ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو کھانے کی دعوت ملے تو اسے قبول کرے، اور اگر وہ روزہ سے ہو تو چاہیئے کہ دعا کرے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14433) (صحیح) وأخرجہ: کل من: صحیح مسلم/الصیام 28 (1150)، سنن ابی داود/ الصیام 75 (2460)، سنن ابن ماجہ/الصیام 47 (1750)، مسند احمد (2/242)، سنن الدارمی/الصیام 31 (1778)، من غیر ہذا الطریق۔»
وضاحت: ۱؎: یعنی صاحب طعام کے لیے برکت کی دعا کرے، کیونکہ طبرانی کی روایت میں ابن مسعود رضی الله عنہ سے وارد ہے جس میں «وإن كان صائما فليدع بالبركة» کے الفاظ آئے ہیں، باب کی حدیث میں «فلیصل» کے بعد «يعني الدعاء» کے جو الفاظ آئے ہیں یہ «فلیصل» کی تفسیر ہے جو خود امام ترمذی نے کی ہے یا کسی اور راوی نے، مطلب یہ ہے کہ یہاں نماز پڑھنا مراد نہیں بلکہ اس سے مراد دعا ہے، بعض لوگوں نے اسے ظاہر پر محمول کیا ہے، اس صورت میں اس حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرے اس کے گھر جائے اور گھر کے کسی کونے میں جا کر دو رکعت نماز پڑھے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلیم رضی الله عنہا کے گھر میں پڑھی تھی۔
(مرفوع) حدثنا ابو بكر محمد بن عبد الله بن بزيع، حدثنا بشر بن المفضل، حدثنا سعيد، عن قتادة، عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لو اهدي إلي كراع، لقبلت، ولو دعيت عليه، لاجبت ". قال: وفي الباب، عن علي، وعائشة، والمغيرة بن شعبة، وسلمان، ومعاوية بن حيدة، وعبد الرحمن بن علقمة. قال ابو عيسى: حديث انس حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ أُهْدِيَ إِلَيَّ كُرَاعٌ، لَقَبِلْتُ، وَلَوْ دُعِيتُ عَلَيْهِ، لَأَجَبْتُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، وَعَائِشَةَ، وَالْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، وَسَلْمَانَ، وَمُعَاوِيَةَ بْنِ حَيْدَةَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَلْقَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر مجھے کھر بھی ہدیہ کی جائے تو میں قبول کروں گا اور اگر مجھے اس کی دعوت دی جائے تو میں قبول کروں گا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی، عائشہ، مغیرہ بن شعبہ، سلمان، معاویہ بن حیدہ اور عبدالرحمٰن بن علقمہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں اس بات کی ترغیب ہے کہ غریب آدمی کی دعوت اور معمولی ہدیہ کو بھی قبول کیا جائے، اسے کم اور حقیر سمجھ کر رد نہ کیا جائے، اس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع اور سادگی کا بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ کتنے سادہ اور متواضع تھے، اپنے لیے آپ کسی تکلف اور اہتمام کو پسند نہیں فرماتے تھے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح صحيح الجامع (5257 و 5268)