اندر آنے کی) اجازت طلب کی لیکن انہیں اجازت نہیں دی گئی، تو وہ لوٹ گئے، عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے پیچھے ایک آدمی بھیجا اور بلا کر پوچھا کہ آپ واپس کیوں چلے گئے تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم نے ویسے ہی تین مرتبہ اجازت طلب کی جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے، اگر ہمیں تین دفعہ میں اجازت دے دی جائے تو اندر چلے جائیں ورنہ لوٹ جائیں، تب انہوں نے کہا: آپ اس حدیث پر گواہ لائیں ورنہ میں آپ کے ساتھ ایسا ایسا کروں گا یعن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3706]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) کسی کے گھر میں بلا اجازت داخل ہونا منع ہے۔
(2) اجازت طلب کرنے کا طریقہ یہ۔ السلام علیکم کیا میں اندر آ سکتاو ہوں؟ (سنن أبي داؤد، باب كيف: الإستئدان، حديث: 5177)
(3) اگر ایک بار اجازت مانگنے پر جواب نہ ملے تو دوسری اور تیسری بار اجازت طلب کرنی چاہیے۔ آج کل اجازت مانگنے کا طریقہ مختلف ہو گیا ہے جیسے گھنٹی بجانا، یہ بھی وقفے وقفے سے صرف تین بار بجائی جائے۔ اگرکوئی جواب نہ ملے تو واپس چلا جائے۔ گھنٹی بجا بجا کر سارے محلے کو پریشان نہ کیا جائے۔
(4) اگر تین بار اجازت مانگنے پر بھی اجازت نہ ملے تو اہل خانہ سے ناراض ہوئے بغیر واپس ہو جانا چاہیے۔ ممکن ہے صاحب خانہ گھر میں موجود نہ ہو یا کوئی ایسی معقول وجہ ہو جس کی بنا پر وہ اجازت نہ دے رہا ہو۔
(5) حضرت عمر ؓ نے گواہ اس لیے طلب فرمایا کہ وہ مزید اطمینان چاہتے تھے۔ اور اس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ لوگ جب دیکھیں گے کہ عمر ؓ حدیث رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بھی غیر ذمہ دار لوگ کا رویہ رکھتے ہیں تو ہر شخص بالا تحقیق احادیث بیان کرنے کی جرأت نہیں کرے گا۔ اس طرح غیرذمہ دار لوگ غلط الفاظ کے ساتھ یا اپنے پاس سے بنا کر احادیث بیان نہیں کریں گے۔
(6) حدیث دین کی بنیاد ہے لہٰذا صحیح اور ضعیف میں فرق کرنا بہت ضروری ہے۔
(7) احادیث کی کتابوں میں ضعیف احادیث موجود ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ائمہ حدیث ہر حدیث کے ساتھ سند بیان کیا کرتے تھے جس سے سامعین کو حدیث کے درجے کا علم ہو جاتا تھا۔ بعض اوقات اس لیے ضعیف حدیث بیان کر دیتے تھے کہ ممکن ہے اس حدیث کی دوسری سند مل جائے جس سے اس کا ضعف ختم ہو کر حدیث قابل قبول ہو جائے تا ہم ہر وہ حدیث جو ایک سے زیادہ سندوں سے مروی ہو قابل قبول نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے بعض شروط کا پایا جانا ضروری ہے جس کی تفصیل اصول حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3706
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2690
´کسی کے گھر داخل ہونے کے لیے تین بار اجازت حاصل کرنے کا بیان۔` ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ نے عمر رضی الله عنہ سے ان کے پاس حاضر ہونے کی اجازت طلب کی تو انہوں نے کہا: «السلام عليكم» کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟ عمر رضی الله عنہ نے (دل میں) کہا: ابھی تو ایک بار اجازت طلب کی ہے، تھوڑی دیر خاموش رہ کر پھر انہوں نے کہا: «السلام عليكم» کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟ عمر رضی الله عنہ نے (دل میں) کہا: ابھی تو دو ہی بار اجازت طلب کی ہے۔ تھوڑی دیر (مزید) خاموش رہ کر انہوں نے پھر کہا: «السلام عليكم» کیا مجھے اندر داخل ہونے کی اجازت ہے؟ عمر رضی الله عنہ ن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب الاستئذان والآداب/حدیث: 2690]
اردو حاشہ: 1؎: اس سے معلوم ہوا کہ بسا اوقات ایک ادنی شخص کو علم دین کی وہ بات معلوم ہو سکتی ہے جو کسی بڑے صاحب علم کو معلوم نہیں، چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ کو یہ نہیں معلوم تھا کہ تین بار اجازت طلب کرنے پر اگر اجازت نہ ملے تو لوٹ جانا چاہیے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2690