وعن طلق بن علي رضي الله عنه قال: قال رجل: مسست ذكري أو قال: الرجل يمس ذكره في الصلاة أعليه الوضوء؟ فقال النبي صلى الله عليه وآله وسلم: «لا إنما هو بضعة منك» . أخرجه الخمسة، وصححه ابن حبان، وقال ابن المديني: هو أحسن من حديث بسرة.
سیدنا طلق بن علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک شخص نے کہا میں نے اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگایا ہے یا یوں کہا کہ ایک آدمی نماز میں اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگاتا ہے تو کیا اسے نئے سرے سے وضو کرنا چاہیئے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”نہیں، وہ تو تیرے اپنے جسم کا ایک ٹکڑا ہے۔ اسے پانچوں نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔“ ابن مدینی کہتے ہیں بسرہ کی حدیث سے یہ حدیث بہت بہتر ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 67]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الطهارة، باب الرخصة في ذلك، حديث: 182، والترمذي، الطهارة، حديث:85، والنسائي، الطهارة، حديث: 165، وابن ماجه، الطهارة، حديث: 483، وأحمد:4 / 23، وابن حبان(الموارد). حديث:207، 209، (الإحسان): 2 /223، حديث:1116 وقال، ص: 224: "خبر طلق بن علي الذي ذكرناه خبرمنسوخ، لأن طلبق بن علي، كان قدومه علي النبي صلي الله عليه وسلم أول سنةٍ من سني الهجرةحيث كان المسلمون يبنون مسجد رسول الله صلي الله عليه وسلم بالمدينة....."»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 67
� لغوی تشریح: «أَوْقَالَ» اس میں فاعل «هُوَ» ضمیر ہے جو اس میں مخفی ہے اور جس مرد کا پہلے ذکر آیا ہے اس کی طرف راجع ہے۔ «اَلرَّجُلُ يَمَسُّ» یہ مبتدا اور خبر ہیں۔ «بَضَعَةٌ»”با“ پر فتحہ اور کسرہ دونوں جائز ہیں اور ”ضاد“ ساکن ہے۔ اس کے معنی گوشت کے ٹکڑے کے ہیں۔ «مِنْكَ» یعنی تیرے جسم کا ٹکڑا ہے۔ جس طرح دیگر اعضائے جسم ہیں اسی طرح یہ بھی ہاتھ پاؤں وغیرہ کی طرح گوشت کا ٹکڑا ہے۔ یہ تو معلوم ہے کہ انسان اپنے جسم کے کسی دوسرے حصے کو چھو کر وضو نہیں کرتا تو اسی طرح شرم گاہ کو چھو لینے سے بھی وضو کی ضرورت نہیں۔ جو بھی اس کلام پر غور و فکر کرے گا وہ سمجھ جائے گا کہ یہ قیاس و اجتہاد کی بنا پر تھا اور اس وقت شرم گاہ کو چھونے کے بارے میں نفی یا اثبات میں کوئی واضح حکم نہیں دیا تھا۔
فائدہ: علی بن عبداللہ جو ابن مدینی کے نام سے مشہور ہیں 161 ہجری میں پیدا ہوئے اور 224 ہجری میں وفات پائی۔ یہ امام بخاری اور امام ابوداود رحمہما اللہ کے اساتذہ میں سے ہیں۔ امام ترمذی نے کہا ہے کہ بہت سے صحابہ اور تابعین «مس ذكر»(شرم گاہ کو چھونے) سے وضو کے قائل نہ تھے۔ ابن مدینی، ابن مبارک اور اہل کوفہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ دوسری طرف بہت سے صحابہ و تابعین «مس ذكر» سے وضو ٹوٹ جانے کے قائل ہیں۔ ان کی دلیل سیدنا بسرہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے جو آگے آ رہی ہے۔ امام أحمد اور امام شافعی رحمہما اللہ اسی کے قائل ہیں۔
راوی حدیث: SR سیدنا طلق بن علی رضی اللہ عنہ ER ابوعلی ان کی کنیت ہے۔ ”طا“ پر فتحہ ہے اور ”لام“ ساکن ہے۔ نسب نامہ یوں ہے: طلق بن علی بن طلق بن عمرو حنفی، سُحَیْمی، یمامی۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے، اسی وقت یہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسجد نبوی کی تعمیر میں زور و شور اور شوق و ذوق سے حصہ لیا۔ کہتے ہیں کہ ان سے چودہ احادیث نبویہ مروی ہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 67
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه سيد بديع الدين شاه راشدي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 182
´عضو تناسل چھونے سے وضو نہ کرنے کی رخصت` «. . . عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَدِمْنَا عَلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ رَجُلٌ كَأَنَّهُ بَدَوِيٌّ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ،" مَا تَرَى فِي مَسِّ الرَّجُلِ ذَكَرَهُ بَعْدَ مَا يَتَوَضَّأُ؟ فَقَالَ: هَلْ هُوَ إِلَّا مُضْغَةٌ مِنْهُ؟ أَوْ قَالَ: بَضْعَةٌ مِنْهُ" . . .» ”۔۔۔ طلق بن علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اتنے میں ایک شخص آیا وہ دیہاتی لگ رہا تھا، اس نے کہا: اللہ کے نبی! وضو کر لینے کے بعد آدمی کے اپنے عضو تناسل چھونے کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تو اسی کا ایک لوتھڑا ہے، یا کہا: ٹکڑا ہے۔“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 182]
فوائد و مسائل: باقی جو طلق بن علی رضی اللہ عنہ والی روایت ہے، اس میں حضرات محدثین نے کلام کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو مطولات) علیٰ تقدیر الصحۃ یہ حدیث منسوخ ہے۔ کیونکہ بسرۃ وغیرہ کی حدیثیں ان سے متاخر سمجھی جاتی ہیں۔ اس لئے کہ یہ بنسبت طلق کے متاخر الاسلام ہیں۔ [كتاب الاعتبار للحازمي: 150]
علاوہ بریں اگر ان دونوں حدیثوں کو جمع کیا جائے تو بھی ہمارا مذہب ہی ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً بسرۃ وغیرہ کی حدیثیں بغیر حائل پر اور طلق والی حدیث کو بمع حائل پر حمل کیا جائے۔ چنانچہ صحیح ابن حبان وغیرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بروایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ منقول ہے کہ: «اذا افضي احدكم بيده الي فرجه، وليس بينهما ستر ولا حجاب فليتوضاء»[صحيح ابن حبان 1118]” جب تم میں سے کسی نے اپنی شرمگاہ کو اپنے ہاتھ سے چھو لیا اور ان (ہاتھ اور شرمگاہ) کے درمیان کوئی رکاوٹ یا پردہ نہ ہو اسے وضو کرنا چاہئے۔“ اس حدیث کو امام حاکم اور ابن السکن اور ابن عبدالبر نے صحیح کہا ہے۔ [تحفة الاحوذي: 227/1]
تو معلوم ہوا کہ «مس الذكر من غير حائل» ناقص الوضوء ہے۔ «وهو الحق ان شاء الله تعالىٰ والحق احق ان يتبع ناقص الوضوء» ۔
اس کے بعد واضح ہو کہ یہ حکم جس طرح مردوں کے لیے ہے، اسی طرح عورتوں کے لئے بھی ہے۔ کیونکہ وہ شقائق الرجال ہیں اور کوئی ایسی دلیل وارد نہیں کہ ہم عورتوں کو اس مسئلہ میں خاص کر سکیں۔ علاوہ ازیں خود مسند امام احمد اور بیہقی وغیرہ میں بروایت عبداللہ بن عمرو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ: «ايما امراة مست فرجها فليتوضا»”جس عورت نے اپنی شرمگاہ کو چھوا تو وہ وضوء کر لے۔“[مسند امام احمد: 223/2، سنن الكبري للبيهقي: 228/1 طبع جديد]
اور اس حدیث کے متعلق امام المحدثین و طبیب الحدیث فی عللہ سیدنا امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ «هو عندي صحيح»[كتاب العلل للترمذي]
اہلحدیث کے امتیازی مسائل، حدیث/صفحہ نمبر: 15
ابوصهيب مولانا محمد داود ارشد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 182
´عضو تناسل چھونے سے وضو نہ کرنے کی رخصت` «. . . عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَدِمْنَا عَلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ رَجُلٌ كَأَنَّهُ بَدَوِيٌّ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ،" مَا تَرَى فِي مَسِّ الرَّجُلِ ذَكَرَهُ بَعْدَ مَا يَتَوَضَّأُ؟ فَقَالَ: هَلْ هُوَ إِلَّا مُضْغَةٌ مِنْهُ؟ أَوْ قَالَ: بَضْعَةٌ مِنْهُ" . . .» ”۔۔۔ طلق بن علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اتنے میں ایک شخص آیا وہ دیہاتی لگ رہا تھا، اس نے کہا: اللہ کے نبی! وضو کر لینے کے بعد آدمی کے اپنے عضو تناسل چھونے کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تو اسی کا ایک لوتھڑا ہے، یا کہا: ٹکڑا ہے۔“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 182]
تبصرہ: اولاً: یہ حدیث سستی کی حالت پر محمول ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان «انما هوا بضعة منك»”وہ تیرے جسم کا ٹکڑا ہے“ میں لطیف اشارہ ہے کہ سستی کی حالت میں وضو نہیں ٹوٹتا۔ کیونکہ اسی حالت کو ہی بدن کے دوسرے عضو سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اس کے برعکس اگر شہوت کی حالت میں ہاتھ لگ جائے تو اسے جسم کے دوسرے اجزا سے مشابہت نہیں کیونکہ بدن کے دوسرے اجزا میں شہوت نہیں آتی۔ یہ ایسی بین حقیقیت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ لہٰذا یہ حنفیہ کی قطعاً دلیل نہیں ہے۔ کیونکہ ان کے نزدیک دونوں صورتوں (شہوت اور بغیر شہوت کے) میں وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ جمع و تطبیق کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ شرمگاہ پر جب ہاتھ لگے اور اس پر کوئی کپڑا وغیرہ نہ ہو تو تب وضو ٹوٹ جاتا ہے اور جب کپڑا وغیرہ ہو تو، تب وضو نہیں ٹوٹتا۔ یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے۔
❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں: «قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا افضي احدكم بيده الي فرجه، وليس بينهما ستر ولا حجاب فليتوضاء» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص اپنا ہاتھ شرمگاہ کو پہنچائے اور (ہاتھ اور شرمگاہ) دونوں کے درمیان کوئی پردہ نہ ہو تو وہ وضو کرے۔“[صحيح ابن حبان رقم الحديث 1115]، [بيهقي ص 130، 131 ج 1]، [مستدرك حاكم ص 138 ج1]، [دارقطني ص 1447 ج1]، [طبراني صغير ح 110]، [طبراني الاوسط ح 8829، 6664، 8904] امام ابن حبان، امام حاکم، علامہ ذہنی نے صحیح اور ابن عبدالبر نے اس کی سند کو صالح کہا ہے۔
ثانیا: اگر اس جمع و تطبیق کو تسلیم نہ کیا جائے تب بھی ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں،کیونکہ سیدنا طلق رضی اللہ عنہ کی روایت میں منسوخ ہونے کا احتمال ہے کیونکہ طلق بن علی رضی اللہ عنہ کی حدیث پہلے کی ہے۔ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بعد کی ہے۔ اور حنفیہ کے نزدیک دو متعارض احادیث میں سے جو پہلے کی ہو گی وہ منسوخ ہوتی ہے۔ قواعد فی علوم الحدیث ص 47 لہذا حنفیہ کے اصول کے مطابق حدیث طلق بن علی رضی اللہ عنہ، منسوخ ہے۔
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «خبر طلق بن على الذى ذكرناه خبر منسوخ، لأن طلق بن على كان قدومه على النبى –صلى الله عليه وسلم- أول سنة من سني الهجرة، حيث كان المسلمون يبنون مسجد رسول الله –صلى الله عليه وسلم- بالمدينة، وقد روى أبو هريرة إيجاب الوضوء من مس الذكر على حسب ما ذكرناه قبل، وأبو هريرة أسلم سنة سبع من الهجرة، فدل ذلك على أن خبر أبى هريرة كان بعد خبر طلق بن على بسبع سنين» ”یعنی سیدنا طلق بن علی رضی اللہ عنہ کی روایت منسوخ ہے کیونکہ سیدنا طلق بن علی رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہجرت کے پہلے سال کے اوائل میں آئے جب مسلمان مسجد نبوی کی تعمیر کر رہے تھے، اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث وجوب وضو کی (بعد کی ہے)۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے سات ہجری میں اسلام قبول کیا تھا۔ تو یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سیدنا طلق رضی اللہ عنہ کی روایت کے سات سال بعد کی ہے۔“[صحيح ابن حبان زير رقم الحديث 1119] ↰ اس کے بعد امام ابن حبان صحیح سند کے ساتھ سیدنا طلق بن علی رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ لکھا ہے۔ وہ ہجرت کے پہلے سال کے ابتدا میں ہوا تھا، اور اسی موقعہ پر ہی انہوں نے مس ذکر سے وضو نہ ٹوٹنے کی حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی۔ جیسا کہ [سنن نسائي رقم الحديث 165] سے ثابت ہے۔
◈ مولانا عبدالحی لکھنوی حنفی فرماتے ہیں: «احتمام ان يكون طلقا سمع هذا الحديث بعد اسلام ابي هريرة مردود برواية النسائي فانها صريحة فى ان سماعه هذا الحديث كان فى يوم قدومه» ”یعنی یہ احتمال کہ سیدنا طلق رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی، مردود ہے روایت نسائی کی وجہ سے کیونکہ وہ اس بات پر صریح ہے کہ طلق بن علی رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث مدینہ آنے کے روز سنی تھی۔“[السعاية ص260 ج1] ↰ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ڈنکے کی چوٹ سے لکھا ہے: «والانصاف فى هذا البحث انه ان اختير طريق النسخ فالظاهر انتساخ حديث طلق لا العكس .» ”اس بحث میں انصاف یہ ہے کہ اگر نسخ کا طریقہ اختیار کیا جائے تو ظاہر یہ ہے کہ حدیث طلق منسوخ ہے نہ کہ اس کے برعکس۔“[التعليق الممجد: ص 55]
مولانا عبدالحیی لکھنوی رحمہ اللہ کا اعتراف حقیقت: مولانا عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ نے اس مسئلہ پر السعایۃ میں تقریبا بارہ صفحات پر مشتمل طویل بحث کی ہے۔ چنانچہ فریقین کے دلائل کا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: «قلت هذا تحقيق حقيق بالقبول فإنه بعد إدارة النظر من الجانبين يتحقق أن أحاديث النقض أكثر وأقوى من أحاديث الرخصة وأن أحاديث الرخصة متقدمة» میں کہتا ہوں کہ یہ تحقیق (کہ طلق بن علی کی روایت منسوخ ہے) قبولیت کی حق دار ہے کیونکہ جانبین کے دلائل دیکھنے کے بعد ثابت ہوتا ہے کہ وضو ٹوٹ جانے کی احادیث نہ ٹوٹنے کی احادیث سے تعداد میں زیادہ اور قوی ہیں اور نہ ٹوٹنے کی احادیث پہلے کی ہیں۔ [السعاية: ص 267 ج1]
اس کے بعد انہوں نے علامہ طحاوی اور عینی کے رویے کی سخت تردید کرتے ہوئے ان کی متعصّبانہ روش پر تعجب کا اظہار کیا جو قابل ذکر ہے، اور آخر میں صاف صاف لکھا کہ: «والحاصل ان كلمات القائلين بالنقض فى هذا الباب قوية وكلمات الطائفة الاخري لا توازيها فى القبول نعم فى مسالة نقض لمس امرآة كلاما القائلين بعد م النقض قوي لشهادة حجة من الاخبار والاثار بذلك فاعلم ذلك ولقد اطنبنا اكلام فى هاتين المسالتين ليتحقق الحق ويبطل الباطل ولو كره الكارهون وبالله اعتمدو عليه فليتوكل المتوكلون» خلاصہ کلام یہ کہ اس باب میں وضو ٹوٹ جانے والوں کی بات قوی ہے اور دوسری جماعت کی بات قبولیت میں ان کے برابر نہیں ہے۔ البتہ جو حضرات عورت کو چھونے سے وضو نہ ٹوٹنے کے قائل ہیں اخبار و آثار کی بناء پر ان کو قول قوی ہے اسے خوب سمجھ لو کہ ہم نے ان دونوں مسئلوں پر تفصیلاً کلام اس لئے کیا ہے کہ تاکہ حق واضح اور باطل کا بطلان ظاہر ہو جائے، اگرچہ ناپسند کرنے والے اسے ناپسند ہی جانیں، مجھے اللہ پر اعتماد ہے اور توکل کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ [السعاية ص 268 ج1]
حديث اور اهل تقليد ، حصہ اول، حدیث/صفحہ نمبر: 265
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 165
´عضو تناسل چھونے سے وضو نہ کرنے کا بیان۔` طلق بن علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک وفد کی شکل میں نکلے یہاں تک کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور ہم نے آپ سے بیعت کی اور آپ کے ساتھ نماز ادا کی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو ایک شخص جو دیہاتی لگ رہا تھا آیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ اس آدمی کے متعلق کیا فرماتے ہیں جو نماز میں اپنا عضو تناسل چھو لے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تمہارے جسم کا ایک ٹکڑا یا حصہ ہی تو ہے“۱؎۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 165]
165۔ اردو حاشیہ: ➊ روایت کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ شرم گاہ چھونے سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔ احناف نے اسی روایت کو دلیل بنا کر مس ذکر کو نواقض میں شمار نہیں کیا مگر یہ روایت بہت پہلے کی ہے کیونکہ حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ آئے تو مسجد نبوی تعمیر ہو رہی تھی۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے گارا بنانے کی خدمت بھی لی تھی۔ گویا یہ روایت ہجرت کے پہلے سال کی ہے اور بسرہ کی روایت بہت بعد کی ہے کیونکہ بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہ نے فتح مکہ والے سال 8 ہجری کو اسلام قبول کیا تھا، نیز حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ غزوُۂ خیبر کے سال 7 ہجری کو اسلام لائے ہیں، وہ بھی شرم گاہ چھونے سے وضو ٹوٹنے کا ذکر کرتے ہیں۔ بنابریں دلائل کے اعتبار سے یہی موقف راجح ہے کہ اگر کپڑے کے بغیر شرم گاہ کو چھویا جائے تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ حضرت ابوہریرہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی روایت میں اس بات کی صراحت موجود ہے۔ دیکھیے: [مسند أحمد: 333/2] علامہ صنعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت بسرہ والی روایت کی تائید دوسری احادیث سے بھی ہوتی ہے جنھیں سترہ (17) صحابہ بیان کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک راوی طلق بن علی بھی ہیں جن سے شرم گاہ چھونے سے وضو نہ ٹوٹنے کی روایت منقول ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: 362/3 - 372، تحت حدیث: 164] ➋ مرد اور عورت اس حکم میں برابر ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”جو مرد اور عورت اپنی شرم گاہ کو ہاتھ لگائے، اسے چاہیے کہ وضو کرے۔“[مسند أحمد: 333/2] ➌ اس مسئلے میں اگلی اور پچھلی شرم گاہ کا ایک ہی حکم ہے۔ ➍ اپنی شرم گاہ کی طرح دوسرے کی شرم کو ہاتھ لگانے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ ➎ عورتیں گھروں میں بچوں کو استنجا وغیرہ کراتی ہیں تو اس کے متعلق یہی موقف راجح ہے کہ اسے بھی ناقض وضو شمار کیا جائے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [المجموع: 30/2، والمغني: 244/1]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 165
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث483
´شرمگاہ چھونے پر وضو نہ کرنے کی رخصت کا بیان۔` طلق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: آپ سے شرمگاہ چھونے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: ”اس کے چھونے سے وضو نہیں ہے، وہ تو تمہارے جسم کا ایک حصہ ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 483]
اردو حاشہ: (1)(وهو منك) وہ تیرا ایک حصہ ہے یعنی جس طرح جسم کے کسی اور حصے کو ہاتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا اسی طرح پیشاب کے عضو کو ہاتھ لگانے سے بھی نہیں ٹوٹتا۔
(2) حضرت طلق رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث صحیح ہے۔ لیکن یہ حکم منسوخ ہے۔ حضرت طلق رضی اللہ عنہ ہجرت نبوی کے فوراًبعد مدینہ منورہ تشریف لائے تھے جب مسجد نبوی تعمیر ہورہی تھی۔ امام ابن حزم ؒ نے اس کو منسوخ قراردیتے ہوئےفرمایا ہے پہلی بات یہ ہے کہ اس حدیث میں مذکور حکم ہےاس صورت حال کے مطابق ہے جس پر عضو خاص کو چھونے سے وضو کا حکم آنے سے پہلے لوگ عمل پیرا تھےاور اس میں کوئی شک نہیں کہ جب تک کسی چیز کے ناقض ہونے کا حکم نازل نہ ہو۔ نبیﷺاس کی وجہ سے وضو کاحکم نہیں دے سکتے۔ جب یہ بات ہے تو پھرجب نبیﷺ نے وضو کا حکم دے دیا تو پہلا حکم یقیناً منسوخ ہوگیا۔ اور یقینی ناسخ حکم کو چھوڑکر یقینی منسوخ پر عمل کرنا جائز نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ نبیﷺ کے اس فرمان سےکہ وہ تیرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے واضح طور پر ثابت ہوتا ہےکہ یہ ارشاد وضو کا حکم آنے سے پہلے فرمایا گیا تھا کیونکہ اگر بعد کی بات ہوتی تو آپﷺ یہ الفاظ نہ فرماتے بلکہ بیان فرماتے کہ (وضو کرنے کا) وہ حکم منسوخ ہوچکا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بارے میں اس وقت کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا اس لیے عضو خاص کی حیثیت بھی دوسرے اعضاء کی سی تھی۔ (المحلي: 1؍239) بعض علماء نے دونوں روایات کے درمیان اس طرح بھی تطبیق دی ہے کہ جس روایت میں وضو نہ ٹوٹنے کا ذکر ہے۔ تو اس کا مطلب کپڑے کے اوپر سے ہاتھ لگنا ہے اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔ اور جس روایت میں وضو ٹوٹنے کاذکرہے، اس سے مراد بغیر کپڑے کے ہاتھ لگنا ہے اس صورت میں وضو ٹوٹ جائےگا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 483
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 85
´عضو تناسل کے چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔` طلق بن علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے (عضو تناسل کے سلسلے میں) فرمایا: ”یہ تو جسم ہی کا ایک لوتھڑا یا ٹکڑا ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 85]
اردو حاشہ: 1؎: اس حدیث اور پچھلی حدیث میں تعارض ہے، اس تعارض کو محدثین نے ایسے دور کیا ہے کہ طلق بن علی کی یہ روایت بسرہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے پہلے کی ہے، اس لیے طلق رضی اللہ عنہ کی حدیث منسوخ ہے، رہی ان تابعین کی بات جو عضو تناسل چھونے سے وضو ٹوٹنے کے قائل نہیں ہیں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کو بسرہ کی حدیث نہیں پہنچی ہوگی۔ کچھ علما نے اس تعارض کو ایسے دور کیا ہے کہ بسرہ کی حدیث بغیر کسی حائل (رکاوٹ) کے چھونے کے بارے میں ہے، اور طلق کی حدیث بغیر کسی حائل (پردہ) کے چھونے کے بارے میں ہے۔
2؎: طلق بن علی رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کے تمام طریق میں ملازم والا طریق سب سے بہتر ہے، نہ یہ کہ بسرہ کی حدیث سے طلق کی حدیث بہترہے۔ نوٹ: (سند میں قیس کے بارے میں قدرے کلام ہے، لیکن اکثرعلماء نے توثیق کی ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 85