وعن عبد الله بن أبي بكر رضي الله عنه: أن في الكتاب الذي كتبه رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم لعمرو بن حزم: أن لا يمس القرآن إلا طاهر. رواه مالك مرسلا، ووصله النسائي وابن حبان، وهو معلول.
سیدنا عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احکام کی جو تحریر عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کو لکھ کر دی تھی اس میں تحریر تھا کہ ”قرآن پاک کو پاکیزہ انسان (جس نے وضو کیا ہو) ہی ہاتھ لگائے۔“ امام مالک رحمہ اللہ نے اسے مرسل روایت کیا ہے، نسائی اور ابن حبان نے اس کو موصول بیان کیا ہے، دراصل یہ حدیث معلول ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 72]
تخریج الحدیث: «أخرجه مالك في الموطأ، القرآن، باب الأمر بالوضوء لمن مس القرآن: 1 /199 وسنده ضعيف، وللحديث شاهد قوي عند الدار قطني: 1 / 121، حديث: 429، والرواية عن الكتاب صحيحة مالم يثبت الجرح القادح فيه.»
الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 72
´بےوضو قرآن کریم کو ہاتھ لگانا` فقہ الحدیث: قرآن مجید کو بےوضو ہاتھ میں پکڑ کر تلاوت کرنا درست نہیں۔ سلف صالحین نے قرآن و سنت کی نصوص سے یہی سمجھا ہے۔ قرآن و سنت کا وہی فہم معتبر ہے جو اسلاف امت نے لیا ہے۔ مسلک اہل حدیث اسی کا نام ہے۔ آئیے تفصیل ملاحظہ فرمائیے:
❶ ارشاد باری تعالیٰ ہے: «لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ»” اس (قرآن کریم) کو پاک لوگ ہی چھوتے ہیں۔“[56-الواقعة:79] ↰ اس آیت کریمہ میں پاک لوگوں سے مراد اگرچہ فرشتے ہیں لیکن اشارۃ النص سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انسان بھی پاک ہو کر ہی اسے تھامیں، جیسا کہ: ◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728 ھ) فرماتے ہیں: «ھذا من باب التنبیہ والاشارۃ، اذا کانت الصحف التی فی السماء لا یمسھا الا المطھرون، فکذلک الصحف التی بایدینا من القرآن لا ینبعی ان یمسھا الا طاھر .» ” یہ ایک قسم کی تنبیہ اور اشارہ ہے کہ جب آسمان میں موجود صحیفوں کو صرف پاک فرشتے ہی چھوتے ہیں تو ہمارے پاس جو قرآن ہے، اسے بھی صرف پاک لوگ ہی ہاتھ لگائیں۔“[التبیان فی اقسام القرآن لابن القیم، ص:338]
◈ علامہ طیبی اس آیت کے متعلق لکھتے ہیں: «فإن الضمير إما للقرآن، والمراد نهي الناس عن مسه إلا على الطهارة، وإما للوح، ولا نافية، ومغنى المطهرون الملائكة، فإن الحديث كشف أن المراد هو الأول، ويعضده مدح القرآن بالكرم، وبكونه ثابتا فى اللؤح المحفوظ، فيكون الحكم بكونه لا يمسه مرتبا على الوصفين المتناسبين للقرآن.» ” ضمیر یا تو قرآن کریم کی طرف لوٹے گی یا لوح محفوظ کی طرف۔ اگرقرآن کریم کی طرف لوٹے تو مراد یہ ہے کہ لوگ اسے طہارت کی حالت میں ہی ہاتھ لگائیں۔ اگر لوح محفوظ کی طرف ضمیر لوٹے تو «لا» نفی کے لیے ہو گا اور پاک لوگوں سے مراد فرشتے ہوں گے۔ حدیث نبوی نے بتا دیا ہے کہ پہلی بات ہی راجح ہے۔ اس بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ قرآن کو کریم بھی کہا گیا ہے اور اس کا لوح محفوظ میں ہونا ثابت بھی کیا گیا ہے، اس طرح نہ چھونے کے حکم کا اطلاق قرآن کریم کی دونوں حالتوں (لوح محفوظ اور زمینی مصحف) پر ہو گا۔“[تحفة الأحوذي لمحمد عبدالرحمن المباركفوري:137/1]
❷ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں نافع تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: «انهٔ كان لا يمس المصحف الا و هو طاهر .» ” آپ قرآن کریم کو صرف طہارت کی حالت میں چھوتے تھے۔“[مصنف ابن أبى شيبة:1/2 32، وسندۂ صحيح]
❸ مصعب بن سعدبن ابی وقاص تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: «كنت أمسك المصحف على سعد بن أبى وقاص، فاحتككت، فقال لي سعد: لعلك مسست ذكرك؟، قال: قلت: نعم، فقال: فقم، فتوضأ، فقمت، فتوضأت، ثم رجعت .» ” میں اپنے والد سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے پاس قرآن کریم کا نسخہ پکڑے ہوئے تھا۔ میں نے جسم پر خارش کی۔ انہوں نے پوچھا: کیا تم نے اپنی شرمگاہ کو چھوا ہے؟ میں نے عرض کی: جی ہاں، تو انہوں نے فرمایا: جاؤ اور وضو کرو۔ میں نے وضو کیا، پھر واپس آیا۔“[الموطا للامام مالك 42/1، وسندهٔ صحيح]
❹ غالب ابوہذیل کا بیان ہے: «امرني ابورزين (مسعود بن مالك) أن أفتح المصحف على غير وضوء، فسألت إبراهيم، فكرهه.» ” مجھے ابورزین مسعود بن مالک اسدی نے بغیر وضو مصحف کو کھولنے کا کہا تو میں نے اس بارے میں ابراہیم نخعی تابعی رحمہ اللہ سے سوال کیا۔ انہوں نے اسے مکروہ جانا۔“[مصنف ابن ابي شيبة: 321/2، و سندهٔ حسن]
❺ امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: «كان سفيان يكره ان يمس المصحف، وهو علٰي غير وضوء.» ” امام سفیان تابعی رحمہ اللہ بغیر وضو کے مصحف کو چھونے کو مکروہ سمجھتے تھے۔“[كتاب المصاحف لابن أبي داود: 740، وسندهٔ صحيح]
❻ ❼ حکم بن عتیبہ اور حماد بن ابی سلیمان دونوں تابعی ہیں۔ ان سے بے وضو، انسان کے قرآن کریم کو پکڑنے کے بارے میں پوچھا گیا تو دونوں کا فتویٰ یہ تھا: «إذا كان فى علاقة، فلا بأس به.» ” جب قرآن کریم غلاف میں ہو تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔“[كتاب المصاحف لابن ابي داود: 762، وسندهٔ صحيح] ↰ یعنی بغیر غلاف کے بے وضو چھونا ان صاحبان کے ہاں بھی درست نہیں۔
❽ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «لا يحمل المصحف بعلاقته، ولا علٰي وسادة أحد إلا وهو طاهر.» ” قرآن پاک کو غلاف کے ساتھ یا تکیے پر رکھ کر بھی کوئی پاک شخص ہی اٹھائے۔“[الموطا: 199/1]
❾ ❿ امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ رحمها اللہ کا بھی یہی موقف تھا، جیسا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وبه قال غير واحد من أهل العلم من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم والتابعين، قالوا: يقرا الرجل القرآن على غير وضوء، ولا يقرا فى المصحف إلا وهو طاهر، وبه يقول سفيان الثوري، والشافعي، وأحد، وإسحاق.» ” بہت سے اہل علم صحابہ و تابعین کا یہی کہنا ہے کہ بےوضو آدمی قرآن کریم کی زبانی تلاوت تو کر سکتا ہے، لیکن مصحف سے تلاوت صرف طہارت کی حالت میں کرے۔ امام سفیان ثوری، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ رحمها اللہ کا یہی مذہب ہے۔“[سنن الترمذي، تحت الحديث: 146]
◈ شارح ترمذی علامہ محمد عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «القول الراجح عندي قول أكثر الفقهاء، وهو الذى يقتضيه تعظيم القرآن وإكرامه، والمتبادر من لفظ الطاهر فى هذا الحديث هو المتوضي، وهو الفرد الكامل للطاهر، والله تعالى أعلم.» ” میرے نزدیک جمہور فقہاء کا قول راجح ہے۔ قرآن کریم کی تعظیم و اکرام بھی اسی کی متقاضی ہے۔ اس حدیث میں طاہر کے لفظ کا متبادر معنی وضو والا شخص ہی ہے اور باوضو شخص ہی کامل طاہر ہوتا ہے۔ «والله اعلم!»“[تحفة الأحوذي:137/1]
الحاصل: قرآن کریم کو بغیر وضو زبانی پڑھا جا سکتا ہے لیکن بے وضو شخص ہاتھ میں پکڑ کر اس کی تلاوت نہیں کر سکتا۔ یہی قول راجح ہے کیونکہ سلف صالحین کی تصریحات کی روشنی میں قرآن و سنت کی نصوص سے یہی ثابت ہوتا ہے۔
حافظ نديم ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام72
عبداللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کتاب عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کے لیے لکھی تھی، اس میں (یہ بھی تحریر) تھا: قرآن کو صرف طاہر ہی چھوئے۔ اسے امام مالک نے الموطا: 1/ 199، ح: 470 میں اور دارقطنی: 122/1 نے روایت کیا ہے اور یہ روایت حسن ہے۔ واضح رہے کہ مذکورہ حدیث پر منقطع ہونے کا اعتراض درست نہیں۔ ➊ قرآن مجید کی عظمت کا بیان کہ اسے ہر قسم کی نجاست سے پاک شخص ہی چھوئے۔ ➋ یہ حدیث جمہور اہل علم کی دلیل ہے کہ جنبی، حائضہ اور بےوضو افراد قرآن مجید نہیں چھو سکتے۔ ➌ امام بغوی رحمہ اللہ (متوفی 512ھ) نے فرمایا: ”ا کثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ بےوضو شخص یا جنبی کے لیے قرآن پکڑنا اور چھوناجائز نہیں۔“[شرح السنة: 363/1] ➍ امام مالک رحمہ اللہ (متوفی 179ھ) نے فرمایا: ”بےوضو قرآن مجید کو چھونا اس لیے مکروہ نہیں کہ اسے پکڑنے والے کے ہاتھ میں کوئی چیز (نجاست) ہو گی جس سے وہ آلودہ ہو جائے گا، بلکہ، قرآن مجید کی تکریم و تعظیم کی وجہ سے اسے بےوضو پکڑنا مکروہ قرار دیا گیا ہے۔“[الموطا: 470] ➎ حافظ ابن عبدالبر (متوفی 463ھ) نے درج بالا حدیث نقل کرنے کے بعد فرمایا: ”اس مسئلے میں فقہائے مدینہ، عراق اور شام میں کوئی اختلاف نہیں کہ قرآن کو صرف حالت وضو ہی میں چھوا جائے گا۔“[التمهيد 471/8 و نسخة أخرى] ➏ مصعب بن سعد بن ابی وقاص رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ: ”میں (اکثر) سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے لیے قرآن کو پکڑے رکھتا (اور وہ پڑھتے رہتے تھے، ایک دن) میں نے کھجایا تو سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: شاید تو نے اپنے ذکر (شر م گاہ) کو چھوا ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، انہوں نے فرمایا: اٹھ اور وضو کر، چنانچہ میں نے اٹھ کر وضو کیا، پھر وایس آیا۔“[موطا امام مالك: 89 وسنده صحيح] ◈ امام بیہقی رحمہ اللہ (متوفی 458ھ) نے اس اثر پر درج ذیل باب قائم کیا ہے۔ «باب نهي المحدث عن مس المصحف» ”یعنی بے وضو شخص کو قرآن و چھونے کی ممانعت۔“[السنن الكبرى: 1/ 88] ➐ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا: ”قرآن کو صرف طاہر ہی چھوئے۔“[مصنف ابن ابي شيبة 361/2، ح 7506 وسنده صحيح] ◈ الاوسط لابن المنذر [224/2] میں «متوضي» کے الفاظ ہیں، ”لیکن قرآن کو صرف باوضو شخص چھوئے۔“ ➑ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (متوفی 241ھ) نے فرمایا: ”قرآن کو صرف طاہر ہی چھوئے۔ اگر کوئی وضو کے بغیر قرآن پڑھنا چاہے (پھر بھی) اسے نہ چھوئے اور عود (لکڑی) یا کسی چیز سے صفحہ پلٹے۔“[مسائل احمد بن حنبل برواية صالح 208/3، قم: 1667] ➒ حکم بن عتیبہ اور حماد بن ابی سلیمان رحمها اللہ نے فرمایا: ”جب قرآن مجید کپڑے (یا غلاف) میں ہو تو اسے بغیر وضو چھونے میں کوئی حرج نہیں۔“[المصاحف لابن ابي داؤد: 759 سے وسنده حسن] ➓ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مجموع الفتاوی [266/21] علامہ ابن رجب رحمہ اللہ فتح و الباری [403/1] اور ابن قدامہ المقدسی المغی [202/1] کے نزدیک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اس مسئلے میں کہ قرآن مجید کو صرف طاہر ہی چھوئے کوئی مخالفت معروف نہیں۔ ⓫ فقیہ العصر شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ نے فرمایا: ”غور و فکر کے بعد مجھ پر واضح ہوا کہ ”طاہر“ سے مراد حدث اصغر (بے وضو) اور حدث اکبر (جنابت وغیرہ) سے پاک ہونا ہے۔ [شرح موطا امام مالك 20/2] ⓬ جو لوگ وضو کے بغیر قرآن مجید چھونے کے قائل ہیں ان کے نزدیک بھی افضل و بہتر یہی ہے کہ باوضو ہو کر قرآن مجید چھوا جائے۔ دیکھیے: [الفائض لابي عبدالرحمٰن الارياني ص 111] وغیرہ۔ ◈ لہٰذا افضل و بہتر ہی کو ترجیح حاصل ہے اور اسی پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ ⓭ قرآن مجید پکڑے بغیر بےوضو تلاوت قرآن جائز ہے۔ محمد بن سیرین رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ لوگوں میں (بیٹھے) تھے اور وہ قرآن پڑھ رہے تھے۔ آپ قضائے حاجت کے لیے گئے، پھر واپس آ کر قرآن مجید پڑھنے لگے، ایک شخص نے کہا: اے امیر المؤمنین! آپ بغیر وضو کے تلاوت کر رہے ہیں؟ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس (سے منع) کا فتوی کس نے دیا ہے، کیا مسیلمہ نے؟ [موطا امام مالك: 471 وسنده منقطع، التاريخ الكبير للبخاري 1/ 437 وسنده صحيح] ⓮ حافظ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ نے فرمایا: ”جنبی اور حائضہ طاہر نہیں نتیجہ ظاہر ہے کہ دونوں قرآن مجید کو چھو نہیں سکتے، جب چھو نہیں سکتے تو پکڑ بھی نہیں سکتے۔“[احكام و مسائل 97/1] فائدہ: آیت: «لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ»[56-الواقعة:79] ”اسے کوئی ہاتھ نہیں لگاتا مگر جو بہت پاک کیے ہوئے ہیں۔“ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ «الْمُطَهَّرُونَ» سے مراد فرشتے ہیں۔ [احكام القرآن للطحاوي 117/1، وسنده صحيح] حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے شیخ الاسلام (ابن تیمیہ رحمہ اللہ) سے سنا: آپ اس آیت سے یہ استدلال کرتے تھے کہ بےوضو شخص قرآن مجید نہ چھوئے۔ انہوں نے فرمایا: اس میں تنبیہ اور اشارہ ہے کہ جب قرآن آسمان پر تھا تو اسے «مطهرون»(فرشتے) ہی چھوتے تھے، اسی طرح (اب) وہ قرآن ہمارے پاس ہے تو اسے طاہر ہی چھوئے اور حدیث اس آیت سے مشتق ہے۔ [التبيان فى اقسام القرآن: 402/1] تقریباً اسی مفہوم کی بحث علامہ ابوعبداللہ الحسین بن حسن الحلیمی (متوفی 403ھ) نے [المنها ج 228/2] میں کی ہے، نیز دیکھیے: [شعب الايمان للبيهقي: 445/3] فضیلۃ الشیخ عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ”یعنی قرآن کریم کو صرف ملائکہ ہی چھوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے تمام آفات، گناہوں اور عیوب سے پاک کیا ہے۔ جب قرآن کو پاک ہستیوں کے سوا کوئی نہیں چھوتا اور ناپاک اور شیاطین اس کو چھو نہیں سکتے تو آیت کریمہ تنبیہاً اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ پاک شخص کے سوا کسی کے لیے قرآن کو چھوناجائز نہیں ہے۔“[تفسير السعدي 2693/3 طبع دارالسلام] ↰ قارئین کرام! جب بےوضو قرآن مجید پکڑنا جائز نہیں، تو حالت جنابت یا ایام مخصوصہ میں کیونکر جائز ہو سکتا ہے؟ (دلائل کے لئے سنن ابي داود حدیث نمبر 229 کے فوائد و مسائل دیکھیں)۔