(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا خالد بن زياد، عن مقاتل بن حيان، عن شهر بن حوشب، قال: رايت جرير بن عبد الله توضا ومسح على خفيه، قال: فقلت له في ذلك، فقال: " رايت النبي صلى الله عليه وسلم توضا فمسح على خفيه ". فقلت له: اقبل المائدة ام بعد المائدة، قال: ما اسلمت إلا بعد المائدة.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ مُقَاتِلِ بْنِ حَيَّانَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، قَالَ: رَأَيْتُ جَرِيرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ فِي ذَلِكَ، فَقَالَ: " رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ فَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ ". فَقُلْتُ لَهُ: أَقَبْلَ الْمَائِدَةِ أَمْ بَعْدَ الْمَائِدَةِ، قَالَ: مَا أَسْلَمْتُ إِلَّا بَعْدَ الْمَائِدَةِ.
شہر بن حوشب کہتے ہیں: میں نے جریر بن عبداللہ رضی الله عنہما کو دیکھا، انہوں نے وضو کیا اور موزوں پر مسح کیا۔ چنانچہ میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ نے وضو کیا اور اپنے دونوں موزوں پر مسح کیا۔ میں نے ان سے پوچھا: یہ سورۃ المائدہ کے نزدول سے پہلے کی بات ہے یا مائدہ کے بعد کی؟ تو انہوں نے کہا: میں نے مائدہ کے بعد ہی اسلام قبول کیا تھا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3213) (صحیح) (سند میں شہر بن حوشب کے اندر کلام ہے، لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: سورۃ المائدہ کے نازل ہونے کے پہلے یا بعد سے کا مطلب یہ تھا کہ وضو کا حکم سورۃ المائدہ ہی میں ہے، اس لیے اگر مسح کا معاملہ مائدہ کے نازل ہونے سے پہلے کا ہوتا تو کہا جا سکتا تھا کہ مائدہ کی آیت سے مسح منسوخ ہو گیا، مگر معاملہ یہ ہے کہ وضو کا حکم آ جانے کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پاؤں پر مسح کیا، اس سے ثابت ہوا کہ مسح کا معاملہ منسوخ نہیں ہوا۔
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا وكيع، عن الاعمش، عن ابي وائل، عن حذيفة، ان النبي صلى الله عليه وسلم " اتى سباطة قوم فبال عليها قائما، فاتيته بوضوء فذهبت لاتاخر عنه، فدعاني حتى كنت عند عقبيه، فتوضا ومسح على خفيه ". قال ابو عيسى: وسمعت الجارود، يقول: سمعت وكيعا يحدث بهذا الحديث , عن الاعمش، ثم قال وكيع: هذا اصح حديث روي عن النبي صلى الله عليه وسلم في المسح , وسمعت ابا عمار الحسين بن حريث، يقول: سمعت وكيعا فذكر نحوه. قال ابو عيسى: وهكذا روى منصور , وعبيدة الضبي، عن ابي وائل، عن حذيفة مثل رواية الاعمش، وروى حماد بن ابي سليمان , وعاصم بن بهدلة، عن ابي وائل، عن المغيرة بن شعبة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وحديث ابي وائل، عن حذيفة اصح، وقد رخص قوم من اهل العلم في البول قائما. قال ابو عيسى: وعبيدة بن عمرو السلماني روى عنه إبراهيم النخعي , وعبيدة من كبار التابعين، يروى عن عبيدة، انه قال: اسلمت قبل وفاة النبي صلى الله عليه وسلم بسنتين، وعبيدة الضبي صاحب إبراهيم هو عبيدة بن معتب الضبي، ويكنى: ابا عبد الكريم.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَتَى سُبَاطَةَ قَوْمٍ فَبَالَ عَلَيْهَا قَائِمًا، فَأَتَيْتُهُ بِوَضُوءٍ فَذَهَبْتُ لِأَتَأَخَّرَ عَنْهُ، فَدَعَانِي حَتَّى كُنْتُ عِنْدَ عَقِبَيْهِ، فَتَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وسَمِعْت الْجَارُودَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا يُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ , عَنْ الْأَعْمَشِ، ثُمَّ قَالَ وَكِيعٌ: هَذَا أَصَحُّ حَدِيثٍ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْحِ , وسَمِعْت أَبَا عَمَّارٍ الْحُسَيْنَ بْنَ حُرَيْثٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا فَذَكَرَ نَحْوَهُ. قال أبو عيسى: وَهَكَذَا رَوَى مَنْصُورٌ , وَعُبَيْدَةُ الضَّبِّيُّ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ مِثْلَ رِوَايَةِ الْأَعْمَشِ، وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ , وَعَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَدِيثُ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ أَصَحُّ، وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْبَوْلِ قَائِمًا. قال أبو عيسى: وَعَبِيدَةُ بْنُ عَمْرٍو السَّلْمَانِيُّ رَوَى عَنْهُ إِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ , وَعَبِيدَةُ مِنْ كِبَارِ التَّابِعِينَ، يُرْوَى عَنْ عَبِيدَةَ، أَنَّهُ قَالَ: أَسْلَمْتُ قَبْلَ وَفَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَنَتَيْنِ، وَعُبَيْدَةُ الضَّبِّيُّ صَاحِبُ إِبْرَاهِيمَ هُوَ عُبَيْدَةُ بْنُ مُعَتِّبٍ الضَّبِّيُّ، وَيُكْنَى: أَبَا عَبْدِ الْكَرِيمِ.
حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا گزر ایک قوم کے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر سے ہوا تو آپ نے اس پر کھڑے ہو کر پیشاب کیا، میں آپ کے لیے وضو کا پانی لایا، اسے رکھ کر میں پیچھے ہٹنے لگا، تو آپ نے مجھے اشارے سے بلایا، میں (آ کر) آپ کی ایڑیوں کے پاس کھڑا ہو گیا، آپ نے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- وکیع کہتے ہیں: یہ حدیث مسح کے سلسلہ میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے مروی حدیثوں میں سب سے زیادہ صحیح ہے۔ ۲- یہ حدیث بروایت مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ بھی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے مروی ہے ۱؎ ابووائل کی حدیث جسے انہوں نے حذیفہ سے روایت کیا (مغیرہ کی روایت سے) زیادہ صحیح ہے ۲؎، ۳- محدثین میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی اجازت دی ہے۔
وضاحت: ۱؎: یعنی حماد اور عاصم نے بھی ابووائل ہی سے روایت کی ہے مگر ابووائل نے حذیفہ کے علاوہ ”مغیرہ بن شعبہ“ رضی الله عنہ سے بھی روایت کیا ہے، ایسا اکثر ہوتا ہے کہ ایک راوی نے ایک حدیث دو دو راویوں سے روایت ہوتی ہے اس لیے ممکن ہے کہ ابووائل نے دونوں صحابیوں سے سنا ہو۔
۲؎: کیونکہ اعمش والی روایت صحیحین میں بھی ہے جبکہ عام والی روایت صرف ابن ماجہ میں ہے گرچہ وہ بھی صحیح ہے، (معاملہ صرف ”زیادہ صحیح“ ہونے کا ہے)۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، عن سفيان، عن علقمة بن مرثد، عن سليمان بن بريدة، عن ابيه، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يتوضا لكل صلاة، فلما كان عام الفتح صلى الصلوات كلها بوضوء واحد ومسح على خفيه , فقال عمر: إنك فعلت شيئا لم تكن فعلته. قال: " عمدا فعلته ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وروى هذا الحديث علي بن قادم، عن سفيان الثوري وزاد فيه: توضا مرة مرة، قال: وروى سفيان الثوري هذا الحديث ايضا، عن محارب بن دثار، عن سليمان بن بريدة، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يتوضا لكل صلاة , ورواه وكيع، عن سفيان، عن محارب، عن سليمان بن بريدة، عن ابيه، قال: ورواه عبد الرحمن بن مهدي وغيره، عن سفيان، عن محارب بن دثار، عن سليمان بن بريدة، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا، وهذا اصح من حديث وكيع، والعمل على هذا عند اهل العلم، انه يصلي الصلوات بوضوء واحد ما لم يحدث، وكان بعضهم يتوضا لكل صلاة، استحبابا وإرادة الفضل، ويروى عن الافريقي، عن ابي غطيف، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من توضا على طهر كتب الله له به عشر حسنات " , وهذا إسناد ضعيف وفي الباب عن جابر بن عبد الله، ان النبي صلى الله عليه وسلم صلى الظهر والعصر بوضوء واحد.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلَاةٍ، فَلَمَّا كَانَ عَامُ الْفَتْحِ صَلَّى الصَّلَوَاتِ كُلَّهَا بِوُضُوءٍ وَاحِدٍ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ , فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّكَ فَعَلْتَ شَيْئًا لَمْ تَكُنْ فَعَلْتَهُ. قَالَ: " عَمْدًا فَعَلْتُهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَلِيُّ بْنُ قَادِمٍ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَزَادَ فِيهِ: تَوَضَّأَ مَرَّةً مَرَّةً، قَالَ: وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ أَيْضًا، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلَاةٍ , وَرَوَاهُ وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُحَارِبٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: وَرَوَاهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ وَغَيْرُهُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ وَكِيعٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّهُ يُصَلِّي الصَّلَوَاتِ بِوُضُوءٍ وَاحِدٍ مَا لَمْ يُحْدِثْ، وَكَانَ بَعْضُهُمْ يَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلَاةٍ، اسْتِحْبَابًا وَإِرَادَةَ الْفَضْلِ، وَيُرْوَى عَنْ الْأَفْرِيقِيِّ، عَنْ أَبِي غُطَيْفٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ تَوَضَّأَ عَلَى طُهْرٍ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِهِ عَشْرَ حَسَنَاتٍ " , وَهَذَا إِسْنَادٌ ضَعِيفٌ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ بِوُضُوءٍ وَاحِدٍ.
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے، اور جب فتح مکہ کا سال ہوا تو آپ نے کئی نمازیں ایک وضو سے ادا کیں اور اپنے موزوں پر مسح کیا، عمر رضی الله عنہ نے عرض کیا کہ آپ نے ایک ایسی چیز کی ہے جسے کبھی نہیں کیا تھا؟ آپ نے فرمایا: ”میں نے اسے جان بوجھ کر کیا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور اس حدیث کو علی بن قادم نے بھی سفیان ثوری سے روایت کیا ہے اور انہوں نے اس میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ ”آپ نے اعضائے وضو کو ایک ایک بار دھویا“، ۳- سفیان ثوری نے بسند «محارب بن دثار عن سلیمان بن بریدہ»(مرسلاً روایت کیا ہے) کہ ”نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے“، ۴- اور اسے وکیع نے بسند «سفیان عن محارب عن سلیمان بن بریدہ عن بریدہ» سے روایت کیا ہے، ۵- نیز اسے عبدالرحمٰن بن مھدی وغیرہ نے بسند «سفیان عن محارب بن دثار عن سلیمان بن بریدہ» مرسلاً روایت کیا ہے، اور یہ روایت وکیع کی روایت سے زیادہ صحیح ہے ۱؎، ۶- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ ایک وضو سے کئی نمازیں ادا کی جا سکتی ہیں، جب تک «حدث» نہ ہو، ۷- بعض اہل علم استحباب اور فضیلت کے ارادہ سے ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے، ۸- نیز عبدالرحمٰن افریقی نے بسند «ابی غطیفعن ابن عمر» روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو وضو پر وضو کرے گا تو اس کی وجہ سے اللہ اس کے لیے دس نیکیاں لکھے گا“ اس حدیث کی سند ضعیف ہے، ۹- اس باب میں جابر بن عبداللہ سے بھی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ایک وضو سے ظہر اور عصر دونوں پڑھیں۔
وضاحت: ۱؎: یعنی عبدالرحمٰن بن مہدی وغیرہ کی یہ مرسل روایت جس میں سلیمان بن بریدہ کے والد کے واسطے کا ذکر نہیں ہے وکیع کی مسند روایت سے جس میں سلیمان بن بریدہ کے والد کے واسطے کا ذکر ہے زیادہ صحیح ہے کیونکہ اس کے رواۃ زیادہ ہیں، لیکن عبدالرحمٰن بن مہدی کی علقمہ کے طریق سے روایت مرفوع متصل ہے (جو مولف کی پہلی سند ہے) اور اس کے متصل ہونے میں سفیان کے کسی شاگرد کا اختلاف نہیں ہے جیسا کہ محارب والے طریق میں ہے، فافہم۔
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا وكيع، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن همام بن الحارث، قال: بال جرير بن عبد الله، ثم توضا ومسح على خفيه، فقيل له: اتفعل هذا؟ قال: وما يمنعني وقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعله. قال إبراهيم: وكان يعجبهم حديث جرير، لان إسلامه كان بعد نزول المائدة هذا قول إبراهيم يعني كان يعجبهم , قال: وفي الباب عن عمر، وعلي، وحذيفة، والمغيرة، وبلال، وسعد , وابي ايوب، وسلمان، وبريدة، وعمرو بن امية، وانس، وسهل بن سعد، ويعلى بن مرة، وعبادة بن الصامت، واسامة بن شريك، وابي امامة، وجابر، واسامة بن زيد، وابن عبادة، ويقال: ابن عمارة، وابي بن عمارة. قال ابو عيسى: وحديث جرير حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: بَالَ جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، ثُمَّ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ، فَقِيلَ لَهُ: أَتَفْعَلُ هَذَا؟ قَالَ: وَمَا يَمْنَعُنِي وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُ. قَالَ إِبْرَاهِيمُ: وَكَانَ يُعْجِبُهُمْ حَدِيثُ جَرِيرٍ، لِأَنَّ إِسْلَامَهُ كَانَ بَعْدَ نُزُولِ الْمَائِدَةِ هَذَا قَوْلُ إِبْرَاهِيمَ يَعْنِي كَانَ يُعْجِبُهُمْ , قال: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَحُذَيْفَةَ، وَالْمُغِيرَةِ، وَبِلَالٍ، وَسَعْدٍ , وَأَبِي أَيُّوبَ، وَسَلْمَانَ، وَبُرَيْدَةَ، وَعَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ، وَأَنَسٍ، وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، وَيَعْلَى بْنِ مُرَّةَ، وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، وَأُسَامَةَ بْنِ شَرِيكٍ، وَأَبِي أُمَامَةِ، وَجَابِرٍ، وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، وَابْنِ عُبَادَةَ، وَيُقَالُ: ابْنُ عِمَارَةَ، وَأُبَيُّ بْنُ عِمَارَةَ. قال أبو عيسى: وَحَدِيثُ جَرِيرٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ہمام بن حارث کہتے ہیں کہ جریر بن عبداللہ رضی الله عنہما نے پیشاب کیا پھر وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، ان سے کہا گیا: کیا آپ ایسا کر رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ مجھے اس کام سے کون سی چیز روک سکتی ہے جبکہ میں نے خود رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا ہے، ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ صحابہ کرام کو جریر رضی الله عنہ کی یہ حدیث اچھی لگتی تھی کیونکہ ان کا اسلام سورۃ المائدہ کے نزول کے بعد کا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جریر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمر، علی، حذیفہ، مغیرہ، بلال، ابوایوب، سلمان، بریدۃ، عمرو بن امیہ، انس، سہل بن سعد، یعلیٰ بن مرہ، عبادہ بن صامت، اسامہ بن شریک، ابوامامہ، جابر، اسامہ بن زید، ابن عبادۃ جنہیں ابن عمارہ اور ابی بن عمارہ بھی کہا جاتا ہے رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے موزوں پر مسح کا جواز ثابت ہوتا ہے، موزوں پر مسح کی احادیث تقریباً اسی (۸۰) صحابہ کرام سے آئی ہیں جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیں، علامہ ابن عبدالبر نے اس کے ثبوت پر اجماع نقل کیا ہے، امام کرخی کی رائے ہے کہ «مسح علی خفین»”موزوں پر مسح“ کی احادیث تواتر تک پہنچی ہیں اور جو لوگ ان کا انکار کرتے ہیں مجھے ان کے کفر کا اندیشہ ہے، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسح خفین کی حدیثیں آیت مائدہ سے منسوخ ہیں ان کا یہ قول درست نہیں کیونکہ «مسح علی خفین» کی حدیث کے راوی جریر رضی الله عنہ آیت مائدہ کے نزول کے بعد اسلام لائے، اس لیے یہ کہنا صحیح نہیں کہ یہ احادیث منسوخ ہیں بلکہ یہ آیت مائدہ کی مبیّن اور مخص ہیں، یعنی آیت میں پیروں کے دھونے کا حکم ان لوگوں کے ساتھ خاص ہے جو موزے نہ پہنے ہوں، رہا موزے پر مسح کا طریقہ تو اس کی صحیح صورت یہ ہے کہ ہاتھ کی پانچوں انگلیوں کو پانی سے بھگو کر ان کے پوروں کو پاؤں کی انگلیوں سے پنڈلی کے شروع تک کھینچ لیا جائے۔
(مرفوع) ويروى عن شهر بن حوشب، قال: رايت جرير بن عبد الله توضا ومسح على خفيه، فقلت له في ذلك، فقال: رايت النبي صلى الله عليه وسلم " توضا، ومسح على خفيه " , فقلت له: اقبل المائدة ام بعد المائدة؟ فقال: ما اسلمت إلا بعد المائدة. حدثنا بذلك قتيبة، حدثنا خالد بن زياد الترمذي، عن مقاتل بن حيان، عن شهر بن حوشب، عن جرير، قال: وروى بقية، عن إبراهيم بن ادهم، عن مقاتل بن حيان، عن شهر بن حوشب، عن جرير، وهذا حديث مفسر، لان بعض من انكر المسح على الخفين تاول ان مسح النبي صلى الله عليه وسلم على الخفين كان قبل نزول المائدة، وذكر جرير في حديثه، انه راى النبي صلى الله عليه وسلم مسح على الخفين بعد نزول المائدة.(مرفوع) وَيُرْوَى عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، قَالَ: رَأَيْتُ جَرِيرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ، فَقُلْتُ لَهُ فِي ذَلِكَ، فَقَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " تَوَضَّأَ، وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ " , فَقُلْتُ لَهُ: أَقَبْلَ الْمَائِدَةِ أَمْ بَعْدَ الْمَائِدَةِ؟ فَقَالَ: مَا أَسْلَمْتُ إِلَّا بَعْدَ الْمَائِدَةِ. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ زِيَادٍ التِّرْمِذِيُّ، عَنْ مُقَاتِلِ بْنِ حَيَّانَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ جَرِيرٍ، قال: وَرَوَى بَقِيَّةُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَدْهَمَ، عَنْ مُقَاتِلِ بْنِ حَيَّانَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ جَرِيرٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ مُفَسَّرٌ، لِأَنَّ بَعْضَ مَنْ أَنْكَرَ الْمَسْحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ تَأَوَّلَ أَنَّ مَسْحَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْخُفَّيْنِ كَانَ قَبْلَ نُزُولِ الْمَائِدَةِ، وَذَكَرَ جَرِيرٌ فِي حَدِيثِهِ، أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ بَعْدَ نُزُولِ الْمَائِدَةِ.
شہر بن حوشب کہتے ہیں کہ میں نے جریر بن عبداللہ رضی الله عنہما کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، میں نے جب ان سے اس سلسلے میں بات کی تو انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، میں نے ان سے پوچھا: آپ کا یہ عمل سورۃ المائدہ کے نزول سے پہلے کا ہے، یا بعد کا؟ تو کہا: میں تو سورۃ المائدہ اترنے کے بعد ہی اسلام لایا ہوں، یہ حدیث آیت وضو کی تفسیر کر رہی ہے اس لیے کہ جن لوگوں نے موزوں پر مسح کا انکار کیا ہے ان میں سے بعض نے یہ تاویل کی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے موزوں پر جو مسح کیا تھا وہ آیت مائدہ کے نزول سے پہلے کا تھا، جبکہ جریر رضی الله عنہ نے اپنی روایت میں ذکر کیا ہے کہ انہوں نے نزول مائدہ کے بعد نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3213) (صحیح) (سند میں شہر بن حوشب میں کلام ہے، لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، الإرواء 1/137)»
(مرفوع) حدثنا ابو الوليد الدمشقي، حدثنا الوليد بن مسلم، اخبرني ثور بن يزيد، عن رجاء بن حيوة، عن كاتب المغيرة، عن المغيرة بن شعبة، ان النبي صلى الله عليه وسلم " مسح اعلى الخف واسفله ". قال ابو عيسى: وهذا قول غير واحد من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ومن بعدهم من الفقهاء، وبه يقول مالك، والشافعي، وإسحاق، وهذا معلول لم يسنده عن ثور بن يزيد غير الوليد بن مسلم. قال ابو عيسى: وسالت ابا زرعة، ومحمد بن إسماعيل عن هذا الحديث، فقالا: ليس بصحيح، لان ابن المبارك روى هذا عن ثور، عن رجاء بن حيوة، قال: حدثت عن كاتب المغيرة مرسل، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ولم يذكر فيه المغيرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، أَخْبَرَنِي ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ، عَنْ كَاتِبِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " مَسَحَ أَعْلَى الْخُفِّ وَأَسْفَلَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنَ الْفُقَهَاءِ، وَبِهِ يَقُولُ مَالِكٌ، وَالشَّافِعِيُّ، وَإِسْحَاق، وَهَذَا مَعْلُولٌ لَمْ يُسْنِدْهُ عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ غَيْرُ الْوَلِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَسَأَلْتُ أَبَا زُرْعَةَ، وَمُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَا: لَيْسَ بِصَحِيحٍ، لِأَنَّ ابْنَ الْمُبَارَكِ رَوَى هَذَا عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ، قَالَ: حُدِّثْتُ عَنْ كَاتِبِ الْمُغِيرَةِ مُرْسَلٌ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يُذْكَرْ فِيهِ الْمُغِيرَةُ.
مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے موزے کے اوپر اور نیچے دونوں جانب مسح کیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد کے فقہاء میں سے بہت سے لوگوں کا یہی قول ہے اور مالک، شافعی اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں، ۲- یہ حدیث معلول ہے۔ میں نے ابوزرعہ اور محمد بن اسماعیل (بخاری) سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو ان دونوں نے کہا کہ یہ صحیح نہیں ہے ۲؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطہارة 63 (165)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 85 (550)، (تحفة الأشراف: 11537) (ضعیف) (سند میں انقطاع ہے، راوی ثور بن یزید کا رجاء بن حیوہ سے سماع نہیں ہے، اسی طرح ابو زرعہ اور بخاری کہتے ہیں کہ حیوہ کا بھی کاتب مغیرہ بن شعبہ کا وراد سے سماع نہیں ہے، نیز یہ کاتب مغیرہ کی مرسل روایت ثابت ہے۔) نوٹ: ابن ماجہ (550) ابوداود (165) میں غلطی سے موطأ، مسند احمد اور دارمی کا حوالہ آ گیا ہے، جب کہ ان کتابوں میں مسح سے متعلق مغیرہ بن شعبہ کی متفق علیہ حدیث آئی ہے جس میں اوپر نیچے کی صراحت نہیں ہے، ہاں آگے آنے والی حدیث (98) میں مغیرہ سے صراحت کہ انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو اوپری حصے پر مسح کرتے دیکھا۔»
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے موزوں کے اوپر اور نیچے دونوں جانب مسح کیا لیکن یہ روایت ضعیف ہے جیسا کہ امام ترمذی نے خود اس کی صراحت کر دی ہے۔
۲؎: مولف نے یہاں حدیث علت کی واضح فرمائی ہے ان سب کا ماحصل یہ ہے کہ یہ حدیث مغیرہ کی سند میں سے نہیں بلکہ کاتب مغیرہ (تابعی) سے مرسلاً مروی ہے، ولید بن مسلم کو اس سلسلے میں وہم ہوا ہے کہ انہوں نے اسے مغیرہ کی مسند میں سے روایت کر دیا ہے، ترمذی نے «لم یسندہ عن ثوربن یزید غیر الولید بن مسلم» کہہ کر اسی کی وضاحت ہے۔ مغیرہ رضی الله عنہ سے مسنداً روایت اس کے برخلاف ہے جو آگے آ رہی ہے اور وہ صحیح ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (550)، //، ضعيف أبي داود (30 / 165)، المشكاة (521)، ضعيف سنن ابن ماجة (120) //
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف / د 165، جه 550
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، قال: حدثنا عبد الرحمن بن ابي الزناد، عن ابيه، عن عروة بن الزبير، عن المغيرة بن شعبة، قال: رايت النبي صلى الله عليه وسلم " يمسح على الخفين على ظاهرهما ". قال ابو عيسى: حديث المغيرة حسن، وهو حديث عبد الرحمن بن ابي الزناد، عن ابيه، عن عروة، عن المغيرة، ولا نعلم احدا يذكر، عن عروة، عن المغيرة على ظاهرهما غيره، وهو قول غير واحد من اهل العلم، وبه يقول سفيان الثوري واحمد، قال محمد: وكان مالك بن انس يشير بعبد الرحمن بن ابي الزناد.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَمْسَحُ عَلَى الْخُفَّيْنِ عَلَى ظَاهِرِهِمَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْمُغِيرَةِ حَسَنٌ، وَهُوَ حَدِيثُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ الْمُغِيرَةِ، وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا يَذْكُرُ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ الْمُغِيرَةِ عَلَى ظَاهِرِهِمَا غَيْرَهُ، وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَأَحْمَدُ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَكَانَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ يُشِيرُ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الزِّنَادِ.
مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو موزوں کے اوپری حصے پر مسح کرتے دیکھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- مغیرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- عبدالرحمٰن بن ابی الزناد کے علاوہ میں کسی اور کو نہیں جانتا جس نے بسند «عروہ عن مغیرہ» دونوں موزوں کے ”اوپری حصہ“ پر مسح کا ذکر کرتا ہو ۲؎ اور یہی کئی اہل علم کا قول ہے اور یہی سفیان ثوری اور احمد بھی کہتے ہیں۔
(مرفوع) حدثنا هناد , ومحمود بن غيلان , قالا: حدثنا وكيع، عن سفيان، عن ابي قيس، عن هزيل بن شرحبيل، عن المغيرة بن شعبة، قال: " توضا النبي صلى الله عليه وسلم ومسح على الجوربين والنعلين ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وهو قول غير واحد من اهل العلم، وبه يقول سفيان الثوري، وابن المبارك، والشافعي، واحمد، وإسحاق، قالوا: يمسح على الجوربين وإن لم تكن نعلين إذا كانا ثخينين , قال: وفي الباب عن ابي موسى. قال ابو عيسى: سمعت صالح بن محمد الترمذي قال: سمعت ابا مقاتل السمرقندي، يقول: دخلت على ابي حنيفة في مرضه الذي مات فيه، فدعا بماء فتوضا وعليه جوربان، فمسح عليهما، ثم قال: فعلت اليوم شيئا لم اكن افعله، مسحت على الجوربين وهما غير منعلين.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ , وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ , قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ، عَنْ هُزَيْلِ بْنِ شُرَحْبِيلَ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: " تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَسَحَ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ وَالنَّعْلَيْنِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، قَالُوا: يَمْسَحُ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ وَإِنْ لَمْ تَكُنْ نَعْلَيْنِ إِذَا كَانَا ثَخِينَيْنِ , قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي مُوسَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: سَمِعْت صَالِحَ بْنَ مُحَمَّدٍ التِّرْمِذِيَّ قَال: سَمِعْتُ أَبَا مُقَاتِلٍ السَّمَرْقَنْدِيَّ، يَقُولُ: دَخَلْتُ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، فَدَعَا بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ وَعَلَيْهِ جَوْرَبَانِ، فَمَسْحَ عَلَيْهِمَا، ثُمَّ قَالَ: فَعَلْتُ الْيَوْمَ شَيْئًا لَمْ أَكُنْ أَفْعَلُهُ، مَسَحْتُ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ وَهُمَا غَيْرُ مُنَعَّلَيْنِ.
مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے وضو کیا اور موزوں اور جوتوں پر مسح کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- کئی اہل علم کا یہی قول ہے اور سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں کہ پاتابوں پر مسح کرے گرچہ جوتے نہ ہوں جب کہ پاتا بے موٹے ہوں، ۳- اس باب میں ابوموسیٰ رضی الله عنہ سے بھی روایت آئی ہے، ۴- ابومقاتل سمرقندی کہتے ہیں کہ میں ابوحنیفہ کے پاس ان کی اس بیماری میں گیا جس میں ان کی وفات ہوئی تو انہوں نے پانی منگایا، اور وضو کیا، وہ پاتا بے پہنے ہوئے تھے، تو انہوں نے ان پر مسح کیا، پھر کہا: آج میں نے ایسا کام کیا ہے جو میں نہیں کرتا تھا۔ میں نے پاتابوں پر مسح کیا ہے حالانکہ میں نے جوتیاں نہیں پہن رکھیں۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد القطان، عن سليمان التيمي، عن بكر بن عبد الله المزني، عن الحسن، عن ابن المغيرة بن شعبة، عن ابيه، قال: " توضا النبي صلى الله عليه وسلم ومسح على الخفين والعمامة ". قال بكر: وقد سمعته من ابن المغيرة، قال: وذكر محمد بن بشار في هذا الحديث في موضع آخر، انه مسح على ناصيته وعمامته، وقد روي هذا الحديث من غير وجه، عن المغيرة بن شعبة، ذكر بعضهم المسح على الناصية والعمامة، ولم يذكر بعضهم الناصية، وسمعت احمد بن الحسن، يقول: سمعت احمد بن حنبل، يقول: ما رايت بعيني مثل يحيى بن سعيد القطان. قال: وفي الباب عن عمرو بن امية , وسلمان , وثوبان , وابي امامة. قال ابو عيسى: حديث المغيرة بن شعبة حسن صحيح، وهو قول غير واحد من اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، منهم ابو بكر، وعمر , وانس، وبه يقول الاوزاعي , واحمد , وإسحاق، قالوا: يمسح على العمامة , وقال غير واحد من اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين: " لا يمسح على العمامة إلا براسه مع العمامة " , وهو قول سفيان الثوري، ومالك بن انس، وابن المبارك، والشافعي. قال ابو عيسى: وسمعت الجارود بن معاذ، يقول: سمعت وكيع بن الجراح، يقول: إن مسح على العمامة يجزئه للاثر.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيِّ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ ابْنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قال: " تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ وَالْعِمَامَةِ ". قَالَ بَكْرٌ: وَقَدْ سَمِعْتُهُ مِنَ ابْنِ الْمُغِيرَةِ، قَالَ: وَذَكَرَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ، أَنَّهُ مَسَحَ عَلَى نَاصِيَتِهِ وَعِمَامَتِهِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، ذَكَرَ بَعْضُهُمُ الْمَسْحَ عَلَى النَّاصِيَةِ وَالْعِمَامَةِ، وَلَمْ يَذْكُرْ بَعْضُهُمُ النَّاصِيَةَ، وسَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، يَقُولُ: مَا رَأَيْتُ بِعَيْنِي مِثْلَ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَمْرِو بْنِ أُمَيَّةِ , وَسَلْمَانَ , وَثَوْبَانَ , وَأَبِي أُمَامَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْهُمْ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ , وَأَنَسٌ، وَبِهِ يَقُولُ الْأَوْزَاعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق، قَالُوا: يَمْسَحُ عَلَى الْعِمَامَةِ , وقَالَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ: " لَا يَمْسَحُ عَلَى الْعِمَامَةِ إِلَّا بِرَأْسِهِ مَعَ الْعِمَامَةِ " , وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وسَمِعْت الْجَارُودَ بْنَ مُعَاذٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعَ بْنَ الْجَرَّاحِ، يَقُولُ: إِنْ مَسَحَ عَلَى الْعِمَامَةِ يُجْزِئُهُ لِلْأَثَرِ.
مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے وضو کیا اور دونوں موزوں اور عمامے پر مسح کیا۔ محمد بن بشار نے ایک دوسری جگہ اس حدیث میں یہ ذکر کیا ہے کہ ”آپ نے اپنی پیشانی اور اپنے عمامے پر مسح کیا“، یہ حدیث اور بھی کئی سندوں سے مغیرہ بن شعبہ سے روایت کی گئی ہے، ان میں سے بعض نے پیشانی اور عمامے پر مسح کا ذکر کیا ہے اور بعض نے پیشانی کا ذکر نہیں کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمرو بن امیہ، سلمان، ثوبان اور ابوامامہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام میں سے کئی اہل علم کا بھی یہی قول ہے۔ ان میں سے ابوبکر، عمر اور انس رضی الله عنہم ہیں اور اوزاعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں کہ عمامہ پر مسح کرے، صحابہ کرام اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم کا کہنا ہے کہ عمامہ پر مسح نہیں سوائے اس صورت کے کہ عمامہ کے ساتھ (کچھ) سر کا بھی مسح کرے۔ سفیان ثوری، مالک بن انس، ابن مبارک اور شافعی اسی کے قائل ہیں، ۴- وکیع بن جراح کہتے ہیں کہ اگر کوئی عمامے پر مسح کر لے تو حدیث کی رو سے یہ اسے کافی ہو گا۔