الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


سنن دارمي
من كتاب الفرائض
وراثت کے مسائل کا بیان
1. باب في تَعْلِيمِ الْفَرَائِضِ:
1. فرائض کی تعلیم حاصل کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2884
أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا عَاصِمٌ، عَنْ مُوَرِّقٍ الْعِجْلِيِّ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: "تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ وَاللَّحْنَ وَالسُّنَنَ كَمَا تَعَلَّمُونَ الْقُرْآنَ".
امیر المومنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: فرائض، اور قواعد، اور سنن سیکھو، جس طرح تم قرآن کی تعلیم حاصل کرتے ہو۔ [سنن دارمي/من كتاب الفرائض/حدیث: 2884]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح وهو موقوف على عمر رضي الله عنه، [مكتبه الشامله نمبر: 2892] »
اس روایت کی سند صحیح ہے اور یہ قول موقوف على سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہے، اس کو ابن ابی شیبہ نے [مصنف 459/10، 9975] میں اور سعید بن منصور نے [السنن 1] میں اور [البيهقي 209/6] نے ذکر کیا ہے۔

وضاحت: (تشریح حدیث 2883)
فرائض سے مراد میراث اور اس کے حصص و احکام، لحن سے مراد علمِ نحو کے احکام و قواعد تاکہ عربی زبان کے بولنے اور سمجھنے میں غلطی نہ ہو، اور سنن سے مراد احادیثِ رسول اور علمِ حدیث ہے، حقیقت یہ ہے کہ انسان کو ان تینوں علوم کی اشد ضرورت ہے۔
گرچہ یہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے لیکن ان علوم کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔

حدیث نمبر: 2885
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: "تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ فَإِنَّهَا مِنْ دِينِكُمْ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: علمِ فرائض سیکھو کیونکہ یہ تمہارے دین میں سے ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الفرائض/حدیث: 2885]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات غير أنه منقطع إبراهيم النخعي لم يدرك عمر بن الخطاب وهو موقوف أيضا على عمر رضي الله عنه، [مكتبه الشامله نمبر: 2893] »
اس اثر کے رجال ثقات ہیں، لیکن ابراہیم نخعی کا لقاء امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں اس لئے منقطع ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 234/11، 11081] ، [سنن سعيد بن منصور 2] ، [البيهقي فى الفرائض 209/6]

حدیث نمبر: 2886
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا يُوسُفُ الْمَاجِشُونُ، قَالَ: قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: "لَوْ هَلَكَ عُثْمَانُ، وَزَيْدٌ فِي بَعْضِ الزَّمَانِ، لَهَلَكَ عِلْمُ الْفَرَائِضِ، لَقَدْ أَتَى عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ، وَمَا يَعْلَمُهَا غَيْرُهُمَا".
ابن شہاب زہری رحمہ اللہ نے کہا: عثمان اور زید کسی وقت فوت ہو گئے تو علم فرائض ختم ہوجائے گا، اور ایک زمانہ ایسا آیا کہ علم فرائض کو ان دونوں کے علاوہ کوئی نہ جانتا تھا۔ [سنن دارمي/من كتاب الفرائض/حدیث: 2886]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح وهو موقوف على الزهري، [مكتبه الشامله نمبر: 2894] »
یہ امام زہری رحمہ اللہ کا قول ہے، اس کو بیہقی نے [البيهقي 210/6] ، فسوی نے [المعرفة 486/1] ، میں صحیح سند سے ذکر کیا ہے۔

حدیث نمبر: 2887
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَنْ الْقَاسِمِ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: "تَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ وَالْفَرَائِضَ، فَإِنَّهُ يُوشِكُ أَنْ يَفْتَقِرَ الرَّجُلُ إِلَى عِلْمٍ كَانَ يَعْلَمُهُ، أَوْ يَبْقَى فِي قَوْمٍ لَا يَعْلَمُونَ.
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: قرآن کریم اور علم الفرائض سیکھو، قریب (ممکن) ہے آدمی کو ایسے علم کی حاجت و ضرورت پڑ جائے جس کو وہ جانتا تھا یا وہ ایسے لوگوں میں پہنچ جائے جن کو اس (فرائض) کا علم نہیں ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الفرائض/حدیث: 2887]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف من أجل المسعودي وهو: عبد الرحمن بن عبد الله بن عتبة. وهو منقطع أيضا القاسم لم يدرك جده ابن مسعود، [مكتبه الشامله نمبر: 2895] »
المسعودی: عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن عتبہ کی وجہ سے اس اثر کی سند میں انقطاع ہے، لیکن معنی صحیح ہے، قرآن اور علم فرائض سیکھنے کی طرف بہت سے آثار سے رہنمائی ملتی ہے۔ تخریج کے لئے دیکھئے: [ابن أبى شيبه 235/11، 11087] ، [سعيد بن منصور من تعلم القرآن فليتعلم الفرائض بسند صحيح عن ابن مسعود 3] ، [طبراني 211/9، 8926] و [مجمع الزوائد 7232]

حدیث نمبر: 2888
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَبِي مُسْلِمٍ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ، قَالَ: قَالَ أَبُو مُوسَى: "مَنْ عَلِمَ الْقُرْآنَ وَلَمْ يَعْلَمْ الْفَرَائِضَ، فَإِنَّ مَثَلَهُ مَثَلُ الْبُرْنُسِ لَا وَجْهَ لَهُ، أَوْ: لَيْسَ لَهُ وَجْهٌ".
ابوموسی نے کہا: جس نے قرآن کا علم حاصل کیا اور فرائض کی تعلیم نہ لی اس کی مثال ایسے سر کی ہے جس میں چہرہ نہ ہو۔ (ایک نسخہ میں ہے «مثله مثل البرنس») اس کی مثال اس لباس کی سی ہے جس میں ٹوپی ہوتی ہے چہرہ نہیں ہوتا)۔ [سنن دارمي/من كتاب الفرائض/حدیث: 2888]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف زياد بن أبي مسلم، [مكتبه الشامله نمبر: 2896] »
زیاد بن ابی مسلم کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے۔ ابوالخلیل: صالح بن ابی مریم ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 234/11، 11082] ، اور ابن ابی شیبہ نے [أمثال الحديث 49] میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس آدمی کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اور فرائض نہیں جانتا ایسے ہے کہ آدمی ہو لیکن اس کا سر نہ ہو۔“ لیکن اس کی سند میں اسحاق بن نجیح ہیں، ابن معین نے کہا: «هو: كذاب، عدو الله، رجل خبيث» ۔

حدیث نمبر: 2889
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَال: قُلْتُ لِعَلْقَمَةَ: مَا أَدْرِي مَا أَسْأَلُكَ عَنْهُ؟ قَالَ: "أَمِتْ جِيرَانَكَ".
ابراہیم نخعی نے کہا: میں نے علقمہ سے کہا: سمجھ میں نہیں آتا آپ سے کیا پوچھوں؟ انہوں نے کہا: اپنے پڑوسی کو مار دو۔ [سنن دارمي/من كتاب الفرائض/حدیث: 2889]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح إلى علقمة وهو عليه موقوف، [مكتبه الشامله نمبر: 2897] »
اس اثر کی سند علقمہ تک صحیح اور یہ علقمہ پر موقوف ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 236/11، 11090] ، [البيهقي 209/6، وفيه امت جيرانك و ورث بعضهم من بعض]

وضاحت: (تشریح احادیث 2884 سے 2889)
یعنی تصور کرو کہ تمہارا پڑوسی مر گیا، پھر اس کا ورثہ تقسیم کرو، اس میں علمِ میراث کی ترغیب ہے۔

حدیث نمبر: 2890
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ الْوَلِيدِ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: "تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ، وَالطَّلاقَ، وَالْحَجَّ، فَإِنَّهُ مِنْ دِينِكُمْ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: فرائض، طلاق اور حج کے احکام سیکھو کیونکہ یہ تمہارے دین سے ہیں۔ [سنن دارمي/من كتاب الفرائض/حدیث: 2890]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لانقطاعه وهو موقوف على ابن مسعود، [مكتبه الشامله نمبر: 2898] »
اس روایت کی سند ضعیف ہے، اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ دیکھئے: [البيهقي 209/6]

حدیث نمبر: 2891
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ كَثِيرٍ، عَنْ الْحَسَنِ، قَالَ: "كَانُوا يُرَغِّبُونَ فِي تَعْلِيمِ الْقُرْآنِ وَالْفَرَائِضِ وَالْمَنَاسِكِ".
حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا: سلف صالحین قرآن کریم، علم فرائض، اور مناسک (عبادات حج کے ارکان) سیکھنے کی ترغیب دیتے تھے۔ [سنن دارمي/من كتاب الفرائض/حدیث: 2891]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح إلى الحسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2899] »
اس روایت کی سند حسن تک صحیح ہے اور یہ اثر کسی اور نے روایت نہیں کی۔

حدیث نمبر: 2892
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: "مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ، فَلْيَتَعَلَّمْ الْفَرَائِضَ، فَإِنْ لَقِيَهُ أَعْرَابِيٌّ، قَالَ: يَا مُهَاجِرُ، أَتَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟ فَإِنْ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: تَفْرِضُ؟ فَإِنْ قَالَ: نَعَمْ، فَهُوَ زِيَادَةٌ وَخَيْر، وَإِنْ قَالَ: لَا، قَالَ: فَمَا فَضْلُكَ عَلَيَّ يَا مُهَاجِرُ؟!.
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: جس نے قرآن پڑھا وہ علم فرائض سیکھے کیونکہ اس کو اگر کوئی دیہاتی مل جائے اور کہے: اے مہاجر (بھائی)! کیا تم قرآن پڑھتے ہو؟ اگر اس نے کہا: ہاں پڑھتا ہوں تو وہ کہے گا: کیا تم میراث تقسیم کر سکتے ہو؟ اگر اس نے کہا کہ ہاں کر سکتا ہوں، تو یہ مزید علم اور بہتری ہے، اور اگر اس نے کہا: میں علم الفرائض نہیں جانتا تو وہ اعرابی کہے گا: پھر میرے اور آپ کے درمیان اے مہاجر بھائی کیا فرق ہے۔ (یعنی میں بھی علم فرائض سے نابلد اور آپ بھی اس سے نادان)۔ [سنن دارمي/من كتاب الفرائض/حدیث: 2892]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات غير أنه منقطع أبو عبيدة بن عبد الله بن مسعود لم يصح له سماع من أبيه، [مكتبه الشامله نمبر: 2900] »
اس روایت کے رجال ثقات ہیں، لیکن ابوعبیدہ نے اپنے والد سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں کیا، لہٰذا یہ اثر منقطع ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 333/11، 11080] ، [طبراني فى الكبير 161/9، 8742] ، [الحاكم 333/4] ، [البيهقي 209/6] ، [مجمع الزوائد 7231]

حدیث نمبر: 2893
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، قَالَ: سَأَلْنَا مَسْرُوقًا: كَانَتْ عَائِشَةُ تُحْسِنُ الْفَرَائِضَ؟ قَالَ: "وَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ، لَقَدْ رَأَيْتُ الْأَكَابِرَ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ يَسْأَلُونَهَا عَنْ الْفَرَائِضِ".
مسلم نے کہا: ہم نے مسروق سے پوچھا: کیا ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرائض اچھی طرح جانتی تھیں؟ انہوں نے کہا: قسم اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اکابر صحابہ کو دیکھا کہ وہ بھی ان سے فرائض کے سلسلے میں سوال کیا کرتے تھے۔ [سنن دارمي/من كتاب الفرائض/حدیث: 2893]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2901] »
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المعرفة و التاريخ للفسوي 489/1] ، [ابن أبى شيبه 234/11، 11084]

وضاحت: (تشریح احادیث 2889 سے 2893)
علمِ فرائض یا علم المواریث کے سلسلے میں یہ آثار امام دارمی رحمہ اللہ نے ذکر کئے ہیں جن میں اس علم کو سیکھنے اور حاصل کرنے کی رغبت دلائی گئی ہے۔
بعض دیگر روایات میں مرفوعاً بھی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ وغیرہ سے علم الفرائض سیکھنے اور حاصل کرنے کی ترغیب ہے، لیکن ساری روایات ضعیفہ ہیں، ترمذی و ابن ماجہ وغیرہ میں ہے: علمِ فرائض حاصل کرو یہ پہلا علم ہے جو بھلا دیا جائے گا، بعض احادیث میں اس کو نصف علم کہا گیا لیکن یہ بھی ضعیف ہے، تفصیل کے لئے دیکھئے: [إرواء الغليل 1664، 1665] ، اس کے باوجود اس علم کی ضرورت و اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، اور اس پر کامل طور پر عبور رکھنے والے علماء خال خال ہی ملتے ہیں۔