عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم وضو کرو تو اپنے ہاتھوں اور پیروں کی انگلیوں کے بیچ خلال کرو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطہارة 54 (447) (تحفة الأشراف: 5685) (حسن صحیح) (سند میں صالح مولی التوامہ مختلط راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)»
(مرفوع) حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا إبراهيم بن موسى الرازي، حدثنا خالد بن عبد الله، عن عمرو بن يحيى، عن ابيه، عن عبد الله بن زيد، قال: " رايت النبي صلى الله عليه وسلم مضمض واستنشق من كف واحد، فعل ذلك ثلاثا ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن عبد الله بن عباس. قال ابو عيسى: وحديث عبد الله بن زيد حسن غريب، وقد روى مالك , وابن عيينة وغير واحد هذا الحديث، عن عمرو بن يحيى، ولم يذكروا هذا الحرف ان النبي صلى الله عليه وسلم مضمض واستنشق من كف واحد , وإنما ذكره خالد بن عبد الله، وخالد بن عبد الله ثقة حافظ عند اهل الحديث، وقال بعض اهل العلم: المضمضة والاستنشاق من كف واحد يجزئ , وقال بعضهم: تفريقهما احب إلينا، وقال الشافعي: إن جمعهما في كف واحد فهو جائز، وإن فرقهما فهو احب إلينا.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: " رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ مِنْ كَفٍّ وَاحِدٍ، فَعَلَ ذَلِكَ ثَلَاثًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ. قال أبو عيسى: وَحَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رَوَى مَالِكٌ , وَابْنُ عُيَيْنَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، وَلَمْ يَذْكُرُوا هَذَا الْحَرْفَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ مِنْ كَفٍّ وَاحِدٍ , وَإِنَّمَا ذَكَرَهُ خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَخَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ثِقَةٌ حَافِظٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: الْمَضْمَضَةُ وَالِاسْتِنْشَاقُ مِنْ كَفٍّ وَاحِدٍ يُجْزِئُ , وقَالَ بَعْضُهُمْ: تَفْرِيقُهُمَا أَحَبُّ إِلَيْنَا، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: إِنْ جَمَعَهُمَا فِي كَفٍّ وَاحِدٍ فَهُوَ جَائِزٌ، وَإِنْ فَرَّقَهُمَا فَهُوَ أَحَبُّ إِلَيْنَا.
عبداللہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، تین بار آپ نے ایسا کیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے، ۲- عبداللہ بن زید رضی الله عنہما کی یہ حدیث حسن غریب ہے، ۳- مالک، سفیان، ابن عیینہ اور دیگر کئی لوگوں نے یہ حدیث عمرو بن یحییٰ سے روایت کی ہے۔ لیکن ان لوگوں نے یہ بات ذکر نہیں کی کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، اسے صرف خالد ہی نے ذکر کیا ہے اور خالد محدثین کے نزدیک ثقہ اور حافظ ہیں۔ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ ایک ہی چلو سے کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا کافی ہو گا، اور بعض نے کہا ہے کہ دونوں کے لیے الگ الگ پانی لینا ہمیں زیادہ پسند ہے، شافعی کہتے ہیں کہ اگر ان دونوں کو ایک ہی چلو میں جمع کرے تو جائز ہے لیکن اگر الگ الگ چلّو سے کرے تو یہ ہمیں زیادہ پسند ہے ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک ہی چلو سے کلی کرنے اور ناک میں پانی چڑھانا افضل ہے دونوں کے لیے الگ الگ پانی لینے کی بھی احادیث آئی ہیں لیکن ایک چلو سے دونوں میں پانی ڈالنے کی احادیث زیادہ اور صحیح ترین ہیں، دونوں صورتیں جائز ہیں، لیکن ایک چلو سے دونوں میں پانی ڈالنا زیادہ اچھا ہے، علامہ محمد بن اسماعیل الأمیرالیمانی ”سبل السلام“ میں فرماتے ہیں: اقرب یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں اختیار ہے اور ہر ایک سنت ہے، گرچہ دونوں کو ایک کلی میں جمع کرنے کی روایات زیادہ ہیں اور صحیح تر ہیں، واضح رہے کہ اختلاف زیادہ بہتر ہونے میں ہے جائز اور ناجائز کی بات نہیں ہے۔
۲؎: امام شافعی سے اس سلسلہ میں دو قول مروی ہیں ایک تو یہی جسے امام ترمذی نے یہاں نقل کیا ہے اور دوسرا ایک ہی چلو میں دونوں کو جمع کرنے کا اور یہ ان کا مشہور قول ہے۔
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن موسى الانصاري، حدثنا معن بن عيسى القزاز، حدثنا مالك بن انس، عن عمرو بن يحيى، عن ابيه، عن عبد الله بن زيد، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " مسح راسه بيديه فاقبل بهما وادبر، بدا بمقدم راسه ثم ذهب بهما إلى قفاه ثم ردهما حتى رجع إلى المكان الذي بدا منه، ثم غسل رجليه ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن معاوية , والمقدام بن معدي كرب , وعائشة. قال ابو عيسى: حديث عبد الله بن زيد اصح شيء في هذا الباب واحسن، وبه يقول الشافعي , واحمد , وإسحاق 1.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى الْقَزَّازُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " مَسَحَ رَأْسَهُ بِيَدَيْهِ فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ، بَدَأَ بِمُقَدَّمِ رَأْسِهِ ثُمَّ ذَهَبَ بِهِمَا إِلَى قَفَاهُ ثُمَّ رَدَّهُمَا حَتَّى رَجَعَ إِلَى الْمَكَانِ الَّذِي بَدَأَ مِنْهُ، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ مُعَاوِيَةَ , وَالْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ , وَعَائِشَةَ. قال أبو عيسى: حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَحْسَنُ، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق 1.
عبداللہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے سر کا مسح کیا تو انہیں آگے سے پیچھے لے گئے اور پیچھے سے آگے لائے، یعنی اپنے سر کے اگلے حصہ سے شروع کیا پھر انہیں گدی تک لے گئے پھر انہیں واپس لوٹایا یہاں تک کہ اسی جگہ واپس لے آئے جہاں سے شروع کیا تھا، پھر آپ نے دونوں پیر دھوئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں معاویہ، مقدام بن معدیکرب اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- اس باب میں عبداللہ بن زید رضی الله عنہ کی حدیث سب سے صحیح اور عمدہ ہے اور اسی کے قائل شافعی احمد اور اسحاق بن راہویہ ہیں۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا بشر بن المفضل، عن عبد الله بن محمد بن عقيل، عن الربيع بنت معوذ ابن عفراء، ان النبي صلى الله عليه وسلم " مسح براسه مرتين، بدا بمؤخر راسه ثم بمقدمه وباذنيه كلتيهما ظهورهما وبطونهما ". قال ابو عيسى: هذا حسن، وحديث عبد الله بن زيد اصح من هذا واجود إسنادا، وقد ذهب بعض اهل الكوفة إلى هذا الحديث، منهم وكيع بن الجراح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ ابْنِ عَفْرَاءَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " مَسَحَ بِرَأْسِهِ مَرَّتَيْنِ، بَدَأَ بِمُؤَخَّرِ رَأْسِهِ ثُمَّ بِمُقَدَّمِهِ وَبِأُذُنَيْهِ كِلْتَيْهِمَا ظُهُورِهِمَا وَبُطُونِهِمَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ، وَحَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ أَصَحُّ مِنْ هَذَا وَأَجْوَدُ إِسْنَادًا، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْكُوفَةِ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ، مِنْهُمْ وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ.
ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے سر کا دو مرتبہ ۱؎ مسح کیا، آپ نے (پہلے) اپنے سر کے پچھلے حصہ سے شروع کیا ۲؎، پھر (دوسری بار) اس کے اگلے حصہ سے اور اپنے کانوں کے اندرونی اور بیرونی دونوں حصوں کا مسح کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے اور عبداللہ بن زید کی حدیث سند کے اعتبار سے اس سے زیادہ صحیح اور زیادہ عمدہ ہے، ۲- اہل کوفہ میں سے بعض لوگ اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، انہیں میں سے وکیع بن جراح بھی ہیں ۳؎۔
وضاحت: ۱؎: حقیقت میں یہ ایک ہی مسح ہے آگے اور پیچھے دونوں کو راوی نے الگ الگ مسح شمار کر کے اسے «مرتین»”دو بار“ سے تعبیر کیا ہے۔
۲؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سر کا مسح سر کے پچھلے حصہ سے شروع کیا جائے، لیکن عبداللہ بن زید کی متفق علیہ روایت جو اوپر گزری اس کے معارض اور اس سے زیادہ صحیح ہے، کیونکہ ربیع کی حدیث میں ایک راوی عبداللہ بن محمد بن عقیل متکلم فیہ ہیں اور اگر اس کی صحت مان بھی لی جائے تو ممکن ہے آپ نے بیان جواز کے لیے ایسا بھی کیا ہو۔
۳؎: یہ مرجوح مذہب ہے، راجح سر کے اگلے حصہ ہی سے شروع کرنا ہے، جیسا کہ سابقہ حدیث میں گزرا۔
قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (390)
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف / د 126، جه 438
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا بكر بن مضر، عن ابن عجلان، عن عبد الله بن محمد بن عقيل، عن الربيع بنت معوذ ابن عفراء، انها رات النبي صلى الله عليه وسلم " يتوضا , قالت: مسح راسه ومسح ما اقبل منه وما ادبر، وصدغيه واذنيه مرة واحدة ". قال: وفي الباب عن علي وجد طلحة بن مصرف بن عمرو. قال ابو عيسى: وحديث الربيع حسن صحيح، وقد روي من غير وجه، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه مسح براسه مرة , والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ومن بعدهم، وبه يقول جعفر بن محمد , وسفيان الثوري , وابن المبارك , والشافعي , واحمد , وإسحاق: راوا مسح الراس مرة واحدة. حدثنا محمد بن منصور المكي، قال: سمعت سفيان بن عيينة، يقول: سالت جعفر بن محمد عن مسح الراس: ايجزئ مرة؟ فقال: إي والله.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ ابْنِ عَفْرَاءَ، أَنَّهَا رَأَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَتَوَضَّأُ , قَالَتْ: مَسَحَ رَأْسَهُ وَمَسَحَ مَا أَقْبَلَ مِنْهُ وَمَا أَدْبَرَ، وَصُدْغَيْهِ وَأُذُنَيْهِ مَرَّةً وَاحِدَةً ". قال: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَجَدِّ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفِ بْنِ عَمْرٍو. قال أبو عيسى: وَحَدِيثُ الرُّبَيِّعِ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ مَسَحَ بِرَأْسِهِ مَرَّةً , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، وَبِهِ يَقُولُ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ , وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ , وَابْنُ الْمُبَارَكِ , وَالشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق: رَأَوْا مَسْحَ الرَّأْسِ مَرَّةً وَاحِدَةً. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ الْمَكِّيُّ، قَال: سَمِعْتُ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ، يَقُولُ: سَأَلْتُ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ عَنْ مَسْحِ الرَّأْسِ: أَيُجْزِئُ مَرَّةً؟ فَقَالَ: إِي وَاللَّهِ.
ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، آپ نے اپنے سر کا ایک بار مسح کیا، اگلے حصہ کا بھی اور پچھلے حصہ کا بھی اور اپنی دونوں کنپٹیوں اور کانوں کا بھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ربیع رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی اور طلحہ بن مصرف بن عمرو کے دادا (عمرو بن کعب یامی) رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اور بھی سندوں سے یہ بات مروی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے سر کا مسح ایک بار کیا، ۴- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے اور جعفر بن محمد، سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی ۲؎ احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں، ۵- سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ میں نے جعفر بن محمد سے سر کے مسح کے بارے میں پوچھا: کیا ایک مرتبہ سر کا مسح کر لینا کافی ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں قسم ہے اللہ کی۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (حسن الإسناد)»
وضاحت: ۱؎: اس باب سے مؤلف ان لوگوں کا رد کرنا چاہتے ہیں جو تین بار مسح کے قائل ہیں۔
۲؎: امام ترمذی نے امام شافعی سے ایسا ہی نقل کیا ہے، مگر بغوی نے نیز تمام شافعیہ نے امام شافعی کے بارے میں تین بار مسح کرنے کا قول نقل کیا ہے، عام شافعیہ کا عمل بھی تین ہی پر ہے، مگر یا تو یہ دیگر اعضاء پر قیاس ہے جو نص صریح کے مقابلہ میں صحیح نہیں ہے، یا کچھ ضعیف حدیثوں سے تمسک ہے (صحیحین کی نیز دیگر احادیث میں صرف ایک پر اکتفاء کی صراحت ہے)۔
قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: سنده ضعيف / د 129 جه: 441 قول جعفر بن محمد الصادق: سنده صحیح
(مرفوع) حدثنا علي بن خشرم، اخبرنا عبد الله بن وهب، حدثنا عمرو بن الحارث، عن حبان بن واسع، عن ابيه، عن عبد الله بن زيد، انه راى النبي صلى الله عليه وسلم " توضا، وانه مسح راسه بماء غير فضل يديه ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وروى ابن لهيعة هذا الحديث، عن حبان بن واسع، عن ابيه، عن عبد الله بن زيد، ان النبي صلى الله عليه وسلم توضا وانه مسح راسه بماء غير فضل يديه , ورواية عمرو بن الحارث عن حبان اصح، لانه قد روي من غير وجه هذا الحديث، عن عبد الله بن زيد وغيره، ان النبي صلى الله عليه وسلم اخذ لراسه ماء جديدا , والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم راوا ان ياخذ لراسه ماء جديدا.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ حَبَّانَ بْنِ وَاسِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " تَوَضَّأَ، وَأَنَّهُ مَسَحَ رَأْسَهُ بِمَاءٍ غَيْرِ فَضْلِ يَدَيْهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى ابْنُ لَهِيعَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ حَبَّانَ بْنِ وَاسِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ وَأَنَّهُ مَسَحَ رَأْسَهُ بِمَاءٍ غَيْرِ فَضْلِ يَدَيْهِ , وَرِوَايَةُ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ حَبَّانَ أَصَحُّ، لِأَنَّهُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ هَذَا الْحَدِيثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ وَغَيْرِهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ لِرَأْسِهِ مَاءً جَدِيدًا , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ رَأَوْا أَنْ يَأْخُذَ لِرَأْسِهِ مَاءً جَدِيدًا.
عبداللہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے وضو کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں کے بچے ہوئے پانی کے علاوہ نئے پانی سے اپنے سر کا مسح کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابن لھیعہ نے یہ حدیث بسند «حبان بن واسع عن أبیہ» روایت کی ہے کہ عبداللہ بن زید رضی الله عنہ نے کہا: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے وضو کیا اور اپنے سر کا مسح اپنے دونوں ہاتھوں کے بچے ہوئے پانی سے کیا، ۳- عمرو بن حارث کی روایت جسے انہوں نے حبان سے روایت کی ہے زیادہ صحیح ہے ۱؎ کیونکہ اور بھی کئی سندوں سے عبداللہ بن زید وغیرہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے سر کے مسح کے لیے نیا پانی لیا، ۴- اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے، ان کی رائے ہے کہ سر کے مسح کے لیے نیا پانی لیا جائے۔
وضاحت: ۱؎: مؤلف نے عمرو بن حارث کی روایت کے لیے ”زیادہ صحیح“ کا لفظ اس لیے اختیار کیا ہے کہ ”ابن لہیعہ“ کی روایت بھی صحیح ہے کیونکہ وہ عبداللہ بن وہب کی روایت سے ہے، اور عبادلہ اربعہ کی روایت ابن لہیعہ سے صحیح ہوتی ہے، لیکن اس روایت میں ابن لہیعہ اکیلے ہیں، اس لیے ان کی روایت ”عمرو بن حارث“ کی روایت کے مقابلہ میں شاذ ہے اور عمرو بن حارث کی روایت ہی محفوظ ہے۔
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا عبد الله بن إدريس، عن محمد بن عجلان، عن زيد بن اسلم، عن عطاء بن يسار، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم " مسح براسه واذنيه ظاهرهما وباطنهما ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن الربيع. قال ابو عيسى: وحديث ابن عباس حسن صحيح، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم يرون مسح الاذنين ظهورهما وبطونهما.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " مَسَحَ بِرَأْسِهِ وَأُذُنَيْهِ ظَاهِرِهِمَا وَبَاطِنِهِمَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ الرُّبَيِّعِ. قال أبو عيسى: وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ يَرَوْنَ مَسْحَ الْأُذُنَيْنِ ظُهُورِهِمَا وَبُطُونِهِمَا.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے سر کا اور اپنے دونوں کانوں کے بالائی اور اندرونی حصوں کا مسح کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ربیع رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے، ۳- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان لوگوں کی رائے ہے کہ دونوں کانوں کے بالائی اور اندرونی دونوں حصوں کا مسح کیا جائے۔
وضاحت: ۱؎: اس باب اور حدیث سے مؤلف کا مقصد اس طرف اشارہ کرنا ہے کہ کانوں کے اندورنی حصے کو چہرہ کے ساتھ دھونے اور بیرونی حصے کو سر کے ساتھ مسح کرنے کے قائلین کا رد کریں، اس قول کے قائلین کی دلیل والی حدیث ضعیف ہے، اور نص کے مقابلہ میں قیاس جائز نہیں۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة , حدثنا حماد بن زيد، عن سنان بن ربيعة، عن شهر بن حوشب، عن ابي امامة، قال: " توضا النبي صلى الله عليه وسلم، فغسل وجهه ثلاثا ويديه ثلاثا ومسح براسه، وقال: الاذنان من الراس ". قال ابو عيسى: قال قتيبة: قال حماد: لا ادري هذا من قول النبي صلى الله عليه وسلم او من قول ابي امامة , قال: وفي الباب عن انس. قال ابو عيسى: هذا حديث ليس إسناده بذاك القائم، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، ومن بعدهم ان الاذنين من الراس، وبه يقول: سفيان الثوري , وابن المبارك , والشافعي , واحمد , وإسحاق، وقال بعض اهل العلم: ما اقبل من الاذنين فمن الوجه وما ادبر فمن الراس , قال إسحاق: واختار ان يمسح مقدمهما مع الوجه ومؤخرهما مع راسه , وقال الشافعي: هما سنة على حيالهما يمسحهما بماء جديد.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ سِنَانِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: " تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا وَيَدَيْهِ ثَلَاثًا وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ، وَقَالَ: الْأُذُنَانِ مِنَ الرَّأْسِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: قَالَ قُتَيْبَةُ: قَالَ حَمَّادٌ: لَا أَدْرِي هَذَا مِنْ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ مِنْ قَوْلِ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ. قال أبو عيسى: هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِذَاكَ الْقَائِمِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ أَنَّ الْأُذُنَيْنِ مِنَ الرَّأْسِ، وَبِهِ يَقُولُ: سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ , وَابْنُ الْمُبَارَكِ , وَالشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: مَا أَقْبَلَ مِنَ الْأُذُنَيْنِ فَمِنَ الْوَجْهِ وَمَا أَدْبَرَ فَمِنَ الرَّأْسِ , قَالَ إِسْحَاق: وَأَخْتَارُ أَنْ يَمْسَحَ مُقَدَّمَهُمَا مَعَ الْوَجْهِ وَمُؤَخَّرَهُمَا مَعَ رَأْسِهِ , وقَالَ الشَّافِعِيُّ: هُمَا سُنَّةٌ عَلَى حِيَالِهِمَا يَمْسَحُهُمَا بِمَاءٍ جَدِيدٍ.
ابوامامہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے وضو کیا تو اپنا چہرہ تین بار دھویا اور اپنے دونوں ہاتھ تین بار دھوئے اور اپنے سر کا مسح کیا اور فرمایا: ”دونوں کان سر میں داخل ہیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- قتیبہ کا کہنا ہے کہ حماد کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ یہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا قول ہے یا ابوامامہ کا، ۲- اس باب میں انس رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- اس حدیث کی سند قوی نہیں ہے، ۴- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے اور اسی کے قائل سفیان ثوری، ابن مبارک اور اسحاق بن راہویہ ہیں ۱؎ اور بعض اہل علم نے کہا ہے کہ کان کے سامنے کا حصہ چہرہ میں سے ہے (اس لیے اسے دھویا جائے) اور پیچھے کا حصہ سر میں سے ہے ۲؎۔ (اس لیے مسح کیا جائے) اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ کان کے سامنے کے حصہ کا مسح چہرہ کے ساتھ کرے (یعنی چہرہ کے ساتھ دھوئے) اور پچھلے حصہ کا سر کے ساتھ ۳؎، شافعی کہتے ہیں کہ دونوں الگ الگ سنت ہیں (اس لیے) دونوں کا مسح نئے پانی سے کرے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطہارة 50 (134) سنن ابن ماجہ/الطہارة 53 (444) (تحفة الأشراف: 4887) مسند احمد (5/258، 268) (صحیح) (سند میں دو راوی ”سنان“ اور ”شہر“ ضعیف ہیں، لیکن دیگر احادیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: یہی قول راجح ہے۔
۲؎: یہ شعبی اور حسن بن صالح اور ان کے اتباع کا مذہب ہے۔
۳؎: امام ترمذی نے یہاں صرف تین مذاہب کا ذکر کیا ہے، ان تینوں کے علاوہ اور بھی مذاہب ہیں، انہیں میں سے ایک مذہب یہ ہے کہ دونوں کان چہرے میں سے ہیں، لہٰذا یہ چہرے کے ساتھ دھوئے جائیں گے، اسی طرف امام زہری اور داود ظاہری گئے ہیں، اور ایک قول یہ ہے کہ انہیں چہرے کے ساتھ دھویا جائے اور سر کے ساتھ ان کا مسح کیا جائے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة , وهناد , قالا: حدثنا وكيع، عن سفيان، عن ابي هاشم، عن عاصم بن لقيط بن صبرة، عن ابيه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " إذا توضات فخلل الاصابع ". قال: وفي الباب عن ابن عباس , والمستورد وهو: ابن شداد الفهري , وابي ايوب الانصاري. قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم انه يخلل اصابع رجليه في الوضوء , وبه يقول احمد , وإسحاق، قال إسحاق: يخلل اصابع يديه ورجليه في الوضوء , وابو هاشم اسمه: إسماعيل بن كثير المكي.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , وَهَنَّادٌ , قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ لَقِيطِ بْنِ صَبِرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا تَوَضَّأْتَ فَخَلِّلِ الْأَصَابِعَ ". قال: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , وَالْمُسَتَوْرِدِ وَهُوَ: ابْنُ شَدَّادٍ الْفِهْرِيُّ , وَأبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ. قال أبو عيسى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُ يُخَلِّلُ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ فِي الْوُضُوءِ , وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق، قَالَ إِسْحَاق: يُخَلِّلُ أَصَابِعَ يَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ فِي الْوُضُوءِ , وَأَبُو هَاشِمٍ اسْمُهُ: إِسْمَاعِيل بْنُ كَثِيرٍ الْمَكِّيُّ.
لقیط بن صبرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم وضو کرو تو انگلیوں کا خلال کرو“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں ابن عباس، مستورد بن شداد فہری اور ابوایوب انصاری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ وضو میں اپنے پیروں کی انگلیوں کا خلال کرے اسی کے قائل احمد اور اسحاق بن راہویہ ہیں۔ اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ وضو میں اپنے دونوں ہاتھوں اور پیروں کی انگلیوں کا خلال کرے۔
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دونوں پیروں اور دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کے درمیان خلال کرنا واجب ہے، کیونکہ امر کا صیغہ وجوب پر دلالت کرتا ہے، اس بابت انگلیوں کے درمیان پانی پہنچنے نہ پہنچنے میں کوئی فرق نہیں۔
مستورد بن شداد فہری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ وضو کرتے تو اپنے دونوں پیروں کی انگلیوں کو اپنے «خنصر»(ہاتھ کی چھوٹی انگلی) سے ملتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، اسے ہم صرف ابن لھیعہ کے طریق ہی سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطہارة 58 (148) سنن ابن ماجہ/الطہارة 54 (446) (تحفة الأشراف: 11256) مسند احمد (4/229) (صحیح) (سند میں عبداللہ بن لھیعہ ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)»
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، عن سفيان، عن ابي إسحاق، عن ابي حية، عن علي، ان النبي صلى الله عليه وسلم " توضا ثلاثا ثلاثا ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن عثمان، وعائشة، والربيع، وابن عمر، وابي امامة، وابي رافع، وعبد الله بن عمرو، ومعاوية، وابي هريرة، وجابر، وعبد الله بن زيد، وابي بن كعب. قال ابو عيسى: حديث علي احسن شيء في هذا الباب واصح، لانه قد روي من غير وجه عن علي رضوان الله عليه، والعمل على هذا عند عامة اهل العلم ان الوضوء يجزئ مرة مرة، ومرتين افضل، وافضله ثلاث، وليس بعده شيء، وقال ابن المبارك: لا آمن إذا زاد في الوضوء على الثلاث ان ياثم , وقال احمد , وإسحاق: لا يزيد على الثلاث إلا رجل مبتلى.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي حَيَّةَ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " تَوَضَّأَ ثَلَاثًا ثَلَاثًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ، وَعَائِشَةَ، وَالرُّبَيِّعِ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي أُمَامَةَ، وَأَبِي رَافِعٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْروٍ، وَمُعَاوِيَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَجَابِرٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ أَحْسَنُ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَصَحُّ، لِأَنَّهُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ عَلِيٍّ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْوُضُوءَ يُجْزِئُ مَرَّةً مَرَّةً، وَمَرَّتَيْنِ أَفْضَلُ، وَأَفْضَلُهُ ثَلَاثٌ، وَلَيْسَ بَعْدَهُ شَيْءٌ، وقَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: لَا آمَنُ إِذَا زَادَ فِي الْوُضُوءِ عَلَى الثَّلَاثِ أَنْ يَأْثَمَ , وقَالَ أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق: لَا يَزِيدُ عَلَى الثَّلَاثِ إِلَّا رَجُلٌ مُبْتَلًى.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اعضائے وضو تین تین بار دھوئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عثمان، عائشہ، ربیع، ابن عمر، ابوامامہ، ابورافع، عبداللہ بن عمرو، معاویہ، ابوہریرہ، جابر، عبداللہ بن زید اور ابی بن کعب رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- علی رضی الله عنہ کی حدیث اس باب میں سب سے عمدہ اور صحیح ہے کیونکہ یہ علی رضی الله عنہ سے اور بھی سندوں سے مروی ہے، ۳- اہل علم کا اس پر عمل ہے کہ اعضائے وضو کو ایک ایک بار دھونا کافی ہے، دو دو بار افضل ہے اور اس سے بھی زیادہ افضل تین تین بار دھونا ہے، اس سے آگے کی گنجائش نہیں، ابن مبارک کہتے ہیں: جب کوئی اعضائے وضو کو تین بار سے زیادہ دھوئے تو مجھے اس کے گناہ میں پڑنے کا خطرہ ہے، امام احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: تین سے زائد بار اعضائے وضو کو وہی دھوئے گا جو (دیوانگی اور وسوسہ) میں مبتلا ہو گا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اگر کسی کو شک ہو جائے کہ تین بار دھویا ہے یا دو ہی بار، تب بھی اسی پر اکتفا کرے کیونکہ اگر تین بار نہیں دھویا ہو گا تو دو بار تو دھویا ہی ہے، جو کافی ہے۔
(مرفوع) حدثنا هناد , وقتيبة , قالا: حدثنا ابو الاحوص، عن ابي إسحاق، عن ابي حية، قال: " رايت عليا توضا فغسل كفيه حتى انقاهما ثم مضمض ثلاثا , واستنشق ثلاثا , وغسل وجهه ثلاثا , وذراعيه ثلاثا , ومسح براسه مرة , ثم غسل قدميه إلى الكعبين , ثم قام فاخذ فضل طهوره فشربه وهو قائم، ثم قال: احببت ان اريكم كيف كان طهور رسول الله صلى الله عليه وسلم ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن عثمان، وعبد الله بن زيد، وابن عباس، وعبد الله بن عمرو، والربيع، وعبد الله بن انيس، وعائشة رضوان الله عليهم.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ , وَقُتَيْبَةُ , قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي حَيَّةَ، قَالَ: " رَأَيْتُ عَلِيًّا تَوَضَّأَ فَغَسَلَ كَفَّيْهِ حَتَّى أَنْقَاهُمَا ثُمَّ مَضْمَضَ ثَلَاثًا , وَاسْتَنْشَقَ ثَلَاثًا , وَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا , وَذِرَاعَيْهِ ثَلَاثًا , وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ مَرَّةً , ثُمَّ غَسَلَ قَدَمَيْهِ إِلَى الْكَعْبَيْنِ , ثُمَّ قَامَ فَأَخَذَ فَضْلَ طَهُورِهِ فَشَرِبَهُ وَهُوَ قَائِمٌ، ثُمَّ قَالَ: أَحْبَبْتُ أَنْ أُرِيَكُمْ كَيْفَ كَانَ طُهُورُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَالرُّبَيِّعِ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُنَيْسٍ، وَعَائِشَةَ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ.
ابوحیہ کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی الله عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کیا تو اپنے دونوں پہنچے دھوئے یہاں تک کہ انہیں خوب صاف کیا، پھر تین بار کلی کی، تین بار ناک میں پانی چڑھایا، تین بار اپنا چہرہ دھویا اور ایک بار اپنے سر کا مسح کیا، پھر اپنے دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے، پھر کھڑے ہوئے اور وضو سے بچے ہوئے پانی کو کھڑے کھڑے پی لیا ۱؎، پھر کہا: میں نے تمہیں دکھانا چاہا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا وضو کیسے ہوتا تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عثمان، عبداللہ بن زید، ابن عباس، عبداللہ بن عمرو، ربیع، عبداللہ بن انیس اور عائشہ رضوان اللہ علیہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «انظر رقم: 44 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: صحیح بخاری کی روایت میں یہ بھی ہے کہ علی رضی الله عنہ نے کہا: لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو جائز نہیں سمجھتے، حالانکہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا جیسا کہ میں نے کیا ہے، اس سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں، ۱- کھڑے ہو کر کبھی کبھی پانی پینا جائز ہے، ۲- وضو سے بچے ہوئے پانی میں برکت ہوتی ہے اس لیے آپ نے اسے پیا اور کھڑے ہو کر پیا تاکہ لوگ یہ عمل دیکھ لیں، نہ یہ کہ وضو سے بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر ہی پینا چاہیئے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (101 - 105)
لقیط بن صبرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے وضو کے بارے میں بتائیے۔ آپ نے فرمایا: ”کامل طریقے سے وضو کرو، انگلیوں کے درمیان خلال کرو اور ناک میں پانی سرکنے میں مبالغہ کرو، إلا یہ کہ تم روزے سے ہو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل علم نے روزہ دار کے لیے ناک میں پانی سرکنے میں مبالغہ کرنے کو مکروہ کہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، ۳- اس باب میں دوسری روایات بھی ہیں جن سے ان کے قول کی تقویت ہوتی ہے۔