سنن ترمذي
كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: طہارت کے احکام و مسائل
30. بَابُ مَا جَاءَ فِي تَخْلِيلِ الأَصَابِعِ
باب: انگلیوں کے (درمیان) خلال کا بیان۔
حدیث نمبر: 38
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , وَهَنَّادٌ , قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ لَقِيطِ بْنِ صَبِرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا تَوَضَّأْتَ فَخَلِّلِ الْأَصَابِعَ ". قال: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , وَالْمُسَتَوْرِدِ وَهُوَ: ابْنُ شَدَّادٍ الْفِهْرِيُّ , وَأبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ. قال أبو عيسى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُ يُخَلِّلُ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ فِي الْوُضُوءِ , وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق، قَالَ إِسْحَاق: يُخَلِّلُ أَصَابِعَ يَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ فِي الْوُضُوءِ , وَأَبُو هَاشِمٍ اسْمُهُ: إِسْمَاعِيل بْنُ كَثِيرٍ الْمَكِّيُّ.
لقیط بن صبرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”جب تم وضو کرو تو انگلیوں کا خلال کرو
“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں ابن عباس، مستورد بن شداد فہری اور ابوایوب انصاری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۲- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ وضو میں اپنے پیروں کی انگلیوں کا خلال کرے اسی کے قائل احمد اور اسحاق بن راہویہ ہیں۔ اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ وضو میں اپنے دونوں ہاتھوں اور پیروں کی انگلیوں کا خلال کرے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطہارة 55 (142) سنن النسائی/الطہارة 71 (87) سنن ابن ماجہ/الطہارة 44 (407) ویأتي عند المؤلف فی الصیام (788) (تحفة الأشراف: 11172) مسند احمد (4/33) سنن الدارمی/الطہارة 34 (732) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دونوں پیروں اور دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کے درمیان خلال کرنا واجب ہے، کیونکہ امر کا صیغہ وجوب پر دلالت کرتا ہے، اس بابت انگلیوں کے درمیان پانی پہنچنے نہ پہنچنے میں کوئی فرق نہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (448)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 38 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 38
اردو حاشہ:
1؎:
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دونوں پیروں اور دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کے درمیان خلال کرنا واجب ہے،
کیونکہ امر کا صیغہ وجوب پر دلالت کرتا ہے،
اس بابت انگلیوں کے درمیان پانی پہنچنے نہ پہنچنے میں کوئی فرق نہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 38
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 36
´اعضائے وضو کو اچھی اور پوری طرح دھونا `
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: اسبغ الوضوء، وخلل بين الاصابع، وبالغ في الاستنشاق إلا ان تكون صائما . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وضو اچھی طرح پورا کرو اور انگلیوں کا خلال کرو، ناک میں پانی اچھی طرح چڑھایا کرو مگر روزے کی حالت میں . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 36]
� لغوی تشریح:
«أَسْبِغُ» «إِسْبَاغ» سے فعل امر ہے۔ «اسباغ» کے معنی ہیں: اعضائے وضو کو پوری طرح اور اچھی طرح دھونا۔
«خَلِّلُ» «تَخْلِيل» سے فعل امر ہے۔ خلال یہ ہے کہ انگلیوں کے درمیان انگلی اس طرح داخل کرے کہ دونوں انگلیوں کا درمیانی حصہ پوری طرح تر ہو جائے۔
«إِلَّا أَنْ تَكُونَ صَائِمًا» یعنی روزے دار پانی زیادہ اوپر نہ چڑھائے تاکہ کہیں پانی گلے میں نہ اتر جائے اور روزہ ٹوٹ جائے۔ روزے کے علاوہ عام حالات میں ناک کے اندرون پانی مبالغے سے چڑھانا مستحب ہے۔
فائدہ:
اعضائے وضو کو اچھی اور پوری طرح دھونا چاہیے اور ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کا خلال کرنا چاہئیے تاکہ کہیں کوئی جگہ خشک نہ رہ جائے۔
راوی حدیث:
SR سیدنا لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ ER ”لام“ کے فتحہ اور ”قاف“ کے کسرہ کے ساتھ ہے۔ «صبرة» ”صاد“ کے فتحہ اور ”با“ کے کسرہ کے ساتھ ہے۔ نسب نامہ یوں ہے: لقیط بن صبرۃ بن عبداللہ بن المنتفق بن عامر العامری رضی اللہ عنہ وفد بنو منتفق کے قائد تھے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ لقیط بن عامر بن صبرہ ہیں جو ابورزین عقیلی کے نام سے مشہور ہیں۔ علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ وغیرہ کی رائے یہی ہے۔ اور ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ دو الگ الگ شخصیات ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ امام علی بن مدینی اور امام مسلم رحمہ اللہ وغیرہ کی بھی یہی رائے ہے۔ [الإصابة تهذيب]
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 36
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 142
´وضو ہمیشہ مکمل کرنا چاہیے، خلال کرنا مستحب اور ناک میں پانی ڈالنا ضروری ہے`
«. . . قَالَ: أَسْبِغْ الْوُضُوءَ وَخَلِّلْ بَيْنَ الْأَصَابِعِ وَبَالِغْ فِي الِاسْتِنْشَاقِ، إِلَّا أَنْ تَكُونَ صَائِمًا . . .»
”. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وضو مکمل کیا کرو، انگلیوں میں خلال کرو، اور ناک میں پانی اچھی طرح پہنچاؤ الا یہ کہ تم صائم ہو . . .“ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 142]
فوائد و مسائل:
➊ مہمان کی میزبانی اس کا حق ہے اور حسب استطاعت عمدہ طور پر کی جائے۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گزران بحمد للہ بہت اچھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فقر اختیاری تھا نہ کہ اضطراری اور غنا توکل کے خلاف نہیں ہے۔
➌ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رفتار باوقار اور تیز ہوتی تھی۔ آپ قدم اٹھا کر چلتے تھے، گویا آگے کو جھکے ہوں۔
➍ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پسند فرماتے تھے کہ آپ کی آمدنی ایک حد تک رہے۔
➎ مہمان یا ساتھی کے متوقع شبہات کا ازخود ازالہ کر دینا مستحب ہے۔
➏ بیوی اگر زبان دراز ہو تو اس بنا پر وہ طلاق کی مستحق ٹھہرتی ہے۔
➐ اگر وہ نصیحت قبول نہ کرے تو ایک حد تک جسمانی سزا بھی دی جا سکتی ہے، مگر شدید نہ ہو۔
➑ وضو ہمیشہ مکمل کرنا چاہیے، خلال کرنا مستحب اور ناک میں پانی ڈالنا ضروری ہے۔
➒ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے فصیح اللسان تھے۔
➓ خزیرہ طعام کی وہ قسم ہے کہ اس میں گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے ابالے جاتے ہیں، جب وہ گل جاتا ہے تو اس پر آٹا ڈال دیتے ہیں۔ اگر گوشت کے بغیر پکایا جائے تو اسے عصیدہ کہتے ہیں، بہرحال دونوں ہی اہل عرب کی غذا ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 142
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2366
´روزہ دار پیاس کی وجہ سے اپنے اوپر پانی ڈالے اور ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کرے اس کے حکم کا بیان۔`
لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ کرو سوائے اس کے کہ تم روزے سے ہو۔“ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2366]
فوائد ومسائل:
روزے کی حالت میں ناک میں دوائی نہیں ڈالی جا سکتی لیکن گردوغبار یا آٹے وغیرہ کی دھول کا اندر چلے جانا معاف ہے۔
خوشبو سونگھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
آنکھ اور کان میں دوا ڈالنا جائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2366
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 87
´ناک میں پانی سڑکنے میں مبالغہ کرنے کا بیان۔`
لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے وضو کے متعلق بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پوری طرح وضو کرو، اور ناک میں پانی سڑکنے (ڈالنے) میں مبالغہ کرو، اِلّا یہ کہ تم روزے سے ہو۔“ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 87]
87۔ اردو حاشیہ:
➊ استنشاق کا مقصد ناک کی صفائی ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ناک کے آخری سرے تک پانی نہ پہنچایا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سانس کو پانی کے ساتھ زور سے کھینچا جائے، البتہ روزے کی حالت میں زیادہ زور لگانے سے خدشہ ہے کہ پانی حلق میں چلا جائے گا، لہٰذا روزے کی حالت میں احتیاط رکھے اور کم زور لگائے۔
➋ اس سے معلوم ہوا کہ اگر استنشاق کے دوران میں پانی حلق میں چلا جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ احناف و موالک کا یہی مذہب ہے مگر امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک خطا معاف ہے اور روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ تاہم راجح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اگر سہواً یا نسیاناً استنشاق کے دوران میں پانی حلق میں چلا جائے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا کیونکہ سہو اور نسیان معاف ہے، البتہ اگر جانتے بوجھتے اشتنشاق کے دوران پانی حلق میں اتر جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 87
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 114
´انگلیوں میں خلال کرنے کا حکم۔`
لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم وضو کرو تو کامل وضو کرو، اور انگلیوں کے درمیان خلال کرو۔“ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 114]
114۔ اردو حاشیہ:
➊ خلال سے مراد یہ ہے کہ پاؤں کی انگلیوں کے درمیان ہاتھ کی چھوٹی انگلی (چھنگلیا) داخل کر کے ایسی جگہ پانی پہنچنے کو یقینی بنائے جہاں پانی نہ پہنچنے کا امکان ہو۔
➋ خلال ہاتھ کی انگلیوں میں بھی کرنا چاہیے۔ اسی طرح ڈاڑھی کا خلال بھی مسنون ہے۔ اگرچہ ڈاڑھی کے اندر پانی پہنچانا ضروری نہیں، لیکن حتیٰ الامکان بالوں کو تر کرنا مسنون ہے۔ غرضیکہ اعضائے وضو کی جس جگہ بھی پانی لگنے کا امکان نہ ہو وہاں کوشش سے پانی پہنچایا جائے کیونکہ ایک تو یہ اسباع الوضو سے ہے اور دوسرا گناہوں کے خاتمے کا سبب بھی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 114
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث407
´ناک میں پانی چڑھانے اور ناک جھاڑنے میں مبالغہ کا بیان۔`
لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے وضو کے بارے میں بتائیے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم مکمل طور پر وضو کرو، اور ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کرو، الا یہ کہ تم روزے سے ہو۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 407]
اردو حاشہ:
(1)
اسباغ وضو سےمراد یہ ہے کہ وضو اس طرح توجہ سے کیا جائےکہ دھوئے جانے والے اعضاء میں سےکسی عضو کا کوئی حصہ خشک نہ رہے اس طرح تین تین بار اعضاء کو دھونا اور مل کر دھونا یہ بھی اسباغ (وضو پورا کرنے)
میں شامل ہے۔
(2) (استنشاق)
كا مطلب یہ ہے کہ ناک میں پانی ڈال کر اسے اوپر تک پہنچانے کی کوشش کی جائےجس طرح سانس لیتے وقت ہوا اندر کو کھینچی جاتی ہے۔
لیکن روزے کی حالت میں اس سے پرہیز کرنا چاہیے تاکہ پانی ناک کے راستے میں حلق میں نہ چلاجائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 407