عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال: کان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم على عهده ينتظرون العشاء، حتى تخفق رؤوسهم، ثم يصلون ولا يتوضأون. أخرجه أبو داود، وصححه الدارقطني، وأصله في مسلم.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عہدرسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز عشاء کا اتنا انتظار کرتے کہ غلبہ نیند کی وجہ سے ان کے سر جھک جاتے۔ مگر وہ ازسر نو وضو کئے بغیر نماز پڑھ لیتے۔ ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ دارقطنی نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور اس کی اصل مسلم میں ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 62]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الطهارة، باب في الوضوء من النوم، حديث:200، والدارقطني:1 / 131، ومسلم، الصلاة، باب الدليل علي أن نوم الجالس لا ينقض الوضوء، حديث:376.»
حدیث نمبر: 63
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: جاءت فاطمة بنت أبي حبيش إلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم فقالت: يا رسول الله! إني امرأة أستحاض فلا أطهر، أفأدع الصلاة؟ قال: «لا، إنما ذلك عرق وليس بحيض، فإذا أقبلت حيضتك فدعي الصلاة، وإذا أدبرت فاغسلي عنك الدم ثم صلي» . متفق عليه. وللبخاري: «ثم توضأي لكل صلاة» . وأشار مسلم إلى أنه حذفها عمدا.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں ایسی عورت ہوں جو ہمیشہ استخاضہ کے خون میں مبتلا رہتی ہوں، پاک ہوتی ہی نہیں۔ کیا ایسی حالت میں نماز چھوڑ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”نہیں، یہ تو ایک رگ ہے (جو پھٹ جاتی ہے اور خون بہتا رہتا ہے) حیض کا خون نہیں ہے۔ ہاں جب ایام حیض شروع ہوں تو نماز کو چھوڑ دو اور جب یہ ایام پورے ہو جائیں تو خون دھو کر نماز پڑھو۔“(بخاری و مسلم) اور بخاری میں مزید یہ الفاظ ہیں ”پھر ہر نماز کے لئے وضو کرو“۔ مسلم نے اشارہ کیا ہے کہ اسے انہوں نے عمداً چھوڑا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 63]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الحيض، باب غسل الدم، حديث:228، 320، ومسلم، الحيض، باب المستحاضة و غسلها وصلاتها، حديث:333، 334.»
حدیث نمبر: 64
وعن علي بن أبي طالب رضي الله عنه قال: كنت رجلا مذاء فأمرت المقداد أن يسأل رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم، فسأله فقال: «فيه الوضوء» . متفق عليه، واللفظ للبخاري.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں کثرت سے مذی کے خارج ہونے کا مریض تھا۔ میں نے مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کریں۔ مقداد رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں دریافت کیا (کہ اس کی وجہ سے وضو کرنا ہو گا یا غسل جنابت؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ایسی حالت میں وضو ہی ہے۔“(بخاری و مسلم) البتہ یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 64]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الوضوء، باب من استحيا فأمر غيره بالسؤال، حديث:132، ومسلم، الحيض، باب المذي، حديث:303.»
حدیث نمبر: 65
وعن عائشة رضي الله عنها،: أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قبل بعض نسائه ثم خرج إلى الصلاة ولم يتوضأ. أخرجه أحمد وضعفه البخاري.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی اہلیہ کا بوسہ لیا اور نماز کے لئے نکل گئے اور وضو نہیں فرمایا۔ اسے احمد نے روایت کیا ہے اور بخاری نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 65]
تخریج الحدیث: «أخرجه أحمد: 6 /210، والترمذي، الطهارة، حديث: 86، وله شاهد حسن عند البزار(انظر نصب الراية:1 / 74).»
حدیث نمبر: 66
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «إذا وجد أحدكم في بطنه شيئا فأشكل عليه: أخرج منه شيء أم لا؟ فلا يخرجن من المسجد، حتى يسمع صوتا أو يجد ريحا» . أخرجه مسلم.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب تم میں سے کوئی اپنے پیٹ میں ہوا کی حرکت محسوس کرے اور فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے کہ آیا پیٹ سے کوئی چیز خارج ہوئی ہے یا نہیں تو ایسی صورت میں (وضو کرنے کیلئے) وہ مسجد سے باہر نہ جائے، تاوقتیکہ (یقین نہ ہو جائے) ہوا کے خارج ہونے کی آواز یا بدبو سے محسوس کرے۔“(مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 66]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الحيض، باب الدليل علي أن من تيقن الطهارة ثم شك في الحدث...، حديث:362.»
حدیث نمبر: 67
وعن طلق بن علي رضي الله عنه قال: قال رجل: مسست ذكري أو قال: الرجل يمس ذكره في الصلاة أعليه الوضوء؟ فقال النبي صلى الله عليه وآله وسلم: «لا إنما هو بضعة منك» . أخرجه الخمسة، وصححه ابن حبان، وقال ابن المديني: هو أحسن من حديث بسرة.
سیدنا طلق بن علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک شخص نے کہا میں نے اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگایا ہے یا یوں کہا کہ ایک آدمی نماز میں اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگاتا ہے تو کیا اسے نئے سرے سے وضو کرنا چاہیئے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”نہیں، وہ تو تیرے اپنے جسم کا ایک ٹکڑا ہے۔ اسے پانچوں نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔“ ابن مدینی کہتے ہیں بسرہ کی حدیث سے یہ حدیث بہت بہتر ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 67]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الطهارة، باب الرخصة في ذلك، حديث: 182، والترمذي، الطهارة، حديث:85، والنسائي، الطهارة، حديث: 165، وابن ماجه، الطهارة، حديث: 483، وأحمد:4 / 23، وابن حبان(الموارد). حديث:207، 209، (الإحسان): 2 /223، حديث:1116 وقال، ص: 224: "خبر طلق بن علي الذي ذكرناه خبرمنسوخ، لأن طلبق بن علي، كان قدومه علي النبي صلي الله عليه وسلم أول سنةٍ من سني الهجرةحيث كان المسلمون يبنون مسجد رسول الله صلي الله عليه وسلم بالمدينة....."»
حدیث نمبر: 68
وعن بسرة بنت صفوان رضي الله عنها: أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «من مس ذكره فليتوضأ» . أخرجه الخمسة، وصححه الترمذي وابن حبان، وقال البخاري: هو أصح شيء في هذا الباب.
سیدہ بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس نے اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگایا اسے وضو کرنا چاہیئے۔“ اسے پانچوں نے روایت کیا ہے۔ ترمذی اور ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے۔ امام بخاری کی رائے یہ ہے کہ اس باب میں یہ صحیح ترین حدیث ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 68]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الطهارة، باب الوضوء من مس الذكر، حديث:181، والترمذي، الطهارة، حديث: 82، والنسائي، الطهارة، حديث: 163، 164، وابن ماجه، الطهارة، حديث:479، وأحمد: 6 / 406، وابن حبان(الموارد)، حديث:211، 214.»
حدیث نمبر: 69
وعن عائشة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «من أصابه قيء أو رعاف أو قلس أو مذي، فلينصرف فليتوضأ، ثم ليبن على صلاته، وهو في ذلك لا يتكلم» . أخرجه ابن ماجه، وضعفه أحمد وغيره.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس کو نماز میں قے آ جائے یا نکسیر پھوٹ پڑے یا پیٹ کے اندر کی چیز منہ کے راستہ سے باہر آ جائے یا مذی کا خروج ہو جائے تو اسے نماز سے نکل کر وضو کرنا چاہیئے اور جہاں سے نماز چھوڑی تھی اسی پر بنا کر لے۔ بشرطیکہ اس دوران میں اس نے گفتگو نہ کی ہو۔“ ابن ماجہ نے اسے روایت کیا ہے اور احمد نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 69]
تخریج الحدیث: «أخرجه ابن ماجه، إقامة الصلوات والسنة فيها، باب ما جاء في البناء علي الصلاة، حديث: 1221، وقال البوصيري: "هذا إسناد ضعيف، لأنه من رواية إسماعيل(بن عياش) عن الحجازيين وهي ضعيفة".»
حدیث نمبر: 70
وعن جابر بن سمرة رضي الله عنه أن رجلا سأل النبي صلى الله عليه وآله وسلم:أتوضأ من لحوم الغنم؟ قال: «إن شئت» قال: أتوضأ من لحوم الإبل؟ قال: «نعم» . أخرجه مسلم.
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، کیا میں بکری کا گوشت کھاؤں تو بعد میں وضو کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگر دل چاہے تو کر لو۔“ اس شخص نے پھر عرض کیا اور اونٹ کے گوشت سے؟ فرمایا ”اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرنا چاہیئے۔“(مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 70]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الحيض، باب الوضوء من لحوم الإبل، حديث: 360.»
حدیث نمبر: 71
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «من غسل ميتا فليغتسل، ومن حمله فليتوضأ» . أخرجه أحمد والنسائي والترمذي، وحسنه، وقال أحمد: لا يصح في هذا الباب شيء.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس نے میت کو غسل دیا وہ خود بھی غسل کرے اور جس نے میت کو اٹھایا وہ وضو کرے۔“ اس حدیث کو احمد، نسائی اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ ترمذی نے اسے حسن کہا ہے اور احمد کا قول ہے کہ اس باب میں کوئی بھی حدیث صحیح ثابت نہیں ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 71]
تخریج الحدیث: «أخرجه الترمذي، الجنائز، باب ما جاء في الغسل من غسل الميت، حديث: 993، وأحمد: 2 / 280، 433، وله طريق حسن عند أبي داود، حديث: 3162، وغيره والنسائي: لم أجده.»
حدیث نمبر: 72
وعن عبد الله بن أبي بكر رضي الله عنه: أن في الكتاب الذي كتبه رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم لعمرو بن حزم: أن لا يمس القرآن إلا طاهر. رواه مالك مرسلا، ووصله النسائي وابن حبان، وهو معلول.
سیدنا عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احکام کی جو تحریر عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کو لکھ کر دی تھی اس میں تحریر تھا کہ ”قرآن پاک کو پاکیزہ انسان (جس نے وضو کیا ہو) ہی ہاتھ لگائے۔“ امام مالک رحمہ اللہ نے اسے مرسل روایت کیا ہے، نسائی اور ابن حبان نے اس کو موصول بیان کیا ہے، دراصل یہ حدیث معلول ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 72]
تخریج الحدیث: «أخرجه مالك في الموطأ، القرآن، باب الأمر بالوضوء لمن مس القرآن: 1 /199 وسنده ضعيف، وللحديث شاهد قوي عند الدار قطني: 1 / 121، حديث: 429، والرواية عن الكتاب صحيحة مالم يثبت الجرح القادح فيه.»
حدیث نمبر: 73
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى عليه وسلم يذكر الله على كل أحيانه. رواه مسلم، وعلقه البخاري.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے تھے۔“ اسے مسلم نے روایت کیا اور بخاری نے اس کو تعلیقاً نقل کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 73]
تخریج الحدیث: «أخرج البخاري، تعليقًا، الأذان، باب هل يتتبع المؤذن فاه هاهنا وهاهنا؟...، قبل الحديث: 634، ومسلم، الحيض، باب ذكر الله تعالي في حال الجنابة وغيرها، حديث:373.»
حدیث نمبر: 74
وعن أنس بن مالك رضي الله عنه: أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم احتجم وصلى، ولم يتوضأ. أخرجه الدارقطني، ولينه.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنے لگوائے اور نیا وضو کئے بغیر نماز ادا کی۔“ اسے دارقطنی نے روایت کیا ہے اور اسے کمزور کہا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 74]
تخریج الحدیث: «أخرجه الدار قطني: 1 /151، 152، فيه صالح بن مقاتل وليس بالقوي وأبوه غير معروف، وفيه علة أخري.»
حدیث نمبر: 75
وعن معاوية رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «العين وكاء السه، فإذا نامت العينان استطلق الوكاء» . رواه أحمد والطبراني، وزاد: «ومن نام فليتوضأ» وهذه الزيادة في هذا الحديث عند أبي داود من حديث علي دون قوله: «استطلق الوكاء» وفي كلا الإسنادين ضعف. ولأبي داود أيضا عن ابن عباس رضي الله عنهما مرفوعا: «إنما الوضوء على من نام مضطجعا» . وفي إسناده ضعف أيضا.
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ”آنکھوں کا کھلا رہنا ریح خارج ہونے کا بندھن ہے۔ جب آنکھ سونے کی وجہ سے بند ہو جاتی ہے تو بندھن ڈھیلا ہو جاتا ہے۔ (کھل جاتا ہے)(مسند احمد، طبرانی) طبرانی نے اتنا اضافہ بھی اپنی روایت میں بیان کیا ہے کہ ”جس شخص کو نیند آ جائے وہ ازسرنو وضو کرے۔“ اتنا اضافہ ابوداؤد کی اس روایت میں بھی ہے جسے انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے واسطے سے روایت کیا ہے۔ البتہ اس روایت میں «استطلق الوكاء» ”یعنی بندھن کھل جاتا ہے“ والی عبارت نہیں ہے۔ باعتبار سند، دونوں احادیث ضعیف ہیں اور ابوداؤد میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے واسطے سے یہ مرفوع روایت بھی مروی ہے“ وضو تو اس شخص پر ہے جو لیٹ کر سو جائے۔“ سند کے اعتبار سے یہ حدیث بھی ضعیف ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 75]
تخریج الحدیث: «أخرجه أحمد: 4 / 97، والطبراني في الكبير:19 /372، 373، حديث:875 وفيه أبوبكر ابن أبي مريم وهو ضعيف لاختلاطه، وللحديث شواهد معنوية عند أبي داود، الطهارة، حديث: 203 وغيره* حديث ابن عباس أخرجه أبوداود، حديث:202، وسنده ضعيف أبو خالد الدالاني وقتادة مدلسان وعنعنا وقال أبوداود:"منكر"»
حدیث نمبر: 76
وعن ابن عباس رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «يأتي أحدكم الشيطان في صلاته فينفخ في مقعدته، فيخيل إليه أنه أحدث، ولم يحدث، فإذا وجد ذلك فلا ينصرف حتى يسمع صوتا أو يجد ريحا» . أخرجه البزار. وأصله في الصحيحين من حديث عبد الله بن زيد.ولمسلم عن أبي هريرة رضي الله عنه نحوه. وللحاكم عن أبي سعيد مرفوعا: «إذا جاء أحدكم الشيطان، فقال: إنك أحدثت، فليقل: كذبت» . وأخرجه ابن حبان بلفظ:«فليقل في نفسه» .
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”نماز میں تم میں سے کسی کے پاس شیطان آتا ہے اور اس کی مقعد میں پھونک مارتا ہے اور اس کے ذہن میں یہ خیال ڈالا جاتا ہے کہ وہ بےوضو ہو گیا ہے حالانکہ وہ بےوضو نہیں ہوا ہوتا لہٰذا تم میں سے جب کوئی ایسا محسوس کرے تو ریح کے خارج ہونے کی آواز سننے یا اس کی بدبو پانے تک نماز سے نہ پھرے۔“ اسے بزار نے روایت کیا ہے اور اس حدیث کی اصل بخاری میں عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ اور مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے موجود ہے۔ مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان جیسے ہی الفاظ مروی ہیں۔ اور حاکم نے ابوسعید رضی اللہ عنہ کے واسطے سے مرفوعاً بیان کیا ہے کہ ”جب تم میں سے کسی کے پاس شیطان آئے اور ذہن میں وسواس ڈالے کہ تو بےوضو ہو گیا تو یہ شخص اسے جواب میں کہے کہ تو جھوٹ بولتا ہے۔“ اس کو ابن حبان نے ان الفاظ سے روایت کیا ہے کہ ”وہ شخص اپنے دل میں کہے کہ تو جھوٹا ہے۔“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 76]
تخریج الحدیث: «أخرجه البزار (كشف الاستار):1 / 147، حديث:281 واللفظ له، حديث عبدالله بن زيد: أخرجه البخاري، الوضوء، حديث: 137، ومسلم، الطهارة، حديث: 361، حديث أبي هريرة: أخرجه مسلم، الطهارة، حديث: 362، حديث أبي سعيد: أخرجه أبوداود، الصلاة، حديث:1029، وابن حبان(الموارد)، حديث:1187، صحيحه الحاكم علي شرط الشيخين:1 /324، ووافقه الذهبي.»