Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: طہارت کے احکام و مسائل
1. بَابُ مَا جَاءَ لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ2
باب: وضو (طہارت) کے بغیر نماز مقبول نہ ہونے کا بیان۔3
حدیث نمبر: 1
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ. ح وحَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تُقْبَلُ صَلَاةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ وَلَا صَدَقَةٌ مِنْ غُلُولٍ". قَالَ هَنَّادٌ فِي حَدِيثِهِ:" إِلَّا بِطُهُورٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا الْحَدِيثُ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَحْسَنُ , وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، عَنْ أَبِيهِ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ , وَأَنَسٍ , وَأَبُو الْمَلِيحِ بْنُ أُسَامَةَ اسْمُهُ عَامِرٌ، وَيُقَالُ: زَيْدُ بْنُ أُسَامَةَ بْنِ عُمَيْرٍ الْهُذَلِيُّ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: نماز بغیر وضو کے قبول نہیں کی جاتی ۲؎ اور نہ صدقہ حرام مال سے قبول کیا جاتا ہے۔‏‏‏‏
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں یہ حدیث سب سے صحیح اور حسن ہے ۳؎۔
۲- اس باب میں ابوالملیح کے والد اسامہ، ابوہریرہ اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الطہارة 2 (224) سنن ابن ماجہ/الطہارة 2 (272) (تحفة الأشراف: 7457) مسند احمد (202، 39، 51، 57، 73) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: طہارت کا لفظ عام ہے وضو اور غسل دونوں کو شامل ہے، یعنی نماز کے لیے حدث اکبر اور اصغر دونوں سے پاکی ضروری ہے، نیز یہ بھی واضح ہے کہ دونوں حدثوں سے پاکی (معنوی پاکی) کے ساتھ ساتھ حسّی پاکی (مکان، بدن اور کپڑا کی پاکی) بھی ضروری ہے، نیز دیگر شرائط نماز بھی، جیسے رو بقبلہ ہونا، یہ نہیں کہ صرف حدث اصغر و اکبر سے پاکی کے بعد مذکورہ شرائط کے پورے کئے بغیر صلاۃ ہو جائے گی۔
۲؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز کی صحت کے لیے وضو شرط ہے خواہ نفل ہو یا فرض، یا نماز جنازہ۔
۳؎: یہ حدیث اس باب میں سب سے صحیح اور حسن ہے اس عبارت سے حدیث کی صحت بتانا مقصود نہیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ اس باب میں یہ روایت سب سے بہتر ہے خواہ اس میں ضعف ہی کیوں نہ ہو، یہ حدیث صحیح مسلم میں ہے اس باب میں سب سے صحیح حدیث ابوہریرہ رضی الله عنہ کی ہے جو صحیحین میں ہے (بخاری: الوضوء باب ۲، (۱۳۵) و مسلم: الطہارۃ ۲ (۲۷۵) اور مولف کے یہاں بھی آ رہی ہے (رقم ۷۶) نیز یہ بھی واضح رہے کہ امام ترمذی کے اس قول اس باب میں فلاں فلاں سے بھی حدیث آئی ہے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس باب میں اس صحابی سے جن الفاظ کے ساتھ روایت ہے ٹھیک انہی الفاظ کے ساتھ ان صحابہ سے بھی روایت ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس مضمون و معنی کی حدیث فی الجملہ ان صحابہ سے بھی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (272)

قال الشيخ زبير على زئي: بخاری و مسلم

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1 کے فوائد و مسائل
  الشيخ ڈاكٹر عبد الرحمٰن فريوائي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ترمذي، تحت الحديث1  
اردو حاشہ:
1؎:
طہارت کا لفظ عام ہے وضو اور غسل دونوں کو شامل ہے،
یعنی نماز کے لیے حدثِ اکبر اور اصغر دونوں سے پاکی ضروری ہے،
نیز یہ بھی واضح ہے کہ دونوں حدَثوں سے پاکی (معنوی پاکی) کے ساتھ ساتھ حسّی پاکی (مکان،
بدن اور کپڑا کی پاکی)
بھی ضروری ہے،
نیز دیگر شرائط نماز بھی،
جیسے رو بقبلہ ہونا،
یہ نہیں کہ صرف حدث اصغر و اکبر سے پاکی کے بعد مذکورہ شرائط کے پورے کئے بغیر نماز ہو جائیگی۔

2؎:
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز کی صحت کے لیے وضو شرط ہے خواہ نفل ہو یا فرض،
یا نماز جنازہ۔

3؎:
 یہ حدیث اس باب میں سب سے صحیح اور حسن ہے اس عبارت سے حدیث کی صحت بتانا مقصود نہیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ اس باب میں یہ روایت سب سے بہتر ہے خواہ اس میں ضعف ہی کیوں نہ ہو،
یہ حدیث صحیح مسلم میں ہے اس باب میں سب سے صحیح حدیث ابوہریرہؓ کی ہے جو صحیحین میں ہے (بخاری:
الوضوء باب 135/2 ومسلم:
الطہارۃ 275/2)
اور مؤلف کے یہاں بھی آرہی ہے (رقم: 76) نیز یہ بھی واضح رہے کہ امام ترمذیؒ کے اس قول اس باب میں فلاں فلاں سے بھی حدیث آئی ہے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اِس باب میں اس صحابی سے جن الفاظ کے ساتھ روایت ہے ٹھیک انہی الفاظ کے ساتھ اُن صحابہ سے بھی روایت ہے،
بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس مضمون و معنی کی حدیث فی الجملہ اُن صحابہ سے بھی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 535  
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ابنِ عامر کے پاس ان کی بیماری کی عیادت کے لیے گئے۔ ابن عامر نے کہا: اے ابنِ عمر! کیا آپ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کریں گے؟ عبداللہ ؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فر رہے تھے: کوئی نماز پاکیزگی کے بغیر قبول نہیں ہوتی اور نہ کوئی صدقہ خیانت کی صورت میں۔ اور آپ بصرہ کے حاکم رہ چکے ہیں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:535]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
غُلُولٌ:
اصل میں غنیمت میں خیانت کو کہتے ہیں،
پھر اس کا اطلاق ہر قسم کی خیانت پر ہونے لگا۔
فوائد ومسائل:
حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے زجر وتوبیخ کے لیے ابن عامر سے کہا:
آپ حاکم بصرہ رہ چکے ہیں اور حاکم سے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجاتی ہے،
اور بیت المال کے سلسلہ میں بھی کوتاہی ہو سکتی ہے،
اس لیے ایسے فرد کے بارے میں دعا کی قبولیت مشکل ہوتی ہے،
اس لیے آپ توبہ واستغفار کریں اور حق تلفی کے ازالہ کی کوشش کریں،
تاکہ تیرے حق میں دعا قبول ہو۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 535