افضل بن موسیٰ نے کہا: ہمیں طلحہ بن یحییٰ نے ابو بردہ سے خبر دی، انھوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: السلام علیکم، عبد اللہ بن قیس (حاضر ہوا) ہے، انھوں نے آنے کی اجازت نہ دی۔انھوں نے پھر کہا: السلام علیکم، یہ ابو موسیٰ ہے، السلام علیکم، یہ اشعری ہے، اس کے بعد چلے گئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ان کو میرے پاس واپس لا ؤ۔میرے پاس واپس لا ؤ۔وہ آئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ابو موسیٰ!آپ کو کس بات نے لوٹا دیا؟ ہم کا م میں مشغول تھے۔انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا: "اجازت تین بار طلب کی جا ئے، اگر تم کو اجازت دے دی جا ئے (توآ جاؤ) ورنہ لوٹ جا ؤ۔"حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا تو آپ اس پر گواہ لا ئیں گے یا پھر میں یہ کروں گا تو حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ چلے گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ابو موسیٰ کو گواہ مل گیا تو شام کو وہ تمھیں منبر کے پاس ملیں گے اور اگر ان کو گواہ نہیں ملا تو وہ تمھیں نہیں ملیں گے، جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ شام کو آئے تو انھوں نے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کو موجود پا یا، انھوں نے کہا ابو موسیٰ!کیا کہتے ہیں؟آپ کو گواہ مل گیا؟ انھوں نے کہا: ہاں! ابی بن کعب ہیں انھوں (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) نے کہا: وہ قابل اعتماد گواہ ہیں۔ (پھر ابو طفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہو کر) کہا: ابو طفیل!یہ (ابی بن کعب رضی اللہ عنہ) کیا کہتے ہیں؟ انھوں (حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ) نے کہا: ابن خطاب!میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ یہی فر ما رہے تھے۔لہٰذا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین پر عذاب نہ بنیں۔انھوں نے کہا: سبحان اللہ!میں نے ایک چیز سنی اور چاہا کہ اس کا ثبوت حاصل کروں۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاں گئے اور کہا، السلام عليكم، یہ عبداللہ بن قیس اجازت چاہتا ہے تو انہوں نے اجازت نہ دی تو اس نے دوبارہ کہا، السلام عليكم، یہ ابو موسیٰ حاضر ہے، پھر تیسری دفعہ کہا، السلام عليكم، یہ اشعری موجود ہے، پھر وہ واپس پلٹ گیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، میرے پاس واپس لاؤ، میرے پاس لوٹاؤ تو وہ حاضر ہوئے، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، اے ابو موسیٰ! واپس کیوں چلے گئے؟ ہم تو مشغول تھے، ابو موسیٰ ؓ نے کہا میں نے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے؟ ”اجازت تین دفعہ طلب کی جائے، اگر تمہیں اجازت مل جائے، (تو ٹھیک) وگرنہ واپس لوٹ جاؤ۔“ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، اس پر دلیل پیش کرو، وگرنہ میں یہ یہ کروں گا، ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ چلے گئے، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے (ساتھیوں سے) کہا، اگر اسے بینہ مل گئی تو وہ شام کے وقت منبر کے پاس ہوں گے، اگر اسے بینہ نہ ملی تو تمہیں وہ نہیں ملیں گے، جب شام کو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ آئے تو انہوں نے ابو موسیٰ کو موجود پایا، پوچھا، اے ابو موسیٰ! آپ کیا کہتے ہیں؟ کیا آپ کو شہادت مل گئی؟ انہوں نے کہا، جی ہاں، ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، وہ مجسمہ عدل ہیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا، اے ابو طفیل (حضرت ابی کی کنیت ہے) یہ کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا، اے ابن الخطاب! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا ہے، اس لیے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے لیے عذاب کا باعث نہ بنیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، سبحان اللہ (اس میں عذاب کی کیا بات ہے) میں نے تو ایک بات سن کر اس کی تحقیق کرنا پسند کیا۔