(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ابو عوانة، عن سماك بن حرب. ح وحدثنا هناد، حدثنا وكيع، عن إسرائيل، عن سماك، عن مصعب بن سعد، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لا تقبل صلاة بغير طهور ولا صدقة من غلول". قال هناد في حديثه:" إلا بطهور". قال ابو عيسى: هذا الحديث اصح شيء في هذا الباب واحسن , وفي الباب عن ابي المليح، عن ابيه , وابي هريرة , وانس , وابو المليح بن اسامة اسمه عامر، ويقال: زيد بن اسامة بن عمير الهذلي.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ. ح وحَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تُقْبَلُ صَلَاةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ وَلَا صَدَقَةٌ مِنْ غُلُولٍ". قَالَ هَنَّادٌ فِي حَدِيثِهِ:" إِلَّا بِطُهُورٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا الْحَدِيثُ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَحْسَنُ , وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، عَنْ أَبِيهِ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ , وَأَنَسٍ , وَأَبُو الْمَلِيحِ بْنُ أُسَامَةَ اسْمُهُ عَامِرٌ، وَيُقَالُ: زَيْدُ بْنُ أُسَامَةَ بْنِ عُمَيْرٍ الْهُذَلِيُّ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز بغیر وضو کے قبول نہیں کی جاتی ۲؎ اور نہ صدقہ حرام مال سے قبول کیا جاتا ہے۔“
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں یہ حدیث سب سے صحیح اور حسن ہے ۳؎۔ ۲- اس باب میں ابوالملیح کے والد اسامہ، ابوہریرہ اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: طہارت کا لفظ عام ہے وضو اور غسل دونوں کو شامل ہے، یعنی نماز کے لیے حدث اکبر اور اصغر دونوں سے پاکی ضروری ہے، نیز یہ بھی واضح ہے کہ دونوں حدثوں سے پاکی (معنوی پاکی) کے ساتھ ساتھ حسّی پاکی (مکان، بدن اور کپڑا کی پاکی) بھی ضروری ہے، نیز دیگر شرائط نماز بھی، جیسے رو بقبلہ ہونا، یہ نہیں کہ صرف حدث اصغر و اکبر سے پاکی کے بعد مذکورہ شرائط کے پورے کئے بغیر صلاۃ ہو جائے گی۔
۲؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز کی صحت کے لیے وضو شرط ہے خواہ نفل ہو یا فرض، یا نماز جنازہ۔
۳؎: ”یہ حدیث اس باب میں سب سے صحیح اور حسن ہے“ اس عبارت سے حدیث کی صحت بتانا مقصود نہیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ اس باب میں یہ روایت سب سے بہتر ہے خواہ اس میں ضعف ہی کیوں نہ ہو، یہ حدیث صحیح مسلم میں ہے اس باب میں سب سے صحیح حدیث ابوہریرہ رضی الله عنہ کی ہے جو صحیحین میں ہے (بخاری: الوضوء باب ۲، (۱۳۵) و مسلم: الطہارۃ ۲ (۲۷۵) اور مولف کے یہاں بھی آ رہی ہے (رقم ۷۶) نیز یہ بھی واضح رہے کہ امام ترمذی کے اس قول ”اس باب میں فلاں فلاں سے بھی حدیث آئی ہے“ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس باب میں اس صحابی سے جن الفاظ کے ساتھ روایت ہے ٹھیک انہی الفاظ کے ساتھ ان صحابہ سے بھی روایت ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس مضمون و معنی کی حدیث فی الجملہ ان صحابہ سے بھی ہے۔
(مرفوع) حدثنا هناد , حدثنا محمد بن فضيل، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن للصلاة اولا وآخرا، وإن اول وقت صلاة الظهر حين تزول الشمس، وآخر وقتها حين يدخل وقت العصر، وإن اول وقت صلاة العصر حين يدخل وقتها، وإن آخر وقتها حين تصفر الشمس، وإن اول وقت المغرب حين تغرب الشمس، وإن آخر وقتها حين يغيب الافق، وإن اول وقت العشاء الآخرة حين يغيب الافق، وإن آخر وقتها حين ينتصف الليل، وإن اول وقت الفجر حين يطلع الفجر، وإن آخر وقتها حين تطلع الشمس ". قال: وفي الباب عن عبد الله بن عمرو. قال ابو عيسى: وسمعت محمدا يقول: حديث الاعمش، عن مجاهد في المواقيت اصح من حديث محمد بن فضيل، عن الاعمش، وحديث محمد بن فضيل خطا، اخطا فيه محمد بن فضيل، حدثنا هناد، حدثنا ابو اسامة، عن ابي إسحاق الفزاري، عن الاعمش، عن مجاهد , قال: كان يقال: إن للصلاة اولا وآخرا، فذكر نحو حديث محمد بن فضيل، عن الاعمش نحوه بمعناه.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ لِلصَّلَاةِ أَوَّلًا وَآخِرًا، وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ صَلَاةِ الظُّهْرِ حِينَ تَزُولُ الشَّمْسُ، وَآخِرَ وَقْتِهَا حِينَ يَدْخُلُ وَقْتُ الْعَصْرِ، وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ صَلَاةِ الْعَصْرِ حِينَ يَدْخُلُ وَقْتُهَا، وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِهَا حِينَ تَصْفَرُّ الشَّمْسُ، وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ الْمَغْرِبِ حِينَ تَغْرُبُ الشَّمْسُ، وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِهَا حِينَ يَغِيبُ الْأُفُقُ، وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ حِينَ يَغِيبُ الْأُفُقُ، وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِهَا حِينَ يَنْتَصِفُ اللَّيْلُ، وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ الْفَجْرِ حِينَ يَطْلُعُ الْفَجْرُ، وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِهَا حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: وسَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: حَدِيثُ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ فِي الْمَوَاقِيتِ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، وَحَدِيثُ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ خَطَأٌ، أَخْطَأَ فِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق الْفَزَارِيِّ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ , قَالَ: كَانَ يُقَالُ: إِنَّ لِلصَّلَاةِ أَوَّلًا وَآخِرًا، فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز کا ایک اول وقت ہے اور ایک آخری وقت، ظہر کا اول وقت وہ ہے جب سورج ڈھل جائے اور اس کا آخری وقت وہ ہے جب عصر کا وقت شروع ہو جائے، اور عصر کا اول وقت وہ ہے جب عصر کا وقت (ایک مثل سے) شروع ہو جائے اور آخری وقت وہ ہے جب سورج پیلا ہو جائے، اور مغرب کا اول وقت وہ ہے جب سورج ڈوب جائے اور آخری وقت وہ ہے جب شفق ۱؎ غائب ہو جائے، اور عشاء کا اول وقت وہ ہے جب شفق غائب ہو جائے اور اس کا آخر وقت وہ ہے جب آدھی رات ہو جائے ۲؎، اور فجر کا اول وقت وہ ہے جب فجر (صادق) طلوع ہو جائے اور آخری وقت وہ ہے جب سورج نکل جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت آئی ہے، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ اوقات کے سلسلہ میں اعمش کی مجاہد سے روایت محمد بن فضیل کی اعمش سے روایت سے زیادہ صحیح ہے، محمد بن فضیل کی حدیث غلط ہے اس میں محمد بن فضیل سے چوک ہوئی ہے ۳؎، اس روایت کو ابواسحاق فزاری نے اعمش سے اور اعمش نے مجاہد سے روایت کیا ہے، مجاہد کہتے ہیں کہ کہا جاتا تھا کہ نماز کا ایک اول وقت ہے اور ایک آخر وقت ہے، پھر محمد بن فضیل والی سابقہ حدیث کی طرح اسی کے ہم معنی کی حدیث بیان کی۔
وضاحت: ۱؎: حدیث میں لفظ «افق» ہے جس سے مراد شفق ہے، یعنی سورج کی سرخی اندھیرے میں گم ہو جائے۔
۲؎: یہ وقت اختیاری ہے رہا، وقت جواز تو یہ صبح صادق کے طلوع ہونے تک ہے کیونکہ ابوقتادہ کی حدیث میں ہے «ليس في النوم تفريط إنما التفريط على من لم يصل الصلاة حتى يجيء وقت الصلاة الأخرى»
۳؎: کیونکہ محمد بن فضیل نے یوں روایت کی ہے «عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة» جبکہ صحیح یوں ہے: «عن الأعمش عن مجاهد قوله» یعنی: اس روایت کا مجاہد کا قول ہونا زیادہ صحیح ہے، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے مرفوع قول ہونے سے۔